نمود - سحر انصاری

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


namood.jpg




 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
انتسابیہ

کچھ لفظ ہیں جو میں نے سوچے ہیں
کچھ معانی ہیں جو میں نے محسوس کیے ہیں
لفظ و معانی کی اس دُھوپ چھاؤں کو میں
ان تمام ذہنوں کے نام معنون کرنا چاہتا ہوں
جو میری سوچ اور میرے احساس کے ہمسفر
بننے میں عار محسوس نہ کریں

سحر انصاری
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین

نسل زیاں گزیدہ



ہم آج تہذیب کے سفر میں
کہاں سے کس سمت آ گئے ہیں
ہمارے احساس کے نگر میں
یہ کیسے آسیب چھا گئے ہیں

نہ کوئی اوّل ، نہ کوئی آخر
نہ کوئی باطن ، نہ کوئی ظاھر
نہ کوئی پنہاں ، نہ کوئی پیدا
نہ کوئی توریت ہے ، نہ گیتا
نہ کوئی گوتم ، نہ کوئی عیسٰی

ہم ایک نسل زیاں گزیدہ
ہماری دنیا کہیں نہیں ہے
کہیں ہماری زمیں نہیں ہے
مہیب وسعت میں بے علاقہ گروہ ہیں ہم
چلے تھے انسانیت کا سرخیل بن کے لیکن
قدم قدم ٹھوکریں ہی کھائیں
ہمیں ملے آگہی کے طعنے
ہماری بینائیاں ہمارے لیے سزا تھیں
ہماری سچائیاں ہمارے لیے سزا تھیں

ہماری اقدار مختلف تھیں

ہم اپنے دل میں یہ سوچتے تھے
نہ کوئی قاتل ، نہ کوئی مجرم
نہ کوئی سارق ، نہ کوئی رہزن
یہ نام وقتی سیاستوں کی فریب کاری

مگر ہماری تمام اقدار پر طمانچوں کے وہ نشاں ہیں
جو آئینہ خانہ تمدن میں نوحہ خواں ہیں
ہم اپنے ماضی کی خاک سے اب کسے ابھاریں
ہم اپنی گونگی صداقتوں سے کسے پکاریں
رفاقتوں کا غرور بھی غم
محبتوں کا شعور بھی غم

ہم ایک نسل زیاں گزیدہ
یہی ہماری خطا ہے شاید
کہ ہم نے جینے کی سعی کی ہے
ہمیں یہ دنیا عزیز بھی ہے
جبھی ہمارے تمام دعووں کے رد کی خاطر
عداوتیں ہیں کدورتیں ہیں
یہ سب ہمارے دوام کا مضحکہ اڑانے کی صورتیں ہیں

ہمارا ماحول
اب ہمارے وجود سے ہو چکا ہے نالاں
ہمارے سب خط وخال دھندلا کے رہ گئے ہیں
ہم ایک تنکے کی طرح بحر تعب کی موجوں میں بہہ گئے ہیں
ہم ایک نسل زیاں گزیدہ کے خواب میں خود کو ڈھونڈتے ہیں
ہم اپنے ہونے کے بر گزیدہ عذاب میں خود کو ڈھونڈتے ہیں
کہیں ہمارا نشاں نہیں ہے

صدی کی ساتوں دہائیاں ہم پہ خندہ زن ہیں
کہیں ہمارا نشاں نہیں ہے

وہ عہد جس میں ہماری نسل زیاں گزیدہ نے بار پایا
زمیں کی آنکھوں نے اس سے پہلے کبھی نہ دیکھا
اس آدم عہد نو کو دیکھو
کبھی سمندر میں ہے یہ رقصاں
کبھی ہے صحرا میں پا بجولاں
کبھی خدائے فضائے عریاں
ہے اک ہتھیلی پہ ہیر و شیما ، تو دوسری پہ قمر فروزاں
زمین اور آسمان کے درمیان جو کچھ چھپا ہوا ہے
سب اس کے دامن میں آ رہا ہے

