نمکین غزل:: دل مضطر فَگار اپنا، تردد کا شَکار اپنا:: از: محمد خلیل الرحمٰن

غزل
محمد خلیل الرحمٰن
دلِ مضطر فِگار اپنا ، تردد کا شکار اپنا
یہ سب انکی کرامت ہے، کہیں کیا حالِ زار اپنا
نئے ہرر وز اُن کے پینترے ہیں اور نئی چالیں
وہی ہم ہیں، وہی دِل ہے کہ بدلیں کیا شعار اپنا
تمنا ایک چاہت کی مگر ہرجائی دِل اپنا
اِسے دیکھا، اُسے تاڑا، یہی ہے کاروبار اپنا
مرے ہر شعر کو اُس نے کچھ اِس انداز سے پرکھا
تیا پانچا غزل کا ہوگیا جس میں تھا پیا ر اپنا
یہ جو ہم گھومتے پھرتے ہیں ، تم کچھ اور مت سمجھو!
جہاں پر تم نے چھوڑا تھا وہیں پر ہے مزار اپنا
اُسے جس دِن سے دیکھا ہے، اُسے دِل میں بسایا ہے
لُٹا جی کا سکوں اپنا، گیا دِل کا قرار اپنا
خلیل اب تو ہمارا ہے، وہی جی کا سہارا ہے
جسے ہم نے بنایا زندگی میں ایک بار اپنا
 

متلاشی

محفلین
زبردست غزل ہے خلیل صاحب ۔۔۔۔! مبارک باد قبول کیجئے
فقیر کو اس مصرع کی روانی میں تردد ہو رہا ہے ۔۔۔
تمنا ایک چاہت کی مگر ہرجائی دِل اپنا​
کیونکہ باقی پوری غزل میں اپنا کے الف کا وصال ہو رہا جبکہ یہاں وصال نہ کریں تو دشواری ہوتی ہے جبکہ ردیف بھی وہی ہے ۔۔۔!​
 

شمشاد

لائبریرین
اُسے جس دِن سے دیکھا ہے، اُسے دِل میں بسایا ہے
لُٹا جی کا سکوں اپنا، گیا دِل کا قرار اپنا

یعنی کہ اس میں بھی "اُسے"

کبھی "اِسے" کی طرف بھی توجہ کیا کریں۔

بہت شکریہ خلیل بھائی شریک محفل کرنے کا۔
 

غ۔ن۔غ

محفلین
یہ جو ہم گھومتے پھرتے ہیں ، تم کچھ اور مت سمجھو!
جہاں پر تم نے چھوڑا تھا وہیں پر ہے مزار اپنا
بہت ہی زبردست ۔ ۔ ۔ ۔واہ کیا کہنے (y) داد پیشِ خدمت ہے جناب۔۔۔۔
"اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ " آمین
 

الف عین

لائبریرین
زبردست غزل ہے خلیل صاحب ۔۔۔ ۔! مبارک باد قبول کیجئے
فقیر کو اس مصرع کی روانی میں تردد ہو رہا ہے ۔۔۔

تمنا ایک چاہت کی مگر ہرجائی دِل اپنا

کیونکہ باقی پوری غزل میں اپنا کے الف کا وصال ہو رہا جبکہ یہاں وصال نہ کریں تو دشواری ہوتی ہے جبکہ ردیف بھی وہی ہے ۔۔۔ !
الف کا وصال ہو نہ ہو، اس شعر میں روانی پر اثر محض اس وجہ سے پڑتا ہے کہ مصرع اولیٰ میں بھی ردیف آ گئی ہے۔ اس مصرع کو بدل دیں خلیل۔
اس غزل میں بھی نمک کی کمی ہے۔ لیکن مکمل سنجیدہ بھی نہیں۔ مجھے کچھ مصرعوں میں اشکال ہے۔
دلِ مضطر فِگار اپنا ، تردد کا شکار اپنا
تردد کا شکار کے ساتھ اپنا کیوں؟ یہاں اس کی ضرورت ہے کہ ذکر اسی دلِ مضطر کا ہے۔ محض ’اپنا‘ نہیں۔

وہی ہم ہیں، وہی دِل ہے کہ بدلیں کیا شعار اپنا
اس میں بھی ’کہ بدلیں کیا‘ میں روانی متاثر ہو رہی ہے، زیادہ رواں یوں ہی نہ ہوگا۔
وہی ہم ہیں، وہی دِل ہے وہی (اب) ہے شعار اپنا (اب کی جگہ کوئی بہتر لفظ سوچو)
باقی تو سب درست ہی ہے۔
 
شکریہ استادِ محترم اور جناب متلاشی صاحب۔
اب ملاحظہ کیجیے۔
دلِ مضطر فِگار اپنا ، تردد آشکار اپنا/ مچلنا بار بار اپنا
یہ سب انکی کرامت ہے، کہیں کیا حالِ زار اپنا​
نئے ہرر وز اُن کے پینترے ہیں اور نئی چالیں​
وہی ہم ہیں، وہی دِل ہے کہ بدلیں کیا شعار اپنا وہی اب ہے شعار اپنا
تمنا ایک چاہت کی مگر ہرجائی دِل اپنا/ مگر دِ ل ہے کہ ہرجائی
اِسے دیکھا، اُسے تاڑا، یہی ہے کاروبار اپنا​
مرے ہر شعر کو اُس نے کچھ اِس انداز سے پرکھا​
تیا پانچا غزل کا ہوگیا جس میں تھا پیا ر اپنا​
یہ جو ہم گھومتے پھرتے ہیں ، تم کچھ اور مت سمجھو!​
جہاں پر تم نے چھوڑا تھا وہیں پر ہے مزار اپنا​
اُسے جس دِن سے دیکھا ہے، اُسے دِل میں بسایا ہے​
لُٹا جی کا سکوں اپنا، گیا دِل کا قرار اپنا​
خلیل اب تو ہمارا ہے، وہی جی کا سہارا ہے​
جسے ہم نے بنایا زندگی میں ایک بار اپنا​
 

فاتح

لائبریرین
عمدہ غزل ہے خلیل الرحمٰن صاحب لیکن آپ کی غزلیں پڑھ کر ہمیشہ ہمارے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ انھیں نمکین غزلیں کیوں کہتے ہیں آپ۔
اعجاز صاحب کے مشورے صائب ہیں۔
ذیل کا مصرع تبدیلی چاہتا ہے کہ اس میں ہنوز تقابل ردیفین کا عیب موجود ہے:
وہی ہم ہیں، وہی دِل ہے، وہی اب ہے شعار اپنا
 
Top