نمی دانم چہ منزل بود ، شب جای کہ من بودم۔۔۔امیر خسرو

سیما علی

لائبریرین
گلوکار نے یوں پڑھا ہے:

در آں محفل کہ یارِ ما نشستہ
دو صد موسیٰ در آں محفل نشستہ
رسیدہ در مقامے قابَ قوسین
کہ احمد با احد یکجا نشستہ
وہ محفل کہ جہاں ہمارا یار بیٹھا وہاں موسیٰ جیسے اور بھی بہت سے (دو صد) بیٹھے ہیں لیکن قابِ قوسین کا وہ مقام کہ جہاں آپ (ص) پہنچے وہاں صرف محمد اور اللہ ہی یکجا ہوئے ہیں۔

مجھے لگتا ہے کہ گلوکار نے پہلے دو مصرعوں کو آگے پیچھے پڑھ دیا ہے کیوں کہ اس قطعے کا قافیہ "آ" اور ردیف "نشستہ" ہے لیکن دوسرے مصرعے سے قافیہ غائب ہے، ہو سکتا ہے دوسرا مصرع پہلا مصرع ہو۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ گلوکار نے دوسرا مصرع غلط پڑھا ہو، اگر اسے "در آں محفل دو صد مُوسیٰ نشستہ" پڑھا جائے تو قافیہ ردیف درست ہو جاتا ہے یعنی :

در آں محفل کہ یارِ ما نشستہ
در آں محفل دو صد موسیٰ نشستہ
رسیدہ در مقامے قابِ قوسین
کہ احمد با احد یکجا نشستہ
واہ واہ
ماشاءآللّہ
 

سید عاطف علی

لائبریرین
گلوکار نے یوں پڑھا ہے:

در آں محفل کہ یارِ ما نشستہ
دو صد موسیٰ در آں محفل نشستہ
رسیدہ در مقامے قابَ قوسین
کہ احمد با احد یکجا نشستہ
وہ محفل کہ جہاں ہمارا یار بیٹھا وہاں موسیٰ جیسے اور بھی بہت سے (دو صد) بیٹھے ہیں لیکن قابِ قوسین کا وہ مقام کہ جہاں آپ (ص) پہنچے وہاں صرف محمد اور اللہ ہی یکجا ہوئے ہیں۔

مجھے لگتا ہے کہ گلوکار نے پہلے دو مصرعوں کو آگے پیچھے پڑھ دیا ہے کیوں کہ اس قطعے کا قافیہ "آ" اور ردیف "نشستہ" ہے لیکن دوسرے مصرعے سے قافیہ غائب ہے، ہو سکتا ہے دوسرا مصرع پہلا مصرع ہو۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ گلوکار نے دوسرا مصرع غلط پڑھا ہو، اگر اسے "در آں محفل دو صد مُوسیٰ نشستہ" پڑھا جائے تو قافیہ ردیف درست ہو جاتا ہے یعنی :

در آں محفل کہ یارِ ما نشستہ
در آں محفل دو صد موسیٰ نشستہ
رسیدہ در مقامے قابِ قوسین
کہ احمد با احد یکجا نشستہ
یہ ایک بہت معروف نعتیہ تخیل ہے اسے کئی شعراء نے اپنے اپنے انداز سے باندھا ہے ۔

موسی ز ہوش رفت بیک جلوۂ صفات
تو عین ذات می نگری در تبسمے

اور ایک والد صاحب کا شعر بھی ۔

موسی کے لیے برق تھی ، میرے لیے قندیل
اب وہ ہی تجلی سرِ دیوارِ حرم ہے
 

احمد محمد

محفلین
مجھے لگتا ہے کہ گلوکار نے پہلے دو مصرعوں کو آگے پیچھے پڑھ دیا ہے

یہ بھی ہو سکتا ہے کہ گلوکار نے دوسرا مصرع غلط پڑھا ہو

جی سر، آپ بجا فرما رہے ہیں، کیوں کہ ایک تو یہ افغان گلوکار ہے اور لہجہ سے لگتا نہیں کہ اسکی مادری زبان فارسی ہو اور دوسری بات یہ کہ اس نے ایک اور جگہ رقیباں گوش "بر" آواز کو بھی شاید رقیباں گوش "در" آواز کہا ہے۔

