نہ سَونا اَے دِل ---عیسوی سال کی شبِ آخر و اوّل--- شاہد حمید

مغزل

محفلین
نہ سَونا اَے دِل
( عیسوی سال کی شبِ آخر و اوّل)
شاہدؔحمید

آج کی رات نہ سَونا اَے دِل
آج کی رات مُرادوں سے بھری آتی ہے
آج کی رات سواری ہے ہَوا کے رَتھ پر
غم مِٹا دیتی ہے ہر لہر خوشی کی آ کر​
آج کی رات نہ سَونا اَے دِل

آج کی رات مُقَدَّر سے چلی آئی ہے
جس سے مِلنے کے لئے ایک بَرس کاٹتے ہیں
ہیں تو آزاد مگر قیدِ قفس کاٹتے ہیں​
آج کی رات نہ سَونا اَے دِل

رنگ اور نُور کی برسات میں بِھیگے ہوئے جسم
آگ سِینے میں لگا لیتے ہیں کہ پُھول کِھلیں
پُھول کِھل جائیں تو خُوشبُو کے دِیے جَلتے رہیں​
آج کی رات نہ سَونا اَے دِل

رات کے سِینے میں ہَلچَل سی مَچائے رکھنا
آج کی رات ہے وہ رات جو ہے آخری رات
کَل نہیں آئے گی یہ رات سَو ہے آخری رات​
آج کی رات نہ سَونا اَے دِل

زخمِ تعبیر‘ گئی رُت کے یہ بھر جائے گی
دوشِ اُمید پہ سو رنگ بکھیرے گی الگ
بابِ عشرت بھی نئے ڈھنگ سے کُھولے گی الگ​
آج کی رات نہ سَونا اَے دِل

رات کروٹ جو بدلتی ہے بدل لیتے ہیں
جامِ نو روز کسی زُہرہ جَبِیں کے لب سے
آج کی رات ہی بہتر ہے عُروسی شب سے​
آج کی رات نہ سَونا اَے دِل

اہلِ دُنیا کی بَنائی ہوئی یہ رَسمِ خیال
دیکھنا تم بھی نئے خواب دِکھاتی ہُوئی رات
سطحِ تہذیب پہ اِک حَشر اُٹھاتی ہُوئی رات​
آج کی رات نہ سَونا اَے دِل

دیکھنا یہ بھی کہ یہ رات ٹھہرتی ہے کہاں
جشنِ شب کون مَناتا ہے یہاں کون نہیں
کون شامل ہُوا جاتا ہے یہاں‘ کون نہیں​
آج کی رات نہ سَونا اَے دِل

بے خبر وہ ہیں کہ جو آج کی شب سَوتے ہیں
خواب ہی خواب ہیں خوابوں کے سِوا کچھ بھی نہیں
اِن کی تقدیر میں راتوں کے سِوا کچھ بھی نہیں​
آج کی رات نہ سَونا اَے دِل

سَونے والوں کے لئے حرفِ دُعا ہونٹوں پر
اِس طرح لانا کہ یہ وقت اَثر کا ہو جائے
رات ہی رات میں دیدار سحر کا ہو جائے​
آج کی رات نہ سَونا اَے دِل
نہ سَونا اَے دِل‘ نہ سَونا اَے دِل​
 
Top