نماز جمعہ اور نماز تراویح کا باجماعت اہتمام ہوگا

سید رافع

محفلین
دانستہ کسی اور کے لیے ایک اذیت ناک موت کا سبب بننے کو قوت ایمانی نہیں کہتے۔ قتل شاید کہہ سکیں۔
ہر طرف سے بند کمرے میں یہ وائرس کے پھیلاؤ کو کیسے روکیں گے؟


جراثیم کا آپکے جسم میں داخل ہونا اور چیز ہے اور اس سے بیمار ہو جانا دوسری بات۔ ڈاکٹرز اور ہسپتال کا عملہ اسکی واضح مثال ہے۔
 

محمد سعد

محفلین
78262.jpg

کالم کے آخری حصے کو پڑھ کے تین امکانات سمجھ میں آتے ہیں۔
۱۔ یا تو مفتی صاحب کا خدا بڑا ظالم ہے کہ مسلمان گھروں پہ رہ کر جتنا مرضی رو لیں گڑگڑا لیں، اسے رحم نہیں آئے گا جب تک وہ سب اپنی اور اپنے گھر والوں سب کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال کر مسجد میں اکٹھے نہیں ہوں گے۔
۲۔ فاروق سرور خان جو اتنی دیر سے بات کر رہے ہیں کہ مساجد میں لوگوں کو اکٹھا کرنے پر ہونے والا یہ تمام اصرار محض دھندا چلاتے رہنے کے لیے ہے، وہ بات درست ہے۔
۳۔ مفتی صاحب کو اس معاملے کے حوالے سے کچھ پتہ نہیں اور وہ محض اپنی لاعلمی اور ضد میں پورے ملک کو تباہی کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں۔
ان تینوں میں سے کس بات کو درست سمجھا جائے؟
 

ٹرومین

محفلین
میں نے یہ پوچھنا تھا کہ نیچے دی گئی ہدایات کے مطابق اگر گھر سے وضو کر کے آئیں اور مسجد کے دروازے پر ہاتھوں پر سینیٹائزر مل لیں اور چونکہ زیادہ تر سینیٹائزر الکوحل یعنی شراب والے ہوتے ہیں تو اس کو ہاتھوں پر ملنے اور چھونے سے کیا وضو برقرار رہے گا یا ٹوٹ جائے گا۔ :D:D:D

93936795_2678953158897807_6685902991850995712_o.jpg
الکوحل شاید صرف کھجور اور انگور کا حرام ہوتا ہے اور وہ اتنا مہنگا ہوتا ہے کہ پرفیوم یا سینیٹائزر میں اس کا استعمال اسے لوگوں کی قوت خرید سے باہر کردے گا جبکہ کھجور یا انگور کے سینیٹائزر کا کوئی اضافی فائدہ بھی نہیں، اس لیے میرے محدود علم کے مطابق اس کا استعمال بلا کراہت جائز ہے. اس مسئلے کی تفصیل کوئی عالم جبک الکوحل کی تفصیل ماہرین زیادہ بہتر بتا سکتے ہیں. :)

عبید انصاری سید عمران اسد سروش
 

آورکزئی

محفلین
میں نے یہ پوچھنا تھا کہ نیچے دی گئی ہدایات کے مطابق اگر گھر سے وضو کر کے آئیں اور مسجد کے دروازے پر ہاتھوں پر سینیٹائزر مل لیں اور چونکہ زیادہ تر سینیٹائزر الکوحل یعنی شراب والے ہوتے ہیں تو اس کو ہاتھوں پر ملنے اور چھونے سے کیا وضو برقرار رہے گا یا ٹوٹ جائے گا۔ :D:D:D

93936795_2678953158897807_6685902991850995712_o.jpg

سوال بہت اچھا ہے۔۔۔ میرے خیال میں مفتی تقی عثانی تھوڑے بہت تعلیم یافتہ ہیں۔۔۔ کیوں؟؟
اور بھی بہت علماء تھے اس میٹنگ میں۔۔۔ تو کسی کو اس سٹینائزر کے بارے میں تو پتا ہوگا۔۔۔
 