ہم ایک نسل زیاں گزیدہ
کہیں ہمارا نشاں نہیں ہے

اس ارتقا کے سفر میں ہم گردِ کارواں ہیں
ہماری حیرت ، ہمارے لمحے
ہمارے رشتوں پہ نوحہ خواں ہیں
ہم آئنسٹائن ، مارکس اور ڈارون سے پوچھیں
فرائیڈ کی معملوں سے گذریں
کہ ماؤ اور ہوچی منہہ کو دیکھیں
ہماری درد آشنا کتابیں
نمود احساس کی نقابیں
تو سازشوں کے سیاہ شعلوں میں جل رہی ہیں
جنہیں کتابوں کی آگ سے ہات تاپنے میں خوشی ملی ہو
ہم ان سے تعبیر لفظ و معنی کی کس توقع پہ داد پائیں
ادھر چتائیں
اُدھر چتائیں

ہمارے چاروں طرف تو ہے وحشتوں کا اک غولِ ہول انگیز
لرز رہا ہے وجود چنگیز
زباں نہ کھولو ، زباں نہ کھولو
دلیل و دعوے کی منزلیں اب گذر چکی ہیں
نشید و نغمات کی روایات مر چکی ہیں
ہمارے محبوب جسم ہر سُو سسک رہے ہیں
وہ بے یقینی کی وادیوں میں بھٹک رہے ہیں
کسی کی کپڑے پھٹے ہوئے ہیں
کسی کے پستاں کٹے ہوئے ہیں
یہ آگ اور خون کے سمندر
اُبھر رہے ہیں عتاب در بر
نہ جنگ نا وار و دار ہے اب
نہ پھول ہے اب ، نہ خار ہے اب

ہم ایک نسل زیاں گزیدہ
بہار دیدہ ، خزاں رسیدہ
ہماری خاطر کوئی نہ سوچے
کہ آج تو سوچ سوچ کر خود ہمارے اذہان تھک گئے ہیں
یہ لوگ جن کی زباں ہے خنجر
یہ لوگ جن کا نفس ہے اژدر
یہ لوگ کیا یوں بھی سوچتے تھے
کہ چھین لیں حق زیست ہم سے
نہ کوئی ان میں اداس ہوگا
نہ کوئی لاشوں کے پاس ہوگا

جو شہر صحرا میں ہم نے بوئے
اب ان کے سائے بھی ڈس رہے ہیں
سمندروں کو اسیر کر کے
ہم اوس تک کو ترس رہے ہیں
حریم و ریشم کی کار گاہیں بنا کے خود بے لباس ہیں ہم
بجا کہا : بے اساس ہیں ہم

میں جن کا قصہ سنا رہا تھا
اسی گروہ زیاں رسیدہ کا قرض ہوں میں
مگر یہ تم شرمسار کیوں ہو
ادھر ذرا میری سمت دیکھو
کسی سے میں نے یہ کب کہا ہے
کہ میں ہوں مایوس آدمی سے
ببوط انساں کا ذکر ہی کیا
مجھے خبر ہے کہ جو بھی طوفان نوح کے بعد بچ گئے تھے
وہی علامت تھے روشنی کی
وہی صداقت تھے آدمی کی
وہی شہادت تھے زندگی کی
اس ایک طوفاں کا ذکر ہی کیا
افق کے دامن میں ایک کشتی ابھر رہی تھی
اُفق کے دامن میں ایک کشتی ابھر رہی ہے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
راستوں میں اک نگر آباد ہے
اس تصّور ہی سے گھر آباد ہے

کیسی کیسی صورتیں گم ہو گئیں
دل کسی صورت مگر آباد ہے

کیسی کیسی محفلیں سُونی ہوئیں
پھر بھی دنیا کس قدر آباد ہے

زندگی پاگل ہوا کے ساتھ ساتھ
مثلِ خاکِ رہگذر آباد ہے

دشت و صحرا ہو چکے قدموں کی گرد
شہر اب تک دوش پر آباد ہے

بے خودی رُسوا تو کیا کرتی مجھے
مجھ میں کوئی بے خبر آباد ہے

دھوپ بھی سنولا گئی ہے جس جگہ
اس خرابے میں سحر آباد ہے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کہیں وہ چہرہ زیبا نظر نہیں آیا
گیا وہ شخص تو پھر لوٹ کر نہیں آیا

