نواز شریف کا بارہ سال بعد دورہ بلوچستان

زین

لائبریرین
کوئٹہ: مسلم لیگ ن کے قائد اور سابق وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے بلوچ رہنماﺅں کو یقین دلایا ہے کہ لاپتہ افراد، نوا ب اکبر بگٹی قتل کی تحقیقات سمیت بلوچستان کے مسائل کو پارلیمنٹ میں بھر پور انداز میں اٹھائیں گے ‘انہوں نے اس امر کی ضرورت پر زور دیا ہے کہ پارلیمنٹ کو بااختیار بناکر صوبوں کو مزید اختیارات دیئے جائیں‘ انصاف ملنے کے بعد بلوچستان کا ماحول بہتر ہوگا‘جمہوریت اور عدلیہ کی حفاظت سب پر فرض ہے ‘جمہوری استحکام کے لئے اپوزیشن اور اقتدار میں رہتے ہوئے بھر پور کردار ادا کرینگے ۔ ان خیالات کا اظہا ر میاں نواز شریف نے سابق گورنر بلوچستان جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ اور چیف آف جھالاوان ،نیشنل پارٹی پارلیمنٹرینز کے سربراہ اورصوبائی وزیر ایس اینڈ جی اے ڈی سردار ثناءاللہ زہری کی پاکستان مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کے موقع پر پریس کانفرنس سے خطاب اور نیشنل پارٹی کے رہنماءحاصل بزنجو اور وکیل رہنماءعلی احمد کرد سے ملاقات میں گفتگو کے دوران کیا۔اس موقع پر مسلم لیگ ن کے رہنماءاحسن اقبال، سعد رفیق، سردار یعقوب خان ناصر، خدائے نور، جنگیر مری اور دیگر عہدےداران بھی موجود تھے۔ عبدالقادر بلوچ اور سردار ثناءاللہ زہری نے مسلم لیگ ن میں شمولیت کا اعلان کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ مسلم لیگ ن بلوچستان کے دیرینہ مسائل حل کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کرے گی۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے میاں نواز شریف نے کہا کہ بلوچستان میں اہم مقام رکھنے والے مسلم لیگ ن میں شمولیت کا اختیار کررہے ہیں جو خوش آئند ہے، عبدالقادر بلوچ ،سردار ثناءاللہ زہری اور ان کی جماعت کی شمولیت سے مسلم لیگ ن بلوچستان میں مضبوط ہوگی ۔ سردار ثناءاللہ زہری سے انیس سال کی رفات ہے ، انہوں نے ہمیشہ آمریت کو مسترد اور آئین و قانون کی بالادستی اور عوام کے میندیٹ کے احترام کی بات کی ہے ، قومی ایشوز پر اصولی موقف اپنایا ہے ،ان کے خاندان نے ہمیشہ پاکستان کی بات کی ہے بلوچستان میں شمولیت کے لئے اہم کردار ادا ادا کیا انہوں نے کہا کہ سردار ثناءاللہ کی سوچ انقلابی اور ہمارے سوچ سے ہم آہنگی رکھتے ہیں ۔ میاں نواز شریف نے کہا کہ آمریت اور مارشل لاءکو کسی صورت قبول نہیں کرینگے ، ملک میں عوام کی حکمران چاہتے ہیں جمہوریت ، آئین و قانون کی پاسداری کے لئے کردارادا کرینگے ، چاہے اپوزیشن میں ہو یا اقتدار اس کردار میں کوئی فرق نہیں آئے گا ،آمریت کو ہمیشہ کے لئے خیر باد کہ دیا ہے آئین اور عدلیہ آزاد کرائی گئی جو حقیقی معنوں میں عوام کو انصاف فراہم کررہی ہے ۔مسلم لیگ ن کے قائد نے پارلیمنٹ کو با اختیار بنانے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ صوبوں کو مزید اختیارات ملنے چاہئیں اور اس کے لئے پارلیمنٹ کو باختیار بنانا ہوگا کیونکہ بے اختیار پارلیمنٹ صوبوں کو اختیارات نہیں دے سکتی ۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے ساتھ ظلم جمہوری دور میں نہیں بلکہ ہمیشہ آمریت دور میں ہوا ہے ۔1958ءمیں نواب نوروز کو سات بیٹوں سمیت پھانسی دی گئی اس ظلم اور بربت کے باوجود اس خاندان نے پاکستان کا ساتھ دیا اور باغی نہیں ہوئے ایسے خاندان کو داد ملنی چاہیئے انہوں نے کہا کہ بلوچستان سے باہر جانے والوں کو مجبور کیا گیا ، وہ باغی نہیں بنیں گے تو کیا بنیں گے؟ انہوں نے کہا کہ بلوچستان پرمظالم ہمیشہ آمرانہ دور میں ہوئے جبکہ جمہوریت میں افہام و تفہیم اور سب کو ساتھ لیکر معاملات سلجھانے کی کوششیں کی گئیں ،ان مظالم کا ازالہ ہونا چاہیئے ،حکومت بنیادی اقدامات کو ترجیح دے ۔ مسلم لیگ ن کے رہنماءنے کہا کہ نواب اکبر بگٹی جیسے شخص کو ہماری آنکھیں دیکھتی رہ گئیں ،ان کے قتل کے خلاف آواز نہیں اٹھائی گئی ،ہماری جماعت نے اس وقت پارلیمنٹ سے مستعفی ہونے کی بات کی لیکن کوئی آگے نہیں آیا انہوں نے کہا کہ نواب اکبر بگٹی کے خون کا حساب نہیں لیا گیاموجودہ حکومت نے بھی اب تک کوئی اقدام نہیں اٹھایا حکومت کو ایک بار پھر احساس دلانا چاہتے ہیں کہ ان ایشوز کو حل کریں ،اکبر بگٹی کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے ، لاپتہ افراد بازیاب اور بلوچوں کے خلاف ناجائز مقدمات ختم ہونے چاہئیں ،روٹھے ہوئے لوگوں کو مناکر قومی دھارے میں لایا جائے انہوں نے کہا کہ انصاف ملنے کے بعد بلوچستان کا ماحول بہتر ہوجائے گا ۔ سابق وزیراعظم نے مزید کہا کہ جمہوری حکومت کو ہر جگہ اپنی رٹ بحال کرنی چاہیئے یہ جمہوری دور ہے جمہوری انداز سے معاملات حل کئے جائیں انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے لوگوں کے ساتھ ملکر پاکستان کی تعمیر نو کے لئے کردار ادا کرینگے۔اس سے قبل مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نواز شریف نے نیشنل پارٹی کے نائب صدر سینیٹر حاصل خان بزنجو کی قیادت میں نیشنل پارٹی کے رہنماﺅں اور سپریم کورٹ بار کے سابق صدر علی احمد کرد کی قیادت میں وکلاءکے وفد سے ملاقات کی ۔مسلم لیگ ن کے رہنماءمیاں نواز شریف اورحاصل بزنجوکے درمیان ملاقات میں بلوچستان کے مسائل پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا ۔ حاصل بزنجو نے کہا کہ آغاز حقوق بلوچستان پیکج کے اعلان کے باوجود لاپتہ افراد کی بازیابی تو درکنار مزید افراد کو اٹھایا گیا ہے اورصوبے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ،آپریشن جاری ہے بے گناہ لوگوں کو گرفتار کیا جارہا ہے جس سے صورتحال انتہائی خراب ہوگئی ہے۔ میاں نواز شریف نے نیشنل پارٹی کے رہنماءکے خیالات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو سنجیدگی سے بلوچستان کے مسئلے پر توجہ دینی چاہیئے ، آغاز حقوق بلوچستان کے پیکج کے تحت کئے گئے وعدے پورے کریں ، میاں نواز شریف نے وفد کو نواب اکبر بگٹی، لالہ منیر اور دیگر بلوچوں کے قتل ، لاپتہ افراد کے حوالے سے تعاون کی یقین دہانی کرائی اور کہا کہ مسلم لیگ ن نے ان معاملات کو پارلیمنٹ اور باہر بھی اجاگر کرے گی تاکہ بلوچستان کی تکالیف کا مداواہ کیا جاسکے۔نواز شریف نے کہا کہ سیاسی کارکنوں کو ٹارچر سیلوں میں رکھ کر ملک مضبوط نہیں بنایا جاسکتا ،بلوچستان میں حکومتی رٹ نظر نہیں آتی۔حاصل بزنجو نے کہا کہ توقع ہے کہ مسئلہ حل کرنے کے لئے ن لیگ اہم کردار اداکرے گی۔علی احمد کرد سے ملاقات میں نواز شریف نے کہا کہ وہ عدلیہ کی آزادی اور پارلیمنٹ کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیںانہوں نے کہا کہ نواب اکبر بگٹی کے قاتلو ں کو کٹہرے میں لایا جائے گاانہوں نے کہا کہ بلوچ رہنماﺅں نے ملک کے لئے بہت قربانیاں دی ہیں۔ان کاکہنا تھا کہ بلوچ رہنماﺅں کے قتل کی تحقیقات کے لئے عدالتی کمیشن بنایا جائے ،بلوچ عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لئے عملی اقدامات ضروری ہیں۔ان کاکہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کے مینڈیٹ کا احترام کرتے ہیںانہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی سترہویں ترمیم کے خاتمے کا وعدہ پورا کرے۔ ملاقات کے بعد علی احمد کرد کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے میاں نواز شریف نے کہا کہ وہ علی احمد کرد اور عدلیہ کی آزادی کے لئے کردار ادا کرنے والے وکلاءسے مل کر فخر محسوس کررہے ہیں،ملک میں آئین و قانون اور عدلیہ کی بالادستی کے لئے بے مثال کردار ادا کرنے پر وکلاءکو خراج تحسین پیش کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ آئندہ آئین و قانون کی بالادستی کے لئے جدوجہد جاری رکھی جائے گی انہوں نے کہا کہ بہت مشکل سے جمہوریت اور آزاد عدلیہ بحال ہوئی ہے اس کی حفاظت سب پر فرض ہے ہمیں منزل کی طرف بڑھنا ہوگا۔

