نمود - سحر انصاری

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


فطرت



سوچتے کیا ہو
بے رحم اندھی ہوا
پیڑ کے زرد پتوں سے کیوں آ کے ٹکرا گئی
شاخ در شاخ کن آرزوؤں کا نوحہ لکھا ہے

پیڑ کے نرم سائے کو دم توڑتے دیکھ کر
دھوپ کے لمس کو اپنی محرومیوں میں نہ شامل کرو
سارے لمحات بے رحم اندھی ہوا کے قدموں سے لپٹے ہوئے ہیں
سوچتے کیا ہو
ٹوٹے ہوئے زرد پتے کہاں جا رہے ہیں
اپنی تنہائی کا کوئی ساتھی نہیں
جسم کے گرد آلود ملبوس ہیں
آنسوؤں کی قطاریں بھی گُم ہو گئیں

دھند میں چُھپ کے سورج کے مانند رونے سے کیا
اور جیون کی مالا میں کانٹے پرونے سے کیا
آتی جاتی رتوں سے الجھتی ہوا کے اشاروں پہ چلتے رہو
اپنے قدموں تلے خشک پتّے مسلتے رہو
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ہر نظر پریشاں ہے ، ہر نفس ہراساں ہے
ہر خیال ویراں ہے ، شہر ہے کہ زنداں ہے

دل کا امتحاں کیسا ، دل تو ضبط کے ہاتوں
چارہ گر سے نادم ہے درد سے پشیماں ہے

ایسی روشنی کی داد کس سے پائیں جُز خورشید
آندھیوں کے حلقے میں شمعِ جاں فروزاں ہے

آج کون سمجھے گا اس تضادِ پنہاں کو
زندگی سے نالاں ہوں ، زندگی کا ارماں ہے

حرف ہی تو سیکھے ہیں ، لفظ ہی تو لکھے ہیں
انکشافِ معنی کب جُرمِ بے گناہاں ہے

ذرّہ و بیاباں کا رمز ڈھونڈنے والو
کارِ ذات مشکل ہے ، کارِ زیست آساں ہے

عشق چند لمحوں کا اعتبار ہے شاید
کس کو کس کی خواہش ہے ، کس کو کس کا ارماں ہے

روشنی کے دشمن کیا آنکھ کے بھی اندھے ہیں
خون دل کے چھینٹوں سے ہر طرف چراغاں ہے

اس سے بڑھ کے کیا ہو گا انقلاب ہستی میں
قطرہ بحرِ عنواں ہے ، ذرّہ دشتِ ساماں ہے

کس سے حالِ دل کہیے ، کس سے دادِ غم لیجیے
جسم کا تماشائی سایہ گریزاں ہے

ہاں سحر ضروری ہے ہم نوائی غالب
"برقِ خرمن راحت خونِ گرم دہقاں ہے"
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


نیا مثالیہ



جانِ جاں !
تو عہد گاہِ جسم و جاں میں تھی کبھی
نو بہارِ بستر و نو روزِ آغوشِ وصال

اپنی دنیا سے نکل کر اس نئی دنیا کو دیکھ
جس کے آئینے میں تُو لیلٰی نہیں شیریں نہیں
کوہ پیما ہے ، خلائی راہرو ہے ، آگ ہے
آگ سارے دیوتاؤں سے بغاوت کی اساس

جانِ جاں !
دیکھ آغوشِ طلسمِ روز و شب میں ان دنوں
کیسی کیسی صورتیں ہیں ، کیسے کیسے جسم ہیں
کار گاہِ وقت کی زنجیر میں جکڑے ہوئے

آگ ان کے حق میں وہ دیوار ہے جس کے تلے
کامرانی اِک طرف ہے ، نا رسائی اک طرف
یہ جواں لاشے ، یہ فصلِ زندگانی کے شجر
جبرِ محنت کی صلیبوں پر ہیں آویزان ابھی
(مُشترک ہیں تُجھ پہ اُن پہ جبرِ محنت کے کرم)