کہوں تو کس سے کہوں آ کے اب سرِ منزل
سفر تمام ہوا ، ہم سفر نہیں آیا

صبا نے فاش کیا رمزِ بوئے گیسوئے دوست
یہ جرم اہلِ تمنا کے سر نہیں آیا

پھر ایک خوابِ وفا بھر رہا ہے آنکھوں میں
یہ رنگ ہجر کی شب جاگ کر نہیں آیا

کبھی یہ زعم کہ خود آ گیا تو مل لیں گے
کبھی یہ فکر کہ وہ کیوں ادھر نہیں آیا

میں وہ مسافرِ دشتِ غمِ محبت ہوں
جو گھر پہنچ کے بھی سوچے کہ گھر نہیں آیا

مرے لہو کو مری خاکِ ناگزیر کو دیکھ
یونہی سلیقہ عرضِ ہُنر نہیں آیا

فغاں کہ آئینہ و عکس میں بھی دنیا کو
رفاقتوں کا سلیقہ نظر نہیں آیا

مآلِ ضبطِ تمنا سحر پہ کیا گذری
بہت دنوں سے وہ آشفتہ سر نہیں آیا







-------------











کیا خبر تھی ترے اندازِ گریز
صرف ملنے کے بہانے ہوں گے






۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
یوحنا



جو کہہ رہے ہیں کہ عقل و دانش کی طاقتیں خام ہو چکی ہیں
بلند بینی کو پست کرنے کی سازشیں عام ہو چکی ہیں
وہ میری آمد سے بے خبر ہیں
انہیں خبر دو
میں آ گیا ہوں
ستارہ شرقِ وحی و الہام آ گیا ہے
کہ جس کی آمد زمینِ اشرار و ارضِ ادبار پر گراں ہے
جو قاطعِ حمد و مدح و تمجید بن کے آیا ہے
ہجومِ انساں میں ناسخِ اعتبارِ تقلید بن کے آیا ہے

میں جانتا ہوں کہ وہ نہ مانیں گے
ان کے سینے گناہگاروں کی قبر کی طرح تنگ و تاریک ہو چکے ہیں
ہوس کی آب و ہوا نے ان کا ضمیر مرجھا کے رکھ دیا ہے
اور ان کی رگ رگ میں طبعِ طاغوت آگ بن کر دہک رہی ہے
اور ان کے جسموں کی کھیتیوں میں جذام کی فصل پک رہی ہے
وہ ماہ کو ماہ ، مہر کو مہر ماننے سے گریز کر کے یہ چاہتے ہیں
میں ان کی بیماریوں کو اپنے غلافِ مقدس میں جذب کر لوں
اور ان کی کمزوریوں کو حرزِ نفس بنا لوں
وہ چاہتے ہیں کہ میرے کہنے سے سنگ نانِ شعیر بن جائے
کہ میرے کہنے سے خشک صحرا بھی موجِ آبِ کبیر بن جائے

میں اپنی ان آزمائشوں کے ہجوم سے دُور دیکھتا ہوں
کہ رب الارباب اپنی ہیکل کے
کنگرے پر کھڑا ہوا مجھ سے کہہ رہا ہے
ہلاک ہو جا ، ہلاک ہو جا
فصیلِ خود آگہی سے گر کر ہلاک ہو جا
مرے فرشتے تجھے ہلاکت سے قبل اپنی پنہ میں لے لیں گے
کہ تیرے زخموں سے چہرہ آفتاب تاریک ہو گیا ہے

گواہ رہنا
ضمیرِ اقوامِ عہدِ حاضر گواہ رہنا

یہی مری آزمائشیں تھیں
سو میں نے ان آزمائشوں کو
اپنی معجز نمائیوں سے جدا نہ پایا
گواہ رہنا کہ دخترِ حرص و آز کے لب
نہ پا سکے جب مرے لبوں کی حیات افزا حلاوتوں کو
تو میرا سر طشت میں سجا کر دیا گیا ہے
کہ اس کے شعلہ نژاد لب
میرے برف جیسے لبوں سے لیں انتقام اپنا

