نقد و نظر

کون تیری دلِ بیمار مسیحا ئی کرے
دورِ حاضر کے بتوں کو تو جبیں سائی کرے
کون تیری دلِ بیمار مسیحا ئی کرے
دورِ حاضر کے بتوں کو تو جبیں سائی کرے

استاذِ من پہلے مصرعہ کی تصحیح کا شکریہ اور دوسرے کے حوالے سے بھی آپ کی رائے قبول۔ کہ مقصد آپ سے سیکھنا ہی ہے
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
عروضی مسائل تو میری سمجھ سے بہت اوپر کی چیز ہیں سرکار۔ لیکن یہ شعر بہت پسند آیا۔۔۔۔
خامیاں اپنی کسی طور نظر آئیں تجھے
حق کسی روز تجھے تیرا تماشا ئی کرے
 
خامیاں اپنی کسی طور نظر آئیں تجھے
حق کسی روز تجھے تیرا تماشا ئی کرے

اس شعر پر میں نے پسند آوری کا اظہار کیا، اس کی خاص وجہ ہے ’’تجھے تیرا تماشائی کرے‘‘ بلکہ دوسرے پورے مصرعے کی روانی۔ پہلے مصرع میں لفظ ’’اپنی‘‘ کی نشست تھوڑی سی ثقالت پیدا کر رہی ہے (اپن پڑھنا پڑ رہا ہے)۔ یہ ثقالت بھی کسی طور دور ہو جائے تو شعر بہت اوپر اٹھ جائے۔

بہ ایں ہمہ ایک نو مشق کی حیثیت سے آپ کا یہ شعر قابلِ داد ہے۔
آپ کی داد ہو یہ تنقید بندے کے لیے حوصلہ افزائی کا سبب ہے مصرعہ میں خطاب دل سے تھا تو "اپنی " کی جگہ اگر" تیری " آ جائے تو ثقالت دور ہو جاتی ہے یہ نہیں
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
تینوں اک الف درکار

احبابِ گرامی!
میری اِس تازہ کاوش پر آپ کی تنقیدی نظر اور رائے میرے لئے مشعلِ راہ ہو گی
توجہ فرمائیے گا

استاد محترم آپ کی تحریر پر تنقیدی تبصرہ کرنا اس قدر دشوار ہے کہ مجھ سے کم علم کے لیے قریب قریب ناممکن ہے۔
 
عروضی مسائل تو میری سمجھ سے بہت اوپر کی چیز ہیں سرکار۔ لیکن یہ شعر بہت پسند آیا۔۔۔۔
خامیاں اپنی کسی طور نظر آئیں تجھے
حق کسی روز تجھے تیرا تماشا ئی کرے
اس غزل کی خوبصورت بات ہے کہ اس میں کوئی عروضی مسئلہ نہیں۔ اگرچہ فاضل شاعر خود کو نوآموز کہتے ہیں۔ میری ان سے ذاتی شناسائی بھی ہے۔
 
آپ کی داد ہو یہ تنقید بندے کے لیے حوصلہ افزائی کا سبب ہے مصرعہ میں خطاب دل سے تھا تو "اپنی " کی جگہ اگر" تیری " آ جائے تو ثقالت دور ہو جاتی ہے یہ نہیں
تکرار کی صورت بنے گی ۔۔ تیرے تجھے تجھے تیرا ۔۔ دیکھ لیجئے، جیسے مناسب ہو۔
 
عروضی مسائل تو میری سمجھ سے بہت اوپر کی چیز ہیں سرکار۔ لیکن یہ شعر بہت پسند آیا۔۔۔۔
خامیاں اپنی کسی طور نظر آئیں تجھے
حق کسی روز تجھے تیرا تماشا ئی کرے

اس میں استفادہ ہے، شاید اس لئے؟
تو رازِ کن فکاں ہے اپنی آنکھوں پر عیاں ہو جا
خودی کا رازداں ہو جا خدا کا ترجماں ہو جا​
۔۔۔ (اقبال)​
 
