نہیں ہے دید بجز اہلِ گلستاں کے لیے ۔ برائے اصلاح

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
الف عین ، یاسر شاہ ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، محمد احسن سمیع راحلؔ

علامہ کی غزل کی پیروڈی کہنے کا ارادہ تھا لیکن آہستہ آہستہ سنجیدہ شعر ہوتے گئے۔

نہیں ہے دید بجز اہلِ گلستاں کے لیے
ہر ایک چیز چمن کی ہے باغباں کے لیے

امیرِ شہر سمجھتا ہے عقل و دل کو فساد
کہ جیسے آگ ہوں یہ ایک نیستاں کے لیے

وہ حال اب کے چمن کا کیا ہے مالی نے
نہ سیرِ گل کو رہا ہے نہ آشیاں کے لیے

ہر آنے والے سے کہتے ہیں کاسہ لیس یہی
ترس گئے تھے کسی مردِ راہ داں کے لیے

ہمیں بقدرِ ضرورت برت رہا ہے یوں
ہوں جیسے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے

میں دردِ دل جو سناؤں تو وہ یہ کہتے ہیں
بڑھا رہے ہو عبث زیبِ داستاں کے لیے

جہاں کو پھونک کے رکھ دے جو سوزِ دل میرا
اسے بھی حیف اٹھا رکھتا ہوں فغاں کے لیے​
 

الف عین

لائبریرین
وہ حال اب کے چمن کا کیا ہے مالی نے
نہ سیرِ گل کو رہا ہے نہ آشیاں کے لیے

ہر آنے والے سے کہتے ہیں کاسہ لیس یہی
ترس گئے تھے کسی مردِ راہ داں کے لیے
یہ دونوں اشعار عجز بیان کا شکار ہیں ۔چمن آشیاں کے لئے ہوتا ہی نہیں، درخت پرندوں کے لئے ہوتا ہے۔اور جب گل ہی نہیں ہیں ممکنہ طور پر تو ان کی سیر کیا معنی؟
ہم ترس گئے تھے؟ کاسہ لیس بھی درست ترکیب نہیں
باقی اشعار درست لگتے ہیں
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
نہیں ہے دید بجز اہلِ گلستاں کے لیے
ہر ایک چیز چمن کی ہے باغباں کے لیے

پہلا مصرع ٹھیک نہیں ہے ، عبدالرؤف ۔ میری ناقص رائے میں غزل کا مطلع بے عیب ہونا چاہیے تاکہ قاری کی توجہ حاصل کرلے اور وہ آگے مطالعہ جاری رکھے۔
اس مصرع میں نہیں کے بجائے" کچھ نہیں /کچھ بھی نہیں" کا محل ہے۔ اس جملے میں کچھ نہیں کلید ی الفاظ ہیں اور ان کے بغیر مطلب ادا نہیں ہوتا۔ اس کی نثر بنا کر دیکھیے فوراً واضح ہوجائے گا۔
دوسری بات یہ کہ مصرع کی اس بندش میں بجز ( کےسوا ، کےعلاوہ) کو دید سے پہلے لانا چاہیے ۔ بجز ایک حرفِ استثنا ہےا ور اسے اسمِ مستثنیٰ سے پہلے رکھنا فصیح اور معروف ہے ۔ اسی طرح سے مطلب صاف سمجھ میں آتا ہے ۔ ویسے تو بعض قدیم بلکہ بہت قدیم شعرا نے بعض جگہوں پر بجز کو اسمِ مستثنیٰ کے بعد بھی ایک آدھ جگہوں پر استعمال کیا ہے لیکن مطلب ان کا صاف نہیں اوردماغ لڑانے کے بعد سمجھ میں آتا ہے ۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
یہ دونوں اشعار عجز بیان کا شکار ہیں ۔چمن آشیاں کے لئے ہوتا ہی نہیں، درخت پرندوں کے لئے ہوتا ہے۔اور جب گل ہی نہیں ہیں ممکنہ طور پر تو ان کی سیر کیا معنی؟
استاد صاحب ، میں آپ کا یہ مراسلہ سمجھ نہیں سکا۔
چمن میں درخت وغیرہ بھی تو ہوتے ہیں جہاں پر پرندے درختوں پر گھونسلے بھی بناتے ہیں۔
میں نے کہنے کی کوشش کی ہے کہ " مالی نے چمن کا وہ حال کر دیا ہے کہ اب نہ یہ گلوں کی سیر کے لیے باقی رہا اور نہ آشیاں کے لیے"

