نہ کچھ شوخی میں کم تھے دست و پا شوخ - لالہ مکندلعل جوہری

کاشفی

محفلین
غزل
(شاعر نازک خیال لالہ مکندلعل صاحب المتخلص بہ جوہری ساکن قصبہ کاکوری ضلع لکھنؤ)

نہ کچھ شوخی میں کم تھے دست و پا شوخ
حِنا نے اور بھی اُن کو کیا شوخ

مجسم شوخیوں سے ہے مرا شوخ
نگاہ و غمزہ و ناز و ادا شوخ

اُٹھایا میرے خونریزی کا بیڑا
ہوئے لب پان کھا کر اُن کے شوخ

ہنسی پھولوں سے غنچوں سے تبسم
چمن میں‌ہو چلی ہے اب صبا شوخ

ہوئے مشہور معشوقوں میں‌اب تم
جفا پرداز قاتل دلربا شوخ

لہو ہاتھوں‌میں مَل کر ہنس کے بولے
حِنا کا رنگ بھی ہوتاہے کیا شوخ

چمن میں اپنا جی بہلائیں کیا ہم
شرارت غنچہ و گُل میں صبا شوخ

کیا کرتا ہے خون بے گناہ ہاں
ہوا ہے کچھ بہت رنگِ حِنا شوخ

نئے سر سے ہوا عشق کہن یاد
ملا کیا جوہری کوئی نیا شوخ

 

فرخ منظور

لائبریرین
اُٹھایا میرے خونریزی کا بیڑا
ہوئے لب پانی کھا کر اُن کے شوخ

ہوئے مشہور معشوقوں میں‌اب تم
جفا پرواز قاتل دلربا شوخ

لہو ہاتھوں‌میں مَلکر ہنس کے بولے
حِنا کا رنگ بھی ہوتاہے کیا شوخ

چمن میں اپنا جی بھلائیں کیا ہم
شرارت غنچہ و گُل میں صبا شوخ



بہت خوب اور شوخ غزل ہے کاشفی صاحب۔ بہت خوب!۔ بس ذرا ان الفاظ کو دیکھیے گا جنہیں میں نے سرخ کیا ہے۔ پانی کی جگہ شاید پان اور پرواز کی جگہ شاید پرداز ہونا چاہیے۔ اور ان کے بعد لفظوں کی املا اگر "مل کر" اور "بہلائیں" ہو جائے تو غزل اور شوخ ہو جائے۔ :)
 

کاشفی

محفلین
محترم ہستیوں ۔(الف عین صاحب ، سخنور صاحب اور فاتح صاحب) کا غزل کو پسند کرنے پرتہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔گر قبول افتد زہے عزو شرف۔

سخنور صاحب کی نصیحت کے مطابق تصیح کر چکا ہوں۔۔ اس کے لیئے بھی آپ کا بیحد شکریہ۔۔
 
Top