جانتی ہے زندگی ان کے لہو کے سارے نام
صبح کی دہلیز سے تا آستانِ شمعِ شام
ان کی آنکھوں کا سفر ہے انتظارِ انقلاب
دستِ صر صر میں ہے اُن کے لالہ و گل کا شباب

جانِ جاں !
ایسے عالم میں یہ آگاہی ہے نعمت یا عذاب
اَن گنت لمحوں کی معدومی کے اندھے دشت میں
چند لمحے ، میرے تیرے قرب کے پابند ہیں

جانِ جاں !
صورتِ مرگِ مسلسل اس میں ہم بھی زندہ ہیں
دیکھ اس دنیا کو دیکھ
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
محبتوں کے سلیقے مرّوتوں میں کہاں
جو بات تجھ میں تیری شباہتوں میں کہاں

یہاں تو چاکِ گریباں کا ہوش بھی ہے عذاب
ملی ہے آ کے تری یاد وحشتوں میں کہاں

فشارِ زیست نے سمتیں بھی چھین لیں شاید
یہ گردشیں نظر آتی تھیں ساعتوں میں کہاں

فسونِ نیم نگاہی ، ترے جمال کی خیر
جو رمز میں ہے وہ جادو ، وضاحتوں میں کہاں

ہیں آج داد طلب کیوں تکلفات ترے
یہ فاصلے نکل آئے ہیں قربتوں میں کہاں

شعورِ غم سے الجھتی ہے قرصِ خواب آور
سکوں ملا ہے سکوں کی ضرورتوں میں کہاں

ہم اس نگاہ میں کچھ ہیں سحر تو ہیں ورنہ
ملے گی اپنی گواہی عدالتوں میں کہاں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اب تک حرم و دیر سے مانوس نہیں ہوں
انسان ہوں شرمندہ ناموس نہیں ہوں

ہو کس کو مری ذات کے آلام کا عرفان
میں شہر میں معلوم ہوں محسوس نہیں ہوں

دنیا کی خبر لے کے کہاں جاؤں فلک پر
میں عرشِ خداوند کا جاسوس نہیں ہوں

کسبِ درم و دام میں زندانی حالات
اشعار میں آزاد ہوں ، محبوس نہیں ہوں

افکار ہی اجسام میں ڈھل جائیں گے اک روز
میں اپنے خیالات سے مایوس نہیں ہوں

الفاظ و تراکیب پہ کیا فخر ہو مجھ کو
گنجینہ احساس ہوں ، قاموس نہیں ہوں

رہتا ہوں سحر یک دل و یک باطن و یک رنگ
میں قامتِ اضداد کا ملبوس نہیں ہوں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
دکانِ کوزہ گر ہوئی ہی کیوں ، پیوندِ خاک آخر
مجھی کو ریزہ ریزہ کر گیا لمحوں کا چاک آخر

زمانہ اس قدر دُشمن کہاں تھا رنگِ اُلفت کا
مگر میرے ہی افسوں نے کیا مجھ کو ہلاک آخر

شعورِ غم کی دولت میکدے میں لُٹ گئی ہوتی
رگ و پے میں سما کر رہ گیا زہرابِ تاک آخر

حقائق خواب بن کر کیوں مرے ہمراہ چلتے ہیں
مری آنکھیں رہیں گی اور کب تک خوابناک آخر

گریبانوں پہ ہوتا تھا گُمانِ شاخِ گُل لیکن
وہ فصل آئی کہ دل ہونے لگے زخموں سے پاک آخر

تعجب کیا اگر کچھ آشنا ، نا آشنا نکلے
کہیں گم ہو گیا ہو گا دلوں کا انہماک آخر
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


گرگ آشتی


گھنے درختوں کو اور سرسبز وادیوں کو
خزاں نے تاراج کر دیا ہے
تمام دفتر تمام بازار بند ہیں اور ہر سڑک پر
برف اپنی سفید بے حس تہیں بچھائے
ہوا کے نادیدہ نقشِ پا کی اداس دولت سمیٹتی ہے
ہوا جو یخ بستہ شہر کی نامراد گلیوں میں
سرکشیدہ گزر رہی ہے