جی ہاں
کاسہ لیس بھی درست ترکیب نہیں
میں نے اس کی کچھ مثالیں ڈھونڈنے کی کوشش کی تو میر تقی میر کے اس کا استعمال بہت ملا، اور نثر میں راجندر سنگھ بیدی نے بھی اپنے افسانے میں استعمال کیا ہوا تھا۔
اب متروک ہے تو مجھے بالکل علم نہیں ، براہ کرم، کچھ مزید بتائیں۔
باقی اشعار درست لگتے ہیں
بہت بہتر، بہت شکریہ، سلامت رہیں۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
نہیں ہے دید بجز اہلِ گلستاں کے لیے
ہر ایک چیز چمن کی ہے باغباں کے لیے

پہلا مصرع ٹھیک نہیں ہے ، عبدالرؤف ۔ میری ناقص رائے میں غزل کا مطلع بے عیب ہونا چاہیے تاکہ قاری کی توجہ حاصل کرلے اور وہ آگے مطالعہ جاری رکھے۔
اس مصرع میں نہیں کے بجائے" کچھ نہیں /کچھ بھی نہیں" کا محل ہے۔ اس جملے میں کچھ نہیں کلید ی الفاظ ہیں اور ان کے بغیر مطلب ادا نہیں ہوتا۔ اس کی نثر بنا کر دیکھیے فوراً واضح ہوجائے گا۔
دوسری بات یہ کہ مصرع کی اس بندش میں بجز ( کےسوا ، کےعلاوہ) کو دید سے پہلے لانا چاہیے ۔ بجز ایک حرفِ استثنا ہےا ور اسے اسمِ مستثنیٰ سے پہلے رکھنا فصیح اور معروف ہے ۔ اسی طرح سے مطلب صاف سمجھ میں آتا ہے ۔ ویسے تو بعض قدیم بلکہ بہت قدیم شعرا نے بعض جگہوں پر بجز کو اسمِ مستثنیٰ کے بعد بھی ایک آدھ جگہوں پر استعمال کیا ہے لیکن مطلب ان کا صاف نہیں اوردماغ لڑانے کے بعد سمجھ میں آتا ہے ۔
کیا اس طرح درست ہو جائے گا۔

ہے لطفِ دید بہت اہلِ گلستاں کے لیے
تمام باغ تو ہے ایک باغباں کے لیے
یا
کہ بلبل و گل و لالہ ہیں باغباں کے لیے
 
کیا اس طرح درست ہو جائے گا۔

ہے لطفِ دید بہت اہلِ گلستاں کے لیے
تمام باغ تو ہے ایک باغباں کے لیے
یا
کہ بلبل و گل و لالہ ہیں باغباں کے لیے
شاید کچھ اس طرح کہیں تو بات بنے:

سوائے دید کے کچھ بھی نہیں جہاں کے لیے
یہ گلستاں کہ جو دھڑکن ہے باغباں کے لیے
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
شاید کچھ اس طرح کہیں تو بات بنے:

سوائے دید کے کچھ بھی نہیں جہاں کے لیے
یہ گلستاں کہ جو دھڑکن ہے باغباں کے لیے
ہے لطفِ دید فقط اہلِ گلستاں کے لیے
ایک متبادل تجویز۔
آپ دونوں کی توجہ کا بے حد شکریہ، سلامت رہیں
 

الف عین

لائبریرین
استاد صاحب ، ظہیراحمدظہیر کیا اس طرح درست ہو جائے گا؟

ہیں بلبل و گل و لالہ تو باغباں کے لیے
ہے لطفِ دید فقط اہلِ گلستاں کے لیے
مجھے تو درست لگ رہا ہے، بلکہ بہت بہتر
سیر چمن والے شعر میں ڈائریکٹ معنی نہیں نکلتے، راست چمن میں آشیانہ عموماً نہیں کہا جاتا۔ کم از کم مجھے ایسا لگ رہا ہے
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
نہیں ہے دید بجز اہلِ گلستاں کے لیے
ہر ایک چیز چمن کی ہے باغباں کے لیے


