نمود - سحر انصاری

سیدہ شگفتہ

لائبریرین

سر راہ



لمحہ بھر کے لیے چلتے چلتے قدم رُک گئے
خون کے تازہ تازہ نشان چھوڑ کر
کھانستی زندگی دونوں ہاتوں سے سینے کو تھامے ہوئے
جانے کس موڑ پر جا کے گُم ہو گئی
راستے کی سیاہی سے لپٹا رہا
اک اثاثہ جسے اپنے وارث کی کوئی ضرورت نہ تھی
ایک ٹوٹا ہوا آئینہ
جس میں آئینہ گر کی بھی صورت نہ تھی



میری آنکھوں نے اس خون تازہ کا نوحہ پڑھا
میری سانسوں کا ڈورا اُلجھنے لگا
اور پھر میرا انسان کچھ دیر میں
اپنے ہی جیسے انسان کے خون سے ڈر گیا
ایک نادیدہ مخلوق کے خوف سے مر گیا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کیوں مقید رہوں نقش کف پا کے مانند
میں ہوں آزاد ، سمندر کی ہوا کے مانند

مطمئن ، خندہ بلب ، دیر سے تنہا تنہا
جانے کس سوچ میں بیٹھا ہوں خدا کے مانند

کنج احساس کو انفاس سے مہکائے ہوئے
مجھ سے ملتا ہے کوئی باد صبا کے مانند

خون ارماں ہی سہی ، آتش سوزاں ہی سہی
دل میں اک رنگ تو ہے رنگ حنا کے مانند

میں تھا خاکستر پروانہ ارمان و امید
لے اُڑا کوئی مجھے موج ہوا کے مانند

وضع اخلاص بھی بدنام ہے وحشت کی طرح
میں بھی رسوا ہوں ابھی چاک قبا کے مانند

تجھ کو پانے کے لیے جاں سے گزر جانا ہے
لیکن اک موجہ سیلاب بلا کے مانند
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین

شکست و ریخت


میں اپنے آپ پہ جس وقت غور کرتا ہوں
کہ چند سال مین کتنا بدل گیا ہوں میں
تو مجھ کو آج بھی ہوتا ہے بار ہا محسوس
کہ اپنے آپ سے آگے نکل گیا ہوں میں

مری حیات کو تھا ناز جن سہاروں پر
انہی کو میں نے بڑی سرکشی سے ٹھکرایا
رہا ہے قلب کو اصرار جن کی عظمت پر
انہی "عظیم روایات " پر ستم ڈھایا

میں کہہ رہا ہوں ہر اک بزم میں ببانگ دہل
خدائے قادر کن اب شعور ہے میرا
مگر یہ طرز یہ اقرار اتنا سہل نہ تھا
گواہ اس کا دل ناصبور ہے میرا

نئے خیال ، نئے کلیے ، نئے افکار
جب آئے بن کے مرے ذہن کے ندیم و حبیب
تو وہم و عقل کی ہر کشمکش کے بدلے میں
رہا ہے دل میں مرے مدتوں خلائے مہیب

ہے یاد مجھ کو، روایت شکن فضاوں میں
صنم کدوں کی تباہی کا جب اٹھا تھا سوال
تو چیخ اٹھے تھے مری روح کے زمان و مکاں
کہ ان کی پشت پہ صدیوں کا ہے وقار و جلال

کسی کو بحث میں جب بھی شکست دی میں نے
تو سینہ کوب رہیں بے شمار تاویلیں
ملا بھی عقل کو منطق کی دوپہر میں سکوں
دیار جاں میں مگر چیختی پھریں چیلیں

شکست سحر و منار و کلس پہ ہو کے حزیں
خرد کی سیج پہ کب سوئی ہیں مری آنکھیں
بجھی ہے دل میں مرے جب بھی شمع وہم کوئی
تو صبح و شام لہو روئی ہیں مری آنکھیں

جلے ہیں جب بھی مرے جسم و جاں میں دیر و حرم
تو ہڈیوں کے چٹخنے کا شور میں نے سنا
ہنسا ہوں جب بھی کسی اعتبار مذہب پر
تو سیل اشک امڈنے کا شور میں نے سنا