سید رافع

محفلین
کالم کے آخری حصے کو پڑھ کے تین امکانات سمجھ میں آتے ہیں۔
۱۔ یا تو مفتی صاحب کا خدا بڑا ظالم ہے کہ مسلمان گھروں پہ رہ کر جتنا مرضی رو لیں گڑگڑا لیں، اسے رحم نہیں آئے گا جب تک وہ سب اپنی اور اپنے گھر والوں سب کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال کر مسجد میں اکٹھے نہیں ہوں گے۔
۲۔ فاروق سرور خان جو اتنی دیر سے بات کر رہے ہیں کہ مساجد میں لوگوں کو اکٹھا کرنے پر ہونے والا یہ تمام اصرار محض دھندا چلاتے رہنے کے لیے ہے، وہ بات درست ہے۔
۳۔ مفتی صاحب کو اس معاملے کے حوالے سے کچھ پتہ نہیں اور وہ محض اپنی لاعلمی اور ضد میں پورے ملک کو تباہی کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں۔
ان تینوں میں سے کس بات کو درست سمجھا جائے؟


1- مساجد میں اجتماعی دعا و عبادت ہے جو زیادہ فضیلت والی ہے۔

2- مساجد کا کل کا کل انتظام کرنا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے۔ کیونکہ فی الحال یہ کام محلے کے لوگوں کے عطیات سے ہوتا ہے تو اس لیے بھی لوگوں کو مساجد میں اکھٹا ہوتے رہنا ضروری ہے۔

3- خوف زدہ نہ ہوں۔ اللہ پر بھروسا کرنا سیکھیں۔ اپنے اردگرد دیکھیں کتنے ہی کام صبح 8 سے 5 بجے شام تک ہو رہے ہیں اور لوگ صحت مند ہیں۔ آپ بھی صحت مند رہیں گے۔ انشاء اللہ۔
 

محمد سعد

محفلین
مفتی منیب الرحمٰن صاحب یا تو دانستہ جھوٹ بول رہے ہیں یا واقعی انہوں نے کالم لکھنے سے پہلے پتہ لگانے کی زحمت نہیں کی کہ ان کا یہ دعویٰ کس حد تک درست ہے کہ اس وائرس نے محض ترقی یافتہ ممالک کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن والے ایک باقاعدہ نقشہ فراہم کرتے ہیں جس پر ایک سرسری نظر ہی یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ تمام دنیا ہی اس وائرس سے نہایت بری طرح متاثر ہوئی ہے اور مسلسل ہو رہی ہے۔
WHO COVID-19 Dashboard
بلکہ اگر کوئی ملک سب سے الگ نظر آ رہا ہے تو وہ روس ہے جہاں 42 ہزار کیسز کے باوجود اموات کی تعداد 361 ہے۔ روس نہ ہی ترقی پذیر ہے اور نہ ہی مسلمان۔ اس میں مفتی صاحب اللہ کی کیا شان بتاتے ہیں؟
مفتی صاحب سے گزارش ہے کہ جب کسی بڑے دعوے کے لیے کوئی دلیل پیش کریں تو اسے پہلے تھوڑا خود بھی جانچ لیا کریں۔ اگر اتنا بھی نہیں کر سکتے تو پھر ایسے اہم مسئلے پر پورے ملک کی رہنمائی پر اصرار نہ کریں۔
 

