نکاح المتعہ کا تعارف (حصہ دوم)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
ش

شوکت کریم

مہمان
اور اللہ کی شان دیکھئے کہ وہ غلط چالوں کو کیسے ناکام بناتا ہے کہ یہ قتادہ ہیں جو کہ حضرت ابو سعید خدری سے حنین کے اوطاس کی جانب لشکر روانہ کرنے والی روایت نقل کر رہے۔ مگر یہی قتادہ وہ ہیں جو اس آیت کے دوسرے جزو کے متعلق روایت نقل کرتے ہیں کہ یہ عقد المتعہ کے حکم کو بیان کر رہا ہے۔

حَدَّثَنَا اِبْن بَشَّار , قَالَ : ثنا عَبْد الْأَعْلَى , قَالَ : ثنا سَعِيد , عَنْ قَتَادَة , قَالَ : فِي قِرَاءَة أُبَيّ بْن كَعْب : " فَمَا اِسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ إِلَى أَجَل مُسَمًّى [تفسیر الطبری آنلائن لنک ]

اور اللہ کی شان دیکھئے کہ کس طرح وہ جھوٹوں اور خیانت کرنے والوں کو موقع پر ہی بے نقاب کرتا ہے۔ ان ہی کے ہاتھوں۔

میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ کچھ بھی پیش کرنےسےپہلے خوب تسلی سےپڑھ لیا کریں تاکہ رسوائی سے بچ سکیں۔ جہاں اور بے شمار بد دیانتیاں اللہ سبحان و تعالیٰ‌نے آپ کی ظاہر کی ہیں وہاں ایک اور بددیانتی اور خیانت دیکھیںِ

دوستواب محترمہ کی تازہ بددیانتی ملاحظہ کریں۔ جو لنک انہوں نے طبری کا دیا ہوا ہے جہاں امام صاحب اس آیت پر بحث کر رہے ہیں اور مختلف اقوال نقل کر رہے ہیں۔ ہر طرح کے اقوال نقل کرنے کے بعد وہ آخر میں نتیجہ (Conclusion) بیان کرتے ہیں جو کہ کسی بھی بحث تحریر کا مقصد ہوتا ہے۔ کہ لکھنے والے نے ان سب دلائل سے کیا نتیجہ اخذ کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور امام صاحب صریح اور قطعی نتیجہ بیان کرتےہیں اور دلیل دیتے ہیں کہ متعہ حرام ہے اور اس کو حلال نہیں قرار دیا جا سکتا۔ اور جو قرات ابی بن کعب و ابن عباس سے مروی ہے وہ مسلمانوں کے مصاحف قرآن کے خلاف ہے اور ہر کسی کو اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ اللہ کے کلام میں ہیر پھیر کرتا پھرے۔ لنک اوپر محترمہ نے خود ہی دیا ہوا عبارت میں نیچے دے رہا ہوں ہر کوئی جا کر خود تصدیق کر سکتا ہے۔

وقد دللنا على أن المتعة على غير النكاح الصحيح حرام في غير هذا الموضع من كتبنا بما أغنى عن إعادته في هذا الموضع. وأما رُوي عن أبيّ بن كعب وابن عباس من قراءتهما: «فَمَا اسْتَمْتَعُتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ إلى أجل مسمّى» فقراءة بخلاف ما جاءت به مصاحف المسلمين، وغير جائز لأحد أن يلحق في كتاب الله تعالى شيئاً لم يأت به الخبر القاطع العذر عمن لا يجوّز خلافه
 

مہوش علی

لائبریرین
محترمہ ایسے تو آپ دامن نہ چھڑا سکیں گی میں نے جو اوپر تلے پوسٹوں میں درجنوں اقتباسات لگائے ہوئے ہیں کہ جن سے آپ حلت متعہ ابتدائے مدینہ سے ثابت کر رہی ہیں پہلے ان کا تو جواب دیں۔ النسا آیت 24 کو اوطاس کو نازل ہونے نے آپ کی ساری کہانی کی بنیاد ہلا کر رکھ دی ہے۔ اور آپ کتنے آرام سے ابتدائے مدینہ سے انتہائے مدینہ کی طرف منتقل ہو گئی ہیں۔ کیا آپ میں تھوڑی سی بھی وہ چیز نہیں کہ آپ یہ ہی بتا دیتیں یا معذرت ہی کر لیتیں کہ قرآن نے متعہ کو ابتدائے مدینہ میں نہیں‌ بلکہ شوال 8 ہجری کو حلال کیا تھا۔

پھر بگلے کی وہی ایک ٹانگ۔
بات آپ لوگوں کے دعوے پر ہو رہی تھی کہ جب آپ لوگ صدیوں سے چیخ رہے ہیں کہ ابن عباس اس لیے متعہ کا فتوی دیتے تھے کیونکہ زمانہ جاہلیت سے ہی عقد المتعہ چلتا چلا آ رہا تھا اور ابن عباس کو اسکی ممانعت کی خبر نہ ہو سکی۔ اور پھر آپ لوگوں نے ہی دعوی کیا کہ علی ابن ابی طالب نے ابن عباس کو کہا کہ رسول ﷺ نے متعہ سے "خیبر والے دن" منع کر دیا تھا۔ تو یہ تو خود آپ لوگ ہیں جو زمانہ جاہلیت سے لیکر کم از کم خیبر تک متعہ کو حلال بتاتے آ رہے ہیں۔
مگر پھر خیبر میں ہمیشہ کے لیے تاقیامت حرام ہونے والا متعہ فتح مکہ کے موقع پر پھر صحابہ کے درمیان ہوتا دکھائی دیتا ہے، اور پھر ۔۔۔۔۔۔ ان "صحیح" ہونے کا دعوی کیے جانے والی روایات کے تضادات کئی دفعہ اوپر پیش کیے جا چکے ہیں، مگر خود پر آپ لوگ ہزار خون معاف رکھتے ہیں اور تمام گناہ، تمام اخلاقی اقدار، تمام اعتراضات و الزامات فقط ہمارے لیے ہیں۔

الی اجل مسمی قرآن کا حصہ نہیں ہے پھر کیوں آپ بار بار اسے پیش کر رہی ہیں ۔۔۔۔ اگر آپ اسے قرآن کا حصہ سمجھتی ہیں تو کیا اس ے یہ مطلب ہوا کہ آپ موجودہ قرآن کو غلطی سے پاک تصور نہیں‌ کرتیں۔ اور اگر یہ بات ہے تو لائیں وہ حوالہ کہ جس میں یہ الفاظ آیت 24 کے ساتھ دیے گئے ہوں۔ اور اگر نہیں ہے اور ہر گز نہیں لا سکتیں آپ کہ اس کا محافظ اللہ ہے اور یہ ایک زیر زبر کے ہیر پھیر سے پاک ہے تو پھر یہ تو پھر تین الفاظ ہیں ہمارے نزدیک ان کی زیادہ سے زیادہ حیثیت تفسیر جتنی ہے اور وہ تفسیر بھی متعہ کے خلاف جاتی ہے حق میں نہیں۔