کتاب وہم پہ کھینچا ہے جب خط تنسیخ
لرز اٹھا ہے قلم ، کانپ اٹھا ہے دست جنوں
لہو نچوڑ لیا جان کنی کی شدت نے
کھرچ کے چھوڑ دیا رنج نے بہ حال زبوں

کہا ہے مجھ سے مرے گھر کے ہر دریچے نے
سکون زیست گنوانے پہ کیوں ہو آمادہ
کہا ہے جاگتی راتوں میں مجھ سے بستر نے
کہ عقل و ہوش کے کیوں ہو گئے ہو دلدادہ

کبھی رہی ہے مری میز جیسے مجھ سے خفا
کبھی خموش کتابوں نے احتجاج کیا
کبھی ثواب نے گردن میں ڈال دیں بانہیں
کبھی عذاب نے درس خرد شکار دیا

میں مارا مارا پھرا اجنبی دیاروں میں
کہ جیسے دسترس غم سے بھاگ جاوں گا
ہر اک قدم پہ یہی وسوسہ سا رہتا تھا
کہ ہر قدم پہ کئی بار لڑکھڑاوں گا

میں اپنے آپ سے ڈرنے لگا ، الجھنے لگا
ہر ایک بزم میں تنہا رہا وجود مرا
کسی نے مجھ کو مری طرح کی پناہ نہ دی
کہ میں نے اپنی پناہوں کو پھونک ڈالا تھا

اور آج میں ہوں جو کہتا ہوں اک زمانے سے
کہ میں حریف ہوں اوہام کے زمانے کا
کسے خبر کہ مری جرات تکلم میں
ہے کرب کتنے عقیدوں کے ٹوٹ جانے کا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین

استفسار


بدی کو پانی کی طرح پی کر
گنہہ کو کھانے کی طرح کھا کر
یہ کون لوگ اپنی مغفرت کی دعائیں کرتے ہیں معبدوں میں
یہ کون ہیں جن کے جسم بینکوں کا بوجھ اٹھائے
کتاب نفع و زیاں کی آیات بن چکے ہیں
یہ کون ہیں جن کی بے حیا گرسنہ نگاہیں
شریف جسموں کو بے قراری سے کھا رہی ہیں
یہ کون ہیں جن کے لب انہی کے خلاف تقریر کر رہے ہیں
یہ کون ہیں جن کے ہات انہی کا عذاب تحریر کر رہے ہیں
یہ کون ہیں جو خود اپنی نظروں میں گر چکے ہیں
اور ان کے ملبوس ان کے جسموں پہ معترض ہیں
یہ کون ہیں جن کے قصر و ایواں پہ کرگسوں کے
مہیب غول آ کے بیٹھتے ہیں

یہ کون ہیں جن کی روشنی تیرگی کی ہمسر بنی ہوئی ہے
جو جہل کی اجرتوں پہ قانع
گداز اعضاء پہ فخر کرتے ہیں محفلوں میں
یہ ریشمیں بستروں پہ سو کر
مہیب خوابوں سے ڈرنے والے
یہ اپنے در پہ کھڑے ہوئے
اپنے دست ممسک سے خود ہی کیوں بھیک مانگتے ہیں
یہ کون ہیں جن کی زندگی کرم خوردہ پوشاک بن چکی ہے
یہ کون ہیں جن کی آبرو خاک بن چکی ہے
یہ خشک پتوں کی ناشنیدہ روایتیں
اور ریگ صحرا کی بے سروپا کہاوتیں
سماعتوں کی تلاش میں کیوں بھٹک رہی ہیں
یہ کون ہیں جن کو اب یہ احساس ہو چلا ہے
کہ ان کی نسلوں کو اور ان کو
گزرتے وقت اور بہتے پانی کا غم رہے گا
اور ان کے دل پر
متاع جاں کا زیاں ہمیشہ رقم رہے گا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین

پائیز


آج بھی سرد ہواوں کے نکیلے ناخن
دیر تک جسم میں پیوست رہے
شہر پر کہر کی یلغار رہی
اور سنسان گلی کوچوں میں
زندگی گردش و رفتار سے بیزار رہی