نہ ساعتِ نانِ گرم ہے اب
نہ اخگرِ منقلِ گل و لالہ کی دمک ہے
زمیں کی ویران وسعتوں میں
ہزار راہوں کی سرد لہروں کا اک جلوس
اپنے کانپتے پرچموں کو لے کر
گزر رہا ہے

نہ کانوا جسم کا محافظ
نہ حلقہ نار میں لپکتی ہوئی زبانیں
پاسبانانِ اذنِ گویائی بن رہی ہیں

سگانِ آوارہ نان اور استخوان کی کمیاب حسرتوں کو
دلوں میں اپنے چھپائے پھرتے ہیں کوچہ کوچہ
سبھی مکانوں کے در ہیں بستہ
سبھی دریچوں سے برف کی ناشگفتہ کلیوں کے ہار کٹ کٹ کے گر رہے ہیں

تمام جھیلوں کے آئینے ہو گئے شکستہ
تمام راہوں میں اک صدا سائیں سائیں کی گشت کر رہی ہے
نہ حرفِ لب میں خلوص و مہر و وفا کی حدت
نہ جسمِ قرطاس سے لپٹتے ہوئے خطوں اور دائروں میں کوئی تپش ہے
کہ جیسے اس شہر کی ہر اک شئے ہے سوز و جذب و اثر سے محروم

نقابِ ابرِ سفید کی اوٹ سے
۔ ۔ ۔ سفید بستر پہ اک مریضِ جواں کے چہرے کی طرح
حیران و مضمحل ۔ ۔ ۔

بے وجود سورج
اپنی کرنیں سمیٹتا ہے

دُور اک دائرے میں گرگانِ گرسنہ
نشہ خوابِ تلخ میں چُور
اپنے اپنے شکم کی بے رحم آگ سے
ہات تاپتے ہیں
ہزار مجبوریوں کے نرغے میں جاگتے ہیں
ہر ایک گرگِ گرسنہ اپنی نگاہ کے دائرے سے پیہم
دوسرے گرگِ گرسنہ کی نڈھال آنکھوں کو تک رہا ہے
ہر ایک دل میں یہ سوچتا ہے
کہ دوسرے کی ذرا سی غفلت
نیند کی اک مختصر سی نویدِ مخفی
تمام گرگانِ گرسنہ کا علاج بن کر
دوستی اور آشتی کی تمام کہنہ روایتوں کو اگر بچا لے

تو اس جہاں کی بقا کا سامان کر کے ہم سب یہ کہہ سکیں گے
کہ دوستی زندگی کی ساری عظیم قدروں سے
(اس جہاں میں) عظیم تر ہے

 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
تنگ آتے بھی نہیں کشمکش دہر سے لوگ
کیا تماشا ہے کہ مرتے بھی نہیں زہر سے لوگ

شہر میں آئے تھے صحرا کی فضا سے تھک کر
اب کہاں جائیں گے آسیب زدہ شہر سے لوگ

نخلِ ہستی نظر آئے گا کبھی نخلِ صلیب
زیست کی فال نکالیں گے کبھی زہر سے لوگ

ہم کو جنت کی فضا سے بھی زیادہ ہے عزیز
یہی بے رنگ سی دنیا ، یہی بے مہر سے لوگ

مطمئن رہتے ہیں طوفانِ مصائب میں کبھی
ڈوب جاتے ہیں کبھی درد کی اک لہر سے لوگ

اے زمیں آج بھی ذرّے ہیں ترے مہر تراش
اے فلک آج بھی لڑتے ہیں ترے قہر سے لوگ

صرف محرومی فرہاد کا کیا ذکر سحر
بیستوں کاٹ کے محروم رہے نہر سے لوگ
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اک آس کا دھندلا سایہ ہے ، اک یاس کا تپتا صحرا ہے
کیا دیکھ رہے ہو آنکھوں میں ، ان آنکھوں میں کیا رکھا ہے

جب کھونے کو کچھ پاس بھی تھا تب پانے کا کچھ دھیان نہ تھا
اب سوچتے ہو ، کیوں سوچتے ہو ، کیا کھویا ہے کیا پایا ہے