کام کی بات ترے پاس نہیں ہے کوئی
حسرتِ خام !کوئی تیری پذیرا ئی کرے

یہاں آپ کا مخاطب ہے کون؟ حسرتِ خام؟ یا وہی ایک غیر مرئی شخص جو کبھی شاعر خود ہوتا ہے اور کبھی اس کا قاری، کبھی ایک عام آدمی؟ حسرتوں کی تو پذیرائی نہیں ہوتی اور نہ حسرتیں پذیرائی چاہتی ہیں۔ ایسا مضمون لانا مقصود ہو تو کسی قدر چابک دستی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس سے ملتے جلتے مفہوم کا ایک شعر یہاں نقل کرتا ہوں:
دشتِ حسرت تو بسے گا ہی اگر مر بھی گئیں
پھر تمناؤں کا اک شہر بسانا چاہوں
(مزے کی بات کہ مضارع والا مسئلہ اس شعر میں بھی ہے)
خطاب اپنے آپ سے ہے اور دوسرے مصرعہ پر آپ کی رائے مری ناقص عقل میں نہیں آئی
حسرتِ خام، کوئی تیری پذیرائی کرے
یعنی خود سے کہہ رہا ہوں ک تیری یہ حسرت خام ہے کے کوئی تیری پذیرائی کرے
اگر یہ مطلب واضح نہیں ہو رہا تو اس بارے میں کچھ وضاحت ہو جاتی تو نوازش
 
تیرے بے کار خیالوں کو نہیں پڑھتا کوئی
کارِ بے کار میں تو صرف توانا ئی کرے

شعر کے دائرۂ معانی میں توانائی تو اس کی صرف ہو رہی ہے جو ’’بے کار خیالوں کو پڑھے گا، یا پڑھتا‘‘ نہ کہ ایسے خیالات کے حامل شخص کی۔ پھر یہ بھی ہے کہ خیال اپنے بس میں ہوتے کہاں ہیں، خاص طور پر جو فضا اس شعر میں بن رہی ہے۔ اور کارِ بے کار ہے یا نہیں، بلکہ یہ کام ہے ہی نہیں، خیال تو از خود اٹھتے ابھرتے چلے آتے ہیں۔
یا تو سیدھی سیدھی لکھنے کی بات کریں کہ میاں اپنی بے کار سوچوں کو لکھے جا رہے ہو، انہیں پڑھے گا کون؟ یہ مفہوم اگر ہے بھی تو شعر میں نہیں آ پایا۔
نوازش اور شکریہ بات سمجھانے کے لیے
 
خطاب اپنے آپ سے ہے اور دوسرے مصرعہ پر آپ کی رائے مری ناقص عقل میں نہیں آئی
حسرتِ خام، کوئی تیری پذیرائی کرے
یعنی خود سے کہہ رہا ہوں ک تیری یہ حسرت خام ہے کے کوئی تیری پذیرائی کرے
اگر یہ مطلب واضح نہیں ہو رہا تو اس بارے میں کچھ وضاحت ہو جاتی تو نوازش
مطلب واضح ہوتا تو ایسا کہنے کی نوبت ہی نہ آتی، حضرت! مطلب ہی تو واضح نہیں ہے۔ اور وہ آپ کے کرنے کا کام ہے۔
حسرت خام نہیں ہوتی؛ وہ تو حسرت ہوتی ہے بس! احساسِ نامرادی کی کیفیت؛ آرزو کے مر جانے اور مایوسی چھا جانے کا نام حسرت ہے۔
خیال، امید، توقع خام ہو سکتی ہے۔
 
شعر آپ کا ہے، اختیار آپ کا ہے۔ میری سوچ کے مطابق جو بات بہتری کی طرف لے جاتی محسوس ہوئی میں نے بے کم و کاست کہہ دی۔
اسی لئے تو میں نے کہا تھا کہ بھائی مجھے دوسروں کو ناراض کرنے کا فن آتا ہے، منا لینے کا نہیں آتا۔