بے دلی معکتف ذات ہوئی لیکن
نظر آتے نہیں بام و در و دیوار حصار
زخم عُریاں کی پنہ گاہ یہاں کوئی نہیں
رب پائیز کی قدرت ہے کہ اس موسم میں
بجھ گئیں آگ کے شعلوں کی قناتیں یکسر
ہیں علم سرد ہواوں کے تیر
نیم جاں برگ شجر
خاک بسر
اور اس بے سر و سامانی میں
بے ضرر زیست بھی سفاک نظر آتی ہے
عظمت خاک تہہ خاک نظر آتی ہے
زرد سورج کی ہلاکت کے لیے
ذرے ذرے میں آویزش پائیز و بہار
دیکھ کر تیز ہوا کی یلغار
چیختی ہیں مرے سینے کی خراشیں کیا کیا
نوحہ خواں رہتی ہیں لمحات کی لاشیں کیا کیا
نرغہ وقت سے اب بھاگ کے جاوں تو کہاں
عسوتیں بند ہیں بے رحم لکیروں میں ابھی
دشت کی ریگ رواں شیشہ ساعت میں اسیر
اور میں ساعت و تقویم کا اک زندانی
ہوں کسی حرف تمنا کے اسیروں میں بھی




----------------------------

حیراں کھڑی ہیں کھیت میں گندم کی بالیاں
اس بار فصل کاٹنے والے کہاں گئے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
تُو ہوا ، میں صرف گرد رہگزر کیسے رہوں
یوں ترے کوچے میں اے بیداد گر کیسے رہوں

بار ہوں جب ہر مسافت پر مرے نقش قدم
میں پرائے راستوں کا ہمسفر کیسے رہوں

نیم شب میں صبح کے آثار کا میں ہوں سفیر
ٹوٹتے تاروں سے لیکن بے خبر کیسے رہوں

ہے خود اک جبر مسلسل منصب آوارگی
در بدر جب خاک اُڑانی ہو تو گھر کیسے رہوں

میز پر رکھا ہوا گلدان دلکش ہے مگر
بے نیاز وحشت دیوار و در کیسے رہوں

کیوں نہ چاہوں پھر مکان حرف و معنی میں پناہ
وار کرتے دشمنوں میں بے سپر کیسے رہوں

کُوچہ و بازار میں گُم سانس لیتی خواہشیں
سانس لیتی خواہشوں کا نوحہ گر کیسے رہوں

لال پیلی دشمنی کے چیختے وحشی طیور
مجھ کو جنگل ہی میں رہنا ہے مگر کیسے رہوں

چھیڑ کر مٹی کے سارے تہہ بہ تہہ لمحوں کی بات
میں سحر رہن حیات مختصر کیسے رہوں




مسافروں سے محبت کی بات کر لیکن
مسافروں کی محبت کا اعتبار نہ کر

---------------------------------------

جواز برہمی نیک و بد نہیں معلوم
خلوص میں بھی مجھے اپنی حد نہیں معلوم
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
محسوس کیوں نہ ہو مجھے بیگانگی بہت
میں بھی تو اس دیار میں ہوں اجنبی بہت

آساں نہیں ہے کشمکش ذات کا سفر
ہے آگہی کے بعد غم آگہی بہت

ہر شخص پُر خلوص ہے ہر شخص با وفا
آتی ہے اپنی سادہ دلی پر ہنسی بہت

عجز و نیاز ہیں صلہ شوق کی اساس
میرے مزاج میں ہے مگر سر کشی بہت

شاید کہ تیرے بادہ لب سے ہو کچھ سکوں
حصے میں میرے آئی ہے گو تشنگی بہت

اس احتیاط وضع کی زنجیر کے لیے
میں نے بھی کی ہے شہر میں آوارگی بہت

مستانہ وار وادی غم طے کرو سحر
باقی ہیں زندگی کے تقاضے ابھی بہت
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین



تاریکیوں کا حساب



نیم خوابیدہ بوجھل سبک سر ہوا
شب کی آغوش میں دفعتاً جاگ اٹھی
کسمساتی ہوئی سَر اٹھا کے چلی
شب کی آغوش سے سرد بوجھل ہوا
لڑکھڑا کے چلی بے خطر بے حذر

چُور نشے میں یک چشم عفریت شب
آنکھ کی سُرخ گولائی روشن کیے
ہے ہوا کے تعاقب میں ہر موڑ پر
کون روکے اسے کون ٹوکے اسے