سر! آپ کے بیش قیمت وقت اور راہنمائی کا بے حد شکریہ۔ جزاک اللّٰہ
 

محمد وارث

لائبریرین
جی سر، آپ بجا فرما رہے ہیں، کیوں کہ ایک تو یہ افغان گلوکار ہے اور لہجہ سے لگتا نہیں کہ اسکی مادری زبان فارسی ہو اور دوسری بات یہ کہ اس نے ایک اور جگہ رقیباں گوش "بر" آواز کو بھی شاید رقیباں گوش "در" آواز کہا ہے۔

سر! آپ کے بیش قیمت وقت اور راہنمائی کا بے حد شکریہ۔ جزاک اللّٰہ
بہت سے افغانیوں کی مادری زبان "دری" ہے جو کہ فارسی ہی کا ایک لہجہ ہے۔ اور دری فارسی کے بولنے والے افغانستان میں کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ افغانی پشتون بھی چاہے دری نہ بولتے ہوں لیکن کسی حد تک سمجھتے ضرور ہیں۔
 
اگر عقیدت کی نگاہ سے ہی دیکھا جائے تو شاعر اور کلام کا معیار کچھ خاص معنیٰ نہیں رکھتے۔ پھر بھی عوام خسرو سے منسوب کرنا معلوم نہیں کہ فرض کیوں سمجھتے ہیں۔
 

syed Kashif Rizvi

محفلین
نمی دانم چہ منزل بود،شب جای کہ من بودم
بہر سو رقصِ بسمل بود،شب جای کہ من بودم

پری پیکرنگاری،سرو قدی،لالہ رُخساری
سراپا آفتِ دل بود،شب جای کہ من بودم

رقیباں گوش بر آواز،او در ناز و من ترساں
سُخن گفتن چہ مشکل بود،شب جای کہ من بودم

خدا خود میرِ مجلس بود،اندر لامکاں خسرو
محمد(صلی اللہ علیہ وسلّم) شمع محفل بود ،شب جای کہ من بودم

امیر خسرو


ترجمہ


نہ میں جانوں تھی کیا محفل،جہاں کل رات کو میں تھا
بہر سو رقص میں بسمل،جہاں کل رات کو میں تھا

نگارِاک سر و قد و لالہ،رُخسار و پری پیکر
آفت بپا درِ دل تھی،جہاں کل رات کو میں تھا

رقیباں گوش بر آواز تھے،وہ ناز میں اور میں ترساں
تھی کوئی بات بھی مشکل، جہاں کل رات کو میں تھا

خدا خود میرِ مجلس،لامکاں اندرتھا خسرو اور
محمد(صلی اللہ علیہ وسلّم) شمع محفل،جہاں کل رات کو میں تھا

ترجمہ از : طارق اکبر


ترساں کا مطلب ہے کہ میں خوفزدہ تھا
 

سیما علی

لائبریرین
نمی دانم چہ منزل بود ،شب جائی کہ من بودم نہ جانوں تھی کیا منزل، جہاں کل رات کو میں تھا
بہر سُو رقصِ بسمل بود، شب جائی کہ من بودم بہر سُ رقص میں بسمل،جہاں کل رات کو میں تھا

پری پیکرنگاری،سرو قدی،لالہ رُخساری
نگارِاک سروقد و لالہ رُخسار و پری پیکر
سراپا آفتِ دل بود،شب جائی کہ من بودم آفت بپا در دل تھی،جہاں کل رات کو میں تھا

رقیباں گوش بر آواز،او در ناز و من ترساں رقیب گوش بر آواز تھے،وہ ناز میں اور میں ترساں
سُخن گفتن چہ مشکل بود،شب جائی کہ من کہ من بودم
تھی کوئی بات بھی مشکل،جہاں کل رات کو میں تھا

خدا خود میرِ مجلس بود،اندر لامکاں خسرو خدا خود میرِ مجلس لامکاں اندر تھا خسرو اور
محمدﷺ شمع محفل بود،شب جائی کہ من بودم محمدﷺ شمع محفل،جہاں کل رات کو میں تھا

(امیر خسرو)
 
Top