نمود - سحر انصاری

سیدہ شگفتہ

لائبریرین

عرصہ جنگ


عرصہ زیست ہے وہ عرصہ جنگ
جس میں ہر ہر قدم پہ ہے پیکار
کہیں کہسار کشتہ تیشہ
کہیں دریا کی راہ میں کہسار
ہے کہیں نوک خار قاتل گُل
کہیں صر صر ہے یرغمال بہار

سوچتا ہوں تو ہر دغا میں مجھے
اپنی صورت دکھائی دیتی ہے
ہے مرا جسم ہی بہت شاطر
میرے ہی رُوپ ہیں بہار و خزاں
میرے ہی ہات ہیں تفنگ و سناں
کار زار حیات میں آخر
میں خود اپنے پہ کیسے تیر چلاّں
خود کو کس طرح دار پر کھینچوں
اپنے ہونٹوں پہ کیسے مُہر لگاّں
اپنی آنکھوں پہ کیسے وار کروں
خنجر بے نیام کے مانند
اپنے سینے میں کس طرح اُتروں
ہے ہر اک شخص پر گماں اپنا
کون دُشمن ہے کون دوست کہ میں
خود ہی اپنا ہوں ، خود پرایا ہوں
نُور و ظلمت کی رزم گاہوں میں
میں ہی سورج ہوں ، میں سایہ ہوں




---------------------


اے مہر تابناک تری روشنی کی خیر
کچھ لوگ زیر سایہ دیوار جل گئے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کچھ کرم ہم پہ برملا تو ہوئے
بندگانِ خدا ، خدا تو ہوئے

یاں تو ردّ عمل ہی تھا ناپید
کم سے کم لوگ کچھ خفا تو ہوئے

نہ سہی ہم چمن میں موجِ صبا
دشت و در کے لیے ہوا تو ہوئے

نہ سہی ہم افق پہ رنگِ شفق
تابشِ شعلہ حنا تو ہوئے

خیر ہم کچھ نہ ہو سکے لیکن
کچھ نہ ہونے سے آشنا تو ہوئے

کارِ دنیا اب اور کیا سیکھیں
مسکراتے ہوئے خفا تو ہوئے

دوستوں کی طرح ملے نہ مگر
دوستوں کی طرح جدا تو ہوئے

خیر ہو تیرے جاں نثاروں کی
لوگ شرمندہ جفا تو ہوئے

ہم زیاں کوش زندگی کے طفیل
خوگرِ ترکِ مدعا تو ہوئے

دے کے صدیوں کے انتظار کا غم
چند لمحے گریز پا تو ہوئے

سرِ یومِ حسابِ ذات سحر
ہم ہی اپنے لیے سزا تو ہوئے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین

تمنا کا عذاب


میں کسی خواب کی وادی میں نہیں ہوں زندہ
میری رگ رگ میں بھی ہے شہر وفا تابندہ
یہ الگ بات کہ رفتہ ہے نہ اب آیندہ

کونپلیں شاخ تمنا پہ سجی دیکھی ہیں
اور پھر درد کی مٹی میں ملی دیکھی ہیں
چاند کو چاند سمجھنے کی حقیقت جو کھلی
رنگ ادراک پہ کرنی ہی پڑی طعنہ زنی

یوں ہی طاقوں میں سجائے ہوئے نازک گلدان
نکل آتے ہیں کبھی خار مغیلاں کی دکان
ایسے صدمات کو سہنے کا طریقہ کیا ہے
زندگی ایک سیاست ہے سلیقہ کیا ہے
ہے سراب اصل حقیقت کہ حقیقت ہے سراب
ہے یہی کشمکش ذہن ، تمنا کا عذاب

میں جو پتھر ہوں ہمیشہ سے نہیں ہوں پتھر
نہ مری روح تھی پتھر نہ مرا خُوں پتھر
میں بھی ہستی تھا ، حرارت تھا ، توانائی تھا
داد خواہ خرد افروزی بینائی تھا
میں تماشا ہی نہیں خود بھی تماشائی تھا

مجھ کو معلوم ہے اس دور کے حساس وجود
دیکھتے دیکھتے بن جاتے ہیں کیسے پتھر
کس سے کیجیے کسی معیار کی ، اقدار کی بات
گردش وقت میں گُم ہے مری رفتار کی بات