ہزار بار بتلا چکے ہیں مگر افسوس اب ان لوگوں کو بات نہیں سمجھنی ہے۔ یہ الفاظ قران کا حصہ نہیں بلکہ ابن عباس اور ابن ابی کعب، عبداللہ ابن مسعود وغیرہ کی قرآت کے طور پر خود بلند پایہ تابعین جو تفسیر کے میدان میں آپ ہی لوگوں کے امام مانے جاتے ہیں، انہوں نے بیان کیے ہیں۔ ان میں قتادہ، ابو نضرہ، عطاء، سعید بن جبیر، اور سدی جیسے لوگ شامل ہیں۔ چنانچہ اب آپ سر تو پٹخ سکتے ہیں، مگر فرار کی کوئی راہ نہیں۔
اگر فقط ایک آدی روایت ابن عباس سے ہوتی تو بھی شاید آپ فرار ہو جاتے، مگر یہاں تو روایات کا پورا دفتر مختلف صحابہ و تابعین سے موجود ہے جس میں صحیح روایتیں بھی شامل ہیں۔ آپ ہی کے علماء کے مطابق ایسے الفاظ بطور تفسیر بذات خود اللہ کی طرف سے ساتھ نازل ہوتے ہیں۔ چنانچہ ایک بات تو طے ہے کہ یہ سب کے سب صحابہ و تابعین کا ایک بات پر اتفاق ہے کہ یہ آیت عقد المتعہ کے حق میں نازل ہوئی ہے۔ باقی یہ الفاظ قرآن کی تفسیر بطور حدیث قدسی ہے یا نہیں، یا مختلف قرآتوں کا حصہ ہیں، تو یہ الگ مسئلہ ہے اور آپ لوگوں کا ہی مسئلہ ہے جسے براہ مہربانی ہم پر نہ تھوپیں۔


از شوکت کریم:
دعویٰ‌تھا نہیں‌ہے اور الحمد للہ اس کے ثبوت قبل از اسلام چائنہ والے مضمون اور ہینڈ فاسٹنگ pagon culture کی شکل میں پیش کر چکا ہوں ۔ اور سب سے بڑا ثبوت آیت 24 کا اوطاس میں نزول ہونا ہے کہ جس سے آپ ابتدائے مدینہ سے 8 ہجری تک متعہ حلال کر رہی تھیں۔ جبکہ آپ کی کہی ہوئی دلیل نازل ہی 8 ہجری میں ہو رہی ہے۔

ہمارا مسئلہ تو صاف صاف اوطاس پر نازل ہونے والی اس آیت سے ثابت ہو چکا ہے، اور بات بہت صاف ہے کہ اس سے پہلے خیبر و فتح مکہ و عمرۃ القضا وغیرہ کی روایات جھوٹی گھڑی ہوئی ہیں۔ اسی لیے ابن عباس اور دیگر صحابہ رسول اللہ ص کی وفات تک عقد المتعہ کرتے رہے اور انہیں یقین تھا کہ کوئی آیت ایسی نازل نہ ہوئی جو متعہ کو حرام کرتی ہو۔
چنانچہ یہ ہمارا مسئلہ ہی نہیں کہ اوطاس سے پہلے متعہ ہوتا تھا یا نہیں، بلکہ یہ آپ لوگوں کا مسئلہ ہے۔ اور جابر بن عبداللہ انصاری سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول نے آ کر منادی دی کہ انہیں متعہ کی اجازت دی جاتی ہے۔ اور اسکے بعد جابر بن عبداللہ انصاری کہتے ہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے پورے دور، حضرت ابو بکر کے پورے دور، اور پھر حضرت عمر کی خلافت کے نصف تک عقد المتعہ کرتے رہے۔
چنانچہ جاہلیت کے دور میں، یا پھر ابتدائے اسلام میں متعہ ہوتا ہو یا نہیں، تو یہ ہمارا مسئلہ ہی نہیں رہا کیونکہ یہ سراسر آپ کا مسئلہ اور دعوی تھا، اور جب صاف صاف قرآن و سنت رسول ﷺ سے ثابت ہو گیا کہ اوطاس پر متعہ کے احکام پر آیت نازل ہوئی اور اللہ کے رسول نے منادی کروا کر صحابہ کو متعہ کی اجازت دی تو پھر اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ اس سے پہلے کیا ہوتا رہا۔

اس لیے کہ آپ اپنے جھوٹ در جھوٹ پر پھر جھوٹ کر پردہ ڈالنا چاہ رہی ہیں۔ اب نے اب تک نہیں‌بتایا کہ آپ باربار ابتدائے مدینہ کی رٹ لگا کر سب کو کیا ثابت کرنا چاہ رہی تھیں۔

الزام پر الزام، اپنی ہی کتابوں میں روایات کے دفتر کے دفتر کو نظر انداز کرتے ہوئے خود اپنا گریبان نظر نہیں آ رہا جہاں آپ لوگوں کا دعوی تھا متعہ شراب کی طرح جاری تھا یہاں تک کہ خیبر والے دن یا فتح مکہ والے دن رسول اللہ نے متعہ سے منع کر دیا۔ اب لگائیں رہیں آپ رٹ ہماری، جبکہ ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ یہ ساری کی ساری پیش کی جانی والی روایات آپ کی اپنی کتابوں کی ہی ہیں۔


از شوکت کریم:
لگتا ہے کچھ گنجائش رہ گئی ہے۔۔۔ اگر اہل سنت کے خلاف ایک اور دھاگہ کھلے گا تو میرا نہیں خیال کہ منتظمین ہمیں جوابی دھاگہ کھولنے نہ دیں گے۔ اور اگر منتظمین یہ منظور کرتے ہیں تو پھر ٹھیک ہے ایک دھاگہ آپ کھولیں اور ایک دھاگہ ہم کھولیں گے کہ یہی عین انصاف ہو گا۔
اور آپ اب حد سے گزر رہی ہیں۔ یہ دھاگہ جس مقصد کے لیے ہے اسے اس کے لیے ہی رہنے دیں اور اس کو موضوع کے دلائل ہی سے ثابت کریں اور اگر یہ نہیں کر سکتیں اور جو کہ نہیں‌ کر سکیں ہیں اس لیے اب دوسرے موضوعات کو چھیڑ کر سوائے فتنہ و فساد برپا کرنے کے اور کچھ آپ کا مقصد نہیں ہے۔