گواہ رہنا
ضمیرِ اقوامِ عہدِ حاضر گواہ رہنا
کہ رب الارباب اپنے وعدوں سے پھر گیا ہے

میں اب بھی کانٹوں کا تاج پہنے ہوئے ہوں
اور میرے دست و پا میں
مظالم و مصلحت کی کیلیں
چبھی ہوئی ہیں
میری بینائی شام کے ہولناک اندھیروں میں کھو گئی ہے
مگر مرے کربِ آتشِ افروزِ جاں نے اب تک نہیں کہا ہے
ایلی ایلی لما شبقتنی

میں آسمان و زمین کی پہنائیوں میں تنہا کھڑا ہوا ہوں
میں اپنی تنہائیوں کی تنہائیوں میں تنہا کھڑا ہوا ہوں
اور آج اس جانکنی کے عالم میں دیکھتا ہوں
کہ اپنے اپنے وجود کی اعتراف گاہوں میں
اپنے اپنے گناہ کی بازگشت سن کر
ہللّو یاہ ! کہنے والے
خجالت و انفعال کے شرمسار فرزند
اپنی اپنی صلیب اٹھائے ہوئے مرے پاس آ رہے ہیں



1960ء
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین

انتظار



رات بھر بارش دریچے کے قریب
موتیے کی بیل سے لپٹی ہوئی
قطرہ قطرہ زہر برساتی رہی

میری آنکھوں کو ترے چہرے کی یاد آتی رہی

صبح کو تھا فرش پر پتوں کا ڈھیر
بے نمو مٹی کے چہرے کا نقاب
انتقامِ انتظارِ آفتاب
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


میرے خواب




سوچتا ہوں کہ اپنے خواب لکھوں
اپنے احساس کی کتاب لکھوں
اپنے انفاس کا حساب لکھوں
جبر حالات کا جواب لکھوں
سوچتا ہوں کہ اپنے خواب لکھوں

ابر و کہسار و آبشار کے خواب
خواب ، ژولیدہ زلف یار کے خواب
اپنی ہی چشم انتظار کے خواب
مثل رفتار موج آب لکھوں
سوچتا ہوں کہ اپنے خواب لکھوں

ہیں صدف کتنے ریگ ساحل پر
صف بہ صف کتنے داغ ہیں دل پر
کتنے رہرو لُٹے ہیں منزل پر
لوح افسانہ شباب لکھوں
سوچتا ہوں کہ اپنے خواب لکھوں

کتنے الفاظ بے اثر نکلے
کتنے احباب بے خبر نکلے
کتنے ذرات ہم سفر نکلے
ذرے ذرے کو آفتاب لکھوں
سوچتا ہوں کہ اپنے خواب لکھوں

کون سا دشت دل میں ہے آباد
روح میں گم ہے کون سی فریاد
"خون فرہاد بر سر فرہاد"
خون فرہاد کو گلاب لکھوں
سوچتا ہوں کہ اپنے خواب لکھوں

کتنے اجسام ہو گئے تحلیل
بہہ گیا کتنے آنچلوں کا نیل
کون ڈھونڈے گناہ کی تفصیل
ہر تمنا کو بے ثواب لکھوں
سوچتا ہوں کہ اپنے خواب لکھوں

شکن بستر بہار آمیز
بدن آہوئے خمار انگیز
ہوس بزم خسرو پرویز
حسرت نشہ شراب لکھوں
سوچتا ہوں کہ اپنے خواب لکھوں

قہر ہے جگمگاتی آنکھوں میں
زہر ہے مسکراتے ہونٹوں میں
آگ پنہاں گداز بانہوں میں
کس ستم گر کو انتخاب لکھوں
سوچتا ہوں کہ اپنے خواب لکھوں