---------------------



جو غرق ہو گئے انہیں ساحل نہ راس تھا
اور وہ جو لوٹ کر لب ساحل سے آئے ہیں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کنارِ بحر


کیا تمہیں یاد ہے وہ شامِ گریزاں اب تک
دامنِ بحر میں چہرے کو چھپائے سورج
موج در موج گزرتا ہی چلا جاتا تھا

ساحلِ بحر کی نم ریت پہ بیٹھے بیٹھے
تم نے انگشت حنائی سے لکھا تھا مرا نام
اور دزدیدہ نگاہوں سے مجھے دیکھا تھا

میں نے بے جان لکیروں سے کئی پھول بنائے
اپنی دانست میں سو رنگ کے گلزار کھلائے
کتنے شاداب تھے ، کس درجہ سبک تھے وہ خطوط

ہم نے اس ریت کو سمجھا تھا کوئی صفحہ سنگ
یا اک آئینہ جس پر کبھی لگتا نہیں زنگ
پھر کسی خوف سے تھرّا گئے دونوں کے بدن

بحر کی بڑھتی ہوئی موج نے آگے آ کر
ریت پر لکھے ہوئے نام مٹا ڈالے تھے
حسن اور عشق کے پیغام مٹا ڈالے تھے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین

برٹرینڈرسل



وہ ایک عہدِ تغیر ، وہ اِک صدی کا ضمیر
بدن کی شکل میں قائم نہیں رہا لیکن
اداس ، اداس ، فسردہ فضاؤں کی صورت
اب اس کی راکھ کو چہروں پہ اپنے مَل لیجیے
خرد کے شہر میں جس سے چلی ہے رسمِ جنوں
اب اس کی فکر سے روحوں میں روشنی کیجیے

تھی اس کی فکر اندھیروں میں آفتابِ یقیں
وہ اپنی ذات سے اِک محشرِ بغاوت تھا
عدالتوں سے کب انصاف کی تھی اُس کو اُمید
وہ مُجرمانِ زمانہ کو خود عدالت تھا
رقم ہوا وہ کبھی پرچمِ صداقت پر
کبھی وہ امن کی ہیکل میں مثلِ عود جلا
دل تباہ سے اٹھتی ہوئی فغاں کی طرح
سکوتِ شام میں گونجی ہوئی اذاں کی طرح
رہا ہمیشہ وہ اہلِ وفا کے دوش بدوش
وہ کیوبا ہو کہ ویت نام و ہیر وشیما ہوں
ہر ایک موڑ پہ ہیں ثبت اس کے نقشِ قدم
شباب و شیب کی تعزیر ہے گواہ کہ وہ
ہر ایک دَور کے زندانیوں میں شامل تھا
نگار و بادہ و رقص و سرود کے با وصف
وہ اپنے عہد کی ویرانیوں میں شامل تھا
دکھائے اس کے تصور نے اک جہان کے خواب
نئی زمین کی آنکھوں سے آسمان کے خواب
یہی سبب ہے کہ ایوانِ فکر و دانش میں
ہزار راکھ کے پردے گرائے جائیں مگر
وہ جسم و ذہن بھی زندہ ہے ، لب بھی زندہ ہیں
وہ خواب مشرق و مغرب میں اب بھی زندہ ہیں


28 فروری 1970ء



۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
نہ دوستی سے رہے اور نہ دشمنی سے رہے
ہمیں تمام گلے اپنی آگہی سے رہے

وہ پاس آئے تو موضوعِ گفتگو نہ ملے
وہ لوٹ جائے تو ہر گفتگو اسی سے رہے

ہم اپنی راہ چلے ، لوگ اپنی راہ چلے
یہی سبب ہے کہ ہم سرگراں سبھی سے رہے

وہ گردشیں ہیں کہ چُھٹ جائیں خود ہی ہات سے ہات
یہ زندگی ہو تو کیا ربطِ جاں کسی سے رہے

کبھی ملا وہ سرِ رہ گزر تو ملتے ہی
نظر چُرانے لگا ، ہم بھی اجنبی سے رہے

گداز قلب کہے کوئی یا کہ ہرجائی
خلوص و درد کے رشتے یہاں سبھی سے رہے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین



نظامِ شمسی



سطحِ زمیں بھی چرخِ بریں سے کم تو نہیں
ذرّوں میں بھی روشن چاند ستارے مل جاتے ہیں
گلیوں کی سنسان فضا میں لمحہ لمحہ
زیست کی گردش ماہ و سال بنا کرتی ہے

دنیا بھی ہے ایک نظامِ شمسی جس کو
ناپختہ ، ناقص ذہنوں نے
جب بھی وہم و گماں کی تنگ رصد گاہوں کے
دھندلے عدسوں سے دیکھا ہے
نظمِ جہاں کو بے ترتیب سمجھ کر
سطحِ زمیں کے سیّاروں کی بابت اکثر یہی کہا ہے
ان میں باہم کوئی کشش موجود نہیں
اپنے اپنے محور پر سب گھوم رہے ہیں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
جا کے طرحدار یار اب نہ کبھی آئے گا
حُسن کا پروردگار اب نہ کبھی آئے گا

عُمرِ رواں کی طرح اپنے خُتن کی طرف
آہوئے شہرِ نگار اب نہ کبھی آئے گا

میکدہ زیست میں میرے لبوں کی طرف
جامِ لبِ نغمہ بار اب نہ کبھی آئے گا

لاکھ مچے ہائے و ہو ، لاکھ سجے کاخ و کو
شہر میں وہ شہر یار اب نہ کبھی آئے گا

اب نہ ملے گا کسی بزم میں وہ جانِ بزم
راہ میں وہ شہسوار اب نہ کبھی آئے گا

اب نہ کبھی آئے گی لب پہ ہمارے ہنسی
دل کو ہمارے قرار اب نہ کبھی آئے گا

زیست ہے بُت خانہ وہم و طلسمِ خیال
نقش گرِ اعتبار اب نہ کبھی آئے گا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


جہان گزراں


رکھے ہیں میری میز پہ سب خاک کے ذرات
بکھرے ہیں میرے سامنے اوراق سماوات
ہے خوابگہ ارض و فلک جوف شب تار
ہیں جوف شب تار میں بیدار خیالات
ہیں شعلہ فگن وقت کی بے رحم زبانیں
ہیں لرزہ بر اندام شکایات و مفادات


کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ اس عرصہ غم میں
ہیں وقت کی خوارک نباتات و جمادات
انسان کے ہاتوں میں ہیں فطرت کی عنانیں
انسان ہے آقائے فلزات و بخارات
انسان کے قبضے میں ہے کُل گردش و رفتار
انسان ہے معمار محلات و عمارات
ہیں ثابت و سیار پہ انساں کی کمندیں
تکوین کے آثار ہیں انساں کے اشارات
کچھ سوچ رہے ہیں کہ بایں حکمت و دانش
احساس زیاں کیوں ہے بھلا معتکف ذات
اس کہنہ گزرگاہ کی ہر شے گزراں ہے
اشجار کہ اجسام کہ افکار و خیالات
ہر آن گزر جاتا ہے بے گانہ وشی سے
رہ جاتے ہیں ہر آن کے ناخواستہ صدمات
محروم ہے ، شاکی ہے، فسردوہ ہے ، حزیں ہے
وہ تارک دنیا ہو کہ ہو بندہ لذات
عاجز ہے بناتات و جمادات کے مانند
ہو صاحب الیاد کہ پیغمبر تورات

ہر سمت ہے اک کشمکش گردش و رفتار
ہر سمت ہے اک جبر پُر اسرار و پُر آفات
ہر سانس ہے اک معرکہ صرصر وکہسار
اس رزم میں کیا ضرب پر کاہ کی اوقات
کیا جذب و کشش ، ربط و وفا ، انس و محبت
کیا دوستی و رشتہ و اخلاص و عنایات

ہر چیز ہے بے معنی و لمحاتی و فانی
ہر شخص ہے آئینہ اوہام و طلسمات
انفاس کی جنبش کی حقیقت ہے بھلا کیا
جب گھات میں ہو زہر سر خنجر آنات

