نکاح المتعہ کا تعارف (حصہ دوم)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

میر انیس

لائبریرین
محترمہ مجھے صرف اتنی دلیل ہی کافی ہے کہ اس فعل کا جب مجھے پہلی بار پتا چلا تو انتہائی کریہہ محسوس ہوا۔ جب میں نے یہ محسوس کیا کہ میں اپنی ماں بہن کے لیے یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ انھیں چار دن کے نکاح پر کسی کے حوالے کردوں‌ تو مجھے یہ بھی احساس ہوگیا کہ میں خود بھی کسی کی ماں بہن کے ساتھ ایسا کبھی نہیں کرسکوں گا۔ اللہ کا شکر ہے جس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا میں نام لیوا ہوں انھوں نے یہ فعل کبھی نہیں کیا۔ مجھے اللہ سائیں سے پوری امید ہے کہ تاریخ کی جن کتابوں کے حوالے یہاں تھوک کے حساب سے دستیاب ہیں وہ بھی ایسا کوئی بھی ثبوت دینے میں ناکام رہیں گی۔ اور مجھے یہ بھی امید ہے کہ آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم جن پر یہ سب کرنے کا اور اس کا حکم دینے کا اور اس کی فضیلت بیان کرنے کا اور اسے ایمان سے جوڑنے کا الزام عائد کیا جاتا ہے وہ بھی سب جھوٹ ہے۔ اور ان اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی جو الزام عائد کیا جاتا ہے کہ انھوں نے یہ فعل کیا یا اس کا حکم دیا، میں اسے بھی الزام سمجھتا ہوں۔ جانے وہ کون لوگ تھے جو آخری ایام رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں مسلمان ہوئے اور مسلمان ہوئے بھی کہ منافق ہی رہے۔ بدر، احد، اور خندق میں تو کسی کو یہ فعل کرنا یاد نہ آیا۔ اس وقت سب اہل ایمان تھے نا، پھر جب ملاوٹ ہوگئی تو ایسے افعال بھی آگئے۔ خیر بحث کرنے کا تو میرا موڈ ہی نہیں۔ میں اسے حرام سمجھتا ہوں، سمجھتا تھا اور ساری عمر سمجھتا رہوں گا۔ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک الزام سمجھتا تھا، سمجھتا ہوں اور سمجھتا رہوں گا۔ میرا اللہ گواہ ہے میں اس فعل سے کراہت کا اظہار کرتا ہوں بے شک وہ وقت دور نہیں جب اللہ کریم آپ کے اور ہمارے مابین فیصلہ کردے گا اور حق سب واضح ہوجائے گا۔
وما علینا الالبلاغ
کسی بھی بات کو اپنی عقل سے سمجھنا اور خود ہی اسکے بارے میں فٰصلہ کرنے کا حق اگر اللہ نے ہر مسلمان کو دیا ہوتا تو قران اور حدیث کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی اللہ صرف اتنا فرمادیتا کہ اچھے کام کرو اور برے کاموں سے دور رہو اور اچھائی اور برائی کا فیصلہ اپنی عقل سے کرلو۔ ہماری عقل ناقص ہے آپ نے کئی دفعہ یہ نوٹ کیا ہوگا ایک بات کو ہم اپنے لیئے صحیح سمجھ رہے ہوتے ہیں پر وہ آگے چل کر غلط ثابت ہوجاتی ہے ۔ ایمان لانے کا مطلب ہی یہ ہے کہ بس جو اللہ اور اسکاے رسول(ص) تمکو دیں وہ لے لو جس سے منع کریں اس سے رک جائو۔ اگر آپ اللہ کی جائز کی ہوئی کسی بھی چیز کو اپنی عقل کے فیصلے کے حساب سے ناجائز قرار دے رہے ہیں تو بھائی پھر ہر معاملہ میں ایسا ہی کریں کیوں پھر احادیث کی کتابیں دیکھتے ہیں۔
اگر آپ اسکو بے حیائی سمجھتے ہیں تو پھر اسلام نے کنیز سے تو بغیر کسی نکاح کے تعلقات کو جائز قرار دیا ہے اور بغیر طلاق کے وہ اسکو کسی دوسرے کو بخش سکتا ہے یا بیچ سکتا ہے۔ کسی کی ماں بہن ابھی آزاد ہیں تووہ یہ سب سوچ سکتا ہے پر اگر وہ آج سے 1400 سال پہلے ایک کنیز ہوتیں تو پھر اسکی غیرت کہاں ہوتی ۔
یاد کریں صلح حدیبیہ کی شرائط پر حضرت عمر کو شدید اختلاف تھا کیوں کہ ساری ہی بظاہر مسلمانوں کے خلاف لگ رہی تھیں وہ اپنی عقل کے حساب سے سوچ رہے تھے ۔
اگر کسی بات کو غلط ثابت کرنا ہے تو کوئی دلیل لائیں جیسا اللہ نے قران میں کہا ہے کہ اگر تم سچے ہو تو دلیل لائو۔ آپ میں سے ہر کچھ دن بعد ایک شخص کھڑا ہوتا ہے اور اللہ اور رسول(ص) کا حکم ماننے کے بجائے ایک نئی بحث شروع کر کے حضرت عمر کے ایک غلط فیصلے کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ اور اسطرح ایک جانچ بھی ہم کر رہے ہیں کہ آپ کے نزدیک اللہ اور رسول(ص) کا حکم زیادہ ہے یا حضرت عمر کا
 
ش

شوکت کریم

مہمان
محترمہ مجھے صرف اتنی دلیل ہی کافی ہے کہ اس فعل کا جب مجھے پہلی بار پتا چلا تو انتہائی کریہہ محسوس ہوا۔ جب میں نے یہ محسوس کیا کہ میں اپنی ماں بہن کے لیے یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ انھیں چار دن کے نکاح پر کسی کے حوالے کردوں‌ تو مجھے یہ بھی احساس ہوگیا کہ میں خود بھی کسی کی ماں بہن کے ساتھ ایسا کبھی نہیں کرسکوں گا۔

دوست سچ مچ دوست لگے ہو۔

یہ آیت ابھی تک ادھار ہے۔

اور جنکو بیاہ کا مقدور نہ ہو وہ پاکدامنی کو اختیار کئے رہیں یہاں تک کہ اللہ انکو اپنے فضل سے غنی کر دے۔ سورۃ النور ۳۳

اور جیسا کہ آپ نے دین میں‌ عقل کے استعمال کو اب جائز قرار دے دیا ہے۔ سوال اٹھتا ہے کہ جب ایک راستہ موجود ہے تو پھر پاکدامنی اختیار کرنے کا حکم کیوں‌دیا جا رہا ہے ؟؟؟ یہ کیوں‌ نہیں کہا گیا کہ
جنکو نکاح‌ دإمی کا مقدور نہ ہو وہ متعہ کریں۔ جبکہ متعہ ایک رومال کے عوض‌ بھی کیا جا سکتا ہے۔ ؟؟

یہاں‌ تک کہ بحث سے دوستوں نے محسوس کیا ہو گا کہ محترمہ مہوش سلف پر تو اعتراض کر رہی ہیں‌کہ انہوں‌ نے بے دریغ قلابازیاں کھائیں مگر اپنا پتہ نہیں‌ کے اس مختصر سے فورم میں کتنی قلابازیاں کھا چکی ہیں۔ اپنی بات ثابت کرنے کے لئے ہر کلیہ جائز اور دوسروں کے لئے منکر حدیث، قرآنسٹ اور نہ جانے کیا کیا ؟؟؟ حتی کہ دوسروں کی دلیل کے مقابلے میں بھی وہی اپنی ہی راگنی۔ کوئی عقل کی کسوٹی پر کسی معاملے کو پرکھے تو منکر حدیث۔ جبکہ ایک بات طے شدہ ہے جس حدیث سے کسی آیت یا حکم کی مخالفت ہو رہی ہو وہ قابل قبول نہیں‌ ہو سکتی۔ تو اس میں‌ منکرین حدیث‌کی بات کہاں‌سے آ گئی۔ حدیث تو قرآن کریم کی تشریح‌ ہے ، وضاحت ہے۔ کم از کم میں تو منکرین حدیث‌ نہیں‌ ؟؟؟

اسی آڑ میں‌ آپ استمتعتم کے بارے میں‌ میری پوری پوسٹ‌ کھا گئیں۔

والمحصنات من النساء الا ما ملكت ايمانكم كتاب الله عليكم واحل لكم ما وراء ذلكم ان تبتغوا باموالكم محصنين غير مسافحين فما استمتعتم به منهن فاتوهن اجورهن فريضة ولا جناح عليكم فيما تراضيتم به من بعد الفريضة ان الله كان عليما حكيما

ترجمہ فتح‌محمد جالندھری

اور شوہر والی عورتیں بھی (تم پر حرام ہیں) مگر وہ جو (اسیر ہو کر لونڈیوں کے طور پر) تمہارے قبضے میں آجائیں (یہ حکم) خدا نے تم کو لکھ دیا ہے اور ان (محرمات) کے سوا اور عورتیں تم کو حلال ہیں اس طرح سے کہ مال خرچ کر کے ان سے نکاح کرلو بشرطیکہ (نکاح سے) مقصود عفت قائم رکھنا ہو نہ شہوت رانی تو جن عورتوں سے تم فائدہ حاصل کرو ان کا مہر جو مقرر کیا ہو ادا کردو اور اگر مقرر کرنے کے بعد آپس کی رضامندی سے مہر میں کمی بیشی کرلو تو تم پر کچھ گناہ نہیں بےشک خدا سب کچھ جاننے والا (اور) حکمت والا ہے،

ترجمہ ڈاکٹر طاہر القادری جنکی حب اہل بیت شک و شبیہ سے بالا تر ہے ۔

اور شوہر والی عورتیں (بھی تم پرحرام ہیں) سوائے ان (کافروں کی قیدی عورتوں) کے جو تمہاری مِلک میں آجائیں، (ان احکامِ حرمت کو) اللہ نے تم پر فرض کر دیا ہے، اور ان کے سوا (سب عورتیں) تمہارے لئے حلال کر دی گئی ہیں تاکہ تم اپنے اموال کے ذریعے طلبِ نکاح کرو پاک دامن رہتے ہوئے نہ کہ شہوت رانی کرتے ہوئے، پھر ان میں سے جن سے تم نے اس (مال) کے عوض فائدہ اٹھایا ہے انہیں ان کا مقرر شدہ مَہر ادا کر دو، اور تم پر اس مال کے بارے میں کوئی گناہ نہیں جس پر تم مَہر مقرر کرنے کے بعد باہم رضا مند ہو جاؤ، بیشک اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے،

كَالَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ كَانُوا أَشَدَّ مِنكُمْ قُوَّةً وَأَكْثَرَ أَمْوَالًا وَأَوْلَادًا فَاسْتَمْتَعُوا بِخَلَاقِهِمْ فَاسْتَمْتَعْتُم بِخَلَاقِكُمْ كَمَا اسْتَمْتَعَ الَّذِينَ مِن قَبْلِكُم بِخَلَاقِهِمْ وَخُضْتُمْ كَالَّذِي خَاضُوا ۚ أُولَ۔ٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ وَأُولَ۔ٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ

ترجمہ فتح‌ محمد جالندھری
(تم منافق لوگ) ان لوگوں کی طرح ہو، جو تم سے پہلے ہوچکے ہیں۔ وہ تم سے بہت زیادہ طاقتور اور مال و اولاد میں کہیں زیادہ تھے تو وہ اپنے حصے سے بہرہ یاب ہوچکے۔ سو جس طرح تم سے پہلے لوگ اپنے حصے سے فائدہ اٹھا چکے ہیں۔ اسی طرح تم نے اپنے حصے سے فائدہ اٹھا لیا۔ اور جس طرح وہ باطل میں ڈوبے رہے اسی طرح تم باطل میں ڈوبے رہے یہ وہ لوگ ہیں جن کے اعمال دنیا اور آخرت میں ضائع ہوگئے۔ اور یہی نقصان اٹھانے والے ہیں
ترجمہ ڈاکٹر طاہر القادری

(اے منافقو! تم) ان لوگوں کی مثل ہو جو تم سے پہلے تھے۔ وہ تم سے بہت زیادہ طاقتور اور مال و اولاد میں کہیں زیادہ بڑھے ہوئے تھے۔ پس وہ اپنے (دنیوی) حصے سے فائدہ اٹھا چکے سو تم (بھی) اپنے حصے سے (اسی طرح) فائدہ اٹھا رہے ہو جیسے تم سے پہلے لوگوں نے (لذّتِ دنیا کے) اپنے مقررہ حصے سے فائدہ اٹھایا تھا نیز تم (بھی اسی طرح) باطل میں داخل اور غلطاں ہو جیسے وہ باطل میں داخل اور غلطاں تھے۔ ان لوگوں کے اعمال دنیا اور آخرت میں برباد ہو گئے اور وہی لوگ خسارے میں ہیں،

وَجَعَلُوا لِلَّهِ أَندَادًا لِّيُضِلُّوا عَن سَبِيلِهِ ۗ قُلْ تَمَتَّعُوا فَإِنَّ مَصِيرَكُمْ إِلَى النَّارِ

ترجمہ جالندھری
اور ان لوگوں نے خدا کے شریک مقرر کئے کہ (لوگوں کو) اس کے رستے سے گمراہ کریں۔ کہہ دو کہ (چند روز) فائدے اٹھا لو آخرکار تم کو دوزخ کی طرف لوٹ کر جانا ہے
ترجمہ ڈاکٹر طاہر القادری
اور انہوں نے اللہ کے لئے شریک بنا ڈالے تاکہ وہ (لوگوں کو) اس کی راہ سے بہکائیں۔ فرما دیجئے: تم (چند روزہ) فائدہ اٹھا لو بیشک تمہارا انجام آگ ہی کی طرف (جانا) ہے،

سیدھی سادھی سی بات ہے اب اس میں شرعی مطالب اور باطنی مطالب ؟؟؟ کیا آپ کا فرض نہیں کہ جیسے سورہ نسائ والی آیت کا ترجمہ کیا اسی طرح ان باقی آیات کا ترجمہ بھی کریں اوربتائیں کہ ایک ہی لفظ کو مختلف جگہوں پہ مختلف مطلب کیسے ہوا ؟؟؟

ایک پوسٹ کے جواب میں آپ کہہ رہی ہیں۔

آپکے استدلال کی تو بنیاد ہی بالکل غلط ہے کیونکہ سب سے پہلے یہ بتلائیے کہ اسلامی قوانین کو قبول کرنے یا نا کرنے میں معاشرہ اور اس معاشرے کی فطرت سلیم کی شرط کونسی شریعت میں ہے؟ اپنی اصلاح فرمائیے اور اپنے استدلال کی بنیاد آپ کو اللہ اور اُسکے رسول ص کی طرف سے لائی جانی والی شریعت کے اصولوں کی بنیاد پر رکھنی چاہیے۔

یاد رکھئیے اللہ کے احکامات کے حلال یا حرام ہونے کی شرط کسی معاشرے کی قبولیت عام نہیں ہے بلکہ یہ شرط بدعت و ضلالت ہے۔ معاشرے کے سٹینڈرڈز بدلتے رہتے ہیں اور اسی لیے ہر معاشرے میں چیزوں کی قبولیت عام ان کے عقیدے یا تعلیمات کے مطابق تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔

اور تازہ ترین پوسٹ ملاحظہ کریں

عقل" اللہ تعالی کی طرف سے انسان کو بہت بڑا تحفہ ہے۔ کتاب "الکافی" کا پہلا باب کا نام ہے "کتاب العقل و جہل"۔ اصل جاہل وہ نہیں جو علم نہیں رکھتا، بلکہ اصل جاہل وہ شخص ہے جو اپنی عقل استعمال نہیں کر سکتا۔ شیطان ابلیس آپکے اور ہمارے مقابلے میں بہت عالم و فاضل تھا، مگر پھر بھی گمراہ و ذلیل ہوا کہ اس کو عقل نہ آئی کہ وہ اللہ کی نازل کردہ نص کے خلاف اپنی تاویلات لانے کی کوشش کر رہا ہے۔
چنانچہ اگرچہ کہ آگ سے پیدا ہونی والی تاویل بظاہر بہت خوشنما تھی، مگر انسان ٹھنڈے دماغ سے اپنی عقل استعمال کرے تو وہ یقینا اس تاویل کا فتنہ دیکھ سکتا ہے۔
اسی طرح خارجی تاویل "لاحکم الاللہ" اگرچہ بظاہرا بہت خوشنما تھی، مگر عقل استعمال کرنے والے پھر بھی اس تاویل کا فتنہ دیکھنے پر قادر تھے۔

یہ تمام کتب فریق مخالف کی ہیں اور اُن پر بطور حجت ان کے حوالے یہاں پیش کیے جا رہے ہیں۔ اب یہ اُنکی ذمہ داری ہے کہ ان حوالوں کا جواب دیں
۔

بے شک مگر یہ تو آپ کی ذمہ داری ہے کہ حوالے کا ثبوت حسب منشا مہیا کریں۔

قرآن پر غور کرنے کے بعد یہ پتا چلتا ہے کہ مرد حضرات میں گناہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ زیادہ ہے جو وہ رمضان کی تیس راتیں برداشت نہ کر سکے اور ایک سے زیادہ لوگ اس خیانت میں مبتلا ہوئے۔
جبکہ اسکے مقابلے میں عورتوں کے لیے اللہ تعالی نے یہ حکم رکھا ہے کہ اگر ان کے شوہر انہیں چار ماہ تک اکیلا چھوڑیں اور وہ اس عرصے کو برداشت نہ کر سکتی ہوں تو وہ ان سے علیحدگی اختیار کر سکتی ہیں۔ چنانچہ اب ان سوداگروں کو یا تو چار ماہ میں واپس آجانا چاہیے اور دو چار دن کے بعد پھر اگلے سفر پر روانہ ہو جانا چاہیے، یا پھر اپنی بیویوں سے معاملہ طے کر کے انکی اجازت لینی چاہیے کہ وہ چار ماہ سے زیادہ غیر حاضر رہنا چاہتے ہیں۔ اور اگر انکی بیویاں اس پر مان جاتی ہیں تو ان پر لازم ہے کہ اس بات کا پاس کریں اور خود کو ہر قسم کے گناہ سے محفوظ رکھیں، وگرنہ اگر انہیں بھی گناہ میں مبتلا ہونے کا خوف ہے تو یہ قاضی کے پاس جا کر علیحدگی اختیار کر سکتی ہیں۔ اسکے علاوہ اس مسئلے کا کوئی اور حل نہیں۔

اوپر جو مشورہ عقل کے استعمال کا دیا گیا ہے اس کی روشنی میں ذرا دیکھیں ۔ یہ کوئی کلیہ نہیں کہ عورت "پوتر" ہی ہے اور مرد ہی گنہگار ہے۔ اگر اور بہت سی صفات ایک جیسی ہیں کھانے کی طلب، پہننے کی طلب ، اچھا دکھنے کی طلب، تو یہ کہاں کا انصاف ہوا کہ مرد کو تو بد مست سانڈ کی طرح‌ ہر طرح‌ سے بھوک مٹانے کی اجازت ہو اور عورت کو بھوکا باندھ دیا جائے۔

چنانچہ آپ کی بات کا جواب یہ ہے کہ اگر یہ چار ماہ سے کم کا وقفہ ہے تو اسلام بیویوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو گناہ سے بچائیں رکھیں، جبکہ شوہر حضرات کو چھوٹ ہے کہ وہ اس وقت کے دوران اپنے آپ کو گناہ سے بچانے کے لیے دوسری شادی کر سکتے ہیں، یا پھر کسی کنیز عورت تک سے وقتی عارضی تعلقات قائم کر سکتے ہیں۔

یہ چھوٹ کیوں ہے کیا کوئی عورت کا کیا قصور ہے کہ وہ گناہ سے بچنے کے لئے مشقت برداشت کرے اور مرد میں‌ کیا خصوصیت ہے کہ وہ اپنی بدمستی پوری کرنے کے لئے آزاد ہے۔ اس کے لئے بھی مشقت کیوں‌نہیں ؟؟؟

صحیح بخاری [آنلائن لنک]
حدثنا ‏ ‏عمرو بن عون ‏ ‏حدثنا ‏ ‏خالد ‏ ‏عن ‏ ‏إسماعيل ‏ ‏عن ‏ ‏قيس ‏ ‏عن ‏ ‏عبد الله ‏ ‏رضي الله عنه ‏ ‏قال ‏
‏كنا نغزو مع النبي ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏وليس معنا نساء فقلنا ألا نختصي فنهانا عن ذلك فرخص لنا بعد ذلك أن نتزوج المرأة بالثوب ثم قرأ ‏
‏يا أيها الذين آمنوا لا تحرموا طيبات ما أحل الله لكم ‏
ترجمہ:
عبداللہ ابن مسود فرماتے ہیں کہ وہ رسول اللہ ص کے ساتھ غزوات میں مصروف تھے اور اُنکی بیویاں انکے ہمراہ نہیں تھیں۔ چنانچہ انہوں نے رسول اللہ ص سے پوچھا کہ آیا گناہ کے خوف سے نجات پانے کے لیے وہ خود کو خصی (اعضائے شہوانی کا کانٹا) کر لیں۔ اس پر رسول اللہ ص نے انہیں منع فرمایا اور انہیں رخصت دی کہ وہ عورتوں کے ساتھ کسی کپڑے کے عوض مقررہ مدت تک نکاح کریں اور پھر رسول اللہ ص نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
[القرآن 5:87] يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تُحَرِّمُواْ طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللّهُ لَكُمْ وَلاَ تَعْتَدُواْ إِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ
اے ایمان والو! جو پاکیزہ چیزیں اللہ نے تمہارے لئے حلال کی ہیں انہیں (اپنے اوپر) حرام مت ٹھہراؤ اور نہ (ہی) حد سے بڑھو، بیشک اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا

مسئلہ یہ ہے کہ آپ معاشرے کے پیچھے بھاگ رہے ہیں، جبکہ میں معاشرے کو نہیں دیکھ رہی کہ اس میں پہلے کیا کچھ ہوتا تھا یا لوگوں کو عقد متعہ کا علم تھا یا نہیں، ۔۔۔۔ بلکہ میں تو سب سے پہلے صرف اور صرف رسول اللہ ص کی تعلیمات دیکھ رہی ہوں کہ وہ ان خاص حالات میں بذات خود صحابہ کو حکم دے رہے ہیں کہ وہ عقد متعہ کریں اور اس سے غرض نہیں کہ معاشرہ اسے کیا سمجھتا تھا یا پھر اُس معاشرے میں یہ پہلے ہوتا تھا یا نہیں۔۔۔ اور رسول اللہ ص نے یہ کہہ کر عقد متعہ کا حکم دیا کہ یہ حلال و پاکیزہ و طیبات میں سے ہے، اور ہماری شریعت رسول اللہ ص کے اس حکم کے بعد جاری ہوئی نہ کہ پہلے معاشرے میں جو کچھ ہوتا رہا اُس سے۔
آپ اپنی غلطی محسوس کریں کہ آپ شروع سے معاشرے کے پیچھے بھاگ رہے ہیں اور ہر ممکن طریقے سے رسول اللہ ص کی تعلیم کو نظر انداز کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ یہ آپکے نظریات کے تابع نہیں ہے۔ بہرحال یہ غلط بات ہے اور اللہ کرے آپ کو اسکا ادراک ہو جائے۔

بات اس میں‌ معاشرے کی نہیں‌ تھی۔۔ بات یہ ہو رہی تھی کہ جب اللہ کا حکم سورہ نسائ میں‌موجود تھا اور سب کو پتہ تھا تو پھر صحابہ کرام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعہ کی اجازت کیوں‌ طلب کی ؟؟؟؟

اور پھر اللہ کا حکم معتہ کے بارے میں موجود تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کس چیز کی اجازت یا رخصت دی۔

اور یہ بھی دیکھیں کہ صحابہ نے متعہ کرنے کی اجازت طلب نہیں‌ کی بلکہ ایک مسئلہ بتایا اور خصی ہونے کو کہا اس سے کیا ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں‌ پتہ تھا کہ فی الوقت کوئی راستہ ایسا نہیں جس سے وہ اپنی ضرورت پوری کر سکیں ؟؟؟
 

مہوش علی

لائبریرین
دوست سچ مچ دوست لگے ہو۔

یہ آیت ابھی تک ادھار ہے۔

شوکت بھائی، میں تو آپ کو جواب دے چکی ہوں مگر آپکی سمجھ میں اب نہیں آ سکے گا کیونکہ آپ نے ضد پکڑ لی ہے۔
اس آیت کی موجودگی کے باوجود رسول اللہ ص نے صحابہ کو حکم دیا کہ وہ عقد المتعہ کریں کیونکہ یہ پاکیزہ و طیبات میں سے ہے۔ تو اب یہ آپ بتلائیے کہ رسول ص نے ان صحابہ کو صبر کرنے کی بجائے عقد المتعہ کرنے کا حکم کیوں دیا؟
مسئلہ وہی ہے جو نص کے سمجھنے کے لیے عقل استعمال کرنے کی بجائے نص کو نظر انداز کر کے عقلی گھوڑے چلاتے ہیں اور یوں گمراہی کی تاریکیوں میں جا گرتے ہیں۔
یہ صبر ان لوگوں کے لیے ہے جنہیں یقین ہو کہ وہ کسی گناہ میں مبتلا ہونے والے نہیں، یا پھر اُن لوگوں کے لیے ہے جن کے پاس نکاح تو دور عقد المتعہ کی بھی استطاعت نہیں۔ ان لوگوں کو پھر بھی گناہ میں مبتلا نہیں ہونا بلکہ اُسوقت تک صبر کرنا ہے جبتک اللہ انہیں اپنے فضل سے غنی نہ کر دے۔
باقی جن کی استطاعت بھی ہے، اور انہیں ڈر بھی ہے کہ وہ صبر نہ کر سکیں گے اور گناہ میں مبتلا ہو جائیں گے (جیسا رمضان کی تیس راتوں میں سب صحابہ کے ساتھ نہیں مگر کچھ صحابہ کے ساتھ ضرور یہ مسئلہ ہوا) تو ایسے لوگوں کو کہ جنہیں گناہ کا ڈر ہو گیا تھا اللہ کے رسول ص نے حکم دے کر عقد المتعہ کروایا اور یہی سنت رسول ابد تک قائم رہنے والی ہے کہ پاکیزہ طیبات و حلال چیزوں کا اپنے پر حرام نہ کرو۔
باقی آپ کو نص کو ردی کی ٹوکری میں ڈال کر منکر حدیث بننا ہے تو یہ آپکی مرضی۔

از شوکت کریم:
یہاں‌ تک کہ بحث سے دوستوں نے محسوس کیا ہو گا کہ محترمہ مہوش سلف پر تو اعتراض کر رہی ہیں‌کہ انہوں‌ نے بے دریغ قلابازیاں کھائیں مگر اپنا پتہ نہیں‌ کے اس مختصر سے فورم میں کتنی قلابازیاں کھا چکی ہیں۔ اپنی بات ثابت کرنے کے لئے ہر کلیہ جائز اور دوسروں کے لئے منکر حدیث، قرآنسٹ اور نہ جانے کیا کیا ؟؟؟ حتی کہ دوسروں کی دلیل کے مقابلے میں بھی وہی اپنی ہی راگنی۔ کوئی عقل کی کسوٹی پر کسی معاملے کو پرکھے تو منکر حدیث۔ جبکہ ایک بات طے شدہ ہے جس حدیث سے کسی آیت یا حکم کی مخالفت ہو رہی ہو وہ قابل قبول نہیں‌ ہو سکتی۔ تو اس میں‌ منکرین حدیث‌کی بات کہاں‌سے آ گئی۔ حدیث تو قرآن کریم کی تشریح‌ ہے ، وضاحت ہے۔ کم از کم میں تو منکرین حدیث‌ نہیں‌ ؟؟؟
مجھے ضرورت نہیں کہ میں اس نص کو نظر انداز کر کے عقل کے استعمال اور تفسیر بالرائے کے فتنے پر مستقل بحثیں یہاں نقل کروں ۔
اگر عقل ہی آپکی متاع کل ہے تو پھر بے چارے منکر حدیث حضرات نے کیا جرم کیا ہے جو اُن پر اٹھتے بیٹھتے طعنے دیتے رہتے ہیں؟
یا پھر شیطان نے کیا قصور کیا تھا۔ اُس نے بھی تو عقل ہی کا استعمال کیا تھا کہ وہ آگ سے بنا ہے تو پھر مٹی کو سجدہ کیوں کرے؟
واہ حضرت مستقل طور پر نص کے مقابلے میں عقل بازی بھی کیے جا رہے ہیں اور پھر بھی منکر حدیث ہونے کا انکار۔ شراب بھی نہ چھوٹی اور رند کے رند رہے۔

مکمل طور پر واضح کیا تھا کہ زمانہ نزول کے اعتبار سے لاکھ سر پٹخ لیں مگر سورۃ النساء کی اس آیت سے عقد المتعہ حرام نہیں ہو سکتا۔ اسکا جواب تو کیا لاتے الٹا پھر سے وہی منکر حدیث حضرات کی روش کی پیروی میں دلائل شروع ہو گئے۔

از شوکت کریم:
اسی آڑ میں‌ آپ استمتعتم کے بارے میں‌ میری پوری پوسٹ‌ کھا گئیں۔

بھائی صاحب، مجھ غریب پر آپ کیا کھانے کا الزام لگاتے ہیں۔ الزام لگانا ہے تو صحابہ و تابعین اور اپنے سلف پر لگائیں جو 1200 سالوں تک آپ کے اس عقلی "استمتعتم" کو کھاتے چلے آ رہے ہیں۔
اور اگر اُن پر آپکے استمتعتم کھانے کا الزام لگا چکیں تو ایک موقع ان بے چاروں کو بھی دے دیں کہ وہ اپنی صفائی بیان کریں کہ یہ یہ وہ شرعی اصطلاح ہے جو انہوں نے رسول اللہ ص کی لسان مبارک سے سیکھی اس لیے آپ کے استمتعم کھا کر وہ رسول ص کی پیروی میں لگے ہوئے ہیں۔
بات تو بہت سیدھی سی ہے، پر افسوس کہ آپ غصہ میں آ چکے ہیں اور اب بہت مشکل ہے کہ آپ ٹھنڈے دماغ سے فریق مخالف کے دلائل کو سمجھ کر جواب دے سکیں۔


اوپر جو مشورہ عقل کے استعمال کا دیا گیا ہے اس کی روشنی میں ذرا دیکھیں ۔ یہ کوئی کلیہ نہیں کہ عورت "پوتر" ہی ہے اور مرد ہی گنہگار ہے۔ اگر اور بہت سی صفات ایک جیسی ہیں کھانے کی طلب، پہننے کی طلب ، اچھا دکھنے کی طلب، تو یہ کہاں کا انصاف ہوا کہ مرد کو تو بد مست سانڈ کی طرح‌ ہر طرح‌ سے بھوک مٹانے کی اجازت ہو اور عورت کو بھوکا باندھ دیا جائے۔
یہ چھوٹ کیوں ہے کیا کوئی عورت کا کیا قصور ہے کہ وہ گناہ سے بچنے کے لئے مشقت برداشت کرے اور مرد میں‌ کیا خصوصیت ہے کہ وہ اپنی بدمستی پوری کرنے کے لئے آزاد ہے۔ اس کے لئے بھی مشقت کیوں‌نہیں ؟؟؟

ہم نے تو وہی بیان کیا ہے جو نص سے ثابت ہے اور نص کو سمجھنے کے لیے ہی عقل سے کام لیتے ہیں۔ باقی اگر آپ کے پاس اپنے ان قیاسی عقلی گھوڑوں کی بجائے کوئی نص سے دلیل بھی ہے تو پیش فرمائیے۔
بات اس میں‌ معاشرے کی نہیں‌ تھی۔۔ بات یہ ہو رہی تھی کہ جب اللہ کا حکم سورہ نسائ میں‌موجود تھا اور سب کو پتہ تھا تو پھر صحابہ کرام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعہ کی اجازت کیوں‌ طلب کی ؟؟؟؟
اور پھر اللہ کا حکم معتہ کے بارے میں موجود تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کس چیز کی اجازت یا رخصت دی۔ اور یہ بھی دیکھیں کہ صحابہ نے متعہ کرنے کی اجازت طلب نہیں‌ کی بلکہ ایک مسئلہ بتایا اور خصی ہونے کو کہا اس سے کیا ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں‌ پتہ تھا کہ فی الوقت کوئی راستہ ایسا نہیں جس سے وہ اپنی ضرورت پوری کر سکیں ؟؟؟