1۔ یہ بتلائیے کہ متعہ الحج پر الگ دھاگہ کھولنے کی کون بات کر رہا ہے؟ میں نے تو اسی دھاگے میں ایک مراسلہ متعہ الحج پر کرنے کی بات کی ہے۔
2۔ اور متعہ الحج مکمل طور پر متعہ النساء سے منسلک ہے کیونکہ حضرت عمر نے ان دونوں متعوں کو بذات خود ایک ہی وقت میں یہ کہتے ہوئے منع کیا کہ رسول اللہ ص کے دور میں دو متعے جاری تھے، اور میں ان کی ممانعت کرتا ہوں اور جو اب یہ کرے گا انہیں میں سزا دوں گا۔
3۔ اور صحابہ اس ممانعت کے بعد نہ متعہ النساء کرتے ہیں اور نہ متعہ الحج۔ مثلا جابر بن عبداللہ انصاری نہ صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ اس ممانعت کے بعد متعہ النساء سے رک گئے، بلکہ وہ پھر متعہ الحج سے بھی رک گئے۔
4۔ چنانچہ بات یہ ثابت کرنی ہے کہ حضرت عمر نے یہ تبدیلیاں اپنی ذاتی رائے سے کی تھیں۔ مگر ایک گروہ صحابہ کا اس سنت رسول کی تبدیلی پر متفق نہ تھا۔ اور حضرت عمر کے دور میں تو یہ گروہ بول نہ سکا (مثلا عمران بن حصین صحابی جو صحیح مسلم کی روایت کے مطابق وصیت کرتے ہیں کہ اگر وہ زندہ رہ جائیں تو یہ روایت بیان نہ کی جاے، اور صرف اور صرف انکی موت کی صورت میں یہ روایت بیان کی جائے)۔
5۔ چنانچہ متعہ الحج تو مکمل طور پر متعہ النساء سے منسلک ہے کہ ایک پر بات کرنے سے دوسرے مسئلے پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ تو پھر آپ اسے غیر متعلق کیوں کہہ رہے ہیں؟
 

مہوش علی

لائبریرین
اور اللہ کی شان دیکھئے کہ کس طرح وہ جھوٹوں اور خیانت کرنے والوں کو موقع پر ہی بے نقاب کرتا ہے۔ ان ہی کے ہاتھوں۔

میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ کچھ بھی پیش کرنےسےپہلے خوب تسلی سےپڑھ لیا کریں تاکہ رسوائی سے بچ سکیں۔ جہاں اور بے شمار بد دیانتیاں اللہ سبحان و تعالیٰ‌نے آپ کی ظاہر کی ہیں وہاں ایک اور بددیانتی اور خیانت دیکھیںِ

دوستواب محترمہ کی تازہ بددیانتی ملاحظہ کریں۔ جو لنک انہوں نے طبری کا دیا ہوا ہے جہاں امام صاحب اس آیت پر بحث کر رہے ہیں اور مختلف اقوال نقل کر رہے ہیں۔ ہر طرح کے اقوال نقل کرنے کے بعد وہ آخر میں نتیجہ (conclusion) بیان کرتے ہیں جو کہ کسی بھی بحث تحریر کا مقصد ہوتا ہے۔ کہ لکھنے والے نے ان سب دلائل سے کیا نتیجہ اخذ کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور امام صاحب صریح اور قطعی نتیجہ بیان کرتےہیں اور دلیل دیتے ہیں کہ متعہ حرام ہے اور اس کو حلال نہیں قرار دیا جا سکتا۔ اور جو قرات ابی بن کعب و ابن عباس سے مروی ہے وہ مسلمانوں کے مصاحف قرآن کے خلاف ہے اور ہر کسی کو اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ اللہ کے کلام میں ہیر پھیر کرتا پھرے۔ لنک اوپر محترمہ نے خود ہی دیا ہوا عبارت میں نیچے دے رہا ہوں ہر کوئی جا کر خود تصدیق کر سکتا ہے۔

وقد دللنا على أن المتعة على غير النكاح الصحيح حرام في غير هذا الموضع من كتبنا بما أغنى عن إعادته في هذا الموضع. وأما رُوي عن أبيّ بن كعب وابن عباس من قراءتهما: «فَمَا اسْتَمْتَعُتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ إلى أجل مسمّى» فقراءة بخلاف ما جاءت به مصاحف المسلمين، وغير جائز لأحد أن يلحق في كتاب الله تعالى شيئاً لم يأت به الخبر القاطع العذر عمن لا يجوّز خلافه

شاباش، یہ ہے آپ کا ثبوت کہ اپنے سنی عالم طبری کے بیان کو بطور حجت پیش کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ ابن عباس، و ابی ابن کعب اور عبداللہ ابن مسعود، علی ابن ابی طالب و دیگر تابعین قتادہ، ابو نضرہ، عطاء سعید بن جبیر وغیرہ سے مروی یہ روایات آپکی بے تحاشہ کتب و تفاسیر میں موجود ہیں۔ اب یہ قرآت چاہے قران کا حصہ نہ ہوں بلکہ تفسیری حاشیے میں براہ راست اللہ کی طرف سے حدیث قدسی ہوں، بہرحال یہ بات ثابت ہے کہ یہ آیت متعہ النساء کی بابت نازل ہوئی ہے۔
چنانچہ یہ بتلائیں کہ آپکے سنی عالم طبری صاحب کی ان صحابہ و تابعین کے مقابلے میں کیا حیثیت ہے جو آپ انہیں یہاں بطور حجت پیش کر رہے ہیں؟
 
ش

شوکت کریم

مہمان
طرح آہستہ آہستہ شراب حرام قرار دی گئی اسی طرح آہستہ آہستہ عقد المتعہ حرام قرار دیا گیا اور اسکی حرمت انہیں خیبر میں نظر آئی، یا پھر فتح مکہ میں صحابہ نے رسول اللہ ص کے حکم سے متعہ کیا، اور پھر اوطاس میں رسول ﷺ کے حکم سے انکی روایت کے مطابق صحابہ نے متعہ کیا۔ اور پھر ان موقعوں میں سے ہر ایک پر متعہ "قیامت" تک کے لیے حرام ہوتا تھا ۔۔۔۔ چونکہ یہ لوگ اپنے گریبان میں نظر ڈالنے کے قائل نہیں اور خود پر ہزار خون معاف رکھتے ہیں، اس لیے آج تک انہوں نے یہ معمہ حل کرنے کی کوشش ہی نہ کی کہ جو چیز خیبر میں ہمیشہ کے لیے تاقیامت حرام ہو گئی، وہی چیز پر فتح مکہ پر کیسے دوبارہ عمل پذیر ہو رہی ہے،۔۔۔ اور پھر فتح مکہ میں دوبارہ ہمیشہ کے لیے تاقیامت تک حرام ہو جاتی ہے، مگر پھر اوطاس میں دوبارہ متعہ ہونے لگتا ہے۔ اسکے بعد پھر اوطاس میں دوبارہ حرام ہو جاتا ہے۔