کمرے میں مرے کون ہے اے خلوت جاں بول
اب کاکل و عارض ہیں نہ افسانہ و نغمات
اب حکمت و دانش ہے نہ شعر و ہنر و رنگ
معمل ہے نہ معبد ہے ، نہ آلات ، نہ آیات
اک میں ہوں نگارندہ تقویم مہ و سال
اک سوزن ساعت ہے شمارندہ لمحات



--------------------------


میرے قبضے میں نہ رفتہ ہے نہ آیندہ ہے
اک یہی لمحہ موجود ابھی زندہ ہے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


فصل


میں ہوں دریچے کے قریب
اور بادلوں کے قافلے
آکاش کے خیمے تلے
پھر کوچ کو تیار ہیں
لمحے مگر عیار ہیں
پھر میرے تنہا ذہن پر
ہنس ہنس کے طاری کر گئے
سب تجربوں کے سلسلے

ہیں اعتبارات خرد
کیوں درپئے رسم جنوں
انسان ہے خوار و زبوں
یہ کار گاہ جبر ہے
اور آب و گل کا ہر محل
محرومیوں کی قبر ہے

یہ اعتبارات خرد
شاید نہ واقف ہو سکیں
امید و عزم و آرزو
تحریک و شوق و جستجو
سعی و تگ و تاز و طلب
توقیر ہستی کا سبب
کہسار کے جامد قدم
کب کر سکے رقص طرب

دارالشفائے جبر میں
زخموں کو مرہم کب ملا
دست صبا کو دشت میں
خوشبو کا پرچم کب ملا
دن بھر کے تنہا شہر میں
سورج کو ہمدم کب ملا
اور سبزہ خوابیدہ کو
پیغام شبنم کب ملا

اُڑتی ہوئی چنچل ہوا
آ کر دریچے کے قریب
شیشے کے بنجر کھیت میں
بارش کے قطرے بو گئی
اور فصل برق و باد کو
امکان تازہ ہو گئی
احساس کی دیوار سے
گرد الم کو دھو گئی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
قائل ہم اپنے دیدہ پُرآب ہی کے ہیں
پھر منتظر تلاطم و سیلاب ہی کے ہیں

سیارگان چرک سے تا زلف مشکبار
حلقے تمام عالم گرداب ہی کے ہیں

مرجانہ و حسینہ و سلمی و نازیہ
یہ سارے نام خواب کے تھے خواب ہی کے ہیں

پیراہنوں کی سُرخ شفق ، عارضوں کی دھوپ
یہ عکس میرے ساغر خونناب ہی کے ہیں

آہنگ و رنگ و چنگ کا دشمن نہیں کوئی
دشمن تمام نغمہ کمیاب ہی کے ہیں

برگ خزاں رسیدہ ہیں لبریز جوش غم
نوحے ہواوں میں دل بیتاب ہی کے ہیں

لب تشنگاں کو جام مئے ارغواں سے کیا
ہم تشنگاں تو جرعہ زہراب ہی کے ہیں

یہ بھی کُھلا کہ خاک نشینان کوئے غم
دلدادگان ریشم و کمخواب ہی کے ہیں

یہ حسرتیں کہ سینہ مہتاب میں سحر
دیکھا تو داغ مہر جہانتاب ہی کے ہیں








مآل سنگ باری دیکھ اے طفل غم ہستی
شکستہ ہو گئے ہیں عکس اور آئینہ باقی ہے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


دُوسرا غم



شہر ، انسانوں کا سیل بیکراں
مجھ سے بچ کر بہہ رہا ہے عرصہ شام و سحر کے درمیاں
اجنبی چہرے ، گریزاں جسم ، لرزاں ساعتیں
ہیں طسلم گردش و رفتار میں
اپنے اپنے دل کی نازک آہٹوں سے بے خبر

شہر کے سب سے بڑے بازار میں
ناسزا جنس تجارت بن گیا میرا وجود
سود و سرمایہ کا یہ بیدار مقناطیس بھی
ہو گیا ہے میرے حق میں آہن زنگ آشنا
سنگ و آہن کے حصاروں میں اسیر
میں ہوں ، اور میری رگوں میں گھل رہا ہے
میری تنہائی کا زہر

میں ہوں اپنے میں مقید
اور میرے ذہن میں محو سفر ہے سوچ کی گہری لکیر
سوچتا ہوں ذات کے اظہار کا
ایک غم لفظ و بیاں کے ساتھ رسوا ہو چکا
دُوسرے غم کو چھپانے سے بھی کیا مل جائے گا
دوسرا غم بھی اسی غم کی طرح
مجھ کو مجھ سے چھین کر لے جائے گا

آخر اس دیوانگی کا کیا علاج
لے رہا ہوں فصل گُل سے یوں خراج
پھر رہا ہوں شہر میں باد بیاباں کی طرح
آخر اس دیوانگی کا کیا علاج
اک ہجوم نور و نکہت سے جدا
راستوں پر یوں اکیلے گھومتے رہنے سے کیا
چپکے چپکے جبر حس و آگہی سہنے سے کیا
ضبط غم کا گر یہی عالم رہا
ٹوٹ جائیں گی طنابیں جسم کی
اور بُجھ جائے گا یادوں کا الاو
دھند میں کھو جائیں گے رج کے خواب
راستوں پر یوں اکیلے گھومتے رہنے سے کیا
آدمی سے آدمی کے اجنبی رہنے کا غم
ذات کے سارے غمون سے ہے شدید

رات ڈھلتی جا رہی ہے پاوں شل ہونے لگے
راستوں کی بے حسی سے ذہن بھی تھکنے لگا
گھر پہنچ کر پھر خیال صبح میں کھو جاوں گا
روح کی تاریک راتیں اوڑھ کر سو جاوں گا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین

سیپیاں



ہے اپنی زندگی گہرا سمندر
جہاں ہم انبساط و غم کے مارے
خود اپنی تھاہ پانے کے جنوں میں
تمنّاوں کی امواج سکوں میں
خرد کے نرم کنکر پھینکتے ہیں

کبھی جذبات کے آبی پرندے
فضائے بیکران جسم و جاں میں
اٹھا لاتے ہیں آوارہ ہوا کو
دماغ و دل میں در آتی ہے فرحت

ہم اپنے تجربوں کی ریگ نم پر
نقوش پائے حسرت ثبت کر کے
بہت مسرور ہوتے ہیں کہ جیسے
مکمل ہو گئی تجسیم وجدان

کبھی اکتا کے اس یکسانیت سے
ہم اپنے سر کو گھٹنوں میں چھپائے
بڑی سنجیدگی سے سوچتے ہیں
کہ ہم لمحات کی موجوں میں گُم صُم
جواز سعی لا حاصل کی خاطر
اسی گہرے سمندر کے کنارے
نجانے کتنے قرنوں تک مسلسل
طلب کی سیپیاں چنتے رہیں گے
پیام ریگ نم سنتے رہیں گے




-----------


ہنستے چہرے بھی دھوکا ہیں ، روتی آنکھیں بھی ہیں فریب
لوگ نجانے دل میں کیا کیا بھید چھپائے پھرتے ہیں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین

دوراہا


(خود کلامی )



تم جھوٹ اور سچ کے دوراہے پر تھے
گزرتے لمحوں کی آواز نے تم سے پوچھا
"کیا تم سچ کی راہ پر چل سکتے ہو؟"
تم چپ ہی رہے
گزرتے لمحوں کی آواز نے تم سے پوچھا
"کیا تم جھوٹ کی راہ پر چل سکتے ہو؟"
تم چپ ہی رہے
اور "ہاں" کے سارے لمحے گزر گئے

تم جانتے ہو "ہاں" کہنے کے سارے لمحے گزر گئے
اب جھوٹ اور سچ کے دوراہے پر یوں کھڑے ہوئے
"نہیں" کے لمحوں کو بے کار گنواتے کیوں ہو
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
شہر کا شہر ہے شہید فغاں
پائیے جا کے داد ضبط کہاں

میری حالت پہ دیدہ گریاں
اس قدر رو کہ ڈوب جائے مکاں

کوئی کرتا بھی اعتبار تو کیا
میں نہ تھا اعتبار سود و زیاں

یہ مسرت بھی کیا دل برباد
یہ تبسم بھی کیوں غم پنہاں

کون سی فصل آ گئی آخر
لمس باد صبا ہے نوک سناں

کیا لکھا ہے میری بہار کے نام
خندہ گُل کہ شبنم مژگاں

کیا چراغوں کی آرزو کیجیے
پھیلتا جا رہا ہے دل میں دھواں

اے خداوند درہم و دینار
جنس احساس اور شرط دکاں

کون آزاد کر سکے گا مجھے
میں ہوں صید یقیں ، اسیر گماں

کس نے لکھی ہے اس سلیقے سے
ورق گل پہ داستان خزاں

بھولتا جا رہا ہوں اپنی وفا
یاد ہیں تیرے وعدہ و سماں

اپنی بربادیاں بھی میرا ضرر
تیری افسردگی بھی میرا زیاں

میں ہوں اپنا شہود ، اپنی نمود
مجھ میں گُم ہیں میرے زمان و مکاں

کیا قیامت ہے یہ فریب ابد
لکھ رہا ہوں ازل سے فرد زیاں

خوب ہیں یہ رفاقتیں بھی سحر
کوئی ساحل ہے ، کوئی موج رواں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین



آثار خانہ



زمیں کی تہہ بہ تہہ تاریکیوں میں جھانک کر دیکھو
نہ جانے کتنے سورج سو گئے اس قید خانے میں
یہ زنگ آلود آوازیں ، یہ گرد آثار فریادیں
نہ جانے محرم صیقل رہی ہیں کس زمانے میں
نہ ارشادات کی فصلیں ، نہ ایجادات کی نسلیں
نمو مرجھا گئی ہے زندگی کے دانے دانے میں
شناسا چاپ ہے کوئی ، نہ کوئی آشنا دھڑکن
سبھی خاموش ہیں خاموشیوں کے کارخانے میں
نہ دانش کی کوئی وقعت ، نہ وحشت کا کوئی مصرف
شکستہ آئینے رکھے ہیں اس آئینہ خانے میں
یہ ریزہ ریزہ حکمت پارہ پارہ فلسفے کتنے
یہ گرد اُڑتی ہوئی علم و ہنر کے آستانے میں
یہ کن سانسوں کی الجھی گتھیاں اب تک سسکتی ہیں
لبوں سے دُور اپنی حسرتوں کے قید خانے میں
یہ کن ادوار کے خود کار سائے ہو گئے ساکت
سر میزان غم ، نفع و زیاں کا رمز پانے میں
یہ نغموں کا دھواں ، یہ بربطوں کی آتش سیال
نہ جانے کون سا آہنگ تھا کس کے ترانے میں
نہ جانے کون خط و خال و جسم و وزن سے عاری
نہ جانے کیا ، گزشتہ وقت کے تصویر خانے میں
نہ فرش و سقف کی زینت نہ بام و در کی آرائش
عمارت گر گئی تعمیر کی تہمت اُٹھانے میں
زمیں نے اپنے سینے میں چھپا رکھا ہے قوموں کو
ہزاروں مردہ تہذیبیں ہیں اس آثار خانے میں


شعور رفتہ و حاضر میں شاید فرق ہے اتنا
کہ ہم نے قلب انسانی رکھے ہیں مرتبانوں میں
فضائے دہر کو پاکیزہ رکھنے کی تمنا میں
ہلاکت خیز گیسیں بھر رکھی ہیں اسطوانوں میں
ہزاروں زخم خوردہ جسم راہوں مین سسکتے ہیں
مگر لاشیں حفاظت سے رکھی ہیں مردہ خانوں میں
ہے دل آزاد مرگ سبزہ و اشجار کے غم سے
بریدہ برگ رکھ کر معملوں کے برگ دانوں میں
زمیں کے زہرہ و مریخ اندھیروں میں بھٹکتے ہیں
جلی ہے مشعل فولاد و آہن آسمانوں میں
چلی ہے فکر استبداد شہر موسم گل کو
سموم دشت بھر کر پھول جیسے بادبانوں میں


حریر و مخمل و کمخواب کی تذلیل کی خاطر
برہنہ جسم بکتے ہیں تمدن کی دکانوں میں
قبائل کے برشتہ گوسفندوں پر ترس کھا کر
سگ و خنزیر کو ہم نے سجا رکھا ہے خوانوں میں
دماغ و دیدہ و دل شامل اسباب نایابی
لب و پستان و ناف ارزاں ، ہوس کے کارخانوں میں
غذائے کرگسان روز و شب قلب ہنر منداں
جنوں ہے بستہ زنجیر طاعت کی چٹانوں میں