فاروق احمد
حضور ناراض ہونا اور وہ بھی آپ سے نہ مجھے منظور نہ ہی وارا کے سیکھنا ہی آپ سے ہے
 
ایک اہم بات کہ ہم اپنی روزمرہ زندگی میں مختلف الفاظ کو جن معانی میں استعمال کرتے ہیں، ان کا قطعی طور پر درست ہونا لازمی نہیں۔ جیسے گفتاری لہجے میں حسرت کو شدید خواہش کے معانی میں لاتے ہیں۔
جب بات لکھنے کی ہو تو پھر ایسے اشکالات کو دیکھنا پرکھنا بہتر ہوتا ہے۔
 
مطلب واضح ہوتا تو ایسا کہنے کی نوبت ہی نہ آتی، حضرت! مطلب ہی تو واضح نہیں ہے۔ اور وہ آپ کے کرنے کا کام ہے۔
حسرت خام نہیں ہوتی؛ وہ تو حسرت ہوتی ہے بس! احساسِ نامرادی کی کیفیت؛ آرزو کے مر جانے اور مایوسی چھا جانے کا نام حسرت ہے۔
خیال، امید، توقع خام ہو سکتی ہے۔
جی یہ ہوئی نہ بات اب سمجھ میں آیا اور کسی کو پسند آئے مجھے آپ کا یہی انداز پسند آیا
 
مطلب واضح ہوتا تو ایسا کہنے کی نوبت ہی نہ آتی، حضرت! مطلب ہی تو واضح نہیں ہے۔ اور وہ آپ کے کرنے کا کام ہے۔
حسرت خام نہیں ہوتی؛ وہ تو حسرت ہوتی ہے بس! احساسِ نامرادی کی کیفیت؛ آرزو کے مر جانے اور مایوسی چھا جانے کا نام حسرت ہے۔
خیال، امید، توقع خام ہو سکتی ہے۔
جی یہ ہوئی نہ بات اب سمجھ میں آیا اور کسی کو پسند آئے مجھے آپ کا یہی انداز پسند آیا
عروضی مسائل تو میری سمجھ سے بہت اوپر کی چیز ہیں سرکار۔ لیکن یہ شعر بہت پسند آیا۔۔۔۔
خامیاں اپنی کسی طور نظر آئیں تجھے
حق کسی روز تجھے تیرا تماشا ئی کرے
جناب محترم نیرنگ خیال صاحب پذیرائی کا شکریہ
 
اس زمانے میں ترا ساتھ کوئی کیا دے گا
درد احمدؔ ہے جو اک تجھ سے شناسا ئی کرے

پہلا مصرع بہت اچھا ہے۔ خیال کی گہرائی اور گیرائی سے قطع نظر اس میں لمحۂ موجود کا المیہ بیان ہو رہا ہے اور وہ بھی بہت سہل انداز میں۔ دوسرے مصرعے میں ایک لمحے کے لئے متخلص کو نکال دیجئے تو ۔۔۔ درد ہے جو اکِ تجھ سے ۔۔ ۔۔ یہاں مقصود غالباً یہ ہے کہ ’’ایک درد ہے جو تجھ سے شناسائی کر سکتا ہے‘‘ لیکن الفاظ آگے پیچھے ہونے سے کچھ ایسا لگ رہا ہے کہ تخصیص ’’تجھ‘‘ کو مل رہی ہے بجائے ’’درد‘‘ کے۔ اور اس پر طرہ ’’درد ہے‘‘ کے عین بیچ میں تخلص؟ معانی تو مزید گڑبڑا گئے! اگر یہ کچھ اس طور ہوتا:
ع: درد ہے ایک جو احمد سے شناسائی کرے
مگر ایسے میں اوپر والے مصرعے کا ’’ترا‘‘ بے محل سا لگنے لگے گا۔ ترا کو ’’مرا‘‘ کر کے دیکھ لیں کہ احمد تخلص شاعر کا ہے اور ’’مرا‘‘ ضمیر متکلم ہے۔
اس زمانے میں مرا ساتھ کوئی کیا دے گا
درد ہے ایک جو احمد سے شناسائی کرے
بہر حال، دیکھ لیجئے گا۔
استاذِ محترم آپ کی گراں قدر رائے کا بے حد شکریہ
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ہمارے دوست ہیں محترم @فاروق احمد
اپنی غزل تنقید کے لئے پیش کرنا چاہ رہے ہیں۔ میں نے اپنے تئیں ان کی یوں مدد کر دی ہےکہ ان کی غزل یہاں پوسٹ کر رہا ہوں۔
امید واثق ہے کہ اہلِ نظر توجہ فرمائیں گے
۔۔۔۔
کون تیری دلِ بیمار مسیحا ئی کرے
دورِ حاضر کے بتوں کو تو جبیں سائی کرے