محترمہ پورے کے پورے مراسلے شیر مادر سمجھ کے ہضم کر رہی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر اللہ کے فضل و کرم سے ایک لائن بھی ایسی نہیں بچے گی کہ جس کو آپ پر ہی نہ پلٹا دوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ حق غالب ہونے کو آیا ہے۔ اگر طبیعت میں ٹیڑھ نہ ہو تو کچھ بھی ایسا نہیں کہ جو سمجھ میں نہ آ سکے۔

جہاں تک خبیر کی بات ہے تو وہ حرمت آپکے سلف کو بھی نظر آئی اور انہوں نے اپنی کتابوں میں ذکر کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ لنک یہ ہے اور اسی صفحے پر راویوں کی ثقاہت اور تقیہ کے بارے میں ذکر ہے۔

دوسری بات کہ خیبر میں قیامت تک کی ممانعت ہرگز نہیں ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر ہے تو ثبوت پیش کریں۔ ہاں ذہن تیار کیا گیا اور بتلا دیا گیا کہ آگے کیا ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بالکل ایسے ہی جیسے شراب کو حرام کیا گیا۔

تیسری بات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فتح مکہ اور اوطاس کا سال ایک ہی بنتا ہے بلکہ ساتھ ساتھ ہی دونوں واقعات ہوئے رمضان میں فتح مکہ اور شوال میں اوطاس 8 ہجری میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو یہ کوئی بڑی بات نہیں کہ ایک راوی فتح مکہ کہتا ہے اور دوسرا اوطاس ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ بات قرین انصاف ہے کہ اوطاس سے مراد بھی فتح مکہ والی بات ہی ہے۔ اور دنیا کی تاریخ میں بے شمار واقعات ایسے ہیں کہ جو ہوئے مگر ان کی حتمی تاریخوں کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

اور متعہ تا قیامت حرام ہوا فتح مکہ کے روز۔

اب آپ اپنی طرف تو آئیں ناں اس طرف تو آنے کو تیار ہی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ یہ کہ آپ کیسے ابتدائے مدینہ سے 8 ہجری تک جو متعہ کو قرآن سے حلال قرار دیتی رہی ہیں‌؟؟؟؟

اور یہ مت سمجھیں کہ یہ سب میں آپ کو یا میر انیس کو قائل کرنا چاہ رہا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لکم دینکم ولی دین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری طرف سے آپ لوگ شوق سے متعہ کریں مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ متعہ کو متعہ سمجھ کر اور اپنے مسلک اور عقیدے کے مطابق کرتے رہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمیں یا ہماری نوجوان نسل کو نہ چھیڑیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم کہلواتے ہیں اہل سنت والجماعت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ اور ان کے اصحاب کی سنت مبارکہ پر چلنے والے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور الحمد اللہ ہمارے پاس ہر مسئلے کی کئی سو دلیلیں موجود ہیں۔ اور فرض کریں۔

ہمارے لیے اگر کوئی دلیل نہ ہو صرف سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا قول مبارک ہو تو وہ ہمارے لیے حجت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ خلفائے راشدین کا عمل نبی کے نقش قدم پر ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور ہمارے پاس جو بھی پہنچا ہے ان ہی اصحاب کے ہاتھوں سے گزر کے پہنچا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور ان میں سے کسی کی نیت پر شک کرنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دین کی عمارت کو گرانےکے مترادف ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیا العیاذ باللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت ایسی تھی کہ 23 سال میں وہ چار شخص‌بھی ایسے نہ چھوڑ سکے کہ جو ان کے بعد دین کی اصل شکل کو برقرار رکھ سکیں۔
 
ش

شوکت کریم

مہمان
امام عبد بن حمید، ابن جریر اور ابن الانباری نے مصاحف میں اور حضرت حاکم رحمہ اللہ نے مختلف طرق سے نضرہ سے روایت کی ہے کہ میں نے ابن عباس سے متعہ النساء کے متعلق دریافت کیا انہوں نے کہا کیا تم سورۃ نساء کی تلاوت نہیں کرتے ہو؟ کہ فما استمتعتم بہ منھن الی اجل مسمی میں نے کہا نہیں تو۔ اگر اسی طرح پڑھتا ہوتا تو آپ سے دریافت کیوں کرتا۔ انہوں نے کہا کہ اچھا تو معلوم ہونا چاہیے کہا آیت یہ یونہی ہے۔
عبدالاعلی کی روایت میں بھی ابونضرہ سے اسی طرح کا واقعہ منقول ہے۔ تیسری روایت میں بھی ابو نضرہ سے نقل ہے کہ میں نے ابن عباس کے سامنے یہ آیت پڑھی۔ فما استمتعتم بہ منھن ابن عباس نے کہا۔ الی اجل مسمی۔ میں نے کہا میں تو اس طرح نہیں پڑھتا ہوں انہوں نے تین مرتبہ کہا خدا کی قسم خدا نے اس کو اسی طرح نازل کیا ہے۔

اگر آپ اس طرح‌ کی روایت پر یقین رکھتی ہیں تو پھر اس کا مطلب ہوا کہ آپ اس موجودہ مصحف کو بھی نہیں مانتیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آپ کو پتہ ہے کہ آپ کتنی ڈرٹی گیم کر رہی ہیں کہ اللہ نے جس قرآن کی حفاظت کا ذمہ لیا ہوا ہے آپ کہہ رہی ہیں کہ اس میں یہ آیت اس طرح نازل ہوئی اس کا مطلب ہوا کہ نعوذ باللہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ کا قول جھوٹا تھا اور لوگوں نے اللہ کے نازل کیے ہوئے قرآن میں سے وہ الفاظ‌ نکال دیے کہ جیسے اللہ نے نازل کیے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس روایت کو پیش کرنے کا مطلب ہے کہ آپ اس روایت کو صحیح‌ مانتی ہیں تو پھر لایئے وہ قرآن کہ جس میں یہ آیت جس طرح‌ خدا نے نازل کی ہے اسی طرح‌ لکھی ہو !!!