میں جھوٹ کو سچ سے کیوں بدلوں اور رات کو دن میں کیوں گھولوں
کیا سننے والا بہرا ہے ، کیا دیکھنے والا اندھا ہے

ہر خاک میں ہے گوہر غلطاں ، ہر گوہر میں مٹی رقصاں
جس رُوپ کے سب گُن گاتے ہیں وہ رُوپ بھی کس نے دیکھا ہے

کس دل کی بات کہیں ہم تم ، کس دل کا درد سہیں ہم تم
دل پتھر ہے ، دل شیشہ ہے ، دل صحرا ہے ، دل دریا ہے

اب سارے تارے کنکر ہیں ، اب سارے ہیرے پتھر ہیں
اس بستی میں کیوں آئے ہو ، اس بستی میں کیا رکھا ہے

یہ مرنا جینا بھی شاید مجبوری کی دو لہریں ہیں
کچھ سوچ کے مرنا چاہا تھا کچھ سوچ کے جینا چاہا ہے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


سوادِ شب


نیم شب کی ریگ آلودہ ہوا
کن جزیروں سے گزر کر آئی ہے
منزلوں کی ریزہ ریزہ روشنی
کن ستاروں سے اتر کر آئی ہے
اور میرے ذہن کی بوجھل تھکن
کن خرابوں کا سفر کر آئی ہے

ہیں ہوا کے دامنِ صد میں چاک
خشک پتے ، پیرھن کی دھجیاں
فصلِ گُل کے پیرھن کی دھجیاں
اعتبارِ کاوشِ آئندگاں

حلقہ شب تنگ ہے مانندِ طوق
ساعتوں کی جنبش کے درمیاں
رفتہ رفتہ بڑھ رہا ہے تا گُلو
بے محابا تیرگی کا ارتکاز

ڈوبتی جاتی ہیں دل کی دھڑکنیں
آگ بن کر گھل رہی ہیں خون میں
جسم کی نا آشنا آسائشیں
سوچتا ہوں ، صبح کی تحصیل تک

رات ہے پرچھائیوں کا اک دیار
جاگتی تنہائیوں کا اک دیار
جس کی راہوں میں سفر ممکن نہیں
جس کی راہوں سے مفر ممکن نہیں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


اب اپنے دل کا آئینہ بھی دیکھیں
غبارِ چہرہ دنیا بھی دیکھیں

نگہباں ہم تو ہیں ریگِ تپاں کے
ہمیں کیوں جانبِ دریا بھی دیکھیں

رہیں شہروں کے ہنگاموں میں شامل
انہی شہروں میں سناٹا بھی دیکھیں

ہجومِ زیست کے احساں اٹھائیں
اور اپنے آپ کو تنہا بھی دیکھیں

جو میری آرزو پر معترض ہیں
تجھے دیکھیں ، کوئی تجھ سا بھی دیکھیں

بہت دیکھے سحر گھر کے در و بام
چلو کچھ وسعتِ صحرا بھی دیکھیں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین

ہمیں نبض شناس بھی وقت کے تھے کہ بہار و خزاں کے اسیر ہوئے
کبھی صرصرِ دشت کی طرح پھرے ، کبھی نکہتِ گُل کے سفیر ہوئے

یہاں نام و نمود پہ فخر ہی کیا ، یہ نشیب و فراز حیات کے ہیں
بنے شاہ جو فرق پہ تاج رکھے ، وہی کاسہ بدستِ فقیر ہوئے

یہاں وقت کا کون سا رُوپ نہیں ، یہاں چھاؤں نہیں ہے کہ دُھوپ نہیں
کبھی مہر بھی ذرّوں کے دست نگر ، کبھی ذرّے بھی ماہِ منیر ہوئے

رہی سود و زیاں ہی کی بات مگر ترے حرف دو حرف کے بولنے سے
ترا کون سا ایسا خسارہ ہوا ، ہمیں کون سے ایسے امیر ہوئے

