نقد و نظر

پیرِ مغاں ہے مردِ خلیق
بڑوں سے سنتے آئے ہیں کہ شاعر یا تو ہوتا ہے یا نہیں ہوتا، آپ کسی غیر شاعر کو شاعر نہیں بنا سکتے ایک کمزور شاعر کو مضبوط کرنے اور اس کی صلاحیتوں کو نکھارنے میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ محمد اسامہ سرسری کی تربیتی کتاب ’’آؤ شاعری سیکھیں‘‘ کی سادہ بیانی اچھی لگی۔ ایک مشکل بات کو آسان کر کے پیش کرنا بذاتِ خود ایک مشکل کام ہے، اس کا مجھے بھی کچھ کچھ تجربہ ہے۔ سو، میں کہہ سکتا ہوں کہ جنابِ سرسری اپنے ہی قبیلے کے شخص ہیں۔ پیرایۂ اظہار کو دل چسپ بنانا بھی تو فن ہے، اور فاضل مصنف نے اس فن کو خوبی سے برتا ہے۔ خود کو ایک مبتدی کی سطح پر رکھ کر اس کتاب کو پڑھنا ایک مشکل تجربہ تھا، تاہم وہاں پہنچ کر اچھا لگا۔

انسانی کلام میں، وہ شعر ہو یا کچھ اور ہو، آخری درجے تک رسائی محال ہے۔ اچھے لکھے اور اچھے کہے کو اور اچھا کرنے کی گنجائش ہمیشہ رہا کرتی ہے، سند کا درجہ حاصل کرنا کوئی سہل بات ہے کیا؟ چند ایک مقامات پر کچھ علمی اِشکالات، یا مناسب تر الفاظ میں، میرے تحفظات کے باوجود ایک نو آموز کو انگلی پکڑ کر چلانے کا اسلوب جو فاضل مصنف نے اپنایا ہے، عمدہ بھی ہے، پرکشش بھی ہے اور لائقِ تحسین بھی ہے۔

میرا تھیسس بھی یہ ہے کہ عروض اور قوافی کے علوم کو شعر میں ممد و معاون ہونا چاہئے، کہ شعر محض کلامِ منظوم سے بہت آگے جا کر شعر کہلاتا ہے۔ گزشتہ دنوں مصنف سے علمِ قوافی کی تشکیلِ نو پر بات ہو رہی تھی، مجھے امید ہے کہ ان کی آئندہ تصنیف میں اس پر توجہ بھی شامل ہو گی اور کچھ مختصر مختصر باتیں زبان کے قواعد، روزمرہ ، محاورہ، املاء وغیرہ پر بھی کہ ایک شاعر کے لئے ان کی اہمیت دوچند ہے۔ یہ سارے علوم بجائے خود بہت وسیع ہیں اوران پر کام بھی بہت ہو چکا ہے، یہاں میرا اشارہ اس طرف ہے کہ زیرِ نظر کتاب ’’آؤ شاعری سیکھیں‘‘ کا اسلوب نئے لکھنے والوں کے لئے بہتر معاون ہو سکتا ہے۔ ایسی مفید کتاب کی اشاعت پر فاضل مصنف کو ہدیۂ تبریک پیش کرتا ہوں۔

محمد یعقوب آسیؔ (ٹیکسلا) پاکستان
17؍ فروری 2015ء​
 
10959057_326504394211935_5456152277470685021_o.jpg
 
گزشتہ رات آمد ہوئی ہے ، برائے نقد و نظر پیش ہے:

(1)
اہل ثروت کو اگرچہ مال نے غالب رکھا
اہل جنت کو مگر اعمال نے غالب رکھا

(2)
اس عدو نے رکھ دیا مغلوبِ رد و کد ہمیں
جس کو ہم لوگوں کی قیل و قال نے غالب رکھا

(3)
ہے بظاہر کارواں کے غم کا آفاقی صلہ
درحقیقت میر کو اقبال نے غالب رکھا

(4)
سَرؔسَری! فکر و تغزل کی اہمیت بجا
اِس غزل کو بے خودی کے حال نے غالب رکھا
 
آخری تدوین:
۔۔۔ قاعدے کی ایک بات!
آپ کی بات اچھی ہو، اور اس کا مفہوم پیارا ہو، حقیقت پر مبنی ہو تو شعر میں بیان کرتے ہوئے اس کو اسلوب بھی اتنا اچھا اور پیارا دیجئے۔ آپ کے کہے کی کشش اور تاثیر دہ چند ہو جائے گی۔ اسلوب میں اوزان و قوافی کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔
 
آخری تدوین:

شاہد شاہنواز

لائبریرین
ہماری رائے حاضر ہے (حالانکہ یاد نہیں کیا گیا) ÷÷÷÷
(1)
اہل ثروت کو اگرچہ مال نے غالب رکھا
اہل جنت کو مگر اعمال نے غالب رکھا
۔۔۔ دو لوگ ایک ہی راستے پر جا رہے ہوں، ان کا مقابلہ کیا جانا، غالب آنا یا مات کھانا سمجھ میں آتا ہے ۔۔۔ راستہ بدل کر چلنے والے لوگ آپس میں مقابلہ نہیں کیا کرتے۔ اگر کوئی مشترک بات ہے جس میں مقابلہ ہوسکے تو اس کا اظہار ضروