نکاح المتعہ کا تعارف (حصہ دوم)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

باذوق

محفلین
باذوق بھائی،
فقہ اکیڈمی کا فتوی پیش کرنا میری ذمہ داری نہیں اور نہ ہی بن شیخ بن باز اور انکی مستقل فتوی کمیٹی کے اس فتوے کے دفاع کی ذمہ داری میری ہے۔۔۔ بلکہ میرا بنیادی موضوع عقد المتعہ ہے اور میں تو ابتک اپنے اس بنیادی موضوع کے متعلق نصوص و دلائل کا چوتھائی حصہ بھی نہیں پیش کر پائی ہوں۔

اور اگر آپ شیخ بن باز اور مستقل کمیٹی کے مسیار شادی کے فتوے سے متفق نہیں تو یہ آپکا حق تھا کہ فقہ اکیڈمی کا فتوی پیش کرتے۔

بہرحال، آپکی ذمہ داری فقط فقہ اکیڈمی کے اس فتوے کو پیش کرنے کے بعد ختم نہیں ہو گئی ہے، بلکہ اگلے یہ سوالات آپکے منتظر ہیں:

۔ کیا اب آپ کھل کر مسیار شادی کو زناکاری کہتے ہیں؟
۔ جو سعودی حضرات اس مسیار شادی میں ملوث ہیں، کیا ان کو آپ سنگسار کریں گے (یا پھر جو بھی اسکی سزا ہے وہ ان پر جاری کریں گے)؟
۔ یا پھر شیخ بن باز، سعودیہ کی مستقل فتوی کمیٹی، اور ان مسیار شادی کرنے والے حضرات پر "اختلاف رائے"، "اجتہادی غلطی" وغیرہ جیسی چیزوں کے نام پر کوئی حد جاری نہیں کریں گے؟
[سعودیہ میں ابھی تک ایسی کسی حد کو جاری ہوتے میں نے نہیں سنا ہے]
۔ "اختلاف رائے" اور "اجتہادی غلطی" جیسی اصطلاحات کو آپ فقط شیخ ابن باز اور مستقل فتوی کمیٹی تک محدود رکھتے ہیں، یا پھر آپ اُن صحابہ کو بھی "اختلاف رائے" اور "اجتہادی غلطی" کا حق دیں گے جو عقد متعہ کو جائز و حلال جانتے تھے؟ اور پھر ان صحابہ سے آگے بڑھ کر اگر یہ بات اہل تشیع فقہ تک جائے تو کیا پھر بھی یہ "اختلاف رائے" کا حق اور "اجتہادی غلطی" کا "سنگل اجر" جاری رہے گا یا پھر یہاں یہ چیز بدکاری اور قابل حد بن جائے گی؟
جو سوالات آپ نے مجھ سے کئے ہیں ۔۔۔۔ اس کا ایک بہت آسان سا جواب یہ ہے کہ :
دین میں نہ آپ کے خیال کی اہمیت ہے اور نہ ہی میرے خیال کی۔ فتاویٰ / فیصلے / اجتہاد ۔۔۔ متعلقہ میدان کے ماہرین کی ذمہ داری ہے !!
صحیح مسلم کی یہ ساری روایات میں کئی بار پڑھ چکی ہوں، اور وقت اور موقع آنے پر ان سب پر تفصیلی جرح بیان کروں گی اور آپ دیکھیں گے یہ یہ صحیح کہلائے جانے والی رویات خود ایک دوسرے کے متضاد ہیں اور ایک دوسرے کا رد کر رہی ہیں اور یہ ممکن نہیں کہ ایک ہی وقت میں یہ سب کی سب صحیح مانیں جائیں۔ ان میں سے زیادہ سے زیادہ ایک صحیح ہو سکتی ہے، یا پھر دوسری آپشن یہ ہے کہ یہ سب کی سب غلط گھڑی ہوئی روایات ہیں، اور اسکی وجہ یہ ہے کہ صحیح احادیث کا ایک مکمل مجموعہ ایسا ہے جو مل کر ان آپس کی متضاد روایات کا رد کرتا ہے۔
امید ہے کہ خود کی ذاتی تاویلات و تشریحات کے بجائے صحیح مسلم کی احادیث پر " تفصیلی جرح " اہل سنت کے ائمہ محدثین کے قائم کردہ علومِ حدیث کے اصول و ضوابط کی روشنی میں مستند حوالوں کے ساتھ پیش فرمائیں گی۔
انتظار رہے گا۔
 

مہوش علی

لائبریرین
از ابن حسن:
متعہ کے بارے میں جو گفتگو میں نے اوپر شروع کی ہے اس کو آپ محض ثانوی کہ کر رد نہیں کر سکتی ہیں۔ درحقیقیت آج کل کا متعہ مروجہ ایرانی متعہ ہے جو زن بازاری کی ہی ایک قسم ہے۔ وہ نکاح موقت جو دور اول میں چندے رائج رہا وہ شے دیگری ہے۔۔۔۔۔۔
اب طریقہ کچھ یوں ہو گا کہ سب سے پہلے متعہ کی تعریف خود اہل تشیع کی کتب سے پیش کی جائے گی اس کے بعد جب اس متعہ کا حقیقی چہرہ سب کے سامنے آجائے گا تو اس متعہ کو رد کرنا بھی آسان ہو جائے گا۔ ساتھ ساتھ ہم اس نکاح موقت کا بھی ذکر کریں گئے ۔

ابن حسن، کیا آپ کو احساس ہوا ہے کہ آپکا رویہ اور مقصد " متفق علیہ اسلامی احکام و مسائل" کو سمجھنے کی بحث کرنے کی بجائے "تعصب زدہ اور فرقہ پرستی کو فوقیت دینا ہے"؟
اسی لیے بات کو سہل بنانے کی بجائے اب آپ دو دو بحثوں کو ساتھ ساتھ چلانا چاہتے ہیں اور اس چیز کی آپکو پرواہ نہیں کہ اس طرح مختلف بحوث کو آپس میں الجھانے سے انسان صرف مزید الجھتا ہی چلا جائے گا اور کسی ایک موضوع سے بھی انصاف نہیں کر پائے گا۔ بہرحال پھر بھی شکر ہے کہ کم از کم اس دفعہ آپکے منہ سے ابن عباس والے نکاح متعہ کا نام تو زبان سے نکلا، ورنہ پہلے تو آپکے مراسلے فقط اہل تشیع کے متعہ کے متعلق ایسے ثانوی مسائل کے گرد گھوم رہے تھے جن کا عقد متعہ کے حلال و حرام کی بحث سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

یہ اوپن ڈسکشن فورم ہے، اور کوئی آپ کو مجبور نہیں کر سکتا کہ آپ الٹی دوڑ نہ لگائیں۔ کیسی احمقانہ بات ہے کہ عقد متعہ کو تو مانا نہ جائے، مگر اسکے فضائل کی بحث شروع کر دی جائے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسا میں نے اوپر بیان کیا کہ Atheist آپ سے کہے کہ مجھے جنت و دوزخ ثابت کرو اور پھر ان میں عذاب و ثواب ثابت کرو،مگر کسی صورت اس بات پر راضی نہ ہوتا ہو کہ پہلے اللہ کے وجود کے ثبوت پر بحث کرے۔ بلکہ آپ کا کیس تو اس Atheist سے بھی گیا گذرا ہے کیونکہ آپ شیعہ عقد متعہ پر پھبتیاں کس کر لوگوں کی توجہ اصل مسئلے سے ہٹانا چاہتے ہیں۔
بہرحال، اللہ آپ کو ہدایت دے۔ آپ اصل بات چھوڑ کر الزامات و اعتراضات پر لگ جانا چاہتے تو لگے رہیں کہ یہ سب کچھ تو پہلے سے ہی ہمارے خلاف بڑے پیمانے پر پروپیگنڈہ کی صورت میں موجود ہے۔ مگر اس فورم ، اس محفل کا شکریہ کہ یہ ہمیں موقع فراہم کرے گا کہ ہم آہستہ آہستہ اللہ کی مدد سے چلتے ہوئے ہر جھوٹے الزام، ہر جھوٹے بہتان کا رد کرتے رہیں اور ہمیں پہلی مرتبہ موقع میسر آئے کہ اپنے مؤقف کو کھل کر بیان کر سکیں۔ شکر الحمدللہ۔
 

مہوش علی

لائبریرین
ابو عثمان بھائی،
میں نے آپ سے گذارش کی تھی کہ آپ جذباتی نہ ہوں اور فریق مخالف کو پورا پورا موقع دیں کہ وہ اپنا مؤقف بیان کر سکے تاکہ انصاف ہو سکے۔ بہرحال "آگے دوڑ، پیچھے چھوڑ" کے مصادق آپ نے بس آگے ہی دوڑ لگائی ہوئی ہے اور آپکی پچھلی باتوں کو جو میں نے اتنا وقت لگا کر جواب دیا ہے، تو اس پر توجہ دینے کے لیے آپ بالکل تیار نہیں اور نہ ہی اس دوران پیدا ہونے والے میرے کسی کاؤنٹر سوال کا جواب دے رہے ہیں (اور ایک آپ ہی کیا، میرے اٹھائے گئے تقریبا تمام سوالات پیچھے تشنہ ہیں اور آپ حضرات کا سار زور فقط الزامات و اعتراضات کی بارش کرنے پر ہے)۔

اور آپ نے اب جو اعتراضات کی نئی فہرست پیش کی ہے، تو وہ میرے لیے نئی نہیں۔ افسوس یہ ہے کہ آپ ابن عباس کے متفق علیہ عقد متعہ کے حلال و حرام ہونے کی بحث کو اٹھا کر فرقہ واریت کے زمرے میں لے گئے ہیں، حالانکہ قرآن ہمیں بات کرنے اور مناظرہ کرنے کے احسن طریقے کا مطالبہ کر رہا ہے۔

بہرحال، اللہ آپ کو ہدایت دے، اور میں وقت اور موقع آنے پر (جو کہ میرے نزدیک حلال و حرام کی بحث کے بعدآئے گا) آپ کے ان اعتراضات کا جواب دوں گی۔ آپ فقط کچھ صبر و حوصلے سے کام لیں اور مراسلوں میں غصیلے پن سے احتراز کریں۔

البتہ میرا خیال ہے کہ آپ کے ان نئے اعتراضات کی لسٹ میں سے "عقد متعہ و نکاح میں گواہوں کے لزوم" کے متعلق پہلے معاملات صاف کر دوں کیونکہ یہ چیز عقد متعہ کی بنیادی ضرورتوں میں سے ہے۔ بقیہ عدت و محارم وغیرہ کے متعلق میں پہلے ہی غلط فہمیاں دور کر چکی ہوں۔ چنانچہ اس گواہوں کے مسئلے پر غلط فہمیاں دور کرنے کے بعد میں حلال و حرام کے مسئلے کی طرف آ جاؤں گی۔ انشاء اللہ۔
 

مہوش علی

لائبریرین
گرافک بھیا کی عبارت کے ساتھ بددیانتی و خیانت

از گرافک بھیا:
۔۔۔۔لیکن عصر حاضر کے کلینی یعنی ''آیت اﷲخمینی '' نے بدکار اور فاحشہ عورتوں کے ساتھ زنا کرنے کی ترغیب دی ہے ۔ (تحریر الوسیلۃ ،آیت اﷲ خمینی ۔ج٢ص ٣٩٠)
ابن حسن صاحب کو باوجود مکمل حوالہ ہونے کے یہ بددیانتی نظر نہیں آتی۔ بہرحال شکر ہے کہ انہوں ترجمہ دے دیا ہے جس کے بعد گرافک بھیا شاید شرم کر جائیں۔
ابن حسن کا ترجمہ:
زانیہ عورت کے ساتھ متعہ کرنا جائز ہے مگر کراہت کے ساتھ۔خصوصا جبکہ وہ مشہور پیشہ ورزانیہ میں سے ہو۔اگر اس کے ساتھ متعہ کرے تو مرد کو چاہیےکہ اس کو بدکاری سے منع کرے۔

ابن حسن صاحب، کیا آپ کو "ترغیب" اور "کراہت" میں فرق نظر آتا ہے؟ اگر ہاِں، تو بیان کیوں نہیں کیا؟

اور گرافک بھیا کو میں اور کیا کہوں ۔۔۔۔۔ بس اللہ انہیں ہدایت دے۔

بلکہ قصور گرافک بھیا کے ساتھ ساتھ اس پورے متعصبی شریر گروہ کا ہے جو ایسی ہی بددیانتی و خیانت کے Tactics استعمال کر کے دوسروں کے خلاف نفرتیں پھیلانا چاہتا ہے۔ یہ لنک دیکھئے۔ یہ باذوق بھائی کے فورم کا ہے جس میں یہی بددیانت عبارت نفرت پھیلانے کے لیے نقل کی گئی ہے، اور گرافک بھیا نے تو فقط اسے یہاں کاپی پیسٹ کر دیا ہے۔
اور اصل میں یہ بددیانتی اس اہلحدیث عالم نے کی ہے جس نے اہل تشیع کے خلاف یہ کتابچہ شائع کروایا تھا:
(ڈاکٹر ابوعدنان سہیل)
بہٹیری ،ضلع :بریلی یوپی( انڈیا)


*********************

اسلام میں زانیہ سے نکاح کے حکم کی تحقیق

آئیے اب اصل مسئلے کی طرف آتے ہیں کہ اسلام میں زانیہ سے نکاح یا متعہ کا کیا حکم ہے۔ بہتر ہوتا کہ ہم اسے ایک اسلامی معاشرے کا مسئلہ سمجھ کر حل کرتے، مگر افسوس کہ چند حضرات اس گفتگو کو کھینچ کر عین فرقہ واریت کے دائرے کے درمیان لے آئے ہیں۔

اہل تشیع علماء کا مؤقف:

اہل تشیع علماء بنیادی طور پر اسکے مخالف ہیں، اور اگر اجازت ہے تو وہ صرف خاص حالات اور خاص شرائط کے ساتھ ہیں، اور مقصد بنیادی طور پر معاشرے سے برائی کو ختم کرنا ہے۔
مثال کے طور پر ذیل کی روایت مکمل طور پر زانیہ عورت سے کسی بھی قسم کے تعلقات کی نفی کر رہی ہے (چاہے نکاح سے ہو یا متعہ سے)۔

[ARABIC]علي بن إبراهيم، عن محمد بن عيسى، عن يونس، عن محمد بن الفضيل قال: سألت أبا الحسن (عليه السلام) عن المرأة الحسناء الفاجرة هل يجوز للرجل أن يتمتع منها يوما أو أكثر؟ فقال: إذا كانت مشهورة بالزنا فلا يتمتع منها ولا ينكحه[/ARABIC]


یعنی۔۔۔۔ محمد بن الفضیل کہتے ہیں انہوں نے امام ابو الحسن سے ایسی فاجرہ عورت کے متعلق دریافت کیا جو خوبصورت ہےکہ کیا مرد کو ایسی عورت سے ایک دن یا اس سے زیادہ متعہ کرنے کی اجازت ہے؟ انہوں نے جواب دیا:” اگر وہ عورت زنا کے لیے جانی جاتی ہے تو ایسی عورتوں سے نکاح کی اجازت ہے اور نہ متعہ کی۔
حوالے:
1۔ اصول کافی، جلد 5، صفحہ 454، حدیث 6
2۔ تہذیب الاحکام، جلد 7، صفحہ 252، حدیث 12

اسی طرح یہ روایت ہے:

[ARABIC]وروى داود بن إسحاق، عن محمد بن الفيض قال: " سألت أبا عبد الله عليه السلام عن المتعة فقال: نعم إذا كانت عارفة، قلت: جعلت فداك فإن لم تكن عارفة؟ قال: فاعرض عليها (4)، وقل لها فإن قبلت فتزوجها وإن أبت ولم ترض بقولك فدعها، وإياكم والكواشف والدواعي والبغايا وذوات الازواج، فقلت: ما الكواشف فقال: اللواتي يكاشفن وبيوتهن معلومة ويؤتين، قلت: فالدواعي؟ قال: اللواتي يدعون إلى أنفسهن وقد عرفن بالفساد، قلت: فالبغايا؟ قال: المعروفات بالزنا، قلت: فذوات الازواج؟ قال: المطلقات على غير السنة [/ARABIC]
۔۔۔ یعنی محمد بن الفضیل کہتے ہیں کہ انہوں نے امام ابو عبداللہ سے عقد متعہ کے متعلق پوچھا۔ اس پر انہوں نے جواب دیا:”ہاں تم عورت عقد متعہ کر سکتے ہو اگر اُسے اسکا علم ہو”۔ اس پر انہوں نے مزید پوچھا کہ اگر عورت کو متعہ کے متعلق علم نہ ہو تو کیا کریں۔ اس پر امام ابو عبداللہ نے جواب دیا کہ پھر اُسے اسکے متعلق بتلاؤ [یعنی اسے دھوکہ نہیں دینا ہے] اور اگر وہ پھر راضی ہو تو اس سے عقد کر لو، اور اگر وہ راضی نہ ہو تو اسے چھوڑ دو۔ اور پھر امام ابو عبداللہ نے مزید فرمایا کہ ہوشیار رہو ایسے عورتوں سے جو کہ کواشف ہیں یا دواعی ہیں یا بغایا ہیں یا ذوات الازواج ہیں۔اس پر راوی محمد بن الفضیل نے امام سے پوچھا کہ الکواشف کیا ہے تو امام نے جواب دیا کہ وہ عورتیں جنہوں نے اپنے آپ کو اور اپنے گھروں کو مشہور کر رکھا ہے اور مرد انکے پاس آتے جاتے ہیں۔راوی کہتا ہے میں نے پھر دواعی کے متعلق پوچھا تو آپ نے جواب دیا کہ وہ جو (مردوں) کو دعوت دیتی ہیں اور یوں فساد پیدا کرتی ہیں۔ راوی کہتا ہے پھر اُس نے البغایا کے متعلق پوچھا تو جواب دیا کہ وہ عورتیں جو زناکاری کے لیے مشہور ہیں۔ راوی نے پھر “ذوات الازواج” کے متعلق پوچھا تو امام نے جواب دیا کہ یہ وہ عورتیں ہیں جنکو طلاق سنت کے مطابق نہیں دی گئی ہے۔
حوالے:
الکافی، جلد 5، صفحہ 454، حدیث 5
من لایحضرہ الفقہیہ، جلد 3، صفحہ 460، حدیث4586
تہذیب الاحکام، جلد7، صفحہ 252، حدیث 13

اسی وجہ سے شیخ صدوق کتاب الھدایہ، صفحہ 265 پر فرماتے ہیں:”۔۔۔ اور اگر وہ کسی عورت سے عقد متعہ کرنا چاہے تو وہ مذہبی طو ر پر محفوظ ہو، اور بلاشبہ کسی زناکار اور غیر محفوظ عورت سے عقد متعہ کرنے کی اجازت نہیں”


جبکہ کچھ روایات اس میں ایک استثناء دے رہی ہیں اس وجہ سے علامہ اسحاق الفیض کتاب منہاج الصالحین، جلد 3، صفحہ 24 پر فرماتے ہیں:”۔۔۔اور احوط لزوم یعنی obligatory precaution (بہت احتیاط واجب )ہے کہ ایسی عورتوں سے عقد متعہ نہ کیا جائے جو زنا کے لیے مشہور ہیں سوائے اسکے کہ انکی توبہ ظاہر ہو جائے۔


اور علامہ حلی کتاب تحریر الاحکام جلد 3، صفحہ 523 پر فرماتے ہیں:”۔۔۔کسی زناکار عورت کے ساتھ عقد متعہ کرنا مکروہ ہے، اور اگر کیا جائے تو اس شرط پر کہ وہ اسے اس زناکاری سے روکے۔”


چنانچہ بنیادی طور پر شیعہ علماء کی اس معاملے میں دو آراء ہیں:


پہلی رائے: عقد متعہ کرنے سے قبل عورت کو مکمل طور پر برائی سے روکے، پھر اسے اپنے گناہوں سے توبہ کروائے اور پھر اسکے ساتھ عقد متعہ کرے۔
دوسری رائے: یہ وہ علماء ہیں جنہوں نے اسکی اجازت کراہت کے ساتھ دی ہےاور اسکے پیچھے مقصد یہ ہے کہ ایسی لڑکیاں جنہیں اس دھندے پر لگایا گیا، ان کی مدد کی جائے کہ وہ معاشرے میں پھر سے باعزت زندگی شروع کر سکیں، اور یہ مدد اسطرح ممکن ہے کہ یہ عقد متعہ کے بعد مردوں کے زیر اثر آ جائیں اور وہ انہیں برائی سے روک کر انکی اصلاح کی کوشش کریں اور انہیں معاشرے میں باعزت مقام دلوائیں۔ اور اگر یہ دروازہ بند کر دیا جائے تو جو عورت ایک مرتبہ دلالوں کے ہاتھ لگ کر گناہ کر بیٹھی، اُسکی اصلاح کی کوئی گنجائش ہی معاشرے میں نہیں رہ جائے گی۔


اور یہ وہی لاجک ہے جو کہ سعودی مفتی شیخ عثمیین کے استاد شیخ محمد الاامین الشنقیطی نے اپنی کتاب “اضواء البیان” جلد 5، صفحہ 430 پر بیان کی ہے۔


کاؤنٹر حوالے اہلحدیث و دیگر اہلسنت فقہ سے


شیخ الشنقیطی اُن اہلسنت علماء کے فتوے کا دفاع کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ جہنوں نے زانیہ سے نکاح کی اجازت دی ہے، لکھتے ہیں:
[ARABIC]أعلم أن الذين قالوا بجواز نكاح العفيف الزنية ، لا يلزم من قولهم ان يكون زوج الزانية العفيف ديوثا ، لأنه إنما يتزوجها ليحفظها ، ويحرسها . ويمنعها من ارتكاب ما لا ينبغي[/ARABIC]
یعنی ۔۔۔اور معلوم ہونا چاہیے کہ وہ (علماء) جنہوں نے اسکی اجازت دی ہے کہ ایک عفیف (پاکباز) مرد ایک زانیہ سے نکاح کر سکتا ہے، تو اسکا مطلب یہ نہیں کہ اس زانیہ کا شوہر دلال بن گیا بلکہ اُس شخص کی نیت نکاح سے یہ ہے کہ اُس عورت کو (گناہ) سے محفوظ رکھے، اسکی حفاظت کرے، اور اسے برائی سے منع کر سکے۔
حوالہ:
اضواء البیان، جلد 5، صفحہ 430 از شیخ الشنقیطی
شیخ الشنقیطی اسی کتاب کے صفحہ 422 پر مزید بیان فرماتے ہیں:
[ARABIC]اعلم أن العلماء اختلفوا في جواز نكاح العفيف الزانية؛ ونكاح العفيفة الزاني ، فذهب جماعة من أهل العلم منهم الأئمة الثلاثة إلى جواز نكاح الزانية مع الكراهة التنزيهية عند مالك وأصحابه[/ARABIC]
یعنی۔۔ ۔ اور علم ہونا چاہیے کہ علماء نے اس معاملے میں اختلاف کیا ہے کہ آیا پاکباز مرد کا نکاح زانیہ عورت اور پاکباز عورت کا نکاح زانی مرد سے ہو سکتا ہے یا نہیں۔اور اہل علم کی جماعت میں تین ائمہ کا قول ہے کہ ایسا نکاح جائز ہے، مگر امام مالک اور انکے اصحاب کے نزدیک یہ مکروہ ہے۔
اضواء البیان، جلد 5، صفحہ 422 از شیخ الشنقیطی
پھر یہی شیخ صفحہ 428 پر لکھتے ہیں:
[ARABIC]وأكثر أهل العلم على إباحة تزويج الزانية[/ARABIC]
یعنی۔۔۔ اور اہل علم کی اکثریت نے زانیہ سے تزویج کی اجازت دی ہے۔
اضواء البیان، جلد 5، صفحہ 422 از شیخ الشنقیطی
اور ابن رشد بیان کرتے ہیں:
[ARABIC]واختلفوا في زواج الزانية‏.‏ فاجاز هذا الجمهور، ومنعها قوم‏[/ARABIC]
یعنی۔۔۔ اور وہ (علمائے اہلسنت) کا اس پر اختلاف ہے کہ زانیہ کے ساتھ نکاح ہو سکتا ہے یا نہیں، اور جمہور (یعنی انکی اکثریت) اس بات کی قائل ہے کہ اسکی اجازت ہے، جبکہ ایک گروہ اس سے منع کرتا ہے۔
بدایۃ المجتہد از ابن رشد، جلد 2، صفحہ 33
اور جواہر العقول، جلد2، صفحہ 22 پر شافعی عالم المنہاجی فرماتے ہیں:“مالک نے زانیہ کے ساتھ نکاح کو مکروہ جانا ہے۔۔۔اور امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ کسی زانیہ سے نکاح کی اجازت نہیں ہے تاوقتیکہ وہ توبہ نہ کر لے اور پھر استبراء کرے۔”
اور اگر ہمارے بھائیوں میں سے کسی کو اب بھی شک رہ گیا ہے تو اُس کے لیےامام ابن کثیر الدمشقی کے یہ الفاظ کافی ہیں جب زانیہ عورت سے نکاح کے متعلق لکھتے ہوئے وہ فرماتے ہیں:
[ARABIC]إذا حصلت توبة فإنه يحل التزويج[/ARABIC]
یعنی ۔۔۔ اگر توبہ کی گئی ہے تو پھر نکاح حلال ہے۔
حوالہ: تفسیر ابن کثیر، سورۃ 24، آیت 3

اور اب تابوت میں آخری کیل۔ کتاب کا نام ہے “درالمختار” جس کے مطابق زانیہ عورت سے کیا گیا نکاح بالکل ٹھیک ہے، چاہے مرد نے خود اُس عورت کو زنا کرتے ہوئے ہی کیوں نہ دیکھا ہو:
۔۔اس عورت کی وطی زنا سے ہوئی ہو تب بھی اسکا نکاح صحیح ہے۔ یعنی زانیہ کا نکاح جائز ہے اگرچہ مرد نے عورت کو زنا کرتے دیکھا۔”
حوالہ: در المختار، جلد 2، صفحہ 25، کتاب النکاح

اسی صفحے پر آپ کو یہ روایت بھی ملے گی:
حوالہ: سنن ابو داؤد اور سنن نسائی:
ایک مرد رسول اللہ ص کے پاس آیا اور کہا یا رسول اللہ! میری عورت کسی ہاتھ لگانے والے کا ہاتھ نہیں ٹالتی (یعنی زانیہ ہے)۔ حضرت نے فرمایا کہ طلاق دے اسکو۔ اس نے کہا کہ وہ خوبصورت ہے، میں اسکو چاہتا ہوں، حضرت نے فرمایا : تو اپنا مطلب نکال اس سے، یعنی نہ طلاق دے اور اسکو صحبت میں رکھ (کر مزے لیتا رہ)
استغفراللہ۔ مجھےیقین تو نہیں مگر امید ہےکہ اہلسنت برادران بذات خود اس روایت پر یقین نہیں رکھتے ہوں گے کہ رسول اللہ ص ایسی چیز بیان نہیں فرما سکتے۔ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے بہت مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ روایات یا فقہ کتب میں ایسی چیزیں نکل آتی ہیں جن پر خود وہ فقہ والے یقین نہیں رکھتے۔ مگر جن لوگوں کے دلوں میں تعصب کا زہر بھرا ہوتا ہے، وہ دوسرے کے خلاف نفرتوں کو پھیلانے کے لیے بس اپنے زہریلے پروپیگنڈہ میں لگ جاتے ہیں۔ اور دوسرا افسوس یہ کہ آج کل عموما فقط اہل تشیع ہی اس زہریلے پروپیگنڈہ کا بہت بڑے پیمانے پر شکار ہیں۔

یہ رہا اس فتوے کا عکس:
dur_al_mukhtar_v2_p25.jpg


بلکہ اجازت دیں تو آپ کو آپ کے فقہ میں اس سےکہیں بڑھ کر مسئلہ دکھایا جائے کہ جہاں فقہی طور پراجازت دی جا رہی ہے کہ اگر عورت زنا کے ذریعے حاملہ ہوئی ہے تو اس سے اسی حاملہ حالت میں نکاح کر لو، حالانکہ پاکباز عورت سے حاملہ ہونے کی صورت میں نکاح نہیں کیا جا سکتا جبتک وہ بچہ نہ جن دے۔ (لنک رد المختار)۔ اور اس سے بڑھ کر ایک اور فتوی اگر زانیہ عورت حاملہ ہے تو ایک زانی مرد اسے سے فقہی طور پر ہمبستری کر سکتا ہے اور یہ چیز بالاتفاق حنفی اور شافعی فقہ میں حلال ہے جبکہ دوسرے اہلسنت فقہ میں حلال نہیں (لنک رد المختار)۔
قرآنی آیت “زانیہ عورت صرف زانیہ مرد کے لیے ہے۔۔۔” کا غلط استعمال

قرآنی آیت ہے:
[FONT=Traditional Arabic, Tahoma]اَلزَّانِيْ لَا يَنْكِحُ اِلَّا زَانِيَةً اَوْ مُشْرِكَةً ۡ وَّالزَّانِيَةُ لَا يَنْكِحُهَآ اِلَّا زَانٍ اَوْ مُشْرِكٌ ۚ وَحُرِّمَ ذٰلِكَ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ[/FONT]
بدکار مرد تو بدکار یا مشرک عورت کے سوا نکاح نہیں کرتا اور بدکار عورت کو بھی بدکار یا مشرک مرد کے سوا اور کوئی نکاح میں نہیں لاتا اور یہ (یعنی) بدکار عورت سے نکاح کرنا مومنوں پر حرام ہے
اور جو مخالفین فقط اور فقط ہم پر تہمتیں باندھنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، کیا ہی بہتر ہوتا وہ دوسروں پر ایسے الزامات لگا کر نفرتیں پھیلانے سے قبل ایک نظر اپنے گریبانوں میں ڈال لیتے۔
علامہ ابن کثیر الدمشقی اس قرآنی آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
A group of scholars claimed that this verse is abrogated, ibn Abi Hatim said narrated Abu Saeed al-Ashaj from Abu Khalid from Yahya bin Saeed from Saeed bin Musayab that it was mentioned in front of him 'The adulterer shall not marry save an adulteress or an idolatress, and the adulteress none shall marry save an adulterer or an idolater' (ibn al-Musayab ) said: 'The following verse abrogated it: 'Marry those among you who are single' [024.032 ] (ibn al-musayab) said: 'It's the singles from the Muslims'.
The same Ubaid al-qasim bin Salam narrated in the book "al-Nasikh wa al-Nansukh" on authority of Saeed ibn al-Musayab and Imam Abu Abdullah Muhammad bin Idrees al-Shaf'ee confirmed that'.