ذہن میں رقص کر رہا ہے دھواں
پیاس سے خشک ہو رہی ہے زباں
ہے کراہوں کا اک ہجوم یہاں
کن ارادوں کو کامیاب لکھوں
سوچتا ہوں کہ اپنے خواب لکھوں

ہے کبھی زندگی بہار کا رنگ
ہے کبھی زندگی دہان نہنگ
زخم سر میں نہاں ہے لذت سنگ
خود کو کب تک یونہی خراب لکھوں
سوچتا ہوں کہ اپنے خواب لکھوں

دھند میں ڈوبتے ہوئے افکار
خون میں غرق دیدہ بیدار
اور ہر سمت گردشوں کا فشار
کس حقیقیت کو باریاب لکھوں
سوچتا ہوں کہ اپنے خواب لکھوں

جاگتے شہر کا سیاہ ضمیر
بن گیا سرد راستوں کی لکیر
قمقمے روشنی کے دامن گیر
ہر اندھیرے کو بے نقاب لکھوں
سوچتا ہوں کہ اپنے خواب لکھوں

ہیں ہوا کی قبا میں میرے خواب
ہیں گُلوں کی حیا میں میرے خواب
ہیں دل آشنا میں میرے خواب
اپنے خوابوں کا کیا حساب لکھوں
سوچتا ہوں کہ اپنے خواب لکھوں

منتشر منتشر خیاباں ہا
سر بسر خاکداں گلستاں ہا
دشمن علم و فن و بستاں ہا
کیوں نہ ہر بات بے حجاب لکھوں
سوچتا ہوں کہ اپنے خواب لکھوں

ہیچ افسانہ ہمہ اشیاء
ہو کے پیمانہ ہمہ اشیاء
دل ہے بیگانہ ہمہ اشیاء
کیوں نہ دریا کو بھی سراب لکھوں
سوچتا ہوں کہ اپنے خواب لکھوں


شہر سے دور سج گئی ہے صلیب
سنگ اٹھائے ہوئے کھڑے ہیں رقیب
موت ہے جادہ وفا کی نقیب
کیوں نہ آیات بے نقاب لکھوں
سوچتا ہوں کہ اپنے خواب لکھوں

پھر یہ لمحے گذر نہ جائیں کہیں
ریزہ ریزہ بکھر نہ جائیں کہیں
سب مرے خواب مر نہ جائیں کہیں
زود و مضطر لکھوں ، شتاب لکھوں
سوچتا ہوں کہ اپنے خواب لکھوں



----------------



بھول جانا تو رسم دنیا ہے
آپ نے کون سا کمال کیا


۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
وصال و ہجر سے وابستہ تہمتیں بھی گئیں
وہ فاصلے بھی گئے ، اب وہ قربتیں بھی گئیں

دلوں کا حال تو یہ ہے کہ ربط ہے نہ گریز
محبتیں تو گئی تھیں ، عداوتیں بھی گئیں

لُبھا لیا ہے بہت دل کو رسم دنیا نے
ستم گروں سے ستم کی شکایتیں بھی گئیں

غرور کج کلہی جن کے دم سے قائم تھا
وہ جراتیں بھی گئیں ، وہ جسارتیں بھی گئیں

نہ اب وہ شدت آوارگی نہ وحشت دل
ہمارے نام کی کچھ اور شہرتیں بھی گئیں

دل تباہ تھا بے نام حسرتوں کا دیار
سو اب تو دل سے وہ بے نام حسرتیں بھی گئیں

ہوئے ہیں جب سے برہنہ ضرورتوں کے بدن
خیال و خواب کی پنہاں نزاکتیں بھی گئیں

ہجوم سرو و سمن ہے نہ سیل نکہت و رنگ
وہ قامتیں بھی گئیں ، وہ قیامتیں بھی گئیں

بھلا دیے غم دنیا نے عشق کے آداب
کسی کے ناز اٹھانے کی فرصتیں بھی گئیں

کرے گا کون متاع خلوص یوں ارزاں
ہمارے ساتھ ہماری سخاوتیں بھی گئیں

نہ چاند میں ہے وہ چہرہ ، نہ سرو میں ہے وہ جسم
گیا وہ شخص تو اس کی شباہتیں بھی گئیں

گیا وہ دور غم انتظار یار سحر
اور اپنی ذات پہ دانستہ زحمتیں بھی گئیں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ہم اہل ظرف کہ غم خانہ ہنر میں رہے
سفال نم کی طرح دست کوزہ گر میں رہے

ہے چاک چاک رقم داستان گردش خاک
نمود صورت اشکال کیا نظر میں رہے

فرار مل نہ سکا حبس جسم و جاں سے کہ ہم
طسم خانہ تکرار خیر و شر میں رہے

کسی کو ربط مسلسل کا حوصلہ نہ ہوا
مثال دُود پریشاں ہم اپنے گھر میں رہے

نہ ہم شرار دل سنگ تھے نہ رنگ حنا
سخن کی آگ بنے حرف تازہ تر میں رہے

نہ سنگ میل تھا کوئی ، نہ کوئی نقش قدم
تمام عمر ہوا کی طرح سفر میں رہے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین

قابیل کا سایہ



خدا کے خوف سے ، اپنے گناہوں پر خجل ہو کر
وہ پیہم گریہ کرتا تھا
وہ اپنے بھائی کے لاشے پہ پیہم گریہ کرتا تھا
لہو آواز دیتا تھا زمیں کی خاک رسوا سے
خدا کا عرش کانپ اٹھتا تھا اس فریاد کو سن کر
برادر کش سزا پاتے تھے ، پتھر بن کے جیتے تھے
اور ان کے دل کی دھڑکن بند ہو جاتی تھی سینوں میں
اور ان کا خون ان کی سرد شریانوں پہ ہنستا تھا

مگر اس دور میں کوئی خدا ایسا نہیں کرتا
کہ اب شہروں کی حالت اگلے صحراوں سے بہتر ہے
کہ شہروں میں مار و اژدر و کرگس نہیں ملتے
کتب خانوں میں افکار و عقاید جلوہ فرما ہیں
ہزاروں درس گاہیں داعی اقدار انساں ہیں
سیہ سڑکوں پہ کاریں ہیں فضاوں میں ہیں طیارے
عمارات بلند اپنے فلک پیما دریچوں سے
مکوڑوں کی طرح چلتے ہوئے جسموں کو تکتی ہیں
ہمارے شہر مامن ہیں ، ہمارے شہر گلشن ہیں
اب ان شہروں میں فرسودہ خدا کی کیا ضرورت ہے

خدا خاموش ہے اور خوف و غم سے نیم جاں انساں
ہوا کی لہر کو بھی موت کی آہٹ سمجھتے ہیں
کسی کو کچھ نظر آتا نہیں لیکن کوئی جذبہ
یہ چپکے چپکے کہتا ہے کہ اے ہابیل اے ہابیل
ہلاکت کے نئے سامان سے آراستہ ہو کر
گلی کوچوں میں آ پہنچا ہے پھر قابیل کا سایہ




(۱۹۶۴ء)
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین

ہوا


اس بیاباں میں کہ یکسر گرد ہے
اک ہوا سرخیل اہل درد ہے
زرد رُو پتوں کو سینے سے لگائے
جوئے خوں انصاف کی رو میں چھپائے
بن گئی ہے تازہ گامی کا پیام

ورنہ اس ماحول میں اپنے لیے
تنگ ہے رسوائیوں کا پیرھن
رقص کرتا ہے تصور میں ابھی
زخم خوردہ شہر کا عریاں بدن
منہ چھپاتی تیرگی کا کیا ضمیر
اپنی پرچھائیں ہے خود اپنا کفن

اس بیاباں میں گریزاں ساعتیں
بھول کر بھی اب قدم رکھتی نہیں

وصل یاراں اس بیاباں میں کہاں
جگمگاتے شہر کی گلیوں کا لمس
کون فرزانہ ہے اس طرح کا دیوانوں میں
کون ہے موت کو یوں زیست بنانے والا
سنگ میں رنگ کی مانند سمانے والا