ہیں تضادوں کے آسیب اس شہر میں
نفع و حرص و ہوس کی جبینوں کو بھی
چاند کے روپ میں ڈھالنے کے لیے
دست شب نے دو رویہ عمارات پر
روشنی کی لکیروں سے لکھے ہیں نام

شہر کی شاہراؤں پہ ہیں رقص میں
نیلگوں ، سُرخ ، پیلے ، ہرے دائرے
گاہ جلتے ہوئے ، گاہ بُجھتے ہوئے

ہر اندھیرے پہ ہے روشنی کا نقاب
اک ہوا ہے کہ جس کی نگاہوں میں ہے
شہر کے دل کی تاریکیوں کا حساب

شہر کے شب ذدہ پیرہن میں کہیں
کہکشاں کی طرح روشنی تو نہیں
پیرہن میں سیاہی کے ہر داغ پر
روشنی کی لکیروں کے پیوند ہیں
اور اس شہر کے دل کی قندیل پر
روشنی کی لکیروں کے در بند ہیں
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین

ایک آواز



تم یہ کہتے ہو احساس کیا چیز ہے
اور احساس کی زندگی میں کوئی قدر و قیمت نہیں
زندگی تو کسی اور ہی رمز کا نام ہے

مگر تم نے اس رمز کو رمز کی طرح سمجھا کہاں ہیں
کبھی اپنے احساس کی آگ میں جل کے دیکھو
خود فریبی کے سب آبگینے پگھل جائیں گے
جہنم کے ان نیلے شعلوں کی بابت سنا ہے کبھی
جو کہسار پاروں کو خس کی طرح پھونک دیتے ہیں زہر نفس سے
اتنے سفاک شعلوں کی آماجگاہ
وہ جہنم
کوئی اور عالم نہیں
وہ احساس ہے جو تمہارے ہی سینے میں بیدار ہوتا ہے پہلے

اگر اس جہنم کی تاثیر سے بے خبر ہو چکے ہو
اگر اس جہنم کے شعلوں پر راکھ آ گئی ہے
اگر آخری اخگر خون برباد تک بجھ چکا ہے
تو سمجھو کہ ہستی کی نبضیں ہیں فصل زمستاں کےخاموش خیموں کی ٹوٹی طنابیں
جہاں اب الاو کے چاروں طرف چند خانہ بدوشوں کے نقش قدم رہ گئے ہیں
جہاں اب ہواوں کے دامن میں خاک رہ کارواں تک نہیں ہے
یہ کنگال مفلس ہوائیں
بہت سر چھپاتی ہیں یخ بستہ پیڑوں کی شاخوں میں لیکن
وہ شاخیں جو خود ڈھونڈتی ہوں پناہیں
ہواوں کی کیا میزبانی کریں گی

تم اپنے بھیانک خرابوں سے گھبرا کے بھاگو گے لیکن
ہواوں کے نوحے تمہارا تعاقب کریں گے
تو پھر تم یہ سوچو گے اب ذہن میں سوچنے کے لیے کچھ بھی باقی نہیں ہے
عناں گیر لمحوں سے بچتے پھرو گے
مگر اپنے قدموں کی آہٹ کو کیسے چھپاو گے آخر
یہ دل اور دل کی یہی دھڑکنیں جن سے بے زار ہو
درد کے قافلوں کا جرس ہیں
ان کے خاموش ہوتے ہی تم اپنی راہوں سے نفرت کرو گے

تو پھر زندگی کا یہی رمز پوچھے گا تم سے
بتاو تمہیں اپنے احساس کی موت منظور ہے
بتاو تمہیں اپنے احساس کی موت منظور ہے

اور تم ، اپنے سارے دلائل کے با وصف
مٹی کے بت کی طرح چپ رہو گے





خود ساختہ حریف اٹھے ہیں پئے ستیز
اور وہ جو میری شان کے شایان بھی نہیں

--------------------------

اس آرزو میں کہ پہچان لیں مجھے مرے لوگ
بتا رہا ہوں خود اپنی نشانیاں کیا کیا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