اور آگر آپ کے پاس ایسا قرآن نہیں تو پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مطلب ہوا کہ اس روایت پر خود آپ کو بھی یقین نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‌ پھر ایسی روایت پیش کرنے کا مقصد‌؟؟؟؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محترمہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
میرے خیال میں اب اس بحث کو سمیٹنے کا وقت آ گیا ہے۔ آپ سب دوستوں کا شریک گفتگو ہونے کا بہت شکریہ۔
 
ش

شوکت کریم

مہمان
پھر بگلے کی وہی ایک ٹانگ۔
بات آپ لوگوں کے دعوے پر ہو رہی تھی کہ جب آپ لوگ صدیوں سے چیخ رہے ہیں کہ ابن عباس اس لیے متعہ کا فتوی دیتے تھے کیونکہ زمانہ جاہلیت سے ہی عقد المتعہ چلتا چلا آ رہا تھا اور ابن عباس کو اسکی ممانعت کی خبر نہ ہو سکی۔ اور پھر آپ لوگوں نے ہی دعوی کیا کہ علی ابن ابی طالب نے ابن عباس کو کہا کہ رسول ﷺ نے متعہ سے "خیبر والے دن" منع کر دیا تھا۔ تو یہ تو خود آپ لوگ ہیں جو زمانہ جاہلیت سے لیکر کم از کم خیبر تک متعہ کو حلال بتاتے آ رہے ہیں۔

تو یہ جو مراسلوں کے ساتھ اقتباسات میں حلت متعہ کے دعوے کیے ہوئے ہیں کس کے ہیں۔

ہزار بار بتلا چکے ہیں مگر افسوس اب ان لوگوں کو بات نہیں سمجھنی ہے۔ یہ الفاظ قران کا حصہ نہیں بلکہ ابن عباس اور ابن ابی کعب، عبداللہ ابن مسعود وغیرہ کی قرآت کے طور پر خود بلند پایہ تابعین جو تفسیر کے میدان میں آپ ہی لوگوں کے امام مانے جاتے ہیں، انہوں نے بیان کیے ہیں۔ ان میں قتادہ، ابو نضرہ، عطاء، سعید بن جبیر، اور سدی جیسے لوگ شامل ہیں۔ چنانچہ اب آپ سر تو پٹخ سکتے ہیں، مگر فرار کی کوئی راہ نہیں۔

ہا ہا ہا۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت کچھ سے پلٹیں‌گی آپ ان شا اللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چنانچہ یہ ہمارا مسئلہ ہی نہیں کہ اوطاس سے پہلے متعہ ہوتا تھا یا نہیں، بلکہ یہ آپ لوگوں کا مسئلہ ہے۔ اور جابر بن عبداللہ انصاری سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول نے آ کر منادی دی کہ انہیں متعہ کی اجازت دی جاتی ہے۔ اور اسکے بعد جابر بن عبداللہ انصاری کہتے ہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے پورے دور، حضرت ابو بکر کے پورے دور، اور پھر حضرت عمر کی خلافت کے نصف تک عقد المتعہ کرتے رہے۔

لو جی آپ کا مسئلہ نہں‌تو کیا ضرورت تھی امت مسلمہ کو تبلیغ‌ متعہ کرنے کی۔

اور جب صاف صاف قرآن و سنت رسول ﷺ سے ثابت ہو گیا کہ اوطاس پر متعہ کے احکام پر آیت نازل ہوئی اور اللہ کے رسول نے منادی کروا کر صحابہ کو متعہ کی اجازت دی تو پھر اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ اس سے پہلے کیا ہوتا رہا۔

یہ خاکسار نے ثابت کیا ہے اور آپ کے ایک درجن دعوے جھوتے ثابت ہوئے ہیں۔ ریکارڈ‌موجود ہے بطور سند۔

1۔ یہ بتلائیے کہ متعہ الحج پر الگ دھاگہ کھولنے کی کون بات کر رہا ہے؟ میں نے تو اسی دھاگے میں ایک مراسلہ متعہ الحج پر کرنے کی بات کی ہے۔
2۔ اور متعہ الحج مکمل طور پر متعہ النساء سے منسلک ہے کیونکہ حضرت عمر نے ان دونوں متعوں کو بذات خود ایک ہی وقت میں یہ کہتے ہوئے منع کیا کہ رسول اللہ ص کے دور میں دو متعے جاری تھے، اور میں ان کی ممانعت کرتا ہوں اور جو اب یہ کرے گا انہیں میں سزا دوں گا۔

میں‌ بھی بہت کچھ ضمنآ لکھ سکتا تھا مگر ہر ممکن کوشش کی کہ موضوع سے باہر نہ جاؤں آپ لکھیے پھر مجھے بھی اجازت ہونی چاہیے کہ مخالفت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی حقیقی وجوہات کی نشاندہی کروں۔

شاباش، یہ ہے آپ کا ثبوت کہ اپنے سنی عالم طبری کے بیان کو بطور حجت پیش کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ ابن عباس، و ابی ابن کعب اور عبداللہ ابن مسعود، علی ابن ابی طالب و دیگر تابعین قتادہ، ابو نضرہ، عطاء سعید بن جبیر وغیرہ سے مروی یہ روایات آپکی بے تحاشہ کتب و تفاسیر میں موجود ہیں۔ اب یہ قرآت چاہے قران کا حصہ نہ ہوں بلکہ تفسیری حاشیے میں براہ راست اللہ کی طرف سے حدیث قدسی ہوں، بہرحال یہ بات ثابت ہے کہ یہ آیت متعہ النساء کی بابت نازل ہوئی ہے۔
چنانچہ یہ بتلائیں کہ آپکے سنی عالم طبری صاحب کی ان صحابہ و تابعین کے مقابلے میں کیا حیثیت ہے جو آپ انہیں یہاں بطور حجت پیش کر رہے ہیں؟

محترمہ آپ بھول رہی ہیں یہ طبری کا لنک آپ ہی کا دیا ہوا ہے اور آپ ہی نے تفسیر طبری میں سے عبارت نقل کی تھی میں نے تو اس عبارت کو پورا کردیا اور بس۔
 

S. H. Naqvi

محفلین
جی بجا فرمایا آپ نے نبیل بھائی، چنانچہ بحث کو سمیٹتےہوئے اب جاتے ہیں کچھ ہلکے پھلکے نتائج کی طرف جو کہ اب تک بحث سے سامنے آئے ہیں۔۔۔۔۔!