معاشرے میں کیا تھا اور کیا نہیں تھا اس بحث میں آپ الجھئیے، مگر رسول ص کی یہ سنت آپکا گلا نہیں چھوڑنے والی۔ آپ اسے اگل سکتے اور نہ نگل اور حکم نبوی یہ ہے کہ جب انسان کو پھر بھی گناہ میں مبتلا ہونے کا ڈر ہو اور وہ استطاعت بھی رکھے تو پاکیزہ طیبات و حلال چیزوں کو حرام نہ بنائے بلکہ اُن کا استعمال کر کے خود کو گناہ سے محفوظ کرے۔
اب آپ سے کاؤنٹر سوال کہ آپ لوگوں کا تو دعوی ہے کہ عقد المتعہ تو عرب سوسائیٹی میں جاری و ساری تھا اور یہ بعد میں جا کر حرام ہوا، تو پھر صحابہ کو کس چیز نے روکا ہوا تھا کہ وہ عقد متعہ نہ کرتے اور رسول کے حکم کا انتظار کرتے؟
چنانچہ اس روایت سے ہمیں نہیں پتا چلتا کہ کیا وجہ تھی کہ صحابہ نے عقد المتعہ کیوں نہیں کیا تھا، مگر ایک بات بہت واضح ہے کہ رسول اللہ ص نے بذات خود ایسے حالات میں عقد المتعہ کی "حوصلہ افزائی" کی بلکہ حکم دیا اور یہ کہہ کر حکم دیا کہ یہ پاکیزہ طیبات و حلال چیزوں میں سے ہے اور اسے اپنے اوپر حرام نہ کرو۔
اور آپ لوگ جو عقد المتعہ کو کہتے رہتے ہیں کہ یہ بدکاری، شراب اور لحم الخنزیر کی طرح ہے، تو آپکی بات کا اعتبار کریں یا لسان نبوت پر یقین لائیں؟
 
محترمہ مجھے صرف اتنی دلیل ہی کافی ہے کہ اس فعل کا جب مجھے پہلی بار پتا چلا تو انتہائی کریہہ محسوس ہوا۔ جب میں نے یہ محسوس کیا کہ میں اپنی ماں بہن کے لیے یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ انھیں چار دن کے نکاح پر کسی کے حوالے کردوں‌ تو مجھے یہ بھی احساس ہوگیا کہ میں خود بھی کسی کی ماں بہن کے ساتھ ایسا کبھی نہیں کرسکوں گا۔ اللہ کا شکر ہے جس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا میں نام لیوا ہوں انھوں نے یہ فعل کبھی نہیں کیا۔ مجھے اللہ سائیں سے پوری امید ہے کہ تاریخ کی جن کتابوں کے حوالے یہاں تھوک کے حساب سے دستیاب ہیں وہ بھی ایسا کوئی بھی ثبوت دینے میں ناکام رہیں گی۔ اور مجھے یہ بھی امید ہے کہ آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم جن پر یہ سب کرنے کا اور اس کا حکم دینے کا اور اس کی فضیلت بیان کرنے کا اور اسے ایمان سے جوڑنے کا الزام عائد کیا جاتا ہے وہ بھی سب جھوٹ ہے۔ اور ان اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی جو الزام عائد کیا جاتا ہے کہ انھوں نے یہ فعل کیا یا اس کا حکم دیا، میں اسے بھی الزام سمجھتا ہوں۔ جانے وہ کون لوگ تھے جو آخری ایام رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں مسلمان ہوئے اور مسلمان ہوئے بھی کہ منافق ہی رہے۔ بدر، احد، اور خندق میں تو کسی کو یہ فعل کرنا یاد نہ آیا۔ اس وقت سب اہل ایمان تھے نا، پھر جب ملاوٹ ہوگئی تو ایسے افعال بھی آگئے۔ خیر بحث کرنے کا تو میرا موڈ ہی نہیں۔ میں اسے حرام سمجھتا ہوں، سمجھتا تھا اور ساری عمر سمجھتا رہوں گا۔ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک الزام سمجھتا تھا، سمجھتا ہوں اور سمجھتا رہوں گا۔ میرا اللہ گواہ ہے میں اس فعل سے کراہت کا اظہار کرتا ہوں بے شک وہ وقت دور نہیں جب اللہ کریم آپ کے اور ہمارے مابین فیصلہ کردے گا اور حق سب واضح ہوجائے گا۔
وما علینا الالبلاغ

ا
بھی ہماری طرف سے دلائل ختم نہیں ہوئے، بلکہ آدھے ہوئے ہیں۔ انشاء اللہ ایک مرتبہ پورے دلائل پیش ہو گئے تو مجھے اللہ کی ذات سے امید ہے کہ ہمارے بھائیوں کو پوری بات سمجھنے میں بہت آسانی ہو گی اور وہ حق کو باطل سے بنا الجھے جدا کر سکیں گے۔ انشاء اللہ۔

دوست آپ تھوڑا صبر اور کر لیں چونکہ ابھی مہوش کے دلائل باقی ہیں اور انکی یو پسٹ چل رہی ہے لہذا ہم بھی بہت سکون سے اس کا بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ مہوش اپنی طرف سے اتمام حجت کرلیں انشاء اللہ یہاں سے وہ ایسے ہی جواب لیے بغیر نہیں جائیں گی اور انشاء اللہ یہ پوسٹ محفل کی کچھ اور پوسٹوں کی طرح بغیر کسی نتیجے کے ختم نہیں ہو گی بس تھوڑا آپ سب انتظار کر لیں۔
 

S. H. Naqvi

محفلین
Jab Syed naa Umer nay Matah ko haram karar dia tu Momneen ky Aaqa Janab-e-Ali Shair e Khuda bi mojood thy. Mola Ali nay is ko Tasleem kia aur ia kay khilaf jihad nai kia aur Janab-e-Umer ki Hukoomat main shab o roz basar karty rahay. Jab Imam e Aali Muqal Hazrat Hussain, Yazid Paleed (jis ka jurm deen kay halal ko haram aur haram ko halal karna tha) kay khilaf Alm e jihad buland kar kay apna pura garana luta saktay hain tu agr janab e Umer ka ye fehl galt hota tu Janab Mola Ali say ye tawaqo ki ja sakti he kay ap itni bari tehrif per khamoash rehtay????? Tu jab har do hazrat uss waqt iss mislay per mutafiq thay tu ajj hum ko kia haqq pohnchta he kay murda ghoaray me jaan dalnay ki koshish kar kay apny imaan kharab Karen aur Kuffar e Makka say bi bad tarr sabit hon???
Aur muje tu ziada hairat is bat ki he k aik Aurat, Aurat hi ki Zalalat aur Mard ki Ayashi ki Wakalat kar rai hey???? Guzarish he kay Mehfil me kai PARDAISI mojood hen, inee me say 5, 10 nay Shoq-E-Waraftagi ko daikh kar agr mohtarama ko Mutah ki darkhawast kar dee aur chand mah baad 10, 12 hanstay muskuraty Tohfay day kar chalty banay tu mohtarama anynda zindagi kisi NGO ka hissa ban kar inee mardon ki mitti paleed karti nazar ayen gi………….!
:notlistening::praying:
 

باسم

محفلین
پہلے تو آپ یہ بتائیں کہ جمہور کا قول "المراد نكاح المتعة "سے" نزلت فی جواز نکاح المتعۃ " کیسے ہوگیا۔
اور سورۃ النساء کی آیت کی تفسیر میں دوسری غلطی کی نشاندہی میں آپ نے خود کیسی فاش غلطی کی ہے
1۔ لفظ "محصنین": اسکا لفظی مطلب ہے "حصار" یا "قلعہ" اور شرعی اصطلاح میں اس سے مراد ایسی شوہر دار عورتیں ہیں جو اپنے شوہر کے حصارِ نکاح میں ہیں اور دوسرے مردوں کو پاس نہیں آنے دیتیں اور یوں عفیفہ و پاکدامن ہیں۔
اور اس کی بنیاد پر کی گئی دھواں دار تقریر کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے ،
اس لفظ کے بیان کردہ مفہوم کو لفظ کے مطابق کرنے کی کوشش کی جائے تو ایک دلچسپ لطیفہ بن جاتا ہے۔
"ایسے بیگم دار مرد جو اپنی بیوی کے حصارِ نکاح میں ہیں اور دوسری عورتوں کو پاس نہیں آنے دیتے اور یوں عفیف و پاکدامن ہیں"
 

مہوش علی

لائبریرین
کسی بھی بات کو اپنی عقل سے سمجھنا اور خود ہی اسکے بارے میں فٰصلہ کرنے کا حق اگر اللہ نے ہر مسلمان کو دیا ہوتا تو قران اور حدیث کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی اللہ صرف اتنا فرمادیتا کہ اچھے کام کرو اور برے کاموں سے دور رہو اور اچھائی اور برائی کا فیصلہ اپنی عقل سے کرلو۔ ہماری عقل ناقص ہے آپ نے کئی دفعہ یہ نوٹ کیا ہوگا ایک بات کو ہم اپنے لیئے صحیح سمجھ رہے ہوتے ہیں پر وہ آگے چل کر غلط ثابت ہوجاتی ہے ۔ ایمان لانے کا مطلب ہی یہ ہے کہ بس جو اللہ اور اسکاے رسول(ص) تمکو دیں وہ لے لو جس سے منع کریں اس سے رک جائو۔ اگر آپ اللہ کی جائز کی ہوئی کسی بھی چیز کو اپنی عقل کے فیصلے کے حساب سے ناجائز قرار دے رہے ہیں تو بھائی پھر ہر معاملہ میں ایسا ہی کریں کیوں پھر احادیث کی کتابیں دیکھتے ہیں۔
اگر آپ اسکو بے حیائی سمجھتے ہیں تو پھر اسلام نے کنیز سے تو بغیر کسی نکاح کے تعلقات کو جائز قرار دیا ہے اور بغیر طلاق کے وہ اسکو کسی دوسرے کو بخش سکتا ہے یا بیچ سکتا ہے۔ کسی کی ماں بہن ابھی آزاد ہیں تووہ یہ سب سوچ سکتا ہے پر اگر وہ آج سے 1400 سال پہلے ایک کنیز ہوتیں تو پھر اسکی غیرت کہاں ہوتی ۔
یاد کریں صلح حدیبیہ کی شرائط پر حضرت عمر کو شدید اختلاف تھا کیوں کہ ساری ہی بظاہر مسلمانوں کے خلاف لگ رہی تھیں وہ اپنی عقل کے حساب سے سوچ رہے تھے ۔
اگر کسی بات کو غلط ثابت کرنا ہے تو کوئی دلیل لائیں جیسا اللہ نے قران میں کہا ہے کہ اگر تم سچے ہو تو دلیل لائو۔ آپ میں سے ہر کچھ دن بعد ایک شخص کھڑا ہوتا ہے اور اللہ اور رسول(ص) کا حکم ماننے کے بجائے ایک نئی بحث شروع کر کے حضرت عمر کے ایک غلط فیصلے کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ اور اسطرح ایک جانچ بھی ہم کر رہے ہیں کہ آپ کے نزدیک اللہ اور رسول(ص) کا حکم زیادہ ہے یا حضرت عمر کا