Tafseer Ibn Katheer
بہرحال، مخاطب یہاں پر ہمارے وہ بھائی اور بہنیں ہیں جو اللہ کے نام پر انصاف کرتے ہیں اور انکا متعصب جھوٹے الزامات لگا کر فرقہ وارانہ نفرتیں پھیلانے والوں سےکوئی تعلق نہیں ہے۔ان خدا کا خوف رکھنےوالے اہل انصاف کے لیے قرآنی حکم کے مطابق اچھے و احسن طریقے سے دلائل پیش کر دیے گئے ہیں اور ہمارا فرض بس یہیں تک تھا۔ اگلا فرض اہل انصاف کا ہے کہ وہ اب حق کو باطل و جھوٹے پروپیگنڈے سے الگ کریں۔

کاش کہ انسان اپنے جھوٹے و غلط بہتان تراشیوں پر شرمندہ ہونا سیکھ لے اور ایک لفظ میں معذرت کر کے دلوں کی کدورتوں کو دور کرتا ہوا ثابت کر دے کہ غلط پروپیگنڈہ کی رو میں بہتے ہوئے اُس سے غلطی ہو گئی اور اب اُس نے اپنی اصلاح کر لی ہے۔
 

میر انیس

لائبریرین
کچھ دن گزارنے کا اتفاق ہوا ہے ایران میں۔
وہاں کے ملاحضرات چھوٹی سی ٹیبل سجائے اپنی دکانداریوں میں مصروف ہیں۔ ہر متعہ نکاح کرنے کے عوض ان کو اچھی خاصی رقم مل جاتی ہے۔

گرافکس بھائی مجھکو آپ کا اصل نام نہیں پتہ ورنہ آپ کو اصل نام سے پکارتا ۔ میں نے آپ کی جتنی بھی پوسٹس پڑھی ہیں ان میں سوائی تعصبی باتوں کے اور کچھ کبھی نظر نہیں آیا آپ کے پاس کبھی بھی کوئی دلیل نہیں ہوتی اب ایسے لوگوں کا کیا کیا جائے جو ہر دھاگے گا رخ دوسری طرف موڑنا چاہتے ہیں ۔ اگر آپ سچے ہیں تو کوئی دلیل لائیں ۔جس طرح کے الزامات آپ لگاتے ہیں ویسے ہی الزامات شروّ سے اہل تشیع حذرات اور علماء پر لگتے رہے اور آپ ہی آپ دفن ہوتے رہے کیوں کہ جھوٹ زیادہ عرصے نہیں چلتا ۔ میری آپ سے گذارش ہے کہ اگر آپ کے پاس دین سے متعلق اگر علم نہیں تو خاموشی سے دونوں طرف کے جوابات پڑہتے رہیں اور اپنی طرف سے کوئی بات کرکے موضوع کو تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کریں۔
 

میر انیس

لائبریرین
جو سوالات آپ نے مجھ سے کئے ہیں ۔۔۔۔ اس کا ایک بہت آسان سا جواب یہ ہے کہ :
دین میں نہ آپ کے خیال کی اہمیت ہے اور نہ ہی میرے خیال کی۔ فتاویٰ / فیصلے / اجتہاد ۔۔۔ متعلقہ میدان کے ماہرین کی ذمہ داری ہے !!

امید ہے کہ خود کی ذاتی تاویلات و تشریحات کے بجائے صحیح مسلم کی احادیث پر " تفصیلی جرح " اہل سنت کے ائمہ محدثین کے قائم کردہ علومِ حدیث کے اصول و ضوابط کی روشنی میں مستند حوالوں کے ساتھ پیش فرمائیں گی۔
انتظار رہے گا۔
باذوق بھائی آپکا اتنا آسان جواب مجھکو لگتا ہے کہیں آپ کے لئے مشکل پیش نہ کردے کیونکہ ایک طرف آپ کہ رہے ہیں کہ ہمارے خیال کی اہمیت ہی نہیں ہے تو پھر آپ نے متعہ پر اتنا شور کیوں مچایا ہوا ہے آپ شروع میں ہی یہ بات کہ کر بات ختم کر دیتے کہ یہ سارا ہمارا کام نہیں بلکہ علما کا کام ہے مجھکو تو ایسا لگتا ہے کہ آپ لاجواب ہونے کے بعد اب راہِ فرار اختیار کرنا چاہ رہے ہیں۔
معذرت کےساتھ آپ میں سے کوئی بھی اب تک متعہ کی مخالفت میں کوئی جامع دلیل نہیں دے سکا جب کہ مہوش بہن نے آپ ہی کی کتابوں سے دلیلیں دے کر آپ سب کو کافی پریشان کردیا ہے ۔ صحیح مسلم سے تفصیلی جرح وہ کیوں کریں مخالف کتابون سے دلائل اسلئے دئے جاتے ہیں کہ وہ مخالف کے اوپر حجت ہوتی ہیں صحیح مسلم آپ پر تو حجت ہوسکتی ہے ہم پر نہیں
 

مہوش علی

لائبریرین
جو سوالات آپ نے مجھ سے کئے ہیں ۔۔۔۔ اس کا ایک بہت آسان سا جواب یہ ہے کہ :
دین میں نہ آپ کے خیال کی اہمیت ہے اور نہ ہی میرے خیال کی۔ فتاویٰ / فیصلے / اجتہاد ۔۔۔ متعلقہ میدان کے ماہرین کی ذمہ داری ہے !!
یہ چیز اچھی نہیں لگتی کہ دینی معاملات میں یوں Deceptive Tactics استعمال کی جائیں۔

سوالات ابھی تک مکمل طور پر اوپن ہیں کہ:

۔ کیا سعودی معاشرے میں پھر آج ایک شخص یوں مسیار شادی کے دھوکے دے کر عورتوں سے زناکاری کرتا رہتا ہے اور اس پر کوئی حد جاری نہیں ہوتی؟

۔ پچھلی پوسٹ میں میں نے ایک لنک دیا تھا۔

اور کیا ان معصوم انڈونیشی خواتین کے ساتھ یوں ہی دھوکے سے زناکاری کر کے یہ سعودی مرد کھیلتے رہیں گے اور آپ یہی ماہرین کا عذر لیے بیٹھے رہیں گے؟

میرے سوالات بہت سادہ ہیں اور مجھے نہیں لگتا آپ ایسی کوئی Tactics کھیل کر ان سے نجات پا سکیں گے۔ باقی آپکی مرضی۔

بہرحال، آپکی ذمہ داری فقط فقہ اکیڈمی کے اس فتوے کو پیش کرنے کے بعد ختم نہیں ہو گئی ہے، بلکہ اگلے یہ سوالات آپکے منتظر ہیں:

۔ کیا اب آپ کھل کر مسیار شادی کو زناکاری کہتے ہیں؟
۔ جو سعودی حضرات اس مسیار شادی میں ملوث ہیں، کیا ان کو آپ سنگسار کریں گے (یا پھر جو بھی اسکی سزا ہے وہ ان پر جاری کریں گے)؟
۔ یا پھر شیخ بن باز، سعودیہ کی مستقل فتوی کمیٹی، اور ان مسیار شادی کرنے والے حضرات پر "اختلاف رائے"، "اجتہادی غلطی" وغیرہ جیسی چیزوں کے نام پر کوئی حد جاری نہیں کریں گے؟
[سعودیہ میں ابھی تک ایسی کسی حد کو جاری ہوتے میں نے نہیں سنا ہے]
۔ "اختلاف رائے" اور "اجتہادی غلطی" جیسی اصطلاحات کو آپ فقط شیخ ابن باز اور مستقل فتوی کمیٹی تک محدود رکھتے ہیں، یا پھر آپ اُن صحابہ کو بھی "اختلاف رائے" اور "اجتہادی غلطی" کا حق دیں گے جو عقد متعہ کو جائز و حلال جانتے تھے؟ اور پھر ان صحابہ سے آگے بڑھ کر اگر یہ بات اہل تشیع فقہ تک جائے تو کیا پھر بھی یہ "اختلاف رائے" کا حق اور "اجتہادی غلطی" کا "سنگل اجر" جاری رہے گا یا پھر یہاں یہ چیز بدکاری اور قابل حد بن جائے گی؟

************

امید ہے کہ خود کی ذاتی تاویلات و تشریحات کے بجائے صحیح مسلم کی احادیث پر " تفصیلی جرح " اہل سنت کے ائمہ محدثین کے قائم کردہ علومِ حدیث کے اصول و ضوابط کی روشنی میں مستند حوالوں کے ساتھ پیش فرمائیں گی۔
انتظار رہے گا۔

آپ صبر کیجئے۔ وقت مقررہ پر اپنی صحیح جگہ آنے پر میں اس موضوع پر میں اپنے دلائل پیش کر دوں گی اور پھر آپ سے جوابی دلائل بھی طلب کروں گی۔
 

مہوش علی

لائبریرین
صحیح مسلم سے تفصیلی جرح وہ کیوں کریں مخالف کتابون سے دلائل اسلئے دئے جاتے ہیں کہ وہ مخالف کے اوپر حجت ہوتی ہیں صحیح مسلم آپ پر تو حجت ہوسکتی ہے ہم پر نہیں

انیس بھائی اور فرخ بھائی، آپ کے لیے انتہائی مختصر تعارف ذیل میں۔
اگر صحیح مسلم میں ایک ان روایات کی "تکرار" (یعنی Repitition ) نکال دی جائے تو یہ فقط تین روایات ہیں (1) جو خیبر 7 ہجری میں متعہ کو پہلی مرتبہ "تاقیامت" تک کے لیے حرام ٹہرائے (2) اور دوسری جو فتح مکہ 8 ہجری میں پہلے "تاقیامت" حرام ہونے والے متعہ کو دوبارہ کروائے اور اسکے بعد پھر اسے دوسری مرتبہ "تاقیامت" تک کے لیے حرام قرار دے دے (3) اور تیسری وہ جو ان پچھلے دو مرتبہ "تاقیامت" حرام ہونے والے عقد متعہ کو دوبارہ کروائے، اور پھر دوبارہ تیسری مرتبہ حرام قرار دے دے۔

یہ انتہائی مختصر تعارف ہے۔ اور اس پر بہت تفصیل سے گفتگو ہونی ہے، مگر اپنا وقت اور اپنا مقام آنے پر۔ انشاء اللہ۔
 

مہوش علی

لائبریرین
قوانین انسانوں کے لئے ہی بنائے جاتے ہیں اور انسانوں کے باہمی فائدے کے لئے بنائے جاتے ہیں جن قوانین سے کوئی شخص یا معاشرے کا کوئی طبقہ متاثر ہو رہا ہو وہ ایک لادین معاشرے میں بھی قابل قبول نہیں ہوتے اور نہ بنائے جاتےہیں چہ جائیکہ دین فطرت دین اسلام میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب دیکھیں ایک کنواری دوشیزہ متعہ کرتی ہے چند دن کیلئے

1۔ آہ، میری غلطی کہ میں یہ ایک بنیادی مسئلہ بیان کرنا بھول گئی کہ "کنواری دوشیزہ" سے عقد متعہ کرنا "مکروہ" ہے اور صرف انتہائی حالات کے تحت ہی ولی کی اجازت سے ایسا عقد ہو سکتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس متعہ سے اس کی معاشرتی حیثیت میں نقصان ہوا کہ فائدہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نکاح دائمی کے لئے اس کی حیثیت کمزور ہو گئی ۔۔۔۔ تو یہ ایک ایسا قانون ہوا جو کہ معاشرے کے ایک طبقے کو متاثر کررہا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر فرض کریں کہ ہر مردو و زن ذمہ داریوں سے پیچھا چھڑانے کی خاطر صرف متعہ پر ہی انحصار کرتا ہے ، اور کرے گا بھی جب کم مشکل سے زیادہ فائدہ مل رہا ہے تو زیادہ مشکل کون اٹھائے گا تو محترم بہن ذرا سوچئے معاشرے کا کیا حشر ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔

2۔ دوسری چیز جسے آپ پھر نظر انداز کر گئے وہ یہ ہے کہ پچھلی پوسٹ میں واضح کیا گیا تھا کہ "نکاح دائمی" کو ہر حالت میں عقد المتعہ پر فوقیت ہے اور یہ سفر یا ایسے ملتے جلتے انتہائی حالات میں ہی کیا جاتا ہے۔

3۔ اور محترم بھائی صاحب،
آپ جو اوپر "ڈر" بیان کر رہے ہیں کہ متعہ ہوتے ہوئے کوئی نکاح دائمی نہ کرے گا کہ یہ آسان طریقہ ہے، تو پھر غور فرمائیے کہ عقد المتعہ سے کہیں زیادہ اور کہیں بڑھ کر طریقہ تھا کنیز عورتوں سے فائدہ اٹھانا اور اسلامی تاریخ میں مسلسل کنیز عورتوں سے لوگ ہمبستری کرتے رہے اور انکے بڑی تعداد انکے حرموں میں موجود رہی،۔۔۔۔ مگر اسکے باوجود آزاد عورتوں سے نکاح بھی ہوتے رہے۔ چنانچہ آپکا یہ "ظن" یا "قیاس" پر مشتمل آرگومنٹ کا اطلاق عقد متعہ سے کہیں پہلے کنیز باندیوں پر ہو جاتا ہے اور حیرت کہ لوگ 14 سو سالوں سے یہاں کبھی "معاشرے کی رضامندی" جیسا آرگومنٹ لے کر نہیں آئے۔

4۔ اور پھر محترم بھائی صاحب،
آپ یہ بھی دیکھئے کہ صحابہ کرام مسلسل رسول اللہ، حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کے دور کے آخر تک ضرورت کے تحت عقد متعہ کرتے رہے اور کبھی بھی وہ پرابلمز پیدا نہیں ہوئیں جن کا دھڑکا آپکو اوپر لگا ہوا ہے۔

از شوکت بھائی:
پچھلے زمانے میں زیادہ شادیوں کا چلن تھا جس کی بہت سی وجوہات تھیں۔ جن میں صحت کا اعلٰی معیار، امارت، جنگ و جدل وغیرہ شامل ہیں۔ اور آج کل شادیاں کم ہونے میں مغربی سٹینڈرڈ کا کوئی عمل دخل نہیں بلکہ انہی چیزوں کی کمیابی ہے جو کہ پہلے زمانے میں عام تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔ مثلا صحتوں کا گرتا ہوا معیار ہمارے ہاں تو اوسط عمر ہی 50 سال ہے، دوسرے غربت اور تیسرے ہندو معاشرے کا اثر

میں آپ کی غربت اور صحت والے آرگومنٹ کو Partially قبول کرتی ہوں، جبکہ تیسرا ہندو کے زیر اثر آنے والے آرگومینٹ تو بذات خود میرے حق جاتا ہے جب میں نے کہا تھا کہ ہمارے معاشرے میں انگریزوں کے زیر اثر آنے کے بعد ایک سے زیادہ شادیوں کو اتنی بری نظر سے دیکھا جانے لگا کہ شاید ہی ہزاروں میں ایک شخص آج دو بیویاں رکھتا ہو۔
اور غربت معاشرے کے صرف ایک حصے تک ہے، جبکہ معاشرے میں امراء کا ایک بہت بڑا ایسا طبقہ موجود ہے جس کے پاس بے انتہا دولت ہے، مگر وہ بھی معاشرے کے دباؤ کے تحت ایک وقت میں آفیشیلی ایک سے زیادہ بیویاں نہیں رکھتا، بلکہ اکثر اپنی ہوس مٹانے کے لیے گندے بازاروں کا رخ کر لیتا ہے۔ چنانچہ یہ غربت والا آرگومنٹ بھی مکمل نہیں ہے اور نہ ہی صحت والا آرگومنٹ مکمل طور پر لاگو ہوتا ہے کہ ہمارا نوجوان طبقہ آج مسلسل انٹرنیٹ پر اور ٹی وی پر اور معاشرے میں غلط حرکتیں کرتا ہے اور یہاں اسکی صحت اسے منع نہیں کرتی کہ وہ ایسا نہ کرے۔

از شوکت بھائی:
اور جہاں تک رہی بات خواتیں کے ختنہ کی تو وہ ایک مخصوص‌ معاشرے کی حد تک ہے ۔۔۔ اور جہاں‌ تک رہی بات ہمارے معاشرے کی تو اس میں‌ ایسا ممکن ہی نہیں۔۔۔۔

یہ چیز پھر میرے ہی حق میں جا رہی ہے جہاں میں نے کہا تھا کہ معاشرے کا سٹینڈرڈ کوئی چیز نہیں ہے اور اسی لیے "اسلامی معاشرہ" بھی اپنے رسوم و رواج کی بنیادوں پر ایسا Divide ہوا ہے کہ اسلامی معاشرے کا ایک حصہ اس لڑکیوں کے ختنے کو دل و جان سے قبول کرے، اسے مکرم سمجھے۔۔۔۔ جبکہ اسی اسلامی معاشرے کے دوسرے حصے میں کسی سے پوچھ کر دیکھ لیں وہ اسے انسانی فطرت سلیم پر گالی قرار دے گا کہ بچیوں کی ختنہ کے نام پر یوں کانٹ پیٹ کی جائے۔

*****************

اور انسانی عقل سلیم کی گفتگو بالکل الگ ہے اور اسے چھیڑنے کا کوئی فائدہ نہیں۔

بات بہت سادہ اور آسان سی تھی کہ خاص حالات میں (جیسے آجکل ہمارے نوجوان طلباء اور دیگر لوگ مغربی ممالک جاتے ہیں) تو وہ حالات کے تحت اپنے آپ کو گناہ سے بچانے کے لیے نکاح دائمی کر لیں۔ لیکن اگر انہیں واپس ملک پلٹنا ہے یا پھر کوئی اور وجوہات ہیں جن کی بنا پر مستقل دائمی تعلق قائم نہیں رہ سکتا، تو پھر وہ عقد متعہ کر کے خود کو گناہ سے بچائیں۔
آپ عقد متعہ پر عقل سلیم اور معاشرتی رضامندی جیسی شرائط عائد کرتے ہیں، مگر عقد متعہ کے بغیر جو زناکاری اور برائیاں نوجوانوں میں اور انٹرنیٹ اور ٹی وی اور میڈیا کی وجہ سے آج پیدا ہوتی ہیں، انہیں آپ کی عقل سلیم کیونکر تسلیم نہیں کر رہی اور کیوں ان سے کبوتروں کی طرح ہم آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں؟

آئیے سعودی معاشرے کی پھر مثال لیں۔ سعودی معاشرہ سب سے زیادہ اسلامی تصور کیے جانے والا معاشرہ ہے، یہاں پیسہ بھی بہت کہ انسان جلد از جلد شادی کر لے۔ چنانچہ اسلامی لحاظ سے اس سے زیادہ آئیڈیل معاشرتی کنڈیشن کہیں اور نہیں ملے گی۔

مگر اوپر آپ دیکھ چکے ہیں کہ پھر بھی سعودی مرد انڈونیشیا جا کر کیا کچھ کر رہے ہیں۔
اسی طرح کیا آپ کو علم ہے کہ سعودیہ، بلکہ مکہ مکرمہ جیسے مقدس شہر میں "سیکس شاپ" کھل رہی ہیں؟ ایک ڈسکشن فورم پر یہ ٹاپک کسی نے شروع کیا تھا، مجھے گوگل کرنے دیں۔۔۔۔ جی ہاں، یہاں ذیل کی خبر دیکھئے:

Ann Summers to open sex shop in Mecca


By Andrew Alderson and Rajeev Syal
Published: 12:00AM BST 27 Aug 2000

ANN Summers, the sex shop and lingerie chain, has been granted permission to open 22 shops in the Middle East, including one in the holy city of Mecca.
The Telegraph has learned that "erotic stock" has already been shipped to Kuwait in preparation for the opening of the first shops in October.The branch in Saudi Arabia will be at the Mecca International Mall. Permission to open the stores was obtained through the company's Kuwait-based franchise, Makae/Top Ten International


LINK


آپ سے درخواست ہے کہ آپ عقل سلیم اور معاشرتی رضامندی کی جب بات کریں تو ایک نظر آج کے اسلامی اور ہمارے اپنے معاشرے پر ڈال لیں جہاں مردوں کی شادی کی عمریں 25 تا 30 سال تک پہنچنے والی ہیں اور ہمارا معاشرہ آنکھیں بند کر کے خود کو دھوکا دے رہا ہے کہ یہ لوگ 30 سالوں تک فرشتوں کی زندگیاں گذارتے رہیں گے جبکہ صحابہ کرام بلند ایمانی درجات ہونے کے پھر بھی قرآنی گواہی کے مطابق انسانی فطرت کے شہوانی تقاضوں سے پریشان ہو کر 30 راتوں میں گناہ میں مبتلا ہونے کو تھے اور پھر اللہ نے اپنا خاص کرم فرمایا اور اس مشکل سے نجات دی۔
اور آجکل ایمان کم ہے اور بہکانے کے آلات ترقی کر کے میڈیا کی صورت بہت بہت آگے نکل چکے ہیں اور انکا ماضی سے کوئی تعلق ہی نہیں رہا۔
اور ہمارا معاشرہ دوغلا "رضامندی سٹینڈرڈ" رکھتا ہے جہاں اس نے کبوتروں کی طرح آنکھیں بند کر کے اس ہونے والی بدکار حرکتوں سے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔
 

باذوق

محفلین
باذوق بھائی آپکا اتنا آسان جواب مجھکو لگتا ہے کہیں آپ کے لئے مشکل پیش نہ کردے کیونکہ ایک طرف آپ کہ رہے ہیں کہ ہمارے خیال کی اہمیت ہی نہیں ہے تو پھر آپ نے متعہ پر اتنا شور کیوں مچایا ہوا ہے آپ شروع میں ہی یہ بات کہ کر بات ختم کر دیتے کہ یہ سارا ہمارا کام نہیں بلکہ علما کا کام ہے مجھکو تو ایسا لگتا ہے کہ آپ لاجواب ہونے کے بعد اب راہِ فرار اختیار کرنا چاہ رہے ہیں۔
معذرت کےساتھ آپ میں سے کوئی بھی اب تک متعہ کی مخالفت میں کوئی جامع دلیل نہیں دے سکا جب کہ مہوش بہن نے آپ ہی کی کتابوں سے دلیلیں دے کر آپ سب کو کافی پریشان کردیا ہے ۔ صحیح مسلم سے تفصیلی جرح وہ کیوں کریں مخالف کتابون سے دلائل اسلئے دئے جاتے ہیں کہ وہ مخالف کے اوپر حجت ہوتی ہیں صحیح مسلم آپ پر تو حجت ہوسکتی ہے ہم پر نہیں
میرا ذاتی خیال تو یہ ہے کہ آپ خواہ مخواہ مجھ پر برسنے تل گئے ہیں۔ ورنہ ذرا سا غور اگر آپ کر لیتے تو یہ فقرہ کبھی نہ لکھتے کہ
"آپ نے متعہ پر اتنا شور کیوں مچایا ہوا ہے"
متعہ والے اِس تھریڈ میں بمشکل تمام میری صرف 3 پوسٹ ہیں۔ اور یہ تینوں ہی مراسلات تھریڈ کے اصل موضوع "متعہ" سے غیرمتعلق ہیں۔
پہلی پوسٹ میں ، مَیں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لئے نازیبا الفاظ کے استعمال پر احتجاج کیا تھا
دوسری پوسٹ میں مَیں نے سعودی فقہ اکیڈمی کا وہ موقف بتایا جو دھوکے کی شادی پر معترض ہے
اور تیسری آخری پوسٹ میں : یہ لکھا گیا ہے کہ پوسٹ:31 میں مہوش علی نے مسیار شادی ، سعودی عرب اور سعودی علماء سے متعلق جو سوالات اٹھائے ہیں ان کا جواب دینا میری ذمہ داری نہیں بلکہ متعلقہ ماہرین کی ذمہ داری ہے۔
کیا یہ کوئی غلط بات ہے؟؟

اب میرے ان بالا 3 مراسلات پر آپ نے یہ جو کچھ فرمایا ہے :
متعہ پر اتنا شور کیوں مچایا ہوا ہے
آپ لاجواب ہونے کے بعد اب راہِ فرار اختیار کرنا چاہ رہے ہیں
آپ میں سے کوئی بھی اب تک متعہ کی مخالفت میں کوئی جامع دلیل نہیں دے سکا
مہوش بہن نے آپ ہی کی کتابوں سے دلیلیں دے کر آپ سب کو کافی پریشان کردیا ہے
صحیح مسلم آپ پر تو حجت ہوسکتی ہے ہم پر نہیں
میں سمجھ سکتا ہوں برادر !! کہ آپ کو کیا چیز پریشان کر رہی ہے؟؟
:)

ایک بات آپ کو یہ ضرور یاد دلا دوں کہ : متعہ کے موضوع پر اہل سنت کے تمام ائمہ و فقہا کا اجماع ہے کہ یہ اب قیامت تک کے لیے حرام قرار دیا جا چکا ہے۔ یقین رکھئے کہ کسی کی ہزار لاکھ صفحات والی تحقیق نہ اہل سنت کو پریشان کر سکتی ہے اور نہ کنفیوز۔
محققینِ فورم بےشک اپنی "مرضی کی تحقیق" جاری رکھیں۔

یہ چیز اچھی نہیں لگتی کہ دینی معاملات میں یوں Deceptive Tactics استعمال کی جائیں۔
سوالات ابھی تک مکمل طور پر اوپن ہیں کہ:
۔ کیا سعودی معاشرے میں پھر آج ایک شخص یوں مسیار شادی کے دھوکے دے کر عورتوں سے زناکاری کرتا رہتا ہے اور اس پر کوئی حد جاری نہیں ہوتی؟
اگر آپ کے تھریڈ کا موضوع مسیار شادی ، اس پر حد کا جاری ہونا یا سعودی معاشرہ ہے تو اس پر علیحدہ سے تھریڈ لگا لیں۔ وہاں آرام سے گفتگو کی جا سکتی ہے۔ یہاں جو آپ ایک خاص مکتب فکر کی تحقیق پیش فرما رہی ہیں ، اس میں دخل دینے کی نہ میرے پاس فرصت ہے اور نہ فی الحال ایسا کوئی ارادہ ہے چاہے آپ اس کو Deceptive Tactics کا عنوان ہی کیوں نہ دے لیں۔
اور کیا ان معصوم انڈونیشی خواتین کے ساتھ یوں ہی دھوکے سے زناکاری کر کے یہ سعودی مرد کھیلتے رہیں گے اور آپ یہی ماہرین کا عذر لیے بیٹھے رہیں گے؟
میرے سوالات بہت سادہ ہیں اور مجھے نہیں لگتا آپ ایسی کوئی Tactics کھیل کر ان سے نجات پا سکیں گے۔
کمال کی بات ہے۔ کیا میرے خیالات سے یا میری پیش کردہ تحقیق سے سعودی مرد یا اسرائیلی مرد یا اہل تشیع یا کوئی اور ۔۔۔۔ اپنے اپنے کارناموں سے باز آ جائیں گے؟؟ اگر نہیں تو مجھے کہنے دیجئے کہ یہ میری Deceptive Tactics نہیں بلکہ آپ کی غیرضروری جذباتیت ہے اور کچھ نہیں !!