آج کتنے بصد انداز بلاتے ہیں ہمیں
امن اور صلح کا پیغام سناتے ہیں ہمیں
منتظر آج بھی ہے زیست کی ہر راہ گذر
آج ہر گام پہ ہیں کتنے ہی برگد کے شجر
کون ہر سانس میں سنگیت جگا سکتا ہے
کون پتھر میں زباں بن کے سما سکتا ہے


------------




دلوں پہ کتنا اندھیروں کا خوف طاری ہے
چراغ شام سے پہلے ہی جل گئے ہیں یہاں
دیار لمس میں تا چند خد و خال کی بات
کہ ذہن جسم سے آگے نکل گئے ہیں یہاں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
گوتم کی مورتی


سنگ سادہ سے تراشا ہوا برگد کا شجر
نقش یہ کتنا حسیں ، کتنا سکوں پرور ہے
اور پتھر کے سنگھاسن پہ نشستہ اک شخص
کس قدر حلم و متانت کا حسیں مظہر ہے
ہے منقش ورق سنگ پہ سارا ماحول
زندگی کا لب اظہار فقط پتھر ہے

پھول پتھر کے ، ثمر اور چمن پتھر کا
پاوں پتھر کے ، ردا اور بدن پتھر کا
گوش و رخسار و لب و چہرہ و سر پتھر کا
یہ ہے گوتم جو پیمبر ہے مگر پتھر کا
تیاگ کر بیٹھآ ہے جو تاج شہی صدیوں سے
اس پہ طاری ہے سکوت ابدی صدیوں سے
نہ کبھی محو سخن ہے ، نہ کبھی محو سفر
ایک دن جبر غم زیست سے بد دل ہو کر
اپنے سینے میں لیے امن و صداقت کی طلب
آ گیا تھا اسی برگد کے تلے نغمہ بلب
جلوہ فرما ہے ابھی تک اسی انداز کے ساتھ
اس کے ہونٹوں پہ تبسم ہے اک اعجاز کے ساتھ

اس تبسم میں فرشتوں کے نفس رقصاں ہیں
اس تبسم میں ازل اور ابد پنہاں ہیں
سر سے پا تک ہے حیات ابدی کی تصویر
امن اور علم و صداقت کی مکمل تفسیر
ہے جبیں مطلع دیوان سکون ہستی
چشم ہے مخزن اسرار فسون ہستی
اور پتھر کی ردا میں یہ ابھرتی شکنیں
علم و عرفاں کے سمندر کی امڈتی موجیں
کتنی نادیدہ خلش ہائے دروں کا مالک
پھر بھی ناقابل اظہار سکوں کا مالک

پاس جاو تو غریبوں کو ، دل افگاروں کو
رنج و آلام کے ماروں کو ، گنہگاروں کو
اپنی آغوش محبت میں چھپا لے ہنس کر
دور ہو جاو تو ہونٹوں کا تبسم اکثر
گھول دے روح کے ساگر میں سکوں کا امرت
اس کی نظروں میں گدا ہے نہ شہنشاہ کوئی

کتنے بُت آج بھی رکھے ہیں صنم خانوں میں
جاں کنی میں مُبتلا صدیوں کا لمس
اس ہوائے قاصد جاں کے طفیل
اپنے ہاتھوں کو میسر آ گیا

اب کہاں نظارہ روئے نگار
شبنمیں آنکھوں میں اُڑتا ہے غبار
ہے کسی خورشید نو کا انتظار
ہو گئی ہے زندگی اس دور میں
راہ چلتے اجنبی کا اعتبار
کشتگان آرزو کا اختیار

پھر بھی دنیا طنز کے نشتر لیے
ڈھونڈتی پھرتی ہے دل کی رہگذار

اے ہوا سرخیل اہل درد و غم
کب ملا تیرا کوئی نقش قدم
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین



گفتگو



اس سے گفتگو کے بعد
روح کی طویل رات
شمع حرف تازہ سے
جگمگا اُٹھی
اس کے پاس بیٹھ کر
ذہن کی اُداس شام
سحر لمس جسم سے
گنگنا اُٹھی