انیس بھائی،
ان بھائیوں پر غصہ نہ ہوئیے گا کیونکہ ان کی ابھی تک ذہن تیار نہیں ہوئے ہیں کہ یہ اس نئی بات کو انصاف کے میزان پر تول کر قبول کر سکیں۔ اگر یہ ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچیں تو انہیں بالکل صاف اور واضح نظر آ جائے گا کہ اگر اسلام کے نام پر یہ کنیز عورت کے ساتھ عارضی تعلقات کو قبول کر سکتے ہیں تو حالات کے تحت عقد المتعہ تو اسکے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ اور اگر یہ پھر بھی لسان نبوت کو نظر انداز کرتے ہوے عقد المتعہ کو پاکیزہ طیبات حلال چیزوں میں ماننے کی بجائے اپنے عقل کے قیاسی گھوڑے دوڑا کر بے حیائی و بدکاری و بازار حسن کے منبع کا طعنہ دیں گے تو ایسی ہر ایک چیز کئی گنا بڑھ کر کنیز عورت کے معاملے میں واپس جا کر انکے منہ پر جا پڑے گی اور 1300 سال کی تاریخ انکا منہ چڑا رہی ہو گی۔ یہ آزما کر دیکھ لیں اور ہونا یہی کچھ ہے۔
بہرحال بات پھر وہی ہے کہ ابھی انکے ذہن آمادہ نہیں ہیں کہ یہ اسی بات پر تیار ہو جائیں کہ عقد المتعہ کو دلائل و انصاف کے میزان پر تولیں، اور دوست نے تو اسکا برملا اظہار بھی کر دیا ہے۔ چنانچہ ان سے بات چیت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں، اور ہمارا فرض فقط اور فقط اچھے طریقے سے اپنے دلائل پیش کر دینا ہے،اور ہم اپنا مخاطب اُن لوگوں کو رکھیں جو واقعی اس بات پر تیار ہیں کہ بات قرآن کے اس حکم کے مطابق ہو کہ "دلیل لاؤ اگر تم سچے ہو"۔ یہی وہ اہل انصاف ہیں جنہیں ہمیں پیغام پہنچانا ہے، جبکہ باقیوں کا معاملہ انکے اور اللہ کے مابین چھوڑ دیں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
aur muje tu ziada hairat is bat ki he k aik aurat, aurat hi ki zalalat aur mard ki ayashi ki wakalat kar rai hey???? Guzarish he kay mehfil me kai pardaisi mojood hen, inee me say 5, 10 nay shoq-e-waraftagi ko daikh kar agr mohtarama ko mutah ki darkhawast kar dee aur chand mah baad 10, 12 hanstay muskuraty tohfay day kar chalty banay tu mohtarama anynda zindagi kisi ngo ka hissa ban kar inee mardon ki mitti paleed karti nazar ayen gi………….!
:notlistening::praying:

محترم بھائی صاحب،
آپ ذاتیات پر بات نہ کریں تو بہتر ہو گا کہ یہ اچھی بات نہیں۔ پھر ہم تو اس مرحلے سے بہت دور ہیں، مگر بہت سی ایسی باتیں ایسی ہستیوں سے مروی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ دین کے مسائل بتانے میں شرم نہیں کرنی چاہیے۔ چنانچہ ہم آپکا احترام کریں، آپ ہمارا احترام کریں اور یہ لڑائی، فتنے فساد کی باتیں نہ کریں۔ شکریہ۔
 

مہوش علی

لائبریرین
پہلے تو آپ یہ بتائیں کہ جمہور کا قول "المراد نكاح المتعة "سے" نزلت فی جواز نکاح المتعۃ " کیسے ہوگیا۔
اگر آپ کو اعتراض ہے تو اس میں سے جواز کا لفظ نکال دیں، فرق کتنا پڑا؟ ہماری بات کی بال کی کھال تو باسم بھائی آپ نے اتار دی، مگر صحابہ و تابعین و جمہور سلف تو پھر بھی یہی گواہی دے رہے کہ اس آیت سے مراد عقد المتعہ ہے، جبکہ آپکے آجکل کے بھائی لوگ اپنی تفاسیر کے لاکھوں صفحات اس بات پر کالے کر رہے ہیں کہ یہ آیت عقد المتعہ کو حرام کر رہی ہے۔ کچھ اس اصل مسئلے کا بھی تذکرہ کر دیتے تو بہتر ہوتا۔

اور سورۃ النساء کی آیت کی تفسیر میں دوسری غلطی کی نشاندہی میں آپ نے خود کیسی فاش غلطی کی ہے

اور اس کی بنیاد پر کی گئی دھواں دار تقریر کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے ،
اس لفظ کے بیان کردہ مفہوم کو لفظ کے مطابق کرنے کی کوشش کی جائے تو ایک دلچسپ لطیفہ بن جاتا ہے۔
"ایسے بیگم دار مرد جو اپنی بیوی کے حصارِ نکاح میں ہیں اور دوسری عورتوں کو پاس نہیں آنے دیتے اور یوں عفیف و پاکدامن ہیں"

میں آپکا مطلب پھر بھی نہیں سمجھ سکی ہوں۔ اگر آپکو اس سے اختلاف ہے یا آپ کو اس میں کوئی غلطی نظر آتی ہے تو آپ صحیح چیز پیش کر دیں۔۔۔ نیز یہ بھی فرما دیں اس سے یہ آیت آپکے زعم کے مطابق عقد المتعہ کو کیونکر حرام قرار دے رہی ہے۔

آپ سے اوپر دو سوالات کیے تھے:
1۔ کیا آپ اس بات کے قائل ہیں کہ کوئی روایت اس قابل ہے کہ وہ قرآن کی آیت کو منسوخ کر دے؟

2۔ اور پھر دوسرا اعتراض آجکے اہلسنت و اہلحدیث علماء پر جنہوں نے اپنی تفاسیر کے لاکھوں صفحات کالے کر دیے منکر حدیث روش پر چلتے ہوئے، کہ وہ اپنے دلائل پیش کریں کہ سورۃ النساء کی یہ آیت عقد المتعہ کو حرام قرار دے رہی ہے۔ جس طرح اس آیت مبارکہ کے ساتھ منکر حدیث روش پر چلتے ہوئے کھلواڑ کیا گیا ہے، اس گمراہی کا تدارک کیسے ہو گا؟
 

S. H. Naqvi

محفلین
جنابہ مہوش صاحبہ اور جناب شوکت کریم صاحب آپ دونوں میرے استدلال کا جواب کیوں نہیں دے رہے؟؟؟
اور آپ مہوش صاحبہ مولا علی کی خاموشی اور اطاعتِ سیدنا عمر کو کس خانے میں فٹ کریں گی؟؟؟ لیکن یہ بھی دیکھیے گا کہ مولا علی کے لیے "تقیہ" کی نص استعمال کرتے ہوے کہیں امام حسین کی قربانی کو اقتدار کی جنگ نا ثابت کر بیٹھیں؟؟؟
 

S. H. Naqvi

محفلین
[چQUOTE=S. H. Naqvi;616303]جنابہ مہوش صاحبہ اور جناب شوکت کریم صاحب آپ دونوں میرے استدلال کا جواب کیوں نہیں دے رہے؟؟؟
اور آپ مہوش صاحبہ مولا علی کی خاموشی اور اطاعتِ سیدنا عمر کو کس خانے میں فٹ کریں گی؟؟؟ لیکن یہ بھی دیکھیے گا کہ مولا علی کے لیے "تقیہ" کی نص استعمال کرتے ہوے کہیں امام حسین کی قربانی کو اقتدار کی جنگ نا ثابت کر بیٹھیں؟؟؟[/QUOTE]
چلیں جی لڑائی نہیں کرتے بری بات ہے آپ میرے اوپر والے سوال کا جواب مرحمت فرما دیں تو خادم مشکور ہو گا ساتھ ھی یہ مولا علی اور امام حسین علیہ سلام کے کردار اور تضادِ کردار کو بھی واضح کر دیں تو خادم اور زیادہ بارِ احسان ہوگا؟؟؟؟
 
ش

شوکت کریم

مہمان
جنابہ مہوش صاحبہ اور جناب شوکت کریم صاحب آپ دونوں میرے استدلال کا جواب کیوں نہیں دے رہے؟؟؟
اور آپ مہوش صاحبہ مولا علی کی خاموشی اور اطاعتِ سیدنا عمر کو کس خانے میں فٹ کریں گی؟؟؟ لیکن یہ بھی دیکھیے گا کہ مولا علی کے لیے "تقیہ" کی نص استعمال کرتے ہوے کہیں امام حسین کی قربانی کو اقتدار کی جنگ نا ثابت کر بیٹھیں؟؟؟

محترم نقوی صاحب یہ جو آپ یکایک محفل میں‌ کود پڑے ہیں تو ذرا صبر سے کام لیجئے ۔۔۔۔۔ یہ حسن نثار کا چورایا تو ہے نہیں ۔۔ اردو محفل ہے تو جیسے اردو نستعلیق ہے ایسے ہی محفل بھی نستعلیق ۔۔۔۔۔

پوسٹ کرتے جائے اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ یہ بحث چودہ سو سالہ جنگ کا خاتمہ کر دے گی تو یہ غلط ہے ؟؟؟ اپنے اپنے دلائل دیجئے ؟؟؟ غصہ نہیں ، ذاتیات نہیں ، جلدی نہیں۔
 
ش

شوکت کریم

مہمان
اب آپ سے کاؤنٹر سوال کہ آپ لوگوں کا تو دعوی ہے کہ عقد المتعہ تو عرب سوسائیٹی میں جاری و ساری تھا اور یہ بعد میں جا کر حرام ہوا، تو پھر صحابہ کو کس چیز نے روکا ہوا تھا کہ وہ عقد متعہ نہ کرتے اور رسول کے حکم کا انتظار کرتے؟
چنانچہ اس روایت سے ہمیں نہیں پتا چلتا کہ کیا وجہ تھی کہ صحابہ نے عقد المتعہ کیوں نہیں کیا تھا، مگر ایک بات بہت واضح ہے کہ رسول اللہ ص نے بذات خود ایسے حالات میں عقد المتعہ کی "حوصلہ افزائی" کی بلکہ حکم دیا اور یہ کہہ کر حکم دیا کہ یہ پاکیزہ طیبات و حلال چیزوں میں سے ہے اور اسے اپنے اوپر حرام نہ کرو۔

محترمہ مہوش صاحبہ نہ تو میں غصے میں ہوں‌ اور نہ ہی ضدپکڑی ہوئی ہے۔ ابھی بات چل رہی ہے دلائل دیئے جا رہے ہیں عقلی گھوڑے اور نقلی گھوڑے دوڑائے جا رہے ہیں۔ اور میں کیوں‌ غصہ کروں آپ کو حق ہے اپنے موقف کے حق میں‌ دلائل دینے کا اور وہ آپ بہت خوبی سے دے رہی ہیں۔

اب رہا کاونٹر سوال تو جواب ھی سوال ہی میں‌ ہے ؟؟؟

ایک چیز پہلے سے دور جاہلیت کی نشانی تھی ۔۔۔ جب معاشرے میں‌ نبوی انقلاب آیا تو وہ لوگ مخمصے میں پڑھ گئے کہ پتہ نہیں‌اب اس چیز کے بارے میں کیا حکم ہے ۔۔۔۔۔۔۔ یہ تھی سوال کرنے کی وجہ ۔

اور دوسرا جواب " مگر ایک بات بہت واضح ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بذات خود ایسے حالات میں‌عقد المتعہ کی حوصلہ افزائی کی"

تو کیا اب ویسے حالات ہیں ؟؟؟ یقین جانئے اب ویسے حالات قیامت تک نہیں‌ ہو سکتے کیونکہ وہ دور اندھیرے کا تھا، آفتاب نبوت کے طلوع ہونے کے بعد قیامت تک ویسے حالات نہیں‌ آ سکتے۔