وقت مقررہ پر اپنی صحیح جگہ آنے پر میں اس موضوع پر میں اپنے دلائل پیش کر دوں گی اور پھر آپ سے جوابی دلائل بھی طلب کروں گی
شائد آپ ایک بات بھول رہی ہیں۔ نکاح المتعہ کا موضوع کوئی ایسا عام موضوع نہیں ہے کہ کسی فورم پر بیٹھ کر اپنا اپنا مطالعہ یا اپنی اپنی تحقیق شئر کی جائے اور کسی "متفقہ فیصلے" پر پہنچا جائے۔ یہ اسلام کے دو خاص مکاتبِ فکر "اہل سنت" اور "اہل تشیع" کے درمیان متنازعہ چلا آ رہا ہزارہا سال پرانا مسئلہ ہے۔ دینی علمی دنیا میں یکسر غیرمعروف دورِ جدید کی ہم اور آپ جیسی شخصیات اگر اس قدر قدیم اور اہم مسئلے کو حل کرنے یا اس پر اپنی "سیرحاصل ذاتی تحقیق" پیش کرنے کا دعویٰ کریں تو یہ بطور محاورہ : "دیوانے کی ایک بڑ" کے سوا اور کچھ نہیں !! کیونکہ تحقیق اور مسائل کے حل کی جستجو کا یہی ایک راستہ ہے تو پھر ۔۔۔۔۔۔
تو پھر بقول فاروق بھائی کے ، مسلمان معاشرے کو علماء و فقہاء ، مفسرین، محدثین و ائمہ کرام کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہے !

بہتر ہوتا ۔۔۔۔ اگر اصل مصدر و مراجع کا ذکر کر دیا جائے کہ فلاں فلاں کتاب یا فلاں فلاں تحقیق میں یہ یہ کہا گیا ہے !!
بس بات ختم !!

یہ مشورہ اس سے قبل بھی آپ کو کئی بار دیا جا چکا ہے۔ فرید احمد صاحب کی بات کو یاد کر لیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے متعلق جو آپ نے اپنے تئیں "لاجواب تحقیق" پیش کی تھی ، اس پر انہوں نے آپ کو کیا کہہ کر ٹوکا تھا؟

والسلام علیکم !!
 
ش

شوکت کریم

مہمان
[QUOTE
1۔ اسلام میں کنیز عورت سے وقتی تعلقات

[*] عدت کا عرصہ:
نیز یہ کہ متعہ میں عدت کا زمانہ عام تقریبا دو مہینے ہے [جبکہ عقد نکاح میں یہ زمانہ تقریبا تین مہینے ہوتا ہے] ۔ بعض لوگ اس کم وقت پر اعتراض کرتے ہیں، مگر ان حضرات کو دیکھنا چاہیے کہ اہلسنت برادران کی فقہ میں کنیز عورت کا استبرائے رحم اس سے بھی کہیں کم یعنی ایک ماہواری ہے اور اسکے بعد اسکا نیا مالک اس سے ہمبستری کر سکتا ہے۔
۔[/CENTER]

پہلے تو یہ عرض ہے کہ مہوش بہن بہت ساری جگہوں پر کنیز / لونڈی کے حوالے سے بات کر جاتی ہیں ۔۔ جبکہ آزاد عورت اور غلام عورت کے درمیان کتنا فرق ہے یہ سب جانتے ہیں۔ لہذا یہاں بات آزاد عورت کے نکاح کی ہو رہی ہے تو کنیز کے اوپر لاگو قوانین آزاد پر لاگو نہیں ہو سکتے۔

اور چند گذارشات۔ کہ اس موضوع کی بنیاد ہی اس پر رکھی گئی ہے کہ انسان بالخصوص مرد ہوس پرست ہے اور ہوس کو قابو نہیں‌پا سکتا لہذا زنا نہ کرے متعہ کرے۔

مگر کیا

نکاح کا مقصد صرف شہوت کو قابو کرنا نہیں یہ تو ایک بڑے مقصد کے پانے کا ذریعہ یا سبب سمجھ لیں ؟

اللہ نے انسان کو پیدا کیا کس لئے کہ جائے اور دنیا میں کھائے پئے اور ہوس پوری کرے اور بس ؟

یا یہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے اور امارت، غربت، غم ، خوشی، عورت ، مرد سب آزمائشیں ہیں ان ہی کے ذریعے اللہ پاک انسانوں‌کو آزماتے ہیں۔

درحقییقت اس دنیا میں انسان کے لئے اتنا ہی ہے جس سے اس کی کمر سیدھی رہے اور وہ امتحان دیتا رہے۔۔۔

نکاح کرے نسل انسانی کی افزائش کے سلسلے میں اپنی ذمہ داری پوری کرے اور بس نہ کہ اصل مقصد کو فراموش کر کے ہوس رانی میں مشغول رہے۔

اللہ تعالیٰ سورۃ‌ النور میں‌ فرماتے ہیں۔

اور جنکو بیاہ کا مقدور نہ ہو وہ پاکدامنی کو اختیار کئے رہیں یہاں تک کہ اللہ انکو اپنے فضل سے غنی کر دے۔ سورۃ النور ۳۳

اور اگر کوئی پھر بھی اپنے مولا کے دربار میں بہترین رتبہ نہیں‌ چاہتا تو ۔۔۔

اور جو شخص تم میں سے مومن آزاد عورتوں سے نکاح کرنے کا مقدور نہ رکھے تو مومن باندیوں ہی سے جو تمہارے قبضے میں آ گئ ہوں نکاح کر لے اور اللہ تمہارے ایمان کو اچھی طرح جانتا ہے تم آپس میں ایک دوسرے کے ہم جنس ہو۔ پھر ان لونڈیوں کے ساتھ ان کے مالکوں سے اجازت حاصل کر کے نکاح کر لو۔ اور دستور کے مطابق ان کا مہر بھی ادا کر دو بشرطیکہ وہ پاکدامن ہوں۔ نہ ایسی کہ کھلم کھلا بدکاری کریں اور نہ درپردہ دوستی کرنا چاہیں۔ پھر اگر وہ نکاح میں آ کر بدکاری کا ارتکاب کر بیٹھیں تو جو سزا آزاد عورتوں کے لئے ہے اس کی آدھی ان کو دی جائے۔ یہ باندی کے ساتھ نکاح کرنے کی اجازت اس شخص کو ہے جسے گناہ کر بیٹھنے کا اندیشہ ہو۔ اور یہ بات کہ صبر کرو تمہارے لئے بہتر ہے اور اللہ بخشنے والا ہے مہربان ہے۔ سورۃ النساء ۲۵

مگر بہتر صبر ہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو کیا ایک غلام اپنے مولا کے سامنے بہتر سے بہتر کارگردگی نہیں دکھا سکتا۔


اور پھر ذرا یہ ملاحظہ کریں کہ مقصد نکاح‌ کیا ہے ؟

aviv7l.jpg
 

باذوق

محفلین
Ann Summers to open sex shop in Mecca


By Andrew Alderson and Rajeev Syal
Published: 12:00AM BST 27 Aug 2000

ANN Summers, the sex shop and lingerie chain, has been granted permission to open 22 shops in the Middle East, including one in the holy city of Mecca.
The Telegraph has learned that "erotic stock" has already been shipped to Kuwait in preparation for the opening of the first shops in October.The branch in Saudi Arabia will be at the Mecca International Mall. Permission to open the stores was obtained through the company's Kuwait-based franchise, Makae/Top Ten International


LINK


محترمہ !
مغرب کے پھیلائے گئے پروپگنڈہ اشتہارات پر یقین کرنے سے قبل کچھ تحقیق اصل شہر یا اس کے باشندوں کے متعلق بھی کر لیا کریں۔
یہ خبر کوئی دس سال پرانی ہے۔ اور ان دس سالوں میں کم سے کم میں نے تو ایسی کوئی چیز حرمین شریفین میں نہیں دیکھی جس کی طرف اس عشرہ قبل کی خبر میں اشارہ کیا گیا ہے۔ یہاں فورم پر کئی اراکین مزید ہیں جو سعودی عرب سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان سے بھی دریافت کر کے دیکھ لیں۔
ویسے بھی سعودی عرب کی سنسر پالیسی اس قدر "تنگ نظر" ہے کہ خواتین کی ڈرائیونگ پر پابندی ، ان ویب سائیٹس پر پابندی جن میں لفظ sex غلطی سے آ جائے ، خواتین کے علیحدہ بنک شاخیں ، فوٹو اسٹڈیو ،وغیرہ ۔۔۔ جیسے معاملات یہاں ہیں تو ایسے میں مکہ مکرمہ میں "سیکس شاپ" کی موجودگی تو ناقابلِ یقین بات ہے !!

مگر خیر۔ میں آپ کی جذباتیت کو سمجھ سکتا ہوں۔ :)
اردو کی فورمز کمیونیٹی میں بہت سے لوگ ہیں جن کو سعودی عرب پھوٹے آنکھ نہیں بھاتا اور بہانے بہانے سے ایسی خبریں اٹھا لاتے ہیں جس طرح کہ یہ ایک جھوٹی خبر ہے !!
 

مہوش علی

لائبریرین
محترمہ !
مغرب کے پھیلائے گئے پروپگنڈہ اشتہارات پر یقین کرنے سے قبل کچھ تحقیق اصل شہر یا اس کے باشندوں کے متعلق بھی کر لیا کریں۔
یہ خبر کوئی دس سال پرانی ہے۔ اور ان دس سالوں میں کم سے کم میں نے تو ایسی کوئی چیز حرمین شریفین میں نہیں دیکھی جس کی طرف اس عشرہ قبل کی خبر میں اشارہ کیا گیا ہے۔ یہاں فورم پر کئی اراکین مزید ہیں جو سعودی عرب سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان سے بھی دریافت کر کے دیکھ لیں۔
ویسے بھی سعودی عرب کی سنسر پالیسی اس قدر "تنگ نظر" ہے کہ خواتین کی ڈرائیونگ پر پابندی ، ان ویب سائیٹس پر پابندی جن میں لفظ sex غلطی سے آ جائے ، خواتین کے علیحدہ بنک شاخیں ، فوٹو اسٹڈیو ،وغیرہ ۔۔۔ جیسے معاملات یہاں ہیں تو ایسے میں مکہ مکرمہ میں "سیکس شاپ" کی موجودگی تو ناقابلِ یقین بات ہے !!

مگر خیر۔ میں آپ کی جذباتیت کو سمجھ سکتا ہوں۔ :)
اردو کی فورمز کمیونیٹی میں بہت سے لوگ ہیں جن کو سعودی عرب پھوٹے آنکھ نہیں بھاتا اور بہانے بہانے سے ایسی خبریں اٹھا لاتے ہیں جس طرح کہ یہ ایک جھوٹی خبر ہے !!

شکریہ۔
پر یہ خبر جھوٹی نہیں ہے۔ مزید گوگل کرنے پر یہ کتاب سامنے آئی ہے جس کے فٹ نوٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ سیکس شاپ کھولنے کی پرمیشن آخر میں واپس لے لی گئی تھی۔
 

مہوش علی

لائبریرین
[quote
1۔ اسلام میں کنیز عورت سے وقتی تعلقات
[*] عدت کا عرصہ:
نیز یہ کہ متعہ میں عدت کا زمانہ عام تقریبا دو مہینے ہے [جبکہ عقد نکاح میں یہ زمانہ تقریبا تین مہینے ہوتا ہے] ۔ بعض لوگ اس کم وقت پر اعتراض کرتے ہیں، مگر ان حضرات کو دیکھنا چاہیے کہ اہلسنت برادران کی فقہ میں کنیز عورت کا استبرائے رحم اس سے بھی کہیں کم یعنی ایک ماہواری ہے اور اسکے بعد اسکا نیا مالک اس سے ہمبستری کر سکتا ہے۔
۔[/center]

پہلے تو یہ عرض ہے کہ مہوش بہن بہت ساری جگہوں پر کنیز / لونڈی کے حوالے سے بات کر جاتی ہیں ۔۔ جبکہ آزاد عورت اور غلام عورت کے درمیان کتنا فرق ہے یہ سب جانتے ہیں۔ لہذا یہاں بات آزاد عورت کے نکاح کی ہو رہی ہے تو کنیز کے اوپر لاگو قوانین آزاد پر لاگو نہیں ہو سکتے۔
بھائی صاحب،
بات یہ ہو رہی تھی کہ آپ میں سے چند حضرات عقد متعہ پر زناکاری کا الزام لگاتے ہوئے اسکی ایک وجہ بیان کر رہے تھے کہ اس میں نکاح کے طلاق کی طرح تین ماہ کی عدت نہیں۔ اس پر جوابا آپ کو دکھایا جا رہا ہے کہ متعہ میں عدت دو ماہ یا دو حیض ہو جانے سے یہ زناکاری نہیں بن جاتی کیونکہ اگر یہ سٹینڈرڈ ہوتا تو کنیز کے ساتھ تو بس استبرائے رحم تھا مگر اُس کو آپ نے کبھی اس بنیاد پر زناکاری نہیں کہا۔
استبرائے رحم کیا ہے؟ اگر کنیز باندی کو آج حیض آ گیا ہے تو وہ آج سے تین چار دن بعد فارغ ہو کر نئے آقا سے ہمبستری کر سکتی تھی یا اسکا عارضی نکاح پھر کسی تیسرے شخص سے کر دیا جاتا تھا۔ اور اسی وجہ سے جب قحبہ گری کی بات چلتی تھی تو کنیز باندیوں کا لوگ غلط استعمال کرتے تھے اور قرآن اسکا شاہد ہے۔
کنیز عورت اور آزاد عورت کے معاشرتی مقام اور معاشرتی احکام میں تو فرق ہے، مگر جب بات زناکاری کی آئے گی تو زناکاری کنیز سے ہو یا آزاد سے، یہ زناکاری ہی کہلائے گی۔