کبھی مصلحتوں کو سنوارنے پر ، کبھی رسمِ زمانہ نباہنے پر
ملی دادِ ہوا و ہوس تو بہت مگر اپنی نظر میں حقیر ہوئے

کبھی دُزد بنے ، کبھی شعر لکھے ، کبھی عشق کیا ، کبھی جوگ لیا
کبھی سارے نقاب اُتار دیئے تو ہم آپ ہی اپنی نظیر ہوئے

کفِ شحنہ سے رزق بھی پاتے رہے ، شبِ ہجر میں جی بھی جلاتے رہے
وہی لوگ جو اہلِ خبر تھے سحر ، وہی لوگ جو غالب و میر ہوئے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


آبِ جُو



تجھے میرے قرب سے کیا ملا
کہ میرا وجود تو ایک دشت٫ خراب ہے
جسے ایک لمحہ آرزو بھی عذاب ہے

تیرا جسم موجہ آبِ جُو
جسے میرے قُرب کی تپتی ریت نے پی لیا
زہے جُستجُو ، زہے آرزُو

تری اس میں کوئی خطا نہیں
کسی تشنہ رُوح کو آبِ تازہ کی پیشکش
تو سدا سے کارِ عظیم ہے
تجھے کیا خبر تھی کہ تازہ موجہ آبِ جُو
کسی تشنہ دشت میں آ کے اپنے وجود کو
نہ بچا سکے گی غمِ وفا کے سراب سے
نہ بچا سکے گی نثارِ جاں کے عذاب سے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


ہو فریبِ زندگی ، لیکن فریب آسا نہ ہو
زندگی اک زخم بن جائے ، اگر ایسا نہ ہو

ہم ہی کر لیں گے گوارا تہمتِ ترکِ وفا
تُو ، ہم اہلِ درد کی خاطر بہت رُسوا نہ ہو

دشتِ خاموشی میں ہے اک آشنا آوازِ پا
میرا سایہ ہی تعاقب میں کہیں آیا نہ ہو

رقص کرتی ہیں مرے چاروں طرف پرچھائیاں
ڈر رہا ہوں یہ بھی عکسِ چہرہ دنیا نہ ہو

اس سے کیا پوچھوں ، ترا احوال ، تیرے روز و شب
جس نے تیرا عالمِ افسردگی دیکھا نہ ہو

گھر کی تنہائی بھی کرب انگیز ہے لیکن سحر
کوئی ہنستے گنگناتے شہر میں تنہا نہ ہو
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین

جراثیم


دوستو ، تخم ِ احساس کو چار سُو
منتشر کر کے قائم رکھو دہر میں
مزرعِ زیست کا اختیارِ نمُو
کچھ نہیں مصلحت کی کمیں گاہ میں
اب بھی نادیدہ دشمن ہیں اس راہ میں

چشمِ فطرت کے اشکوں نے دھویا انہیں
تخمِ احساس ہیں مہر و ماہِ نجوم
نور نے آسمانوں میں بویا انہیں
روز و شب موسمِ فصلِ سیارگاں
نخلِ جاں بے نیازِ بہار و خزاں

بزمِ ظاہر سے پنہاں نکالے ہوئے
کتنے نادیدہ دشمن ، جراثیمِ نو
غیر مرئی فضاوں میں پالے ہوئے
ڈھونڈتے ہیں پناہیں اسی آس میں
پھونک دیں زہر پوشیدہ انفاس میں

ذہنِ انساں حریفِ جراثیم ہے
خورد بینوں سے اتلاف کے وار تک
اک سپاہِ تمنا کی تنظیم ہے
اپنے اپنے حریفوں سے جنگیں بھی ہیں
قلعہ جاں میں پنہاں سُرنگیں بھی ہیں

نوکِ ناوک کو ہے جستجوئے ہدف
جسم ، ملبوسِ زر سے دمکتے ہوئے
اور ملبوس میں تہہ بہ تہہ ، صف بہ صف
آئینوں کی چمکتی جبینیں سہی
پہرہ دارانِ جاں خورد بینیں سہی