زمیں کی تہہ بہ تہہ تاریکیوں میں جھانک کر دیکھو
یہ کس نے راکھ بھر دی ماہ و انجم کے خزانوں میں
نہ جانے ہم سے پہلے کتنی نسلوں نے کہا ہوگا
نہ جانے بحث ہوئی ہوگی کتنے نکتہ دانوں میں
ابھی تو مقتل ماضی ہے اور امروز کا خنجر
ہماری زندگی گزرے گی آئندہ زمانوں میں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
زندگی


زندگی تیرے نام پر ہم نے
خیر و شر کے طلسم خانے میں
آفرینش کے وقت سے اب تک
کتنے افسوں جگائے ہیں لیکن
ہر فسوں تو نے ہنس کے توڑ دیا

صفر و اعداد کی کمندوں میں
باندھ کر ہندسی مسافتیں
ہم نے کون و مکاں اسیر کیے
انہی اعداد سے یہ راز کھلا
ذرہ و کائنات کے مابین
ابتدا ، انتہا ، حدیث و قدیم
ہیں فقط ہندسی مسافتیں

آگہی کی انہی کلیدوں سے
قفل ذرات ہم نے کھول دیے
ہو گئے چاک طاقتوں کے لباس
نغمہ و حرف و رنگ خاک ہوئے

اک سماروغ شکل کا عفریت
فرش سے تابہ عرش پھیل گیا
یہی عفریت ذہن انساں میں
بن گیا جبر مرگ کا کابوس
زندگی ، زندگی سے ہے مایوس
موت اور زیست کی کشاکش میں
یہ بھی ممکن ہے چند ہونٹوں کے
حکم سے زندگی کے دامن میں
آ کے چھپ جائے موت کا عفریت
کچھ نہ باقی رہے فنا کے سوا

پھر بھی اے زندگی بنام بقا
تو ہی الفا ہے تو ہی اومیگا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین

ابھی جو پیدا نہیں ہوئے ہیں



میں ان کے بارے میں سوچتا ہوں
ابھی جو پیدا نہیں ہوئے ہیں
جو اپنی ماوں کی کوکھ میں زندگی سے ہم رشتہ ہو چکے ہیں
جو گردش خون وحدت قلب سے بھی وابستہ ہو چکے ہیں
میں ان کے بارے میں سوچتا ہوں
کہ میں بھی اک دن انہی کے مانند
علائق دہر سے مبرا نجانے کس ذرہ تمنا میں
سانس لیتا رہا تھا برسوں
یہ زندگی جانے کس ہنر سے
مجھے اُٹھا لائی اجنبی اجنبی فضاوں میں سانس لینے کی
اک مشقت میں خود کو پہچاننے کی خاطر

میں ان کے بارے میں سوچتا ہوں
ابھی جو پیدا نہیں ہوئے ہیں
کہ ان کے آنے سے زندگی اپنی کون سی راہ چھوڑ دے گی
یہ زندگی تو وہی رہے گی جو میرے حق میں رہی ہے اب تک
وہی شب و روز کی مشقت
وہی شکم پروری کی خاطر
خود اپنی فطرت کے بر خلاف اپنی محنتوں کو فروخت کرنا
اور اپنی تنہائیوں سے بچنے کی آرزو میں
کبھی کسی ماہ وش سے پیمان دوستی باندھ کر شب و روز
سبک ہواوں کی طرح راہوں میں رقص کرنا
اور اس کے وعدوں کے زخم سہنا
کبھی کبھی حرف و کلک و قرطاس میں سما کر
یہ سوچنا ، زندگی تو اک سود لازمی ہے
کو کتنے انجانے سودخوروں کی جیب میں جا رہی ہے پیہم

جو ذہن رکھتے ہیں سوچنے کو
جو آگہی کا لباس پہنے برہنہ شہروں میں آ گئے ہیں
وہ یوں ابھرتے ہیں اس حصار جمود و گردش مین رفتہ رفتہ
کہ جیسے چشم حباب ابحرتی ہے تند موجوں کے دیکھنے کو
مگر سمندر کی تند موجیں
سبھی حبابوں کو پھوڑ دیتی ہیں
اور ان کے سفید چھنیٹے
سیہ سمندر کی بیکروں وسعتوں میں کھو کر
وجود کی سب نشانیوں کی ہنسی اُڑاتے ہیں لمحہ لمحہ