استاد صاحب ، ظہیراحمدظہیر کیا اس طرح درست ہو جائے گا؟

ہیں بلبل و گل و لالہ تو باغباں کے لیے
ہے لطفِ دید فقط اہلِ گلستاں کے لیے
اگر درست سے آپ کی مراد گرامر ا ور لسانی اعتبار سے درستی کی ہے تو یہ درست ہے ۔اس میں کوئی بات قابلِ تصحیح نہیں۔ لیکن قابلِ اصلاح ضرور ہے۔
آپ کے پہلے شعر میں تو اہلِ گلستاں کی محرومی اور بےچارگی دکھانا مقصود تھی لیکن لطفِ دید کی وجہ سے اس شعر کا رنگ /تاثر بالکل مختلف ہوگیا ہے ۔نیز پہلے شعر میں آپ نے چمن کی ہر چیز کی بات کی تھی لیکن اب اسے بلبل و گل و لالہ تک محدود کردیا۔
بات وہی الفاظ کے معنی اور مفہوم میں فرق کرنے کی ہے ۔ لطفِ دید کہنے سے اہلِ گلستاں کی محرومی اور بے چارگی کا تاثر پیدا نہیں ہوتا۔ مطلوبہ تاثر پیدا کرنے کے لیے یہ ایک مثال دیکھیے:
نہیں ہے کچھ بھی تو اب ا ہلِ گلستاں کے لیے
ہر ایک چیز چمن کی ہے باغباں کے لیے

اسی طرز پر کوئی بات کریں گے تو محرومی کا مطلوبہ تاثر پیدا ہوگا۔ خلاصۂ کلام یہ کہ ہر شعر کلامِ منظوم ہوتا ہے لیکن ہر کلامِ منظوم شعر نہیں ہوتا۔ کلامِ منظوم میں کچھ اور عناصر بھی شامل کرنا پڑتے ہیں جو اسے شعریت کے درجے پر پہنچاتے ہیں۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
اگر درست سے آپ کی مراد گرامر ا ور لسانی اعتبار سے درستی کی ہے تو یہ درست ہے ۔اس میں کوئی بات قابلِ تصحیح نہیں۔ لیکن قابلِ اصلاح ضرور ہے۔
آپ کے پہلے شعر میں تو اہلِ گلستاں کی محرومی اور بےچارگی دکھانا مقصود تھی لیکن لطفِ دید کی وجہ سے اس شعر کا رنگ /تاثر بالکل مختلف ہوگیا ہے ۔نیز پہلے شعر میں آپ نے چمن کی ہر چیز کی بات کی تھی لیکن اب اسے بلبل و گل و لالہ تک محدود کردیا۔
بات وہی الفاظ کے معنی اور مفہوم میں فرق کرنے کی ہے ۔ لطفِ دید کہنے سے اہلِ گلستاں کی محرومی اور بے چارگی کا تاثر پیدا نہیں ہوتا۔ مطلوبہ تاثر پیدا کرنے کے لیے یہ ایک مثال دیکھیے:
نہیں ہے کچھ بھی تو اب ا ہلِ گلستاں کے لیے
ہر ایک چیز چمن کی ہے باغباں کے لیے

اسی طرز پر کوئی بات کریں گے تو محرومی کا مطلوبہ تاثر پیدا ہوگا۔ خلاصۂ کلام یہ کہ ہر شعر کلامِ منظوم ہوتا ہے لیکن ہر کلامِ منظوم شعر نہیں ہوتا۔ کلامِ منظوم میں کچھ اور عناصر بھی شامل کرنا پڑتے ہیں جو اسے شعریت کے درجے پر پہنچاتے ہیں۔
بہت بہتر ہے، اب ذرا ان نکات پر آپ اپنی رائے عنایت فرمائیں جو استاد صاحب نے اٹھائے ہیں۔😊
 
Top