اور چند گذارشات۔ کہ اس موضوع کی بنیاد ہی اس پر رکھی گئی ہے کہ انسان بالخصوص مرد ہوس پرست ہے اور ہوس کو قابو نہیں‌پا سکتا لہذا زنا نہ کرے متعہ کرے۔

مگر کیا

نکاح کا مقصد صرف شہوت کو قابو کرنا نہیں یہ تو ایک بڑے مقصد کے پانے کا ذریعہ یا سبب سمجھ لیں ؟

اللہ نے انسان کو پیدا کیا کس لئے کہ جائے اور دنیا میں کھائے پئے اور ہوس پوری کرے اور بس ؟

یا یہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے اور امارت، غربت، غم ، خوشی، عورت ، مرد سب آزمائشیں ہیں ان ہی کے ذریعے اللہ پاک انسانوں‌کو آزماتے ہیں۔

درحقییقت اس دنیا میں انسان کے لئے اتنا ہی ہے جس سے اس کی کمر سیدھی رہے اور وہ امتحان دیتا رہے۔۔۔

نکاح کرے نسل انسانی کی افزائش کے سلسلے میں اپنی ذمہ داری پوری کرے اور بس نہ کہ اصل مقصد کو فراموش کر کے ہوس رانی میں مشغول رہے۔

اللہ تعالیٰ سورۃ‌ النور میں‌ فرماتے ہیں۔

اور جنکو بیاہ کا مقدور نہ ہو وہ پاکدامنی کو اختیار کئے رہیں یہاں تک کہ اللہ انکو اپنے فضل سے غنی کر دے۔ سورۃ النور ۳۳

اور اگر کوئی پھر بھی اپنے مولا کے دربار میں بہترین رتبہ نہیں‌ چاہتا تو ۔۔۔

اور جو شخص تم میں سے مومن آزاد عورتوں سے نکاح کرنے کا مقدور نہ رکھے تو مومن باندیوں ہی سے جو تمہارے قبضے میں آ گئ ہوں نکاح کر لے اور اللہ تمہارے ایمان کو اچھی طرح جانتا ہے تم آپس میں ایک دوسرے کے ہم جنس ہو۔ پھر ان لونڈیوں کے ساتھ ان کے مالکوں سے اجازت حاصل کر کے نکاح کر لو۔ اور دستور کے مطابق ان کا مہر بھی ادا کر دو بشرطیکہ وہ پاکدامن ہوں۔ نہ ایسی کہ کھلم کھلا بدکاری کریں اور نہ درپردہ دوستی کرنا چاہیں۔ پھر اگر وہ نکاح میں آ کر بدکاری کا ارتکاب کر بیٹھیں تو جو سزا آزاد عورتوں کے لئے ہے اس کی آدھی ان کو دی جائے۔ یہ باندی کے ساتھ نکاح کرنے کی اجازت اس شخص کو ہے جسے گناہ کر بیٹھنے کا اندیشہ ہو۔ اور یہ بات کہ صبر کرو تمہارے لئے بہتر ہے اور اللہ بخشنے والا ہے مہربان ہے۔ سورۃ النساء ۲۵

مگر بہتر صبر ہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو کیا ایک غلام اپنے مولا کے سامنے بہتر سے بہتر کارگردگی نہیں دکھا سکتا۔

آپ سورۃ النساء کی یہ آیت تو پیش کر رہے ہیں، مگر اسکی جو تفسیر بالرائے آپ کرتے ہیں وہ صحیح ہیں کیونکہ آپ نے رسول اللہ ص کی سنت سے سے کچھ سیکھنے کی کوشش نہ کی۔
سورۃ النساء نازل ہوئی ہے مدینہ کے ابتدائی زمانے میں، مگر رسول اللہ ص کی دو روایات میں نے بہت پہلے پوسٹ کی تھیں:
1۔ پہلی روایت بتلاتی ہے کہ یہ آیت تو موجود تھی مگر پھر بھی صحابہ کرام اپنے آپ کو غلام باندیوں سے دور نہ رکھ سکے اور صبر نہ کر سکے اور یہ رسول اللہ ص کے سامنے ہوا۔
2۔ اور دوسری روایت بتلاتی ہے کہ یہ آیت تو موجود تھی، مگر پھر بھی عبداللہ ابن مسعود جیسے کبار صحابہ کو گناہ میں مبتلا ہونے کا ڈر تھا اس لیے رسول اللہ ص نے جہاد کے دوران خود ان صحابہ کو حکم دے کر عقد متعہ کروایا اور فرمایا کہ پاکیزہ طیبات چیزوں کو خود پر حرام نہ کرو۔

آپکے لیے اور ہمارے بہتر ہو گا کہ ہم تفسیر بالرائے جیسی چیزوں میں ٹامک ٹوئیاں مارنے کی بجائے رسول کی حدیث سے سبق حاصل کریں، ورنہ آج ہمارے معاشرے نے اسی صبر کے نام پر مردوں کو 30 سال تک کنوارا رکھ کر ان سے فرشتوں جیسی زندگیاں گذارنے کی امیدیں رکھی ہوئی ہیں۔ اور پھر جب انٹرنیٹ و میڈیا کی بے حیائی پھیلتی ہے تو پھر یہ اس سے آنکھیں میچ کر بیٹھ جاتے ہیں۔

اور پھر ذرا یہ ملاحظہ کریں کہ مقصد نکاح‌ کیا ہے ؟

aviv7l.jpg

ایک بار پھر مختصرا بات کہ سورۃ النساء ابتدائی دور کی سورۃ ہے اور آپ فقط تفسیر بالرائے کرتے ہوئے اسکی بنیاد پر عقد متعہ کو حرام ٹہرا رہے ہیں حالانکہ آپ کے اپنے قول کے مطابق صحابہ و صحابیات کم از کم سن 7 یا 8 ہجری تک عقد متعہ کرتے رہے۔

یہ آیت بذات خود عقد متعہ کے حق میں نازل ہوئی ہے اور اس پر تو مجھے بہت تفصیلی گفتگو کرنی ہے اور تمام تفسیر بالرائے کے مقابلے میں وہ تمام روایات دکھانی ہیں جن سے آپ آنکھیں پھیر کر نظر انداز کیے بیٹھے ہیں کیونکہ وہ تمام ثابت کر رہی ہیں کہ یہ آیت بذات خود عقد متعہ کے حق میں نازل ہوئی اور اُن کی موجودگی میں آپ کبھی منکر حدیث قرآنسٹ بن کر تفسیر بالرائے نہیں کر سکتے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
السلام علیکم
کمال کی بات ہے۔ کیا میرے خیالات سے یا میری پیش کردہ تحقیق سے سعودی مرد یا اسرائیلی مرد یا اہل تشیع یا کوئی اور ۔۔۔۔ اپنے اپنے کارناموں سے باز آ جائیں گے؟؟ اگر نہیں تو مجھے کہنے دیجئے کہ یہ میری deceptive tactics نہیں بلکہ آپ کی غیرضروری جذباتیت ہے اور کچھ نہیں !!

بہتر ہوتا آپ سادگی سے کہہ دیتے کہ آپکے پاس ان سوالوں کو کوئی جواب سرے سے موجود ہی نہیں ہے بجائے دوسروں پر جذباتیت کا الزام لگانے کے۔
بہرحال اہل نظر کو واضح ہے کہ آپکے پاس اس سوالوں کے جواب اس لیے نہیں کیونکہ یہ جا کر آپکے حلق میں ایسے جا کر پھنس چکے ہیں کہ اب آپ سے نگلے جائیں گے اور نہ اگلے۔


یہ مشورہ اس سے قبل بھی آپ کو کئی بار دیا جا چکا ہے۔ فرید احمد صاحب کی بات کو یاد کر لیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے متعلق جو آپ نے اپنے تئیں "لاجواب تحقیق" پیش کی تھی ، اس پر انہوں نے آپ کو کیا کہہ کر ٹوکا تھا؟

والسلام علیکم !!

جی ہاں اس سے قبل بھی جب بھی آپ لوگوں اور فرید صاحب وغیرہ کے پاس "دلیلیں" ختم ہو گئیں تو مجھے آپ لوگوں سے اسی قسم کی باتیں سننے کو ملنا شروع ہو گئیں۔
قرآن کہتا ہے "دلیل لاؤ اگر تم سچے ہو۔"
باقی آپ دلیل کو چھوڑ کر باذوق بھائی آپ جو مرضی شرائط ٹھونسنے کی کوشش کرتے رہیں، میں آپ سے معذرت کر کے آگے بڑھ جاؤں گی۔
والسلام
 

میر انیس

لائبریرین
میرا ذاتی خیال تو یہ ہے کہ آپ خواہ مخواہ مجھ پر برسنے تل گئے ہیں۔ ورنہ ذرا سا غور اگر آپ کر لیتے تو یہ فقرہ کبھی نہ لکھتے کہ
"آپ نے متعہ پر اتنا شور کیوں مچایا ہوا ہے"
متعہ والے اِس تھریڈ میں بمشکل تمام میری صرف 3 پوسٹ ہیں۔ اور یہ تینوں ہی مراسلات تھریڈ کے اصل موضوع "متعہ" سے غیرمتعلق ہیں۔
پہلی پوسٹ میں ، مَیں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لئے نازیبا الفاظ کے استعمال پر احتجاج کیا تھا
دوسری پوسٹ میں مَیں نے سعودی فقہ اکیڈمی کا وہ موقف بتایا جو دھوکے کی شادی پر معترض ہے
اور تیسری آخری پوسٹ میں : یہ لکھا گیا ہے کہ پوسٹ:31 میں مہوش علی نے مسیار شادی ، سعودی عرب اور سعودی علماء سے متعلق جو سوالات اٹھائے ہیں ان کا جواب دینا میری ذمہ داری نہیں بلکہ متعلقہ ماہرین کی ذمہ داری ہے۔
کیا یہ کوئی غلط بات ہے؟؟

اب میرے ان بالا 3 مراسلات پر آپ نے یہ جو کچھ فرمایا ہے :

میں سمجھ سکتا ہوں برادر !! کہ آپ کو کیا چیز پریشان کر رہی ہے؟؟
:)

ایک بات آپ کو یہ ضرور یاد دلا دوں کہ : متعہ کے موضوع پر اہل سنت کے تمام ائمہ و فقہا کا اجماع ہے کہ یہ اب قیامت تک کے لیے حرام قرار دیا جا چکا ہے۔ یقین رکھئے کہ کسی کی ہزار لاکھ صفحات والی تحقیق نہ اہل سنت کو پریشان کر سکتی ہے اور نہ کنفیوز۔
محققینِ فورم بےشک اپنی "مرضی کی تحقیق" جاری رکھیں
السلام علیکم
میرے بھائی ایسی جگہ جہاں بہت سارے لوگ ایک بات پر دو حصوں میں بٹ کر بحث کر رہے ہوں تو وہاں کسی ایک شخص سے کہی ہوئی بات صرف اسکی ذات کے لئے مخصوص نہیں ہوتی بلکہ اس سے مراد اسکے سارے ہم خیلا لوگ ہوتے ہیں میں نے جو باتیں کہیں وہ ان سب کے لیئے تھیں جو متعہ کے خلاف دلائل ڈھونڈنے میں ناکام رہے ہیں۔ میری پوسٹ میں نیچے جاکر دیکھیں آپ کو میری بات سمجھ آجائے گی۔ اب یہ جو آپ نے کہا کہ متعہ پر سارے آئمہ اور فقہا کا اجتماع ہوچکا ہے تو بھائی اجماع تو تب ہی صحیح ہوتا ہے جب اسکی مخالفت میں کوئی آیت یا حدیث موجود نہ ہو ۔ آپ کے نزدیک اہمیت اور مرتبہ کس کو حاصل ہے علما اور فقہا کو یا آنحضرت (ص) اور انکے صحابہ و اہلیبیت کو صرف حضرت عمر(ر) کے ایک ذاتی حکم کو جو انہوں سیاسی طور پر دیا تھا تمام امت کے لیئے حجت قرار نہیں دیا جاسکتا۔اور اس کا اظہار آپ(ڑ) خود کئی دفعہ کرچکے ہیں ۔
کنزالعمال مطبوعہ حیدر آباد جلد8صفحہ 293 میں حضرت عمر(ر) سے منقول ہے کہ دو قسم کے متعہ رسالت ماب (ص) کے دور میں جائز تھے پر میں ان دونوں سے ممانعت کرتا ہوں ایک متعہ النسا اور دوسرے متعہ الحج( اس روایت کی ابو صالح کاتب لیث سمرقندی اور لحادی نے تخریج کی ہے)
اب میرا یہ آپ سے سوال ہے کہ باوجود یہ معلوم ہوجانے کہ کہ قران میں آیت متعہ موجود ہو رسول اللہ (ص) نے اس سے منع بھی نہیں فرمایا ہو اور آپ(ص) کے جید صحابہ اس فعل کو انجام دیتے رہیں ہوں تو آپ اسلئے اس بات سے انکار کرتے رہیں گے کہ ہمارے علما کا اس پر اجماع ہے ارے میں کہتا ہوں بھاڑ میں گئے ایسے علما جو اللہ اور اسکے پاک نبی(ص)کے حکم اور انکے پاک صحابہ اور اہلیبیت(ع) کی سنت کے خلاف فتوے دیں اور اقتدار میں آکر اللہ اور اسکے رسول(ص) پر اپنا حکم مقدم کریں ۔ میں تو کہتا ہوں جسطرح اور بہت سی باتوں میں آپ لوگوں نے اجتہاد کیا ہے اور بہت سے پرانے فتووں کو تبدیل کیا ہے اس پر بھی نظرِ ثانی کیجئے اور ایک ایسی بات کو جو گو کہ ایک عرصہ تک اہلِ تشیع پر طعنہ کا سبب بنتی رہی ہے پر ہے قران اور سنت کے مطابق مان لیا جائے اسلئے کہ تھوڑا سا شرمندہ دنیا ہی میں ہونا زیادہ بہتر ہے بجائے اسکے کہ آخرت میں شرمندہ ہوں۔
 

میر انیس

لائبریرین
اور ایک بات اور بتادوں ابھی تو صرف مہوش بہن نے ہی دلائل دئے ہیں اور آپ سب لاجواب ہوکر کبھی تو اصل بات سے ہٹ کر بات کا رخ دوسری طرف موڑنے کی کوشش کر رہے ہیں اور کبھی ایک نیا دھاگہ کھول کر (جبکہ یہ دھاگہ موجود ہے متعہ سے متعلق ہر بات کہنے کے لئے) اور اس میں بحث کرنے پر پابندی لگا رہے ہیں ابھی میرے دلائل باقی ہیں پر مجھکو لگتا ہے کہ ان کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی ۔
 