1۔ متعہ قطعی حرام ہے اور شروع اسلام میں اس کی اجازت ایسے ہی تھی جیسا کہ مردار کی ہو۔۔ بعد میں یہ تاقیامت حرام کر دیا گیا۔
2۔ قرآن سے متعہ کو ثابت نہیں کیا جاسکا اور جس آیت کو اس کی حلت کا نزول بتایا جاتا تھا آخر کار اسی آیت سے اس کی حرمت ثابت ہو کر فریق اہل متعہ کو منہ کی کھانی پڑی۔ اس کے علاوہ بھی کوئی واضح آیت ایسی نہ پیش کی جاسکی کہ جس میں متعہ کی اجازت، احکام، مسائل کے بارے میں بتایا گیا ہو جیسا کہ نکاح دائمی کے بارے میں واضح بیان ہوا ہے۔
3۔ سنت رسول صلی اللہ علیہ و سلم میں‌ سے بھی متعہ کا کوئی حکم ثابت نہ کیا جاسکا جو کہ حجت اور واضح دلیل ہو جیسا کے نکاح دائمی کے بارےمیں ہے کہ النکاح من سنتی۔۔۔۔!
3۔ خلفائے راشدین کے دور میں بھی اس کے بارے میں کوئی واضح روایت نہ پیش کی جاسکی اور نہ ہی خود خلفائے راشدین کے اپنے عمل سے کبھی ثابت کیا جاسکا۔
4۔ خاص کر خلیفہ چہارم اور امام اول مولا علی علیہ سلام سے اس کی حلت کا یا دوبارہ احیا کا کوئی ثبوت نہ دیا جاسکا اور اس طرح وہ اپنے "ماننے" والوں کے لیے کھلی دلیل چھوڑ گئے۔
5۔ طبع طابعین اور سلف میں سے بھی کسی کے قول و عمل سے اسے ثابت نہ کیا جاسکا اور نہ ہی تاریخ سے کسی ایسی شخصیت کا نام بتایا جا سکا کہ جو نکاح متعہ کی اولاد ہو اور معاشرےمیں اس کا کوئی مقام ہو۔
6۔ انسانی فطرت اور عورتوں کے حقوق کی روشنی میں بھی اسے فائدہ مند ثابت نہیں کیا جاسکا۔
7۔ چینی، یوربین اور اقوام عالم سے بھی اس کا رد ثابت کر دیا گیا۔ اور ان معاشروں میں بھی اس کی کراہیت اور دور جاہلیت کی رسم ہونا ثابت کر دیا گیا۔
8۔ فطرت سلیم رکھنے والوں سے بھی اسکی ناگواری اور بیزاری کے رجحان کا پتہ چل گیا کہ یہ فطرت سلیم کے لیے ایک ناگوار عمل ہے۔
9۔ قانون قدرت سے اس کا رد ثابت کردیا گیا
10۔ عقل اور منطق سے بھی اسے ایک ناجائز اور ناقابل عمل چیز ثابت کیا گیا کہ جس پر عمل سے معاشرہ صرف اور صرف بگاڑ اور انتشار کا شکار ہو سکتا ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
شوکت کریم بھائی صاحب،
مجھ پر تو آپ الزام لگا رہے ہیں کہ میں متعہ الحج والا واقعہ بیان کر کے موضوع سے باہر جا رہی ہوں، مگر بذات خود جو آپ نے ہم پر ابو لولو فیروز کا الزام لگا دیا ہے، کیا وہ موضوع کے اندر ہے؟ کیا اسی طرح میں بھی عبداللہ ابن سبا کی دیو مالائی کہانیاں جو آپ نے ہم پر جھوٹے الزامات باندھنے کے لیے بنا رکھی ہیں، وہ کھینچ کر اس موضوع میں لے آؤں؟

میں نے یہی لکھا تھا نا کہ ہمیں اللہ کی شریعت کی ہر چیز کو اُس کے اصل مقام پر رکھنا ہے۔ حضرت عمر نے جو اپنی رائے سے تبدیلی کی تو اسے اسی مقام تک رکھنا ہے۔ یہی چیز صحابہ و تابعین کے گروہ نے کی جنہوں نے حضرت عمر سے اس معاملے پر اتنا ہی اختلاف رکھا جتنا حق بنتا تھا۔ اب لگا دیجئے ان صحابہ و تابعین پر بھی ابو لولو فیروز کے پیروکار ہونے کا الزام۔

*****************

ابو لولو فیروز کا جو مقبرہ ایران میں بنایا گیا وہ بالکل غلط تھا اور ہم خود اس کے خلاف ہیں، اور اسکی مکمل مذمت کرتے ہیں۔

ابو لولو فیروز کا اہل تشیع سے کوئی تعلق نہیں، اور یہ ابو لولو فیروز اور حضرت عمر کا آپس کا جھگڑا تھا جس میں ٹیکس زیادہ لگنے کی وجہ سے غصے میں آ کر اُس نے حضرت عمر پر حملہ کیا تھا۔ ابو لولو فیروز کے متعلق وکیپیڈیا پر موجود مضمون۔

اور یہ مقبرہ ہمارے شیعہ علماء یا ایرانی حکومت نے نہیں بنایا تھا، بلکہ "عظیمی" نام سے ایک خاندان چلتا آ رہا ہے جو کہ خود کو ابو لولو فیروز کی نسل سے بتاتا ہے۔ اور یہ خاندان آج کا نہیں، بلکہ اُس وقت سے چلتا آ رہا ہے جب ایران میں اہلسنت کی حکومت کئی سو سال تک موجود تھی۔ ابو لولو فیروز کی نسل کے انہی خاندان والوں نے ابو لولو فیروز کا مقبرہ بنایا تھا اور اسکا ہمارے علماء یا ایرانی حکومت سے تعلق نہیں تھا۔ بہرحال یہ مقبرہ بنا جو کہ غلط تھا اور اس کی ہم خود مذمت کرتے ہیں۔ ایرانی حکومت کے حکم پر اس مقبرے کو گرا دیا گیا ہے۔

آپ لوگوں کو سمجھنا چاہیے کہ انتہا پسند ہر قوم و ملت میں موجود ہوتے ہیں، اور میانہ رو عقل رکھنے والے انصاف پسند لوگ بھی ہر قوم و ملت میں پائے جاتے ہیں۔ چنانچہ ایسے ہی انتہا پسند لوگ ہماری صفوں میں بھی ہیں جو اپنی انتہا پسندی اور دشمنی میں ابو لولو فیروز کے مقبرے پر خوش تھے، اور جب علماء اور ایرانی حکومت نے اس مقبرے کو گرانا چاہا تو اس پر وہ خود شیعہ علماء اور ایرانی حکومت کے خلاف ہو گئے اور انہیں کو برا بھلا کہنا شروع ہو گئے۔ ہم خود ان انتہا پسندوں سے بیزار ہیں اور ان سے تبرا کرتے ہیں (تبرا کا مطلب "بیزاری اختیار" کرنا ہے نہ کہ برا بھلا کہنا)۔
 