خامیاں اپنی کسی طور نظر آئیں تجھے
حق کسی روز تجھے تیرا تماشا ئی کرے

کام کی بات ترے پاس نہیں ہے کوئی
حسرتِ خام !کوئی تیری پذیرا ئی کرے

تیرے بے کار خیالوں کو نہیں پڑھتا کوئی
کارِ بے کار میں تو صرف توانا ئی کرے

اس زمانے میں ترا ساتھ کوئی کیا دے گا
درد احمدؔ ہے جو اک تجھ سے شناسا ئی کرے

جناب الف عین ، جناب ایوب ناطق ، جناب محمد خلیل الرحمٰن ، جناب محمد اسامہ سَرسَری ، جناب قیصرانی ، جناب فلک شیر ، جناب نیرنگ خیال ، جناب سید عاطف علی ، جناب سید فصیح احمد ، جناب نایاب ، جناب دوست ، جناب محمد وارث اور دیگر احبابِ گرامی۔​
بہت اچھی غزل پیش کی ہے آسی بھائی نے اس کےمجموعی لہجے کا تاثر شستہ ، دھیما اور کسی قدر پختہ بھی لگ رہا ہے ۔ البتہ بیان اور اسلوب کہیں کہیں تخیل اور نفسِ مضمون کو مکمل گرفت میں نہیں لے رہا ۔کہیں بیانیہ زبان کے مھاورے سے ہٹنے کی وجہ سے یا کہیں تراکیب کی تقدیم و تاخیر کی وجہ سے۔۔۔۔
مثلاً " کو جبیں سائی " کی بجائے "کی" جبیں سائی استعمال ہو تو قدرے بہتر ہو گا۔تاہم اس کا مجرد استعمال زیادہ بہتر ہے لیکن یہ ردیف سے موافق نہیں۔ ۔
"حق کسی" میں تھوڑا سا بُعد ہوتا تو بھی اچھا ہوتا۔مگر یہ کوئی بہت زیادہ اہم نہیں ۔ اور یہ شعر بہت اچھا ہے۔
حسرت والے شعر میں بیانیہ اسلوب کی گرفت مضمون پر ذرا ڈھیلی لگی۔( اگر میں مضمون کی سمجھ سکا تو)، شاید ۔۔حسرتِ خام ! تری کون پذیرا ئی کرے؟ ۔۔استفہام کا بیان بہتر ہوسکتا تھا۔ ۔۔۔ اور "ہے کوئی" کی جگہ "جب کوئی" ، بھی ہوسکتا تھا۔
کار بے کار والا شعر مجموعی طور پر کمزور اور سپاٹ سا ہے۔
مقطع میں بھی اسلوبو انداز زیادہ بہتر ہونا چاہیے ۔
مجموعی طور پر رواں اور دھیما انداز البتہ متاثر کن لگتاہے۔
 