ذرا غور کریں اس دور کا کہ جس دور میں آفتاب نبوت طلوع ہوا تھا ۔۔۔۔۔ میں صرف ایک بات بیان کروں گا جس سے اہل دل خوب سمجھ لیں‌ گے کہ وہ خاص‌حالات کیا تھے اور اس میں وقتی اجازت کیوں‌ دی گئی۔ اور یہ حدیث‌یہ واضح بتا رہی ہے کہ یہ طے شدہ بات نہیں تھی طے شدہ ہوتی تو کوئی سوال نہ کرتا اور نہ کوئی جواب دیتا۔

اس دور ظلمت کے بارے میں اس چیز سے تصور کیجئے کہ وہ لوگ اپنی بیٹیوں کو زندہ گاڑ دیا کرتے تھے۔ ذرا سوچئے کیسے دل تھے انکے ؟؟؟ کسیے رواج تھے انکے ؟؟؟ کتنی ظلمت تھی ان کے دلوں میں ؟؟؟

ایسے لوگوں کو اس قابل بنانا کہ وہ دنیا کی راہنمائی کریں کوئی آسان تھا۔ تو یہ سب درجہ بدرجہ ہوا آہستہ آہستہ کالے پتھروں کو تراش خراش کر کے ہیروں کی شکل دی گئی ؟؟؟

اور پھر قربان جائیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت پر کہ انہی میں میں سے ایک جسے تاریخ ظالم حکمران کے لقب سے یاد کرتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک دور دراز کے علاقے سے مسلمان بیٹی کی آواز سنتا ہے "یا حجاجا" اور پھر اپنے جواں‌ سال بھتیجے کو بھیجتا ہے اسی بیٹی کی پکار کے جواب میں ؟؟؟؟

تو ان شاء اللہ نہ وہ دور ظلمت اب کبھی واپس آئے گا اور نہ وہ بیٹیوں کو زندہ گاڑنے والے لوگ اور نہ وہ کراہت آمیز روج اور طریقے کبھی لوٹ سکیں گے۔

اور ہمیں کوئی اعتراض‌ نہیں آپ متعہ کے مردہ گھوڑے میں جان ڈالنے کی کوشش کرتی رہیے۔ جو گھوڑا چود سو سال سے دوڑنا تو دور کی بات چل نہیں سکا اب کیا چلے گا ؟؟؟

اور اب ایک کاونٹر سوال کوئی ایسا قصبہ شہر ملک بتائے ایک ماڈل بتائے کہ جہاں اس چیز کا نفاذ ہے یا تھا ؟؟؟
 

میر انیس

لائبریرین
جنابہ مہوش صاحبہ اور جناب شوکت کریم صاحب آپ دونوں میرے استدلال کا جواب کیوں نہیں دے رہے؟؟؟
اور آپ مہوش صاحبہ مولا علی کی خاموشی اور اطاعتِ سیدنا عمر کو کس خانے میں فٹ کریں گی؟؟؟ لیکن یہ بھی دیکھیے گا کہ مولا علی کے لیے "تقیہ" کی نص استعمال کرتے ہوے کہیں امام حسین کی قربانی کو اقتدار کی جنگ نا ثابت کر بیٹھیں؟؟؟

السلام علیکم
بھائی کیا ضروری ہے کہ ایک بات کا جواب عقلی دلائل اور قران اور حدیث سے نہیں دیا جاسکے تو پھر دوسری بحثیں شروع کردی جائیں محفل کے آداب کو ملحوظ خاطر رکھیں اور جس بات پر بحث ہورہی ہے اس پر اگر دلائل ہیں تو دیں ورنہ چپ سادھ لیں اور اسی طرح کی باتیں کریں جسطرح اب حسن بھائ نے کی کہ اب جواب تو ہے نہیں انکے پاس شاید مہوش بہن کے دلائل کا دفتر لے کر کسی عالم کے پاس جائیں اور پوری کوشش کر رہے ہونگے جواب دینے کی اسی لئے خاموشی سے سب برداشت کر رہے ہیں۔
مولا علی(ع) نے کیوں گوشہ نشینی اختیار کی مولا حسن نے کیوں صلح کی اور امام حسین نے کیوں جنگ کی یہ سب الگ الگ موضوع ہیں ان سب میں کئی کئی مصلحتیں پوشیدہ ہیں ۔ امام حسین کے سامنے جو مردود و لعین شخص تھا اسنے اسلام کی دھجیاں بکھیرنے کی کوششیں شروع کردی تھیں اور یہاں تک کہ گیا تھا کہ نہ تو بنی ہاشم میں کوئی نبی آیا تھا نہ ہی کوئی وہی نازل ہوئی تھی یہ تو بنی ہاشم کا ایک ڈھونگ تھا جو اسنے حکومت حاصل کرنے کے لیئے رچایا تھا ۔ اور اسکا مشہور شعر تھا کہ آئو اے گانے والیو میرے کانوں کو اپنی آواز سے پاک کردو جو نعوذو باللہ اذان کی آواز سے نجس ہوچکے ہیں۔ پھر وہ ان سب باتوں کہ باوجود اسکا اسرار تھا کہ یا تو امام علیہ السلام بیعت کریں یا پھر انکا سر کاٹ کر میرے پاس بھیج دو ۔ اب چونکہ امام حسین امامِ وقت تھے اور نبی کی عظمتوں کے انکے دین کے وارث تھے وہ بیعت تو نہیں کرسکتے تھے ہاں سر دینا انکے لیئے زیادہ آسان تھا اور اسکا وعدہ اپنے نانا سے پہلے ہی کرچکے تھے ۔
آپ حضرت عمر کو نعضو باللہ یزید جیسا سمجھ رہے ہیں ۔ مگر بہر حال وہ کوئی نبی نہیں تھے لہٰذا انسے غلطی ہوسکتی ہے اور ہوئیں بھی اور انکی بہت سی غلطیاں تاریخ کا حصہ بھی بنیں اور کئی بارمولا علی(ع) نےانکی تصحیح بھی فرمائی اور یہ جملہ کئی بار حضرت عمر(ر) کے منہ سے نکلا کہ اگر آج علی نہ ہوتے تو میں ہلاک ہوگیا ہوتا۔یا اللہ عمر(ر) کو اس مشکل تک زندہ ہی نہ رکھے جسکو حل کرنے کے لیئے علی(ع) موجود نہ ہوں بہر حال یہ ایک الگ بحث ہے اگر آپ کے پاس ٹائم ہو تو اس پر کہیں اور الگ سے بات کریں گے۔
 

S. H. Naqvi

محفلین
1۔ آہ، میری غلطی کہ میں یہ ایک بنیادی مسئلہ بیان کرنا بھول گئی کہ "کنواری دوشیزہ" سے عقد متعہ کرنا "مکروہ" ہے اور صرف انتہائی حالات کے تحت ہی ولی کی اجازت سے ایسا عقد ہو سکتا ہے۔



2۔ دوسری چیز جسے آپ پھر نظر انداز کر گئے وہ یہ ہے کہ پچھلی پوسٹ میں واضح کیا گیا تھا کہ "نکاح دائمی" کو ہر حالت میں عقد المتعہ پر فوقیت ہے اور یہ سفر یا ایسے ملتے جلتے انتہائی حالات میں ہی کیا جاتا ہے۔
LEFT]

تو جناب اگر انتہا یٔ ضرورت اور خا ص حالات میں اگر متعہ کی اجازت ہے اور افضلیت ہر حا ل میں دایٔمی نکاح کو ہے تو یہ کیا ہے؟؟؟؟؟
1z3nno6.jpg

d0jn.jpg

2r5szlx.jpg

rsgaq1.jpg



اس فضیلت کا آپ کے پاس کویٔ جواب ہے؟؟؟

از ابن حسن:
متعہ کے بارے میں جو گفتگو میں نے اوپر شروع کی ہے اس کو آپ محض ثانوی کہ کر رد نہیں کر سکتی ہیں۔ درحقیقیت آج کل کا متعہ مروجہ ایرانی متعہ ہے جو زن بازاری کی ہی ایک قسم ہے۔وہ نکاح موقت جو دور اول میں چندے رائج رہا وہ شے دیگری ہے۔۔۔۔۔۔
اب طریقہ کچھ یوں ہو گا کہ سب سے پہلے متعہ کی تعریف خود اہل تشیع کی کتب سے پیش کی جائے گی اس کے بعد جب اس متعہ کا حقیقی چہرہ سب کے سامنے آجائے گا تو اس متعہکو رد کرنا بھی آسان ہو جائے گا۔ ساتھ ساتھ ہم اس نکاح موقت کا بھی ذکر کریں گئے

تو ابنِ حسن بھا یٔ یہ کیا ہے ۔ بقول "ہم سب امید سے ہیں" کے، کیا یہ کھلا تضا د نہیں ہے؟؟؟؟

16gyah5.jpg


غور کرنے کی با ت ہے کہ یہ کون لوگ ہیں اور معاشرے کو کس طریقے سے سدھار رہے ہیں؟؟؟
 

مہوش علی

لائبریرین
محترمہ مہوش صاحبہ نہ تو میں غصے میں ہوں‌ اور نہ ہی ضدپکڑی ہوئی ہے۔ ابھی بات چل رہی ہے دلائل دیئے جا رہے ہیں عقلی گھوڑے اور نقلی گھوڑے دوڑائے جا رہے ہیں۔ اور میں کیوں‌ غصہ کروں آپ کو حق ہے اپنے موقف کے حق میں‌ دلائل دینے کا اور وہ آپ بہت خوبی سے دے رہی ہیں۔

اب رہا کاونٹر سوال تو جواب ھی سوال ہی میں‌ ہے ؟؟؟

ایک چیز پہلے سے دور جاہلیت کی نشانی تھی ۔۔۔ جب معاشرے میں‌ نبوی انقلاب آیا تو وہ لوگ مخمصے میں پڑھ گئے کہ پتہ نہیں‌اب اس چیز کے بارے میں کیا حکم ہے ۔۔۔۔۔۔۔ یہ تھی سوال کرنے کی وجہ ۔

اور دوسرا جواب " مگر ایک بات بہت واضح ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بذات خود ایسے حالات میں‌عقد المتعہ کی حوصلہ افزائی کی"

تو کیا اب ویسے حالات ہیں ؟؟؟ یقین جانئے اب ویسے حالات قیامت تک نہیں‌ ہو سکتے کیونکہ وہ دور اندھیرے کا تھا، آفتاب نبوت کے طلوع ہونے کے بعد قیامت تک ویسے حالات نہیں‌ آ سکتے۔

ذرا غور کریں اس دور کا کہ جس دور میں آفتاب نبوت طلوع ہوا تھا ۔۔۔۔۔ میں صرف ایک بات بیان کروں گا جس سے اہل دل خوب سمجھ لیں‌ گے کہ وہ خاص‌حالات کیا تھے اور اس میں وقتی اجازت کیوں‌ دی گئی۔ اور یہ حدیث‌یہ واضح بتا رہی ہے کہ یہ طے شدہ بات نہیں تھی طے شدہ ہوتی تو کوئی سوال نہ کرتا اور نہ کوئی جواب دیتا۔

اس دور ظلمت کے بارے میں اس چیز سے تصور کیجئے کہ وہ لوگ اپنی بیٹیوں کو زندہ گاڑ دیا کرتے تھے۔ ذرا سوچئے کیسے دل تھے انکے ؟؟؟ کسیے رواج تھے انکے ؟؟؟ کتنی ظلمت تھی ان کے دلوں میں ؟؟؟