مہوش علی

لائبریرین
گواہوں کی شرط

یہ مسئلہ متعہ کا نہیں، بلکہ اہل تشیع کے مطابق نکاح دائمی میں بھی دو گواہوں کی موجودگی لازمی شرط نہیں، بلکہ مستحب ہے۔ یعنی بہت زیادہ زور دیا جاتا ہے کہ یہ تاکید ہے کہ دو گواہوں کو مقرر کر لو، مگر عقد ان کے بغیر بھی منعقد ہو جاتا ہے۔
بہرحال مخالفین نے عقد متعہ کا انکار کرنے کے لیے ایک عذر گواہوں کا بھی پیش کرتے ہیں، حالانکہ یہ براہ راست گواہوں کے متعلق ایک فقہی اختلاف ہے اور اس بنیاد پر عقد متعہ کو حرام نہیں ٹہرایا جا سکتا، کیونکہ اگر آپ کے فقہ کے نزدیک گواہ لازمی ہیں تو آپ گواہ کر کے عقد متعہ کر لیں۔
تو آپ کو اعتراض کرنا ہے تو گواہوں کی شرط پر کریں، نہ کہ عقد متعہ پر۔

************
اسلام میں مرد و عورت کی اپنی گواہی کی اہمیت

اسلامی نظریہ معاشرت پر غور کریں تو آپکو نظر آئے گا کہ اسلام میں ایک مسلمان مرد اور ایک مسلمان عورت کی اپنی گواہی کی بہت اہمیت ہے۔دو بیرونی گواہوں کو مقرر کرنا بہت مستحب اوراچھی چیز ہے اور اہل تشیع فقہ میں اس کی بہت تاکید ہے مگرپھر بھی یہ نکاح دائمی یا متعہ کی لازمی شرط نہیں ہے۔ جبکہ ان بیرونی دو گواہوں کی مقرری اُس وقت لازمی ہو جاتی ہے جب اختلافی مسئلہ پیدا ہو رہا ہو مثلا طلاق۔

چنانچہ اہل تشیع فقہ میں طلاق کے موقع پر گواہ کا تقرر لازمی ہے اور اسکے بغیر طلاق نہیں ہو گی، جبکہ برادران اہلسنت کے فقہ میں اسکے بالکل برعکس بغیر گواہوں کے طلاق ہو جاتی ہے۔


آئیے پہلے دیکھتے ہیں قرآن اس گواہوں کے مسئلے پر کیا کہہ رہا ہے۔


1۔ قرآن میں کئی جگہ مختلف قسم کی عورتوں کا ذکر آیا، اور پھر ان کئی جگہوں پر ان مختلف عورتوں سے نکاح کی شرائط کا ذکر آیا۔۔۔۔ مگر قرآن میں کسی ایک جگہ بھی اللہ تعالی نے نکاح کے لیے گواہوں کو شرط قرار نہیں دیا۔



یہ چیز قرآنسٹ حضرات کے لیے بھی سبق ہے جو ایک طرف نکاح کے لیے گواہ کو لازمی قرار دیتے ہیں، اور دوسری طرف انہیں پورے قرآن میں نکاح کے شرائط بیان کرتے ہوئے ایک جگہ بھی گواہ کا لفظ نہیں ملتا۔




چنانچہ اصول یہ ہے کہ جہاں پارٹیوں کی رضامندی ہو وہاں پر بیرونی گواہوں کے تقرر کی ضرورت نہیں، مگر جب اختلافات کے باعث طلاق کا مسئلہ ہو تو پھر اہل تشیع فقہ کے مطابق واجب و لازم ہے کہ بیرونی طور پر دو گواہوں کو مقرر کیا جائے (جبکہ ہمارے برادران کے فقہ میں بغیر گواہ کے طلاق ہو جاتی ہے)۔ اللہ قرآن میں فرماتا ہے:
[القرآن 65:2]فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فَارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِّنكُمْ وَأَقِيمُوا الشَّهَادَةَ لِلَّهِ
ترجمہ: پھر جب وہ (طلاق دیے جانی والی عورتیں) اپنی مقررہ میعاد (کے ختم ہونے) کے قریب پہنچ جائیں تو انہیں بھلائی کے ساتھ (اپنی زوجیت میں) روک لو یا انہیں بھلائی کے ساتھ جدا کردو۔ اور اپنوں میں سے دو عادل مَردوں کو گواہ بنا لو اور گواہی اللہ کے لئے قائم کیا کرو، ۔۔۔
ایک بھائی صاحب نے نیٹ پر اپنی زندگی کا ایک یادگار قصہ تحریر کیا کہ انکے گھر کام کرنے والی غریب خاندان کی خاتون کو غصے میں آ کر انکے ان پڑھ جاہل شوہر نے صبح کو تین طلاقیں دے دی، اور وہ روتی پیٹتی اپنے کچھ دو تین بچوں کو لے کر انکے گھر آ گئیں۔ شام کو اُس جاہل شخص کا غصہ اترا تو وہ اپنی بیوی کو لینے انکے گھر آ دھمکا اور انکار کر دیا کہ اس نے انہیں کوئی طلاق دی تھی۔ بیوی کے پاس طلاق کے کوئی گواہ نہ تھے اس لیے انہیں لوگوں نے زبردستی پھر سے خاوند کے ساتھ واپس روانہ کر دیا۔ اور اس واقعے (طلاق) کے بعد ان خاتون کے مزید کچھ چار پانچ بچے اور پیدا ہوئے۔
یہ ایک معاشرتی مسئلہ ہے، جسکا حل ہونا ضروری ہے۔ بہرحال اس پر بحث پھر کبھی۔ ابھی اصل بحث پر پلٹتے ہیں۔


کیا حدیث میں گواہوں کی شرط کے متعلق بیان ہوا؟

اور حیرت کی بات ہے کہ حدیث کے ذخیرے میں بھی آپ کو بخاری و مسلم و دیگر کتب میں کئی کئی جگہ نکاح کی دیگر شرائط مل جائیں گی، مگر نکاح میں گواہ کی شرط آپ کو بخاری میں ملے گی نہ مسلم میں، اور نہ پھر انکے بعد صحاح ستہ کی کسی کتاب میں۔۔۔۔ اور پھر صحاح ستہ کے ساتھ نمبر آتا ہے امام مالک کی موطا ء اور مسند احمد بن حنبل کا، مگر ان میں بھی کہیں ڈھونڈننے سے آپ کو نکاح میں گواہ کی شرط نظر نہیں آئے گی۔ انکے بعد کی کسی کتاب میں جا کر اہلسنت برادران کو پھر گواہ والی کوئی روایت ملتی ہے۔
نوٹ: ابھی نیٹ گردی کرتے وقت ایک روایت سامنے آئی ہے جسکے مطابق گواہ کے متعلق ایک روایت اور موجود ہے جو کہ مسند احمد بن حنبل میں پائی جاتی ہے۔ اگر کسی کے پاس مکمل طور پر اس روایت کا متن موجود ہو تو براہ مہربانی یہاں پر شیئر کریں۔


فریق مخالف سے پہلا سوال:
اسلام مکمل نظریہ حیات ہے اور ہر صدی ہر زمانے کے لیے ہے۔
اس صدی میں انگریزوں کے آنے سے قبل تک نکاح پڑھاتے وقت ساتھ میں کسی نکاح فارم کے کاغذات پر نہیں کیے جاتے تھے، بلکہ سب کچھ زبانی کلامی ہوتا تھا۔ اب ذرا تصور کیجئے:
۔ اگر میاں وبیوی مارکیٹ جاتےہیں تو کیا وہ اپنے ساتھ اپنے اُن دو بیرونی گواہوں کو اپنے ساتھ ڈھو کر لے جاتے ہیں؟
نہیں، وہ سادگی سے گواہی دیتے تھے ہیں کہ وہ میاں اور بیوی ہیں اور انکی یہ گواہی بطور مسلمان مرد اور مسلمان عورت کی گواہی کے قبول کی جاتی ہے اور کافی سمجھی جاتی ہے۔
۔ چلیں ماضی میں چلتے ہیں۔اور ماضی میں لوگ اپنی بیویوں کے ساتھ سفر پر روانہ ہوتے ہیں اور دوسرے شہروں اور دوسرے ملکوں میں جا پہنچتے تھے۔
سوال یہ ہے کہ کیا وہ ان نئے شہروں و ملکوں میں اپنے اُن “دو” عدد بیرونی گواہوں کو ساتھ ساتھ ڈھو کر لیے پھرتے تھے کہ جہاں کسی نے پوچھا آپکا کیا رشتہ ہے تو وہیں نکال کر ان دو گواہوں کو کھڑا کر دیا؟ نہیں، بلکہ ان دونوں میاں بیوی کی دی گئی دو گواہیوں پر مکمل اعتماد کیا جاتا تھا۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی شریعت مسلمان شوہر وبیوی کی دو گواہیوں کو کافی جانتے ہوئے قبول کر رہی ہے۔چنانچہ آج جب دعوی کیا جاتا ہے کہ یہ دو عدد بیرونی گواہ ایک “لازمی” شرط ہے تو یہ ایک ایسا “تضاد” ہے جسکا جواب وہ پچھلے 1400 سو سالوں سے نہیں دیا جا سکا ہے اور نہ آئندہ کبھی دیا جائے گا۔ چنانچہ مان لیجئے یہ دو عدد زائد گواہان ایک مستحب فعل ہے، مگر نکاح کی لازمی شرط نہیں۔
انسانی عقل اللہ کا ہمیں سب سے بڑا تحفہ ہے اور اگر ہم تفکر و تدبر کریں تو بہت کچھ مسائل حل کر سکتے ہیں۔
عہد رسول میں صحابہ کرام کا بغیر گواہان کے عقد متعہ کرنا

اور اللہ کا کرم ایسا ہے کہ اُس نے ایسا انتظام کیا کہ چیزیں خود بخود آپکے لیے پھنستی اور ہمارے لیے سہل ہوتی جا رہی ہیں۔ جو آپکی پسندیدہ روایت ہے (جس پر آپکا پورا انحصار ہے کہ عقد متعہ کا انکار کریں) وہی روایت بذات خود آپکے گلے کا پھندہ ہے۔



صحیح مسلم، باب النکاح
سبزہ جہنی کا بیان ہے کہ فتح مکہ میں رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہم کو پورے ۱۵ دن مکہ میں رہنا پڑا۔ تو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم کو اجازت دی متعہ کی۔ میں اور ایک شخص میری قوم میں سے، ہم دونوں آدمی ایک ساتھ نکلے۔ میں اپنے ساتھی کی بہ نسبت خوبصورت اور وہ ذرا بدصورت تھا لیکن ہم دونوں آدمیوں کی چادروں میں فرق تھا۔ میری چادر کہنہ اور اس کی چادر بالکل نئی تھی۔ یہاں تک کہ جب ہم مکہ کے آخری حصہ تک پہنچے تو ایک عورت ہم کو بہت حسین و جمیل ملی اور ہم نے اس سے متعہ کی خواہش کی اس نے اجرت کا سوال کیا ہم دونوں نے اپنی اپنی چادر پھیلادی اس نے دونوں آدمیوں کے چہرہ پر نظر ڈالی۔ میرے ساتھی نے کہا کہ دیکھو اس کی چادر کہنہ ہے اور میری چادر بالکل نئی ہے۔ اس نے کہا کہ اسی کی چادر مجھے منظور ہے۔ یہ الفاظ اس نے دو یا تین بار کہے اور اس کے بعد میں نے اس سے متعہ کیا۔
اس روایت میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ:
۔ اس متعہ کے لیے کوئی دو گواہ پکڑ کر نہیں لائے گئے۔
۔صحابیہ خاتون نے اپنے ولی کی کوئی اجازت طلب نہیں کی
۔ اس صحابی اور صحابیہ کے درمیان ہونے والے عقد متعہ کی کوئی پبلک (عام الناس) میں تشہیر نہیں کی گئی۔
یہ سن 8 ہجری میں ہونے والا واقعہ ہے۔ اب بتلائیےآپ نے اہل تشیع کی مخالفت میں “تشہیر”، “ولی” اور “گواہوں” کی بنیاد پر زناکاری کے فتوے جاری تو کر دیے ہیں، مگر اب اس روایت کا سامنا کیسے کریں گے جو آپکا گلا چھوڑنے والی نہیں۔
آئیے اب دیکھتے ہیں کہ امام نؤوی اسے روایت کے متعلق کیا بیان فرماتے ہیں:
وفي هذا الحديث : دليل على أنه لم يكن في نكاح المتعة ولي ولا شهود
ترجمہ: یہ حدیث اس بات کا ثبوت ہے کہ “نکاح المتعہ” میں ولی کی ضرورت ہے اور نہ ہی گواہوں کی
http://hadith.al-islam.com/Display/Display.asp?Doc=1&Rec=3213
اور امام نؤوی کے بعد اب امام عبدالرحمان الجزائری کی تحریر پڑھئیے۔ وہ اپنی مشہور کتاب “الفقہ علی المذاہب الاربعہ” (جلد 4، صفحہ 167، لاہور ایڈیشن) میں لکھتے ہیں:
نکاح متعہ کی حقیقت یہ ہے کہ اس میں عورت کے ساتھ صیغے پڑھے جاتے ہیں، اور الفاظ کا اضافہ کیا جاتا ہے جس میں عقد کی مدت مقرر کی جاتی ہے۔ مثلا مرد کہتا ہے تو ایک ماہ کے لیے میری بیوی رہے گی، یا میں تجھ سے ایک سال کے لیے نکاح المتعہ کرتا ہوں۔اور دونوں پارٹیاں اس میں خود گواہوں کے طور پر کام دیں گی۔ یہ نکاح المتعہ ولی اور گواہوں کی موجودگی میں ہو سکتا ہے اور انکے بغیر بھی۔
اہلسنت علماء کا ایک گروہ سرے سے نکاح دائمی کے لیے بھی نکاح کو لازمی نہیں جانتا