محمد سعد

محفلین
اپنے اردگرد دیکھیں کتنے ہی کام صبح 8 سے 5 بجے شام تک ہو رہے ہیں اور لوگ صحت مند ہیں۔ آپ بھی صحت مند رہیں گے۔
اس وقت پاکستان میں سات ہزار ایکٹیو کیسز ہیں۔
COVID-19 Health Advisory Platform by Ministry of National Health Services Regulations and Coordination
ان سب کو بھی یہی لگتا تھا۔
یہیں محفل پر ایک کیس دیکھ چکے ہیں کہ ایک شخص کی بے احتیاطی نے پورے گھرانے کو اذیت میں ڈالا۔ ان صاحب کو بھی یہی لگتا تھا۔
اگر یہی رویے رکھے جائیں تو سات کا ستر ہزار بننے میں دیر نہیں لگے گی۔ اپنے پڑوس ہی میں ایران کی صورت حال دیکھ چکے ہیں۔
کیوں نہ یہ تمام مفتی صاحبان ملک بھر میں موجود قرنطینہ سینٹرز میں جا کر تمام مریضوں کو باجماعت نمازیں پڑھائیں، اسی طرح کا فاصلہ رکھ کے جو فاصلہ ان کو لگتا ہے کہ ملک بھر کی مساجد میں کافی ہو گا؟ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔
 

محمد سعد

محفلین
جراثیم کا آپکے جسم میں داخل ہونا اور چیز ہے اور اس سے بیمار ہو جانا دوسری بات۔ ڈاکٹرز اور ہسپتال کا عملہ اسکی واضح مثال ہے۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ کہہ کر آپ خود ایسے لوگوں کی موجودگی کے نکتے کو وزن فراہم کر رہے ہیں جن کے جسم میں وائرس پھل پھول رہا ہو گا اور انہیں ظاہراً کوئی مرض نظر نہیں آئے گا چنانچہ مساجد میں جا کر وہ اس کو دوسروں کے گھروں میں موجود مریضوں، بچوں اور بوڑھوں تک پہنچانے کا سبب بنیں گے؟
 

محمد سعد

محفلین
1- مساجد میں اجتماعی دعا و عبادت ہے جو زیادہ فضیلت والی ہے۔
کعبہ کا حج بھی بہت فضیلت والی عبادت ہے۔ اگر وبا کے دنوں میں حج ملتوی ہو سکتا ہے تو سروائیول کے لیے غیر اہم باقی اجتماعات بھی ملتوی ہو سکتے ہیں۔ یہ بات باقی تمام مسلم ممالک کے علماء سمجھتے ہیں، ایک بر صغیر کے علماء کا اسلام وکھرا ہے۔
خدا نے کوئی شرط نہیں رکھی ہوئی کہ توبہ مسجد میں ہی قبول ہو گی۔ آپ شاید اسلام اور پاپائیت کو کنفیوز کر رہے ہیں۔
 

محمد سعد

محفلین
2- مساجد کا کل کا کل انتظام کرنا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے۔ کیونکہ فی الحال یہ کام محلے کے لوگوں کے عطیات سے ہوتا ہے تو اس لیے بھی لوگوں کو مساجد میں اکھٹا ہوتے رہنا ضروری ہے۔
محلے کے لوگ ایک عمارت میں جمع ہو کر وبا کو پھیلنے کا موقع دیے بغیر بھی مساجد و مدارس کی ضروریات کا بندوبست کر سکتے ہیں، اور بیشتر جگہ کر بھی رہے ہیں۔ یہ کہہ کر کہ صرف اس وجہ سے لوگوں کا اکٹھا ہوتے رہنا اور اپنے پورے پورے گھرانوں کی زندگیاں خطرے میں ڈالتے رہنا ضروری ہے کہ مساجد کا انتظام چلتا رہے، صرف اس بات کو مزید وزن فراہم کرتا ہے کہ یہ سب دھندے کا معاملہ ہے۔
 