ایسے لوگوں کو اس قابل بنانا کہ وہ دنیا کی راہنمائی کریں کوئی آسان تھا۔ تو یہ سب درجہ بدرجہ ہوا آہستہ آہستہ کالے پتھروں کو تراش خراش کر کے ہیروں کی شکل دی گئی ؟؟؟

اور پھر قربان جائیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت پر کہ انہی میں میں سے ایک جسے تاریخ ظالم حکمران کے لقب سے یاد کرتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک دور دراز کے علاقے سے مسلمان بیٹی کی آواز سنتا ہے "یا حجاجا" اور پھر اپنے جواں‌ سال بھتیجے کو بھیجتا ہے اسی بیٹی کی پکار کے جواب میں ؟؟؟؟

تو ان شاء اللہ نہ وہ دور ظلمت اب کبھی واپس آئے گا اور نہ وہ بیٹیوں کو زندہ گاڑنے والے لوگ اور نہ وہ کراہت آمیز روج اور طریقے کبھی لوٹ سکیں گے۔

اور ہمیں کوئی اعتراض‌ نہیں آپ متعہ کے مردہ گھوڑے میں جان ڈالنے کی کوشش کرتی رہیے۔ جو گھوڑا چود سو سال سے دوڑنا تو دور کی بات چل نہیں سکا اب کیا چلے گا ؟؟؟

اور اب ایک کاونٹر سوال کوئی ایسا قصبہ شہر ملک بتائے ایک ماڈل بتائے کہ جہاں اس چیز کا نفاذ ہے یا تھا ؟؟؟

سب سے پہلے تو اس چیز کو appreciate کروں گی کہ آپ اسلامی سپرٹ قائم رکھ کر گفتگو بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم یہاں کسی سے کچھ منوانے کے لیے بات نہیں کر رہے ہیں بلکہ فقط اپنا مؤقف بیان کر رہے ہیں تاکہ ایک دوسرے کو اور ایک دوسرے کو مؤقف کو اچھی طرح سمجھا جا سکے۔

معاشرے کے حوالے سے عقد المتعہ کی ضرورت عام حالات میں ان صحابہ کو اس لیے پیش نہیں آئی کیونکہ اسی حدیث کے مطابق انکی بیویاں تھیں اور ایسی صورت میں عقد المتعہ کو ناپسند کیا گیا ہے۔ مگر جب جہاد کے لیے نکلے تو حدیث کے مطابق بیویاں ساتھ نہ تھیں اور پھر انہیں ڈر پیدا ہوا کہ کہیں وہ گناہ نہ کر بیٹھیں۔ اسی لیے رسول اللہ ص نے عملی طور پر انہیں تعلیم دی کہ ایسے موقعوں پر اُن پاکیزہ طیبات حلال چیزوں کو اپنے اوپر حرام کرنے کی غلطی نہیں کرنی چاہیے بلکہ انکا استعمال کر کے حرام و گناہ سے بچنا چاہیے۔ رسول اللہ ص کا خود نکاح المتعہ کو پاکیزہ طیبات حلال چیزوں میں سے فرمانا بذات خود اس بات کا ثبوت ہے کہ اس نکاح المتعہ کا عہد جاہلیت سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ اللہ تعالی نے اسلامی شریعت میں خاص طور پر اسے حدود و قیود کے ساتھ پاکیزہ و حلال طریقے سے جاری کیا۔

**************
اور آپ نے حالات پر تبصرہ کیا ہے تو یہ آپ کی یکطرفہ رائے ہے۔ جبکہ ہمارے نزدیک عقد المتعہ کی ضرورت جس قدر آج کے ماڈرن زمانے میں ہے اور برائیوں کے جو mediums آج موجود ہیں ایسی بُری حالت کو کبھی ہوئی نہ تھی۔ میرے پہلے مراسلوں میں یہ تمام چیزیں تفصیل سے مذکور ہیں، مگر کسی نے ابھی تک اس پر سوچنے اور جواب دینے کی زحمت ہی نہ کی ہے کہ کیوں پھر سعودی مفتی حضرات کو آج مسیار کے فتوے جاری کرنے کی ضرورت پیش آ رہی ہے، اُن ہزاروں طالبعلموں اور لاکھوں دیگر نوجوانوں کا کیا کیا بنے گا جنہیں آج مغربی معاشرے میں اس یقین کے ساتھ بھیجا جا رہا ہے کہ وہ پانچ چھ سالوں تک فرشتوں کی طرح زندگی گذار دیں گے، جبکہ وہ یہاں ہر قسم کی برائیوں میں مصروف ہیں، حتی کہ وہ لوگ جو آجکل یہاں پاکستانی مساجد کے کرتا دھرتا بنے ہوئے ہیں، انکی جوانی میں حالتوں کے قصے ابھی تک سننے کو ملتے ہیں۔ تو معاشرے نے اس چیز سے کبوتر کی طرح آنکھیں پھیری ہوئی ہیں اور یوں ہونے والی زناکاری پر پردہ ڈال کر منافقت کا ثبوت دے رہا ہے۔
اور بہت دعوی کیا جاتا ہے کہ پاکباز عورتوں کے لیے پاکباز مرد ہیں اور زانیوں کے لیے زانی۔۔۔۔ مگر میں گواہی دیتی ہوں کہ یہاں بڑے بڑے زانی مرد حضرات ایسے ہیں جو پاکستان سے انتہائی معصوم پاکیزہ خواتین سے شادیاں کر کے لائیں ہیں اور یہ پاکباز خواتین آج ان زانی مردوں کی بیویاں ہیں۔ مگر کیا ہے کہ معاشرہ پھر دوغلا و منافق ہے۔

**************

اور اوپر آپ سے ایک کاؤنٹر سوال کیا گیا تھا کہ آپ مسلسل سورۃ النور کی آیت اور سورۃ النساء کی آیت 25 نقل کر رہے تھے کہ صبر کرو۔ اور سوال یہ تھا کہ پھر رسول اللہ ص نے ان صحابہ کو صبر کیوں نہیں کروایا بلکہ انہیں عقد المتعہ کرنے کا پھر حکم کیوں دیا تھا؟
آپکی طرف سے تو اسکا جواب نہیں آیا۔ مگر ادھر غور سے سورۃ النساء کو دیکھیں:

آیت 24: ۔۔۔۔ اس میں اللہ تعالی نکاح المتعہ کا حکم دے رہا ہے۔۔۔
آیت 25: اور جو نہ رکھتا ہو تم میں سے قدرت اس بات کی کہ نکاح کرسکے آزاد مومن عورتوں سے تو ان سے جو تمہاری مِلک میں ہوں، کنیزیں ایمان والی اور اللہ خُوب جانتا ہے تمہارے ایمان کا حال، تم سب ایک دوسرے میں سے ہو، سو نکاح کرو ان کنیزوں سے، اجازت سے ان کے مالکوں کی۔ اور ادا کرو انہیں ان کے مہر دستور کے مطابق (تاکہ وہ) قیدِ نکاح میں محفوظ رہنے والیاں ہوں۔ نہ بدکاری کرنے والیاں اور نہ چوری چھُپے یارانہ گانٹھنے والیاں۔ پھر جب وہ قیدِ نکاح میں محفوظ ہوجائیں تو اگر ارتکاب کریں بدکاری کا تو ان کے لیے ہے نصف اس سزا کا جو ہے آزاد عورتوں کے لیے مقّرر ہ سزا۔ یہ اس کے لیے ہے۔ جسے ڈر ہو بد کاری میں مُبتلا ہونے کا تم میں سے اور یہ کہ صبر سے کام لو تم۔ یہ بہتر ہے تمہارے لیے۔ اور اللہ بہت بخشنے والا، رحم فرمانے والا ہے۔

چنانچہ جب رسول اللہ ص نے صحابہ کو بجائے صبر کرنے کے نکاح المتعہ کا حکم دیا تو اسکا مطلب یہ ہے کہ:

1۔ متعہ بھی "نکاح" کی ہی ایک قسم ہے
2۔ ان آزاد خواتین سے نکاح المتعہ کا حکم آیت نمبر 24 میں آ گیا ہے۔
3۔ اسکے بعد پھر آیت 25 میں اللہ فرما رہا ہے کہ اگر تم میں آزاد عورتوں کا خرچ برداشت کرنے کی استطاعت نہیں (یعنی نہ تم ان سے نکاح دائمی کر سکتے ہو اور نہ نکاح المتعہ) تو پھر تم کنیز عورتوں سے اپنی خواہش پوری کر سکتے ہو۔
4۔ چنانچہ یہ صبر کا حکم کنیز باندیوں کے ساتھ مباشرت اور نکاح (جو بذات خود عارضی تعلق ہے) سے مخصوص ہے نہ کہ آزاد عورت سے نکاح دائمی یا نکاح المتعہ کے ساتھ، اور یہی وہ واحد وجہ نظر آتی ہے جسکی وجہ سے رسول اللہ ص نے صحابہ کو صبر کرنے کی بجائے حکم دے کر عقد المتعہ کروایا۔
 

مہوش علی

لائبریرین
نیز شوکت بھائی، آپ نے اوپر معاشرے کی بات کی تھی تو معاشرے میں 1400 سو سال سے زناکاری ہوتے دیکھی۔ اور معاشرے کے حوالے سے آپکو جو بھی نظریہ ہو، بہرحال ہمارا نظریہ وہی ہے جو مولا علی علیہ السلام کا تھا کہ اگر عقد المتعہ سے حضرت عمر منع نہ کر دیتے تو کوئی زنا نہ کرتا سوائے شقی القلب شخص کے۔ ۔۔۔۔ اور آج مغرب میں آ کر آپ ان ہزاروں لاکھوں مسلمانوں کو کھلی زناکاری کرتے دیکھیں گے تو آپ خود مولا علی علیہ السلام کے قول پر ایمان لے آئیں گے۔ کوئی مانے یا نا مانے، کوئی آنکھیں کھولے یا نہ کھولے، کسی کے لب گواہی کے کھلیں یا وہ انہیں سلا رکھے، مگر یہ ایسی بڑی حقیقت ہے کہ آج کے مغربی ماحول میں گناہ سے بچنے کے لیے سوائے عقد المتعہ کے کوئی اور چارہ ہی نہیں ہے۔۔۔
اب چاہے کوئی اس عظیم بے حیائی پر چپ سادھے رکھے، یا کوئی مسیار کے پردے گرانے کی کوشش کرے، مگر یہ وہ حقیقت ہے جس سے کوئی فرار حاصل نہ کر سکے گا۔
 

مہوش علی

لائبریرین
نقوی بھائی صاحب،
آپ نے بار بار حضرت عمر کا سوال اٹھایا ہے۔ میں اس پر انصاف کے ساتھ گفتگو تو وقت اور مقام آنے پر ہی کروں گی، مگر آپ کو اگر اس معاملے میں غور و فکر کرنی ہی ہے تو اس سوال سے شروع کریں۔