بہت اُداس ہوں ، کوئی فسانہ کہہ مجھ سے
نہیں یہ عہد بھی ، عہد وفا ، نہ کہہ مجھ سے

اسی فضا میں مرے روز و شب گزرتے ہیں
شکست ذات کا ہر ماجرا نہ کہہ مجھ سے

حیات اصل میں ہے اپنے قرب کا احساس
ترے بغیر بھی جینا ہوا ، نہ کہہ مجھ سے

یہ گفتگو تو رفاقت کی اک ضرورت ہے
کوئی حدیث سُخن آزما نہ کہہ مجھ سے

جمال زیست ، تغافل شعاریاں تا چند
حکایت نگہ ، محرمانہ کہہ مجھ سے

میں اپنی خاک کے ذروں میں چھپ کے بیٹھا ہوں
مجھے بھی ڈھونڈ رہی ہے ہوا ، نہ کہہ مجھ سے

شکست دے گئی کاجل کو آنسووں کی لکیر
بچھڑ گیا ہے وہ رنگ حنا ، نہ کہہ مجھ سے

 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین



الاؤ



ہم اجنبی تھے ، مسافر تھے ، خانہ ویراں تھے
اور اس الاؤ کے رقصاں حنائی ہاتوں نے
بلا لیا ہمیں اپنے حسیں اشاروں سے
تو اس کی روشنئ احمریں کی تابش میں

خود اپنے آپ کو اک دوسرے سے پہچانا
کہ ہم وہ خانہ بدوشان زیست ہیں جن کو
ازل سے اپنے ہی جیسے مسافروں کی تلاش
کئے ہوئے ہے انہی دشت و در میں سر گرداں

ہماری اپنی صدا اجنبی تھی اپنے لیے
دلوں نے پہلے پہل زیر لب کہا ہم سے
کہ اہل ظرف و غریبان شہر احساسات
ترس رہے ہیں سخن ہائے گفتنی کے لیے
اور اس الاؤ کے شعلوں نے ہم سے باتیں کیں
ہماری گنگ زبانون کو پھر زبانیں دیں
اور اپنی اپنی سنائیں کہانیاں ہم نے
کہانیاں جو حقیقت میں ایک جیسی تھیں

پھر اس الاؤ نے ہم سے کہا کہ دیوانو
وہ شے جو شعلہ فشاں ہے تمہارے سینوں میں
اسی کو زیست کا روشن الاؤ کہتے ہیں
یہی الاؤ ہے جس نے مہیب راتوں میں
شعور شعلہ طرازی عطا کیا تم کو
اسی الاؤ سے ابھرا ہے آرزو کا فسوں
اسی الاؤ سے سیکھا ہے تم نے اسم جنوں
اور اس کے بعد مجھے یاد ہے کہ ہم سب نے
یہ ایک عہد کیا تھا اسی الاؤ کے گرد
کہ اس کی آگ میں خاشاک غم جلائیں گے
اور اس الاؤ کو اپنا خدا بنائیں گے


 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


ریزہ وجود



مرے وجود کا مکان
خار دار تار کا حصار جس کے ارد گرد
آدمی کا خون پینے والی زرد جھاڑیوں کے خار دار ہات ہیں
مری زمیں کے ارد گرد
کہکشاں کے خاردار دائروں کا رقص ہے
زمیں سے آسماں تک
وجود اپنے ان گنت حواس کا گناہ ہے
شعور و لمس و لذت و مشام کے سراب میں
میں پوچھتا ہوں سنگ میں گداز پنبہ ڈھونڈنے سے کیا ملا

یہ زندگی یہی تو ہے
کہ ریزہ ریزہ جمع کی ہوئی متاع زیست کو
ہوائے تند پھینک آئے دشت بے سواد میں

مری نظر کے سامنے
نہ جانے کتنے جسم تھے کہ ٹوٹ کر بکھر گئے
میں ایسے ہولناک تجربوں کے بعد بار بار
خود کو یوں سنبھالتا ہوں جیسے اپنے ہات سے
میں گر کے ٹوٹ جاوں گا
مرا بدن اذیتوں کا خوان ہے
کبھی میں برف کی سلوں کی ہوں غذا
کبھی میں تیرگی کا رزق ہوں
کبھی میرے لیے ہے نوک دار خنجروں کا تخت خواب
اور آج ان اذیتوں کے درمیان
مرا وجود جیسے مجھ کو چھوڑ کر چلا گیا
میں برگ سبز تھا جسے
خزاں کا ہات شاخ تر سے توڑ کر چلا گیا

میں ایک سمت فلسفے کے ان گنت نکات کی پناہ ہوں
اور ایک سمت آگہی کے جبر کی کراہ ہوں
مسابقت کے دور میں وہ ساعتیں بھی آ گئیں
کہ حسن اور عشق میں متاع اور مشتری کا رمز جاگنے لگا
نہ عشق اتنا بے خبر
نہ حسن اتنا معتبر
کہ بے دلیل قضیہ وفا کی داد دے سکے

یہ کائنات بے حسی کی اک بسیط شکل ہے
نہ زندگی کا کچھ اثر
نہ موت سے کوئی خطر
اب ایسی کائنات میں
اس ایک ریزہ وجود کے حواس کیا کریں
اب ایسے سرد جسم کی برہنگی کو دیکھ کر
خلوص و مہر و لطف کے حسیں لباس کیا کریں



----------------------


یہ ایک موج نظر میں کہاں سے ابھری ہے
مرے سراب سے کیا دُشمنی ہے دریا کو


 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


پیمانہ حال ہو گئے ہیں ہم
گردش مثال ہو گئے ہیں ہم

تکمیل کمال ہوتے ہوتے
تمہید زوال ہو گئے ہم

ہر شخص بنا ہے ناز بردار
جب خود پہ وبال ہو گئے ہم

در یوزہ گروں کی انجمن میں
کشکول سوال ہو گئے ہم

آئینہ کرب لفظ و معنی
فرہنگ ملال ہو گئے ہم

امکان وجود کے سفر پر
نکلے تو محال ہو گئے ہم

پہلے تو رہے حقیقت افروز
پھر خواب و خیال ہو گئے ہم




 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


راہرو دشتِ غمِ آبلہ پا ہی تو ہیں
کارِ وفا کی دلیل ، اہل وفا ہی تو ہیں

کیوں ہیں گراں اس قدر اہل گلستاں پہ ہم
صحن گلستاں میں ہم مثل صبا ہی تو ہیں

اپنی قبا پر سجائے اپنے بدن کا لہو
اہل وفا کشتہ رنگِ خا ہی تو ہیں

لاکھ رہے پردہ دار ، لاکھ کرے قصدِ رم
نکہتِ گیسوئے یار ہم بھی ہوا ہی تو ہیں

تجھ سے مجھے آج بھی کوئی شکایت نہیں
جان جہاں ، میرے غم تیرے سوا ہی تو ہیں

زیست کے ہر باب میں یوں بھی کیے فیصلے
جیسے خدا کے بغیر ہم بھی خدا ہی تو ہیں

راہِ وفا میں رُکے کون ہمارے لیے
سنگِ گراں تو نہیں ، صرف صدا ہی تو ہیں

کھا کے نئے زخم زیست خندہ بلب ہو گئے
خندہ بلب کیا کہ لب زخم نما ہی تو ہیں

یہ بھی کوئی وصف ہے ، یہ بھی ہے خوبی کوئی
اہلِ وفا کے لیے ، اہلِ وفا ہی تو ہیں

حرفِ صداقت کا نام آپ نہ بدلیں سحر
لوگ خفا ہیں تو ہوں ، لوگ خفا ہی تو ہیں



 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین



ترکہ



میری آواز کو سُن کر اس سمت
آنے والو مُجھے چُھو کر دیکھو
میں کوئی خواب نہیں ، رُوح نہیں
یہ مرا جسم ، یہ میرے اعضاء

میرے الفاظ انوکھے ہیں مگر
ساری باتیں انسان کی سی ہیں
جو بیاباں کو چمن زار بنا سکتا ہے
میں اسی خاک سے ہوں
جس کے ذرات کہیں دشتِ بلا میں
اور کہیں شہر و دیار و مامن

میں کوئی خواب ، کوئی رُوح نہیں
میرے پاس آو ، مری بات سُنو
گردشِ شام و سحر کی زد میں
میں نے اک عمر گذاری ہے مگر
میں بھی انسان ہوں مر جاوں گا
خاک کی طرح بکھر جاوں گا
اس سے پہلے کہ غرض کے بیٹے
مجھ سے سو طرح کے رشتے جوڑیں
میرے اسباب کو تقسیم کریں
میری پوشاک پہ قرعہ ڈالیں
میری آواز کو سننے والو
تم مرے کرب ، مری فکر کے وارث بن جاو



 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین



درد کی پرچھائیں



ناوکِ غم کی خبر درد کی پرچھائیں سے پھر
زخم کی طرح ملی ، شمع کے مانند جلی
آئینہ خانہ احساس میں محسوس ہوئی
ایک پرچھائیں سے پرچھائیں کی سرگوشی سی


بات صدیوں کی کہی جائے کہ لمحات کی بات
بات دراصل ہے احساس کی ، جذبات کی بات


وقت پہلے بھی یہی وقت تھا اور آج بھی ہے
آج بھی گردش و رفتار کا عالم ہے وہی
مہر و مہ مشرق و مغرب کے سفیر آج بھی ہیں
روز و شب اپنے ہی لمحوں میں اسیر آج بھی ہیں


ناوکِ غم کی خبر کوئی نئی بات نہیں
ضررِ خونِ جگر کوئی نئی بات نہیں
زندگی زخم نما آنکھ لیے صدیوں سے
سازشِ کشمکش مہر و ستم دیکھتی ہے
اک ہجومِ خلش و کرب و الم دیکھتی ہے


اس ہجومِ خلش و کرب و الم میں مجھ سے
آج پھر درد کی پرچھائیں یہی کہتی ہے
ناوکِ غم سے چلا سلسلہ رامش و رنگ
حرف و آہنگ سے تا سنگ و دف و بربط و چنگ
زندگی تازگی موجِ نفس چاہتی ہے
ہر سفر کے لیے افسونِ جرس چاہتی ہے


====================================


اب ایک مرحلہ ترکِ دوستی یہ ہے
کہ پہلے تجھ سے خفا تھا اور اب خفا بھی نہیں

 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


احساس



جو بچھڑ گیا
اور یاد نہیں
اس یار سے کیا
جو سنور کے بھی ہو ژولیدہ
اس کاکلِ عنبر بار سے کیا
جو خود کو منوانے کے لیے
جذبے کے سوا
کچھ اور گواہی چاہتا ہو
اس پیار سے کیا
جو جیت نہ ہو
اس ہار سے کیا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


لمحوں کے سراب



آرزوؤں کے حقیقت آشنا !
تیرا چہرہ بھی کنول ہے میرا چہرہ بھی کنول
اور دونوں کے بدن
نیلگوں تالاب کے پانی میں گُم
سطحِ آئینہ پہ ہم ہیں صرف صورت آشنا

جاگتے ہیں کب یہاں ملتے ہیں چہروں کے کنول
نیند کے تالاب میں کھلتے ہین چہروں کے کنول
نیند کی خواہش میں لیکن

کب تلک جلتے رہیں ان بند آنکھوں کے چراغ
اک نہ اک اندھی گلی میں جا کے ہو جاتی ہے گُم ہر راہِ خواب
اور رہ جاتے ہیں یہ بے چہرہ و بے جسم لمحوں کے سراب
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
رازِ وجود کُھل گیا آ کے سوادِ ذات میں
نقطہ تیرگی ہوں میں اپنی تجلّیات میں

ایک وجودِ بے جزا ، میرے لیے بنا سزا
یومِ حساب ہو چکا محشرِ ممکنات میں

ربّ نجوم و کہکشاں ، دھول سی اُڑ رہی ہے ، یاں
دیکھ بجز غبارِ جاں کون ہے کائنات میں

نالہ قلب خونچکاں ، خود ہی رہا ہے رائگاں
کون خراش پڑ گئی سینہ شش جہات میں

میری تمام زندگی خندہ و سر خوشی سہی
غم کے ہزار نام ہیں عرصہ گہہ حیات میں

رنگ سے روشنی جدا ، حرف سے کیف ماوراء
ذات الجھ کے رہ گئی سلسلہ صفات میں

خود سے بچھڑ گیا ہوں میں ، مجھ سے بچھڑ گئے ہو تم
ہو بھی سکے کچھ اور کیا گردشِ ممکنات میں

آج بھی دل کو تھا ملال ، آج بھی خواب تھا ملال
آج بھی خود سے مل لیے شہر تصورّات میں

دامن شب نچوڑ کر دیکھ تو چشمِ گریہ ناک !
سب ترے تابناک دن جذب ہیں ایک رات میں


---------------


جب کسی خواب کی خواہش سے ہوں بوجھل آنکھیں
ایسے عالم میں بھلا نیند کہاں آتی ہے
 
Top