سروش

محفلین
مفتی صاحبان ملک بھر میں موجود قرنطینہ سینٹرز میں جا کر تمام مریضوں کو باجماعت نمازیں پڑھائیں، اسی طرح کا فاصلہ رکھ کے جو فاصلہ ان کو لگتا ہے
یہ فاصلہ ان کی اپنی اختراع ہے ۔ فاصلے رکھ کر صف ہی نہیں بنے گی تو کہاں کی جماعت؟ پر اس پر یہ کہ علمائے حرمین کو معطون کیا جائے ۔ جب قرآن و حدیث میں احکام نہ ملیں تو اجتہاد کیا جاتا ہے ۔ نہ کہ اپنی مرضی سے نماز کی ہئیت ہی بدل ڈالی ۔ سوال یہ ہے کہ امام کے پیچھے اکیلے آدمی کی نماز ہوگی کہ نہیں ؟ کیونکہ ان فاصلوں سے صف تو بن ہی نہیں رہی ، اور صفت کے پیچھے اکیلے آدمی کی نماز ہوتی نہیں !!!!
 

سید رافع

محفلین
کعبہ کا حج بھی بہت فضیلت والی عبادت ہے۔ اگر وبا کے دنوں میں حج ملتوی ہو سکتا ہے تو سروائیول کے لیے غیر اہم باقی اجتماعات بھی ملتوی ہو سکتے ہیں۔ یہ بات باقی تمام مسلم ممالک کے علماء سمجھتے ہیں، ایک بر صغیر کے علماء کا اسلام وکھرا ہے۔
خدا نے کوئی شرط نہیں رکھی ہوئی کہ توبہ مسجد میں ہی قبول ہو گی۔ آپ شاید اسلام اور پاپائیت کو کنفیوز کر رہے ہیں۔

لنک - بنگلہ دیش میں مبلغ اسلام کی نماز جنازہ ایک لاکھ افراد شریک۔ سی این این

200419145945-01-bangladesh-funeral-0418-exlarge-169.jpg
 
آخری تدوین:

سید رافع

محفلین
یہ فاصلہ ان کی اپنی اختراع ہے ۔ فاصلے رکھ کر صف ہی نہیں بنے گی تو کہاں کی جماعت؟ پر اس پر یہ کہ علمائے حرمین کو معطون کیا جائے ۔ جب قرآن و حدیث میں احکام نہ ملیں تو اجتہاد کیا جاتا ہے ۔ نہ کہ اپنی مرضی سے نماز کی ہئیت ہی بدل ڈالی ۔ سوال یہ ہے کہ امام کے پیچھے اکیلے آدمی کی نماز ہوگی کہ نہیں ؟ کیونکہ ان فاصلوں سے صف تو بن ہی نہیں رہی ، اور صفت کے پیچھے اکیلے آدمی کی نماز ہوتی نہیں !!!!

با جماعت نماز میں اقتدا کے درست ہونے کے لیے امام اور مقتدی کی جگہ کا متحد ہونا شرط ہے
 

سید رافع

محفلین
کعبہ کا حج بھی بہت فضیلت والی عبادت ہے۔ اگر وبا کے دنوں میں حج ملتوی ہو سکتا ہے تو سروائیول کے لیے غیر اہم باقی اجتماعات بھی ملتوی ہو سکتے ہیں۔ یہ بات باقی تمام مسلم ممالک کے علماء سمجھتے ہیں، ایک بر صغیر کے علماء کا اسلام وکھرا ہے۔
خدا نے کوئی شرط نہیں رکھی ہوئی کہ توبہ مسجد میں ہی قبول ہو گی۔ آپ شاید اسلام اور پاپائیت کو کنفیوز کر رہے ہیں۔

مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کوئی مرض بذاتِ خود متعدی نہیں ہوتا، بلکہ سبب کے درجے میں اگر اللہ تعالیٰ چاہیں تو دوسرے انسان کو مرض لگتا ہے ورنہ نہیں لگتا،
 

سروش

محفلین
اس کے آخر میں خود لکھ دیا ہے انہوں نے ۔
تاہم جیسا کہ ذکر ہواکہ فاصلہ رکھ کر کھڑے ہونا سنتِ متواترہ کے خلاف ہے۔فقط واللہ اعلم
ان رجلا يصلي خلف الصف وحده فامره ان يعيد الصلاة .
’’ ایک آدمی نے اکیلے صف کے پیچھے نماز ادا ی تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم فرمایا۔“ [جامع الترمذي : 230، سنن أبى داود : 682، سنن ابن ماجه : 1004، مسند الإمام أحمد : 228/4، مسند الدارمي : 815/2، ح : 1322، وسنده صحيح]
* اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ’’حسن “جبکہ امام ابن جارود [319] اور امام ابن حبان [الموارد : 405] رحمہ اللہ نے ’’صحیح“ کہا ہے۔

سیدنا علی بن شیبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
صليت خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم، فانصرف، ‏‏‏‏‏‏فراى رجلا يصلي فردا خلف الصف، ‏‏‏‏‏‏ فوقف نبي الله صلى الله عليه وسلم حتي انصرف الرجل من صلاته، ف‏‏‏‏‏‏قال له :‏‏‏‏ ”استقبل صلاتك، ‏‏‏‏‏‏فلا لفرد خلف الصف“
’’ آپ نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ صف کے پیچھے اکیلا نماز پڑھ رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے نماز سے فارغ ہونے تک اس کے پاس کھڑے ہو گئے۔ پھر (جب اس نے سلام پھیرا تو) اس سے فرمایا : اپنی نماز نئے سرے سے پڑھو، کیونکہ صف کے پیچھے کسی بھی اکیلے شخص کی کوئی نماز نہیں ہوتی۔“ [مسند الامام احمد: 23/4، ح:24293، سنن ابن ماجه : 1003، و سندهٔ حسن]

من وصل صفا، وصله الله، ومن قطع صفا، قطعه الله
’’ جو شخص صف کو ملاتا ہے، اللہ تعالیٰٰ اس کو اپنی رحمت کے ساتھ ملاتا ہے اور جو صف کو توڑتا ہے، اللہ تعالیٰٰ اسے اپنی رحمت سے دور کر دیتا ہے۔“ [مسند الامام احمد: 5724، سنن ابي داود :666، وسنده صحيح]

جب حدیث میں عموم ہے تو ایک خاص صورت کو بغیر دلیل کے مستثنیٰ نہیں کیا جا سکتا۔
 

محمد سعد

محفلین
حافظ ابن حجر عسقلانی رح (وفات 843 ھ) نے طاعون اور وبائی امراض کے حوالے سے ایک شاہکار انکسائکلوپیڈیا “ بذل الماعون في فضل الطاعون “ کے نام سے تصنیف کیا ۔ 444 صفحات پر مشتمل اپنی اس مشہور تصنیف میں لکھتے ہیں کہ؛ 794 ھ میں جب دمشق میں طاعون کی وبا پھیلی تو شہر کے بزرگوں کی اکثریت نے فیصلہ کیا کہ شہر سے باہر جاکر اجتماعی دعا کی جائے ۔ لیکن اس اجتماعی دعا کے بعد یہ بیماری شہر میں مزید پھیل گئی ۔
امام ابن حجر رح مزید لکھتے ہیں کہ مصر میں بھی ایسا ہی ایک واقعہ 833 ھ میں انکے سامنے پیش آیا کہ طاعون کی وبا نے پورے قاہرہ شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور روزآنہ اوسطً تقریباً چالیس 40 لوگ لقمہ اجل بننے لگے ۔ شہر کے لوگوں نے فیصلہ کیا کہ کیوں نا شہر سے باہر صحرا میں جاکر اجتماعی دعا کا اہتمام کیا جائے ۔ لوگ جمع ہوئے اور صحرا کی طرف نکل گئے ۔ وہاں انہوں نے ہفتوں رہ کر اجتماعی دعا کی ، لیکن واپس شہر پہنچنے کے بعد مرنے والوں کی تعداد میں اچانک کئی گنا اضافہ ہوگیا اور شہر میں روزانہ مرنے والوں کی تعداد بڑھ کر ہزاروں میں ہوگئی ۔
علامہ ابن حجر رح نے اگرچہ نہیں لکھا لیکن آج ہم سب جانتے ہیں کہ اتنے زیادہ لوگوں کا ایک جگہ اکٹھے ہونا ہی اس بیماری کے پھیلاؤ کا بنیادی سبب بنا اور بالآخر انکو موت کے منہ میں لے گیا ۔
ماخذ
 