مہوش علی

لائبریرین
خیبر والی روایت پر دلائل کا انبار پیش کیا جا چکا ہے۔ مگر نہیں، وہ نظر نہیں آنے اور شیعہ کتب میں موجود خیبر کی جو واحد ایک روایت موجود ہے اُس کو ہی پکڑ کر بیٹھ جانا ہے۔ حالانکہ مکمل دلائل کے ساتھ تاریخ کی روشنی میں، خود آپکی اپنی کتابوں کی احادیث سے، اور خود آپکے علماء کے بیانات کی روشنی میں ثابت کیا جا چکا ہے کہ اگر علی ابن ابی طالب نے واقعی ابن عباس کو خیبر پر متعہ کے حرام ہونے کی خبر دی تھی تو پھر کیسے ممکن ہے کہ وہ 54 سال کا طویل عرصہ گذر جانے کے باوجود بھی عقد المتعہ کے حق میں ایسے شد و مد سے دلائل دے رہے ہوں اور باقاعدہ ابن زبیر سے اس مسئلے پر لڑ رہے ہوں، اور اُس وقت وہاں موجود صحابہ و تابعین کے جم غفیر میں سے کسی ایک کو بھی خیبر میں متعہ کے حرام ہونے کا علم نہ ہو۔
اور پھر یہ پورا واقعہ جم غفیر کے سامنے جابر بن عبداللہ انصاری کے سامنے بھی پیش آئے، اور پھر اس جم غفیر کو دور دور تک کسی خیبر کا یا کسی قرآنی آیت کا سرے سے علم ہی نہ ہو۔

بلکہ بذات خود یہ اچھنبے کی بات ہے کہ اگر رسول اللہ ﷺ نے خیبر والے دن کب اور کس وقت متعہ حرام کیا تھا کہ وہ تو پورے وقت یہودیوں سے لڑنے اور پھر صلح کرنے اور پھر مال غنیمت کا حساب کرنے میں مصروف تھے۔

پھر کیسے عجیب بات ہے کہ صحابہ پھر رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں پورے وقت عقد المتعہ کرتے رہیں، اور پھر حضرت عمر کے پورے دور میں، اور پھر حضرت عمر کی طویل خلافت کے آخر یا کم از کم نصف تک عقد المتعہ کے نام پر زناکاری کرتے رہیں، چاہے لاعلمی میں سہی اور کوئی انہیں خیبر کا بتلائے اور نہ کسی قرآنی آیت کا ذکر کر کے بتلائے کہ وہ متعہ کے نام پر زناکاری کر رہے ہیں؟

********************

بخاری و مسلم کے کئی راوی شیعہ و رافضی ہیں اور انکی روایات کو عام معاملات میں قبول کیا جاتا ہے کیونکہ یہ ثقہ ہیں، مگر جب بات ایسے مسئلے کی آتی ہے جس میں شیعہ عقیدہ شامل ہو تو پھر انکی روایت کو ترک کردیا جاتا ہے۔ مگر افسوس کہ یہی اصول آپ ہماری باری ہضم کر جاتے ہیں۔ خیبر والی روایت کے دو راوی اگرچہ کہ ثقہ ہی کیوں نہ ہوں، مگر بہرحال ان پر اختلاف ہے اور انکا سنی المذہب ہونا ثابت ہے۔ اور پھر ان میں سے ایک راوی عمرو بن خالد کے متعلق خود آپکے جید عالم ابن حجر العسقلانی کا قول بھی پیش کیا جا چکا ہے کہ یہ شخص "متروک" ہے اور یہ "جعلی روایتیں گھڑا کرتا تھا"۔

اور پھر یہ روایت بالکل تقیہ کے باعث ہو سکتی ہے اور اسکے شواہد میں بعد میں پیش کروں گی۔ انشاء اللہ۔

اور تیسری بڑی وجہ ہے کہ خیبر کے اس مسئلے پر موجود اس واحد روایت کے مقابلے میں شیعہ کتب میں بے تحاشہ متواتر روایات موجود ہیں جوکہ اس روایت کے بالکل خلاف ہیں۔ مثلا خود حضرت علی علیہ السلام سے مروی یہ روایت:

Tahdib al-Ahkam, Volume 7 page 250:

سمعت ابا جعفر عليه السلام يقول: كان علي عليه السلام يقول: لولا ما سبقني إليه بني الخطاب ما زنى إلا شقي

Abu Jaffar (as) narrated that Ali (as) used to say: 'If the son of Khatab did not prohibit it, no one would perform fornication except the wretched'.
Hadi Najafi said in Maouwsuat Ahadith Ahlulbayt, Volume 5 page 396: 'The chain is reliable'.

اور کمال بات یہ ہے کہ اس روایت کے مکمل شواہد خود اہلسنت کی کتب میں موجود ہیں، جنہیں ابھی تک آپ مسلسل اور مستقل طور پر ہضم کیے جا رہے ہیں:

حَدَّثَنَا مُحَمَّد بْن الْمُثَنَّى , قَالَ : ثنا مُحَمَّد بْن جَعْفَر , قَالَ : ثنا شُعْبَة , عَنْ الْحَكَم , قَالَ : سَأَلْته عَنْ هَذِهِ الْآيَة : { وَالْمُحْصَنَات مِنْ النِّسَاء إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانكُمْ } إِلَى هَذَا الْمَوْضِع : { فَمَا اِسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ } أَمَنْسُوخَة هِيَ ؟ قَالَ : لَا . قَالَ الْحَكَم : قَالَ عَلِيّ رَضِيَ اللَّه عَنْهُ : لَوْلَا أَنَّ عُمَر رَضِيَ اللَّه عَنْهُ نَهَى عَنْ الْمُتْعَة مَا زَنَى إِلَّا شَقِيّ [تفسیر الطبری آنلائن لنک ]


ترجمہ:
عبد الرزاق اور ابو داؤد سے کتاب ناسخ میں درج ہے اور ابن جریر نے الحکم سے روایت کی ہے کہ ان سے پوچھا گیا کہ کیا یہ آیت متعہ منسوخ ہو چکی ہے، جس پر آپ نے کہا کہ نہیں (یہ منسوخ نہیں ہوئی) اور پھر کہا کہ علی ابن ابی طالب نے فرمایا ہے اگر عمرعقد متعہ کی ممانعت نہ کر دیتے تو کوئی شقی القلب ہی ہوتا جو زنا کرتا۔
اس روایت کے راوی اہلسنت علمائے رجال کی نظر میں: مُحَمَّد بْن الْمُثَنَّى (امام ذہبی کہتے ہیں کہ یہ ثقہ ہیں)، مُحَمَّد بْن جَعْفَر الهذلى (امام ذہبی کہتے ہیں کہ یہ بہترین راوی ہیں) شعبة بن الحجاج بن الورد العتكى الأزدى (امام ذہبی کہتے ہیں یہ حدیث میں امیر المومنین ہیں)،الحكم بن عتيبة الكندىہ (امام ذہبی کہتے ہیں یہ ثقہ اور صاحب سنت ہیں)