بارہ سال بعد بلوچستان کے دورے پر آنے والے میاں‌ نواز شریف نے دو دن انتہائی مصروف گزارے ، انہوں‌نے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی، جمہوری وطن پارٹی کے سربراہ طلال اکبر بگٹی اور صوبے کے دیگر سیاسی رہنماؤں سے بھی ملاقاتیں کیں ۔
 

arifkarim

معطل
اگر وہاں اسکے کاروباری مقاصد ہوتے تو روز روز جاتا۔ شاید سونے اور کوئلے کی کمپنیوں میں اسکے شئیرز نہیں‌ہیں! :)
 

آفت

محفلین
شکر ہے نواز شریف کو پنجاب کے علاوہ دوسروں صوبوں کا خیال تو آیا ورنہ زرداری پر تو الزام تھا کہ وہ پریزینڈینسی سے باہر نہیں نکلتے لیکن نواز شریف تو پارلیمنٹ کا حصہ نہ ہوتے ہوئے بھی عوامی رابطے سے دور رہے ہیں ۔
نواز شریف کا یہ کہنا کہ بلوچستان میں ظلم آمریت کی وجہ سے ہوتا ہے شاید وہ بھول گئے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کے جمہوری دور میں بھی بلوچوں کے خلاف اپریشن ہوا تھا ۔ البتہ ظلم کے اعتبار سے پرویز مشرف بازی لے گئے اور بوڑھے سیاستدان بگٹی کو قتل کر دیا ۔
نواز شریف کو اگر مقبول لیڈر بننا ہے تو انہیں چاہیے کہ نچلے طبقے کو اپنے ساتھ ملائیں نہ کہ ریٹائرڈ جرنیلوں اور سرداروں کو ۔
 

dxbgraphics

محفلین
جی نہیں
الطاف بھائی کو محترمہ کی طرح شہادت کا ہرگز شوق نہیں ہے اسی لئے ٹیلی فون پر خطاب کر کے دل ہلکا کر لیتے ہیں
 

شمشاد

لائبریرین
وہ تو کبھی کبھی عوام سے یہ بھی کہتے ہیں کہ مجھے پاکستان آنے دو اور عوام زور شور سے کہتے ہیں کہ نہیں ابھی نہیں آنا۔ مجھے دیکھ کر بہت ہنسی آتی ہے۔
 

آفت

محفلین
وہ تو سال میں دو تین بار ایم کیو ایم کی قیادت چھوڑنے کا بھی اعلان فرماتے ہیں لیکن پاکستان کی محب وطن سترہ کروڑ عوام ان کی منت سماجت کر کے ایسا کرنے سے روکتے ہیں ۔:grin:
 

شمشاد

لائبریرین
وہ تو آنا چاہتے ہیں اور کئی ایکبار کہہ بھی چکے ہیں لیکن پاکستان کی ایک کم سترہ کروڑ عوام ہر بار انہیں آنے سے منع کر دیتی ہے۔
 

آفت

محفلین
ارے سترہ کروڑ عوام میں سے ایک کیسے کم ہو گیا؟؟؟؟؟
میرے خیال میں الطاف بھائی کسی فرد واحد کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے باقی کے ایک کم سترہ کروڑ عوام کے "جذبات" کو ٹھیس نہیں پہنچائیں گے ۔:grin:

میرا مشورہ یہ ہے کہ الطاف بھائی کووطن واپس آنا چاہیے اور ملکی سیاسیت میں اپنا رول ادا کرنا چاہیے۔
 

ابوشامل

محفلین
وہ تو کبھی کبھی عوام سے یہ بھی کہتے ہیں کہ مجھے پاکستان آنے دو اور عوام زور شور سے کہتے ہیں کہ نہیں ابھی نہیں آنا۔ مجھے دیکھ کر بہت ہنسی آتی ہے۔
بڑے ڈرامے ہیں جی۔ اگر کسی ایک نے بھی کہا نا کہ بھائی! واپس آ جائیں۔ اگلے دن اس کو "واپس" وہاں بھیج دیں گے جہاں سے آیا تھا :)
 

شمشاد

لائبریرین
ارے سترہ کروڑ عوام میں سے ایک کیسے کم ہو گیا؟؟؟؟؟
میرے خیال میں الطاف بھائی کسی فرد واحد کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے باقی کے ایک کم سترہ کروڑ عوام کے "جذبات" کو ٹھیس نہیں پہنچائیں گے ۔:grin:

وہ جو ایک کم ہوا ہے وہ میں ہوں، باقی کے سب بے شک کہتے رہیں کہ نہ آئیں۔
 
Top