یہ کھیل یوں ہی رہا ہے اب تک
یہ کھیل یوں ہی رہے گا شاید
کہ اس کے پردے میں اب بھی انجان لوگ معصوم جسم لے کر
ہماری بوجھل رفاقتوں سے
ہماری پنہاں محبتوں سے
نچوڑ لیتے ہیں بادہ اعتبار ہستی

میں اپنے زخموں کے آئینوں میں
زمیں کی پرچھائیوں اور اپنے اداس چہرے کے ساتھ ان کے
نہفتہ چہروں کو دیکھتا ہوں
ابھی جو پیدا نہیں ہوئے ہیں



(یکم اگست ۱۹۶۶ء)
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


خزاں کی برف


خزاں کی برف پگھلنے لگی پہاڑوں پر
افق پہ آئی نظر طائروں کی پہلی صف
سفیر موسم احساس ، ہحرتوں کے نقیب
پروں میں تازہ ہواوں کی نرمیاں لے کر
نئی فضا میں بنانے کو ہیں نئے مسکن


کرن کرن یہ نئے آفتاب کے قشقے
دمک اٹھی ہے پہاڑوں کی سرمئی چتون
سفید برف کی سب دھجیاں تمام ہوئیں
اتارتی ہے زمیں تار تار پیراہن
ہیں انگ انگ میں قوس قزح کے ساتوں رنگ
ملا ہے ساق و قمر کو یہ کون سا آہنگ


زمیں کی ایک ہی کروٹ نے کیا کیا جادو
بدن کی خُشک رگوں میں اُٹھا وہ سیل نمو
کہ ذرہ ذرہ دریچہ ہے تازہ چہروں کا
کسی کی آنکھ ہے نرگس ، کسی کے ہونٹ گلاب
یہ نیلوفر سے تبسم ، یہ یاسمن سے خطاب


نہ اوس ہے نہ کہیں دُھند ہے ، نہ ویرانی
اُجاڑ پیڑ کہ تھے شاخ شاخ ویرانہ
نئے لباس پہن کر تمام سج دھج کر
سنا رہے ہیں نئی کونپلوں کا افسانہ
خزاں کی برف پگھلنے لگی پہاڑوں پر


مکان کُہر میں پنہاں ، نہ چمنیوں میں دھواں
بجھے بجھے نظر آنے لگے ہیں آتش فشاں
وہ سرخیاں کہ رہیں گرم کوئلوں میں اسیر
پھر آج توڑ کے شعلوں کی آتشیں زنجیر
ہیں تازہ تازہ گلابوں کے فرش پر رقصاں
نہ کُہر کُہر اُداسی ، نہ برف برف خزاں
خزاں کی برف پگھلنے لگی پہاڑوں پر

------------

(کوئٹہ)
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
حرف و صوت و صدا کا نشانہ ہوں میں
اپنی مجبوریوں کا بہانہ ہوں میں

سوچتا ہوں ہر ایک عکس کو دیکھ کر
کتنے چہروں کا آئینہ خانہ ہوں میں

مجھ کو صدیوں کے صحرا میں رُسوا نہ کر
لمحہ خلوت محرمانہ ہوں میں

تُو گریزاں سہی ، سر کشیدہ سہی
تیرے ملنے کا تنہا بہانہ ہوں میں

خواب کی طرح آ کر چلا جاوں گا
رہرو شب ہوں ، باد شبانہ ہوں میں

میں زمانے کو آخر بُرا کیوں کہوں
جانتا ہوں کہ خود ہی زمانہ ہوں میں

ہیں جو غم بہر تقدیر آیندگاں
ان غموں کا بھی آثار خانہ ہوں میں

درد مندی کے حق میں ہوں میں برگ گُل
بے حسی کے لیے تازیانہ ہوں میں

اس کو شک ہے مرے زخم دل پر سحر
جس خدنگ نگہ کا نشانہ ہوں میں



۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔




جب کبھی تذکرہ چھڑا نکہت و رنگ و نور کا
نکہت و رنگ و نور کے خواب دکھا دیے گئے
 
Top