تو آپ کہاں کہاں فرار ہوں گے کہ خود آپکی اپنی کتابوں میں علی ابن ابی طالب کی یہ روایت موجود ہے۔ مزید اسکی شاہد ابن عباس کی یہ روایت بھی ہے:


( عبد الرزاق عن ابن جريج عن عطاء قال : لأول من سمعت منه المتعة صفوان بن يعلى ، قال :أخبرني عن يعلى أن معاوية استمتع بامرأة بالطائف ، فأنكرت ذلك عليه ، فدخلنا على ابن عباس ، فذكر له بعضنا ، فقال له : نعم ، فلم يقر في نفسي ، حتى قدم جابر ابن عبد الله ،فجئناه في منزله ، فسأله القوم عن أشياء ، ثم ذكروا له المتعة ، فقال : نعم ، استمتعنا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم ، و أبي بكر ، و عمر، حتى إذا كان في آخر خلافة عمر استمتع عمرو بن حريث بامرأة - سماها جابر فنسيتها - فحملت المرأة ، فبلغ ذلك عمر ، فدعاها فسألها ، فقالت : نعم ،قال : من أشهد ؟ قال عطاء : لا أدري قالت : أمي ، أم وليها ، قال : فهلا غيرهما ، قال : خشي أن يكون دغلا الاخر ، قال عطاء : وسمعت ابن عباس يقول :يرحم الله عمر ، ما كانت المتعة إلا رخصة من الله عز وجل ، رحم بها أمة محمد صلى الله عليه وسلم ، فلولا نهيه عنها ما احتاج إلى الزنا إلا شقي ،قال : كأني والله أسمع قوله : إلا شقي - عطاء القائل - قال عطاء : فهي التي في سورة النساء فما استمتعتم به منهن إلى كذا وكذا من الأجل ، على كذا وكذا ، ليس بتشاور)
السند :
عبد الرزاق ۔ ثقة حافظ مصنف أحد الأعلام من رواة البخاري ومسلم ۔ عن بن جريج ۔ ثقة فقيه فاضل أحد الأعلام من رواة البخاري ومسلم ۔ عن عطاء ۔ ثقة فقيه فاضل من رجال البخاري ومسلم ۔
عن صفون بن يعلى : ثقة من رواة البخاري ومسلم .
المصنف لعبد الرزاق 7/499، ط أخرى
استیعاب ابن عبدالبر (مطبوعہ دائرۃ المعارف حیدر آباد جلد ۲ صفحہ ۴۷۵) میں یہ تصریح موجود ہے کہ۔
عن سعید بن جبیر عن ابن عباس قال کنا اذا اتانا الثبت عن علیؑ لم نعدل عنہ۔
ترجمہ:
ابن عباس کا بیان ہے کہ جب ہمیں حضرت علیؑ کا مستند بیان مل جاتا تھا تو پھر ہم اس سے عدول نہ کرتے تھے۔
چنانچہ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ علی ابن ابی طالب نے خیبر میں متعہ کی حرمت کا آپکے مطابق صاف صاف ابن عباس کو بتلایا ہو اور پھر نصف صدی گذر جانے کے بعد بھی ابن عباس کو اسکا علم ہو اور نہ صحابہ و تابعین کے اُس جم غفیر کو جو خطبہ کے وقت اُس وقت وہاں موجود تھا؟؟؟
اس نصف صدی تک صحابہ کے متعہ کی حرمت سے لاعلم رہتے ہوئے عقد المتعہ کے نام پر زناکاری کرنے کے متعلق آپکا واحد بہانہ یہ تھا کہ ان صحابہ تک متعہ کی حرمت کا حکم نہیں پہنچا تھا۔ مگر جھوٹ کے پاؤں تو ہوتے نہیں، ادھر خود جھوٹی روایت علی اور ابن عباس کے نام پر گھڑ دی تاکہ متعہ کو حرام کیا جا سکے کیونکہ یہ دونوں ہی عقد المتعہ کے معاملے میں حضرت عمر کی ذاتی رائے سے کی گئی ممانعت کو صحیح نہ سمجھتے تھے۔

اور حضرت علی کی وجہ سے صرف حضرت ابن عباس ہی نہیں، بلکہ بذات خود علی ابن ابی طالب کی نسل سے آنے والے ائمہ اہلبیت مکمل طور پر متعہ کو حلال سمجھتے تھے، اور یہ چیز بھی خود بھائی لوگوں کی کتابوں میں موجود ہے، مگر روش وہی ہے کہ اپنی بات آئے تو خاموشی سے اپنے خلاف ہر دلیل و ثبوت کو بغیر ڈکار مارے ہضم کرتے جاؤ۔

امام قرطبی اپنی تفسیر میں نقل کرتے ہیں:
وقال أبو بكر الطرطوسي‏:‏ ولم يرخص في نكاح المتعة إلا عمران بن حصين وابن عباس وبعض الصحابة وطائفة من أهل البيت.‏[آنلائن لنک]
یعنی:۔۔۔او ابوبکر الطرطوسی سے منقول ہے کہ عمران بن حصین اور ابن عباس اور بعض اصحاب اور گروہ اہلبیت علیھم السلام عقد متعہ کی اجازت دیتے تھے۔
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
الحمداللہ اللہ تعالی نےاہلسنت والجماعت کویہ ہمت و حوصلہ اوریہ علم و فہم عطاء کیاہے کہ وہ ہراس فتنہ کاجوکہ اس کے نام پرکیاجائےاس کی روک کرسکیں۔اوریہ متعہ بھی ان ہی فتنوں کی ایک کڑی ہےجوکہ خاص خاص موقعوں پرحضوراکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اجازت سےہواوہ بھی جنگ کےزمانہ میں صرف۔کےبعداس کوحرام قراردےدیاگیا۔اللہ تعالی ہم کوصحیح العقیدہ مسلمان بنائےاورحضوراکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اوران کےاصحاب کے نقش قدم پرچلنےکی توفیق عطاء فرمائے(آمین ثم آمین)

والسلام
جاویداقبال
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top