حدثنا ‏ ‏مسدد ‏ ‏حدثنا ‏ ‏يحيى ‏ ‏عن ‏ ‏عمران أبي بكر ‏ ‏حدثنا ‏ ‏أبو رجاء ‏ ‏عن ‏ ‏عمران بن حصين ‏ ‏رضي الله عنهما ‏ ‏قال ‏
أنزلت ‏ ‏آية المتعة ‏ ‏في كتاب الله ففعلناها مع رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏ولم ينزل قرآن يحرمه ولم ينه عنها حتى مات قال ‏ ‏رجل ‏ ‏برأيه ما شاء ‏‏[صحیح بخاری لنک ]
ترجمہ:
صحابی عمران بن حصین کہتے ہیں
:"آیت متعہ قرآن میں نازل ہوئی اور ہم رسول اللہ ص کے عہد میں متعہ کرتے تھے اور قرآن میں اسکے بعد کچھ اور نازل نہیں ہوا جو اس کی ممانعت کرتا اور نہ ہی رسول اللہ ص نے اسکی ممانعت کی حتی کہ آپ ص کا انتقال ہو گیا۔ مگر اسکے بعد ایک شخص نے اپنی مرضی سے جو چاہا وہ کہا۔

آپ اس صحابی کی گواہی مانتے ہیں یا نہیں؟
زیادہ سے زیادہ اعتراض یہ ہے کہ یہ روایت متعہ النساء کے لیے نہیں، بلکہ متعہ الحج کے لیے ہے۔ تو چلیں یہ ہی سہی، ہر دو صورت میں الزام اپنی جگہ قائم ہے کہ قرآنی حکم، قرآنی آیت کے خلاف کام کیا گیا ہے۔ ذرا دکھائیے تو اس پر کون سا ردعمل سامنے آیا؟
 

S. H. Naqvi

محفلین
نقوی بھائی صاحب،
آپ نے بار بار حضرت عمر کا سوال اٹھایا ہے۔ میں اس پر انصاف کے ساتھ گفتگو تو وقت اور مقام آنے پر ہی کروں گی، مگر آپ کو اگر اس معاملے میں غور و فکر کرنی ہی ہے تو اس سوال سے شروع کریں۔

حدثنا ‏ ‏مسدد ‏ ‏حدثنا ‏ ‏يحيى ‏ ‏عن ‏ ‏عمران أبي بكر ‏ ‏حدثنا ‏ ‏أبو رجاء ‏ ‏عن ‏ ‏عمران بن حصين ‏ ‏رضي الله عنهما ‏ ‏قال ‏
أنزلت ‏ ‏آية المتعة ‏ ‏في كتاب الله ففعلناها مع رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏ولم ينزل قرآن يحرمه ولم ينه عنها حتى مات قال ‏ ‏رجل ‏ ‏برأيه ما شاء ‏‏[صحیح بخاری لنک ]
ترجمہ:
صحابی عمران بن حصین کہتے ہیں
:"آیت متعہ قرآن میں نازل ہوئی اور ہم رسول اللہ ص کے عہد میں متعہ کرتے تھے اور قرآن میں اسکے بعد کچھ اور نازل نہیں ہوا جو اس کی ممانعت کرتا اور نہ ہی رسول اللہ ص نے اسکی ممانعت کی حتی کہ آپ ص کا انتقال ہو گیا۔ مگر اسکے بعد ایک شخص نے اپنی مرضی سے جو چاہا وہ کہا۔

آپ اس صحابی کی گواہی مانتے ہیں یا نہیں؟
زیادہ سے زیادہ اعتراض یہ ہے کہ یہ روایت متعہ النساء کے لیے نہیں، بلکہ متعہ الحج کے لیے ہے۔ تو چلیں یہ ہی سہی، ہر دو صورت میں الزام اپنی جگہ قائم ہے کہ قرآنی حکم، قرآنی آیت کے خلاف کام کیا گیا ہے۔ ذرا دکھائیے تو اس پر کون سا ردعمل سامنے آیا؟

محترمہ شا ید آپ میرا سوال سمھجی نہیں یا سمجھ کر الجھا دیا، مییں اس صحابی کو سچا مان لیتا ہون لیکین میری عرض تو اتنی سی ہے کہ جب بہ حدیث "حق علی کے ساتھ ہے اور علی حق کے ساتھ ہے" تو علی نے عمر کے احکامات اور روأج کو جھٹلا ہا کیو ں نہیں؟ اور اس "متضادِ شریعت" حکم کو رد کیوں نہیں کیا؟
اور اگر میری اٹیچڈ پکچر شو نہیں ہو رہیں تو براہ مہربانی
url کاپی کر کے انیھیں ویو کریں اور دیکھیں کے " احبا ب" متعہ کے نام پر آج کل کیا گل کھلا رہے ہیں؟؟؟؟

اور انیس صاحب نے میرے سوال کو گھوما پھرا کے الجھا دیا مگر میرے سوال کی اصل روح کو ایک بہت برا سہارا دے دیا کہ "
اصل پيغام ارسال کردہ از: میر انیس:
انکی بہت سی غلطیاں تاریخ کا حصہ بھی بنیں اور کئی بارمولا علی(ع) نےانکی تصحیح بھی فرمائی اور یہ جملہ کئی بار حضرت عمر(ر) کے منہ سے نکلا کہ اگر آج علی نہ ہوتے تو میں ہلاک ہوگیا ہوتا۔یا اللہ عمر(ر) کو اس مشکل تک زندہ ہی نہ رکھے جسکو حل کرنے کے لیئے علی(ع) موجود نہ ہوں

تو میر انیس صاحب " عقلی دلیل " اس سے بڑی کو یٔ ہو تو بتا ٔیں، کہ جس کا "مشیر" مولا علی شیر خدا ہو جو کہ علم کا دروازہ اور "حق" ہے، اور عمر بقول آپ کے ہر کام انہیں کے مشورے سے کرتے تھے تو کیا وہ عمر فاروق کویٔ غلط فیصلہ کر سکتے ہیں؟؟؟؟ روایتوں میں نا الجھا ٔیں اس کا دو ٹوک جواب دیں۔
اور اگر پا لفرضِ اگر یہ حکم مولا علی کی مشا ورت کے بغیر کیا گیا تو مولا علی نے اپنے دور خلافت میں اسے دوبارہ بحال کیو ں نہیں کیا؟؟ جیسا کہ کثیر روأتیں با غ فد ک کو اجتہادی غلطی اسی وجہ سے مانتی ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز نے اسے "واپس" لو ٹا یا۔
 
ش

شوکت کریم

مہمان
بقول آپ کے آج کل معاشرے میں زنا کا چلن عام ہے اور اسکی وجہ متعہ کی پابندی ہونا ہے ؟؟؟

مگر ہم دیکھتے ہیں کہ یورپ و امریکہ میں جہاں کنٹریکٹ میرج وقتی طور پر اسے متعہ کی دوسری شکل سمجھ لیں عام ہے مگر کیا وہاں کوئی زنا نہیں‌ ہوتا ؟؟؟؟ حیرانگی کی بات ہے ان معاشروں میں‌ زنا سب سے زیادہ ہے اور پھر زنا کے بھی درجات زنا بالجبر ، اجتماعی زنا، اور نہ جانے کیا تفصیل اہل دل خوب جانتے ہیں ؟؟؟

یہ مسئلے کا حل نہیں اور حل ہے تو خوف آخرت ، جوابدہی کا خوف ، اللہ سبحان و تعالیٰ قرآن کریم میں مومنین کی صفات بیان کرتے ہیں ۔

اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ 23 المؤمنون 5

مومن مردوں سے کہدو کہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں۔ یہ انکے لئے بڑی پاکیزگی کی بات ہے اور جو کام یہ کرتے ہیں اللہ ان سے خبردار ہے۔ 24 النور 30

اور مومن عورتوں سے کہدو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش یعنی زیور کے مقامات کو ظاہر نہ ہونے دیا کریں مگر جو اس میں سے کھلا رہتا ہو۔ اور اپنے سینوں پر اوڑھنیاں اوڑھے رہا کریں اور اپنے خاوند اور باپ اور خسر اور بیٹوں اور خاوند کے بیٹوں اور بھائیوں اور بھتیجوں اور بھانجوں اور اپنی جیسی مومن عورتوں اور لونڈی غلاموں کے سوا نیز ان خدام کے جو عورتوں کی خواہش نہ رکھیں یا ایسے لڑکوں کے جو عورتوں کے پردے کی چیزوں سے واقف نہ ہوں غرض ان لوگوں کے سوا کسی پر اپنی زینت اور سنگھار کے مقامات کو ظاہر نہ ہونے دیں۔ اور اپنے پاؤں ایسے طور سے زمین پر نہ ماریں کہ جھنکار کانوں میں پہنچے اور ان کا پوشیدہ زیور معلوم ہو جائے اور مومنو سب اللہ کے آگے توبہ کرو تاکہ فلاح پاؤ۔ 24 النور 31

اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے مرد اور کثرت سے یاد کرنے والی عورتیں کچھ شک نہیں کہ انکے لئے اللہ نے بخشش اور اجر عظیم تیار کر رکھا ہے۔ 33 الاحزاب 35

تو جس کو یقین ہے کہ وہ اللہ کے حضور پیش ہو گا ، وہ کبھی زنا کے نزدیک نہیں‌ پٹھکے گا۔

اور فرض کریں ایک 18 سال کا لڑکا پڑھنے کے لئے امریکہ گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور فرض کریں اسے اپنے مقصد حقیقی کا بھی علم نہیں کہ وہ وہاں پانچ سال کے لئے حصول علم کے لئے گیا ہے اور عیاشی کے لئے نہیں۔۔۔۔۔۔۔ وہ متعہ کرنا چاہتا ہے تو وہ وہاں کنواری سے تو متعہ کر سکتا نہیں‌ کہ مکروہ ہے اور کون عقل کا اندھا اپنی باکرہ بیٹی ، بہن کو کسی کی وقتی جنسی تسکین کے لئے دے کر ساری عمر کا روگ پالے گا۔

لا محالہ اسے مطلقہ بیوہ ڈھونڈنی پڑے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ظاہر ہے وہ عمر میں اس سے بہت بڑی ہو گی اور تجربے میں بھی اور عرصہ پانچ سال میں وہ وقفے وقفے سے متعہ کرتا ہے تو نوجوان تعلیم تو کیا حاصل کرے گا نئے نئے روگ ساتھ لگا کر عقد دائمی سے بھی رہ جائے گا۔

اس عرصے کے دوران طبی نقطہ نگاہ سے دیکھیں‌ تو اس کا حشر کیا ہوگا۔ اور روحانی طور پر تو چھوڑیں۔

اور یقین رکھیں ما شا اللہ محفل میں موجود سب اراکین اعلٰی پڑھے لکھے ہیں اور یہ بات مشاہدے کی ہے کہ اعلٰی تعلیم وہی لوگ حاصل کرتے ہیں جنکے ذہن پر صرف تعلیم ہی سوار ہوتی ہے۔

دوسرے لفظوں میں جن لوگوں کے ذہنوں میں‌ اعلیٰ و ارفع مقاصد ہوتے ہیں وہ ان چھوٹی موٹی چیزوں پر توجہ نہیں‌دیتے اور نہ ہی کسی قسم کی ترغیب ان کو انکے مقاصد سے ہٹا سکتی ہے۔

اور جس کا مقص ہی نار جہنم بننا ہو اس کا تو کوئی حل نہیں اس کا آپ جتنی آسانی فراہم کریں گے وہ اور مانگے گا ؟؟؟

اور آپ نے ابھی تک وہ ماڈل بتایا نہیں کہ جہاں متعہ رائج تھا یا ہے اور وہاں امن ہی امن ہے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top