محمد سعد

محفلین
ایک اور تاریخی حوالہ
کتاب The Black Death in the Middle East میں مائیکل ڈولز، ابن أبي حجلة کے حوالے سے بتاتے ہیں،
A well-known incident occurred in Damascus during the height of the Black Death. According to Ibn Abi Hajalah, who witnessed the plague in the Syrian capital, the plague "blew with the blowing of the wind" in Egypt and Syria." On Tuesday, 12 Rajab 749/6 October 1348," following the afternoon call to prayer, there appeared a mighty wind which provoked a great yellow dust cloud, then red, then black until the earth was darkened by it entirely and the people remained in it for nearly three hours. They turned to God Almighty and begged His forgiveness. And the people hoped that this cataclysm marked the end of their distress. But the number of deaths did not decrease; it did not prevent a terrible mortality."
 

محمد سعد

محفلین
اب اس سے زیادہ جاہل اور لیبرل کون ہوگا جو علماء دین کو جاہل کہتے ہیں۔۔۔۔
علماء کو جاہل بے شک نہ کہیے، لیکن اس عمل کو کم از کم جہالت کہنے کی اخلاقی جرات پیدا کر لیجیے کہ ایک شے کو ہم مسلسل تاریخ میں جانوں کے ضیاع کا سبب بنتے دیکھتے رہے ہیں، موجودہ صورت حال میں بھی واضح طور پر اس سے جانیں ضائع ہوتی دیکھ رہے ہیں، اس سے سیکھنے کے بجائے یہ "علماء" اس سے سیکھنے کے بجائے اسی سلسلہ کو دہراتے رہنے پر اصرار کر رہے ہیں۔

یہ بات ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ
۱۔ اللہ نے توبہ قبول کرنے کے لیے لوگوں کے ایک عمارت میں جمع ہونے کی شرط نہیں لگائی۔
۲۔ عبادات گھروں پر کی جا سکتی ہیں۔
۳۔ تاریخ میں کئی بار ایسی صورت حال میں حج اور مساجد کے اجتماعات بند کیے جا چکے ہیں۔
۴۔ مساجد ہی میں اکٹھے ہونے پر اصرار کرنا لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالتا بھی رہا ہے اور اب بھی ڈال رہا ہے۔

ایسے میں پھر اس اصرار کو جہالت کہنے کا حوصلہ پیدا کر لیجیے۔ یہ علماء کے ساتھ خلوص کا بھی تقاضا ہے کہ جب وہ کچھ غلط کر رہے ہوں تو ان کو بتایا جائے کہ یہ غلط ہے۔
 

جا ن

محفلین
کچھ لوگوں کے پاس کھونے کو کچھ نہیں ہوتا کیونکہ انہوں نے کبھی کچھ پایا ہی نہیں ہوتا اور کچھ لوگوں کے پاس کھونے کو بہت کچھ ہوتا ہے کیونکہ انہوں نے زندگی میں کچھ حاصل کیا ہوتا ہے، بس ایسے ہی لوگوں سے میری استدعا ہے کہ ان کے لیے وقت جیسا قیمتی تحفہ ضائع نہ کریں جنہوں نے کبھی کچھ نہ پایا، نہ پانے کی جستجو کی اور نہ ہی ان کے پاس کھونے کو کچھ ہے۔ آپ کا کام بتانا ہے، اب کوئی کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لے اس کی آنکھیں کھولنا آپ پر فرض نہیں! :)
 
Top