آخری تدوین:
بہت اچھی غزل پیش کی ہے آسی بھائی نے اس کےمجموعی لہجے کا تاثر شستہ ، دھیما اور کسی قدر پختہ بھی لگ رہا ہے ۔ البتہ بیان اور اسلوب کہیں کہیں تخیل اور نفسِ مضمون کو مکمل گرفت میں نہیں لے رہا ۔کہیں بیانیہ زبان کے مھاورے سے ہٹنے کی وجہ سے یا کہیں تراکیب کی تقدیم و تاخیر کی وجہ سے۔۔۔۔
مثلاً " کو جبیں سائی " کی بجائے "کی" جبیں سائی استعمال ہو تو قدرے بہتر ہو گا۔تاہم اس کا مجرد استعمال زیادہ بہتر ہے لیکن یہ ردیف سے موافق نہیں۔ ۔
"حق کسی" میں تھوڑا سا بُعد ہوتا تو بھی اچھا ہوتا۔مگر یہ کوئی بہت زیادہ اہم نہیں ۔ مگر یہ شعر بہت اچھا ہے۔
حسرت والے شعر میں بیانیہ اسلوب کی گرفت مضمون پر ذرا ڈھیلی لگی۔( اگر میں مضمون کی سمجھ سکا تو)، شاید ۔۔حسرتِ خام ! تری کون پذیرا ئی کرے؟ ۔۔استفہام کا بیان بہتر ہوسکتا تھا۔ ۔۔۔ اور "ہے کوئی" کی جگہ "جب کوئی" ، بھی ہوسکتا تھا۔
کار بے کار والا شعر مجموعی طور پر کمزور اور سپاٹ سا ہے۔
مقطع میں بھی اسلوبو انداز زیادہ بہتر ہونا چاہیے ۔
مجموعی طور پر رواں اور دھیما انداز البتہ متاثر کن لگتاہے۔
محترم جناب سید عاطف علی صاحب آپ کی گراں قدر رائے بارے میری غزل کے مجھ نو آموز کے لئے مسرت کا با عث ہے بے حد شکریہ
 
بہت اچھی غزل پیش کی ہے آسی بھائی نے اس کےمجموعی لہجے کا تاثر شستہ ، دھیما اور کسی قدر پختہ بھی لگ رہا ہے ۔ البتہ بیان اور اسلوب کہیں کہیں تخیل اور نفسِ مضمون کو مکمل گرفت میں نہیں لے رہا ۔کہیں بیانیہ زبان کے مھاورے سے ہٹنے کی وجہ سے یا کہیں تراکیب کی تقدیم و تاخیر کی وجہ سے۔۔۔۔
مثلاً " کو جبیں سائی " کی بجائے "کی" جبیں سائی استعمال ہو تو قدرے بہتر ہو گا۔تاہم اس کا مجرد استعمال زیادہ بہتر ہے لیکن یہ ردیف سے موافق نہیں۔ ۔
"حق کسی" میں تھوڑا سا بُعد ہوتا تو بھی اچھا ہوتا۔مگر یہ کوئی بہت زیادہ اہم نہیں ۔ اور یہ شعر بہت اچھا ہے۔
حسرت والے شعر میں بیانیہ اسلوب کی گرفت مضمون پر ذرا ڈھیلی لگی۔( اگر میں مضمون کی سمجھ سکا تو)، شاید ۔۔حسرتِ خام ! تری کون پذیرا ئی کرے؟ ۔۔استفہام کا بیان بہتر ہوسکتا تھا۔ ۔۔۔ اور "ہے کوئی" کی جگہ "جب کوئی" ، بھی ہوسکتا تھا۔
کار بے کار والا شعر مجموعی طور پر کمزور اور سپاٹ سا ہے۔
مقطع میں بھی اسلوبو انداز زیادہ بہتر ہونا چاہیے ۔
مجموعی طور پر رواں اور دھیما انداز البتہ متاثر کن لگتاہے۔

حضرتِ شاعر اپنے نیل کنٹھ کے چوزے کے ساتھ محفل میں موجود ہیں۔
آپ کی رائے بہت متوازن ہے۔ :bashful:
 
Top