کاش لوگ سوچتے
زندگی کی تلخیوں میں شہد گھولنے کا فن
صرف نفع و زر کی جستجو نہیں
اک تبسم حسیں
ایک قُرب پُرخلوص
ایک حرف نو بھی ہے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
دلوں میں آتش احساس کا زیاں دیکھو
دھواں دھواں نظر آتے ہیں جسم و جاں دیکھو

نہ کوئی چاپ ، نہ آہٹ ، نہ گفتگو ، نہ سوال
کہاں لٹے ہیں خیالوں کے کارواں دیکھو

ہزار آئینہ خانوں کے درمیاں رہ کر
وہی وجود ، وہی سعی رائیگاں دیکھو

زمیں کی قید سے اکتا گئے ، غنیمت ہے
اب آسمان پہ زنجیر کہکشاں دیکھو

بھٹک رہا ہوں میں پرچھائیوں کے جنگل میں
فریب خوردگی یاد ہمرہاں دیکھو

غریب شہر کا احوال پوچھتے کیا ہو
کمال جرم و سزا بن گئی زباں دیکھو

ادھر بھی آؤ کبھی صورت نسیم سحر
گُلوں کے شہر میں بارود کا دھواں دیکھو

گلی گلی ہے لہو ، زخم زخم ہیں بازار
ہمارے شہر کی تصویر خونچکاں دیکھو

ادھر زمین پہ مقتل کا ہو رہا ہے گماں
فلک نے کھینچ رکھی ہے ادھر کماں دیکھو

ہزار دار و رسن پر بھی بے شکن ہے جبیں
ستم کشوں کا جلالِ پیمبراں دیکھو

سر بریدہ بے نیزہ ، قمیص خوں آلود
صف عدو سے ابھرتے ہوئے نشاں دیکھو

نہ ہم وفا پہ پشیماں نہ وہ جفا پہ خفیف
نیا شعور ، نئی طرز امتحاں دیکھو


--------------------

بچھڑنے والی ہواؤں کی اجنبی خوشبو
ہوئی ہے ہم پہ بھی اس بار مہرباں دیکھو

ملیں گے اور کئی رنگ دلنوازی کے
نگاہ یار میں تمہید امتحاں دیکھو
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کیا کسی لمحہ رفتہ نے ستایا ہے تجھے
ان دنوں میں نے پریشان سا پایا ہے تجھے

بحر شادابی جذبات کی اے موج رواں
کون اس دشت بلا خیز میں لایا ہے تجھے

تیری تنویر سلامت مگر اے مہر مبیں
گھر کی دیوار پہ یوں کس نے سجایا ہے تجھے

شکوہ تلخی حیات بجا ہے لیکن
اس پہ روتا ہوں کہ میں نے بھی رلایا ہے تجھے

گاہ پہنا ہے تجھے خلعت زریں کی طرح
گاہ پیوند کے مانند چھپایا ہے تجھے

تو کبھی مجھ سے رہی مثل صبا دامن کش
اور کبھی اپنے ہی بستر پہ سلایا ہے تجھے

میری آشفتہ مزاجی میں نہیں کوئی کلام
رُوٹھ کے سارے زمانے سے ، منایا ہے تجھے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اک شرار گرفتہ رنگ ہوں میں
پھول سے لے کے تا بہ سنگ ہوں میں

شہر و صحرا کی کچھ نہیں تخصیص
وسعت دشت جاں سے تنگ ہوں میں

جیت بھی اک شکست ہی ہو گی
آرزووں سے محو جنگ ہوں میں

کیسے تجھ کو بہا کے لے جاوں
موج ہمسایہ نہنگ ہوں میں

ذرہ ذرہ نے کر دیا حیراں
اور حیرانیاں پہ دنگ ہوں میں

باد صر صر کی طرح گرم عناں
سینہ ریگ کی امنگ ہوں میں

کس نے دیکھا فشار موجہ جاں
آج تک آب زیر سنگ ہوں میں
 
Top