خورد بینوں کی آنکھوں سے ڈرتے ہوئے
زہر کی تیز سفاک مقراض سے
دیدہ و دل کے رشتے کترتے ہوئے
ریزہ ریزہ جراثیم چھا جائیں گے
سب حریفانِ پنہاں کو کھا جائیں گے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


ٹیکسلا


مٹے مٹے ، لُٹے لُٹے نشان
تازہ زندگی کے دائروں میں گھومتے ہوئے
یہ سوچتے ہیں زندگی کے کتنے رُوپ ہیں

خموش راستے ، سیہ مہیب بام و در
ہر ایک باغ بے شجر
کہ جیسے کوئی قافلہ
پڑاو کی نشانیاں ، الاو کی اُداس راکھ ، چھوڑ کر چلا گیا
نہ برگدوں کی چھاوں ہے ، نہ لوگ ہیں ، نہ شہر ہیں
رگوں میں جو لہو کی گرم دھاریاں تھیں کھو گئیں
زمیں کی کیسری وشائین جیسے تھک کے سو گئیں

یہاں کبھی ، کسی مکان کے بدن میں کوئی راگ تھا
کسی کی پھول جیسی انکھڑیوں میں رنگ تھا
اور اب یہاں نہ رُوپ ہے نہ انگ ہے
نہ راگ ہے نہ رنگ ہے
شکستہ مورتوں ، نہفتہ صورتوں کا اک ہجوم ہے

وہ آتما ، مہاتما
جو اپنی بازگشت کے نقوشِ پا کو ڈھونڈتی
سمے کے سارے بندھنوں کو توڑ کر نکل گئی
وہ آتما جو زندگی کے سارے زہر پی گئی
وہ مسکرا کے موت سے گلے ملی تو جی گئی
پراشچت کے سارے بھید ان گنت گپھاوں میں سمو گئی
امر ، مہان ہو گئی

ہماری آنکھ کی صنم گری
ہمارے ذہن کی مصوری
گپھاوں کی شکستہ مورتوں ، نہفتہ صورتوں کے
خد و خال یوں نکھارتی ہے
جیسے ان کی اک کڑی بھی گم نہیں ہوئی کہیں
اسی صنم گری ، مصوری کی دین ہے
کہ سارے نام ، سارے لوگ ، ساری بستیاں جو مٹ گئین
ہمارے درمیان خود ہماری طرح زندہ ہیں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین

بستیاں خواب ہوئیں دیدہ بے خواب کے بعد
عکس ہی عکس ملے آئینہ آب کے بعد

جیسے ان میں کبھی آباد نہ ہوگا کوئی
یوں مکانوں کے نشاں رہ گئے سیلاب کے بعد

خواہشِ خواب میں آنکھیں بھی رکھیں بند مگر
نظر آتا ہے وہی خواب کہاں ، کہاں خواب کے بعد

کام سب محورِ فرصت کے بدلنے تک تھے
اب کوئی کام نہیں فرصتِ کمیاب کے بعد

اُڑتے پھرتے ہیں فضاوں میں پرندے کیا کیا
زندگی ختم نہیں حلقہ گرداب کے بعد

دل میں قصے تو بہت ہیں غمِ بیداری کے
کیا کہے کوئی تری چشمِ گراں خواب کے بعد

زندہ رہنے کی ضرورت کا خیال آتا ہے
خاص کر وہ بھی سحر پرسشِ احباب کے بعد
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ہم نے آدابِ غم کا پاس کیا
نقدِ جاں کو زیاں قیاس کیا

تہمتِ شعلہ زباں لے کر
صورتِ زخم التماس کیا

آ گیا جب سلیقہ تعمیر
قصرِ ہستی کو بے اساس کیا

خبر و آگہی کے پردے میں
عمر بھر ماتمِ حواس کیا

کیسے اِک لفظ میں بیاں کر دوں
دل کو کس بات نے اداس کیا

عرض و اظہار بھی ہیں پیراہن
ذات کو کس نے بے لباس کیا

کیوں سحر تم نے اپنے صحرا کو
موجِ دریا سے روشناس کیا
 
Top