اور درخواست ہے کہ اہل تشیع پر بعد میں اس بنا پر زناکاری کا فتوی لگائیے گا، مگر پہلے خود ان اہلسنت علماء کے فتوے دیکھ لیں جس میں یہ آپ سےنکاح دائمی میں گواہوں کے لازم ہونے کے متعلق اختلاف کر رہے ہیں۔
وحكى في البحر عن ابن عمر وابن الزبير وعبد الرحمن ابن مهدي وداود انه لا يعتبر الاشهاد‏
یعنی۔۔۔ البحر میں (عبداللہ) ابن عمر، (عبداللہ) ابن زبیر، عبدالرحمان ابن مہدی اور داؤد سے مروی ہے کہ نکاح میں کسی گواہوں کی ضرورت نہیں
http://www.al-eman.com/Islamlib/viewchp.asp?BID=253&CID=126#s7

عبداللہ ابن عمر صاحبزادے ہیں حضرت عمر کے اور انہیں فقہیہ صحابی سمجھا جاتا ہے۔اب بتلائیے کہ جب ان صحابہ کا مذہب یہ ہے کہ گواہان کی شرط لازمی نہیں تو پھر بھی کیا پھر بھی ان صحابہ ابن عمر ، ابن زبیر پر بھی فتوی بازی کی جائے گی؟


اور علامہ قاضی خان اپنی مشہور کتاب “فتاوی قاضی خان” میں فرماتے ہیں:
نکاح (دائمی) میں یہ لازمی نہیں کہ گواہان موجود ہوں”
اور فقہ کی کتاب ہدایہ میں درج ہے کہ:
وهو حجة على مالك شر في اشتراط الإعلام دون الشهادة
یعنی ۔۔۔۔ مالک کے نزدیک یہ حجت تھی کہ اعلان کیا جائے مگر گواہوں کی شرط ضروری نہیں تھی۔
اور اگر کچھ اصحاب زیادہ ہی انتہا پسند ہیں تو انہیں ذیل کے چند فتوے دیکھنے کے بعد شاید اس مرض سے نجات مل جائے اور وہ دوسروں کے خلاف پروپیگنڈہ بند کریں:
ولو تزوج امرأة بحضرة السكارى وهم عرفوا أمر النكاح غير أنهم لا يذكرونه بعد ما صحوا انعقد النكاح
ترجمہ: اگر کسی عورت نے ایسے گواہوں کے سامنے جو نشہ میں ہیں نکاح کا عقد کیا، اور اُن نشہ کے مستوں نے نکاح کا پہچان لیا، مگر بات اتنی ہے کہ جب وہ ہوش میں آئے اور نشہ اتر گیا تو اب اُنکو یاد نہیں ہے، تو نکاح منعقد ہو جائے گا۔
آنلائن فتاوی قاضی خان، کتاب النکاح
فتاوی عالمگیری (اردو) جلد 2، صفحہ 127
ایسے نشے میں مدہوش گواہوں سے ہم بغیر گواہوں کے ہی بہتر۔اسی ضمن میں ایک اور فتوی::
وينعقد بحضور من لا تقبل شهادته له أصلا
ترجمہ: اورجن لوگوں کی گواہی عاقد کے حق میں اصلا قبول نہیں ہوتی، اُنکے شاہد ہونے سے بھی نکاح منعقد ہو گیا۔
آنلائن فتاوی عالمگیری
فتاوی عالمگیری (اردو)، جلد 2، صفحہ 126
اور گواہان کے علاوہ ولی کی اجازت کے بغیر بھی نکاح ہو جاتا ہے
نفذ نكاح حرة مكلفة بلا ولي عند أبي حنيفة وأبي يوسف - رحمهما الله تعالى
امام ابو حنیفہ اور امام ابو یوسف کے نزدیک ظاہر الروایۃ کے موافق عورت آزادہ عاقلہ بالغہ کا نکاح بدون (بغیر) ولی کے نافذ ہو جاتا ہے۔
آنلائن فتاوی عالمگیری، کتاب النکاح
فتاوی عالمگیری (اردو)، جلد 2، صفحہ 162
اور فتاوی عالمگیری میں مزید درج ہے:
رجل خطب امرأة إلى نفسها فأجابته إلى ذلك وكرهت أن يعلم بذلك أولياؤها فجعلت أمرها في تزويجها إليه يجوز هذا النكاح
یعنی ۔۔۔ اگر مرد ایک عورت کو شادی کی پیشکش کرے اور وہ اسے قبول کر لے، مگر یہ نہ چاہے کہ اُس کے ولیوں کو اس کی خبر ہو، تو وہ اسی مرد کو اپنا ولی مقرر کر سکتی ہے اور ایسے نکاح کی اجازت ہے۔
آنلائن فتاوی عالمگیری
برادران اہلسنت کی فقہ میں کنیز عورت کے مالک (واحد مرد) کی گواہی کافی ہے کہ وہ اُسکے ساتھ نہیں سویا

آئیے اب فقہ کے اُس حصے کی طرف چلتے ہیں جو اس لحاظ سے دلچسپ ہے کہ وہاں ہمارے بھائیوں پر فقہ کے یہ “تضادات” مزید واضح ہو جائیں گے۔ہمارے بھائیوں کی فقہ میں:
۔ ایک مردکو نئی کنیز باندی کو خریدتے وقت کسی گواہ کی ضرورت نہیں، اور نہ ہی بعد میں اس کنیز باندی کے ساتھ ہمبستری کرنے کے لیے اُسے کوئی گواہ کرنے ہیں۔
۔ کنیز کا مالک اپنی کنیز کو کسی نئے مرد کو فروخت کر سکتا ہے اور اُسکی گواہی کافی ہے کہ اُس نے کنیز کے ساتھ ہمبستری نہیں کی، لہذا نیا مالک اُس سے بغیر کسی عدت کے ہمبستری کر سکتا ہے۔
۔ اسی طرح مالک اس کنیز کو اپنے باپ یا بھائی کے لیے حلال کر سکتا ہے بنا کوئی گواہ کیے اور مالک کی اپنی اکیلی گواہی کافی ہے کہ اُن نے اپنی کنیز کو اپنے باپ یا بھائی کے لیے حلال کر دیا تھا۔
۔ مالک اپنی کنیز کو کسی دوسرے شخص کے “نکاح” (عارضی تعلق والے نکاح) میں دے سکتا ہے اور اس مالک کی گواہی کافی ہے کہ اُس نے کنیز کے ساتھ ہمبستری نہیں کی (چاہے مالک و کنیز سالوں سے ایک ہی چھت کے نیچے کیو ں نہ سو رہے ہوں)۔
اور مالک کو چھوڑیں، ہمارے برادران کا فقہ تو ایک کنیز عورت کی گواہی کو کافی قرار دے رہا ہے کہ اس کی بات کا یقین کیا جائے۔
اور خبر واحد امور دین و معاملات میں کافی ہے (اور) اسی واسطے اگر کوئی باندی (کنیز) آئی اور کہا کہ مجھے میرے مولا (مالک) نے تیرے پاس (بطور) ہدیہ بھیجا ہے تو اُسکے قول پر اعتماد کرکے اُس سے وطی (ہمبستری) کرلینا حلال ہے۔”
حوالہ: فقہ کتاب فتاوی عالمگیری (اردو)، جلد 3، صفحہ 268، کتاب الحدود، شائع کردہ ادارہ دارالاشاعت کراچی)
آپ نے دیکھا کہ یہاں کنیز عورت کی خبر واحد پر فیصلہ کیا جا رہا ہے اور ایسی خبر واحد کو دین و معاملات میں کافی قرار دیا جا رہا ہے۔
اب دیکھئیے امام مالک کا فتوی کہ:
۔ اگر ایک کنیز کی ملکیت پر دو مالکوں کی شراکت ہے، اور ان میں سے اگر ایک زبردستی بنا کسی گواہوں کے اُس کنیز کے ساتھ سو جاتا ہے تب بھی اُس پر حد نہیں لگے گی، بلکہ اُسے اُس کنیز کی بقیہ قیمت اپنے ساتھی کو ادا کر دینی کافی ہے۔
۔اور اگر ایک باپ اپنے بیٹے کی کنیز کو زبردستی مجبور کر کے اُس کے ساتھ وطی کر لے تب بھی اُسپر کوئی حد نہیں، بلکہ وہ اُس کنیز کی قیمت ادا کر دے۔
یہ رہی امام مالک کی روایت (آنلائن لنک)

Muwatta Imam Malik,Book 41, Number 41.6.19a:

Malik said, "The best of what is heard about a slave-girl whom a man has intercourse with while he has a partner in her is that the hadd is not inflicted on him and the child is connected to him. When the slave-girl becomes pregnant, her value is estimated and he gives his partners their shares of the price and the slave-girl is his. That is what is done among us."

Malik said about a man who made his slave-girl halal to (another) man that if the one for whom she was made halal had intercourse with her, her value was estimated on the day he had intercourse with her and he owed that to her owner whether or not she conceived. The hadd was averted from him by that. If she conceived the child was connected to him.

Malik said about a man who had intercourse with his son's or daughter's slave-girl, "The hadd is averted from him and he owes the estimated value of the slave-girl whether or not she conceives."

اب یہ کیسے ممکن ہے کہ آپکے فقہ میں یہ چیزیں موجود ہوں مگر انہیں چھوڑ کر آپ بس نکاح المتعہ پر ہر قسم کے الزامات لگاتے رہیں؟
مزید یہ کہ ہمارے بھائیوں کے فقہ میں اگر ایک عورت حلالہ کرنا چاہے تو اُسکے لیے بہت آسان ہے کہ وہ دعوی کر دے اُس نے ایک اور شخص سے نکاح کیا تھا جس سے اُسے طلاق ہو گئی ہے اور وہ عدت گذار چکی ہے۔اور اسکی اکلوتی گواہی کا اعتبار کیا جائے گا۔ کتاب عنایت الطالبین، جلد 4، صفحہ 31 پر شافعی عالم ابو بکر بن محمد البکری (متوفی 1310 ہجری) لکھتے ہیں:
فاذا ادعت انها نكحت زوجا آخر وأنه طلقها وانقضت عدتها تصدق في ذلك
یعنی۔۔۔” اگر عورت دعوی کرے کہ اس کا نکاح ایک دوسرے شخص سے ہوا، پھر طلاق ہوئی اور پھر اُس نے عدت گذاری، تو لازمی ہے کہ اسکی بات کا اعتبار کیا جائے۔”
اور بات یہاں سے آگےبڑھتی ہے اور شافعی عالم زین الدین بن عبدالعزیز الہندی (متوی 987 ہجری) اپنی کتاب فتح المبین جلد 4، صفحہ 31 پر فرماتے ہیں:
إذا ادعت نكاحا وانقضاء عدة وحلفت عليها جاز للزوج الأول نكاحها وإن ظن كذبها لأن العبرة في العقود بقول أربابها
یعنی ۔۔۔”اگر عورت دعوی کرے کہ اُس نے (دوسرے شخص سے)نکاح کیا، پھر عدت گذاری اور اسپر وہ حلف دے تو اُس کے پہلے شوہر کو اجازت ہے کہ وہ اُس سے دوبارہ نکاح کر لے، چاہے اُسے شک ہی کیوں نہ ہو کہ وہ عورت غلط بیانی کر رہی ہے، کیونکہ ایسے معاملات میں فیصلہ انسان کے قول پر ہے۔
اور شیخ منصور البهوتي الحنبلی اپنی کتاب كشاف القناع ج5ص52 پر فرماتے ہیں:
وإذا ادعت المرأة خلوها من الموانع وانها لا ولي لها زوجت ولو لم يثبت ذلك ببينه
یعنی۔۔۔”اگر عورت کہے کہ اسکی نکاح میں کچھ چیز مانع نہیں ہے مگر اسکا کوئی ولی نہیں ہے، تو لازم ہے کہ اسکی بات کا اعتبار کرتے ہوئے اسکا نکاح کیا جائے چاہے وہ اپنے دعوے کا کوئی ثبوت بھی پیش نہ کر پائے۔


دعوی کہ کنیز عورت کی مثال کو آزاد عورت پر لاگو نہیں کیا جا سکتا

جب ہم اپنے بھائیوں کو انکی فقہ میں کنیز عورت کے مسائل دکھاتے ہیں تو ان میں سے کچھ عذر پیش کرتے ہیں کہ کنیز عورت کے مسائل اور مثال کو آزاد عورت پر لاگو نہیں کیا جا سکتا۔ بہرحال یہ ایک لنگڑا عذر ہے کیونکہ آزاد عورت اور کنیز میں اصل فرق معاشرے میں “مرتبے” کا ہے،
۔اور اس “مرتبے” کی وجہ سے عدت کی مدت میں اضافہ تو ہو سکتا ہے مگر عدت بہرحال پھر بھی دونوں کے لیے موجود رہے گی اور اس لحاظ سے دونوں میں کچھ فرق نہیں۔
۔ اور بچہ چاہے آزاد عورت سے ہو یا کنیز سے، بہرحال وہ مرد کا بچہ ہی قرار پائے گا اور اس معاملے میں بھی آزاد اور غلام کا کوئی فرق نہیں۔
۔ اور معاشرتی مرتبے کی وجہ سے زناکاری کی حد میں اضافہ یا کمی تو ہو سکتی ہے، مگر بہرحال دونوں صورتوں میں یہ زناکاری ہی کہلوائے گی۔
۔ اسی طرح اگر واقعی گواہوں کی شرط آزاد عورتوں سے نکاح میں لازمی ہوتی تو پھر کنیز عورتوں کے لیے بھی یہ شرط لازمی ہوتی۔ معاشرتی مرتبے کی بنیاد پر یہ گواہوں کی تعدا کم یا زیادہ تو ہو سکتے تھی، مگر ختم پھر بھی نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ آج ہمارے بھائی اگر کہیں کہ کنیزوں سے تو بغیر گواہوں کے نکاح کر لو، مگر آزاد عورتوں سے لازمی، تو یہ انکے فقہ میں تضاد آ جائے گا۔
 

گرائیں

محفلین
مہوش علی صاحبہ، اس بحث کے شروع کرنے پر میں آپ کا ممنون ہوں۔ مجھے بہت سی ایسی باتوں کا علم ہوا، جو میں پہلے نہ جانتا تھا۔ مجھے امید ہے آپ عاشورہ کی مصروفیات سے فارغ ہونے کے بعد جلد ہی اس بحث کو مکمل کریں گی۔
 

طالوت

محفلین
اور مجھے حیرت ہوئی کہ پاسبان روایات نام نہاد احادیث اور تاریخ کے سامنے بے بس نظر آ رہے ہیں ۔ چونکہ معاملات بگڑتے سنورتے ہی ان دو معاملات سے ہیں اس لئے میں تو اس میں طویل بحث کرنا یا اس قدر طویل مراسلے پڑھنا وقت کا ضیاع سمجھتا ہوں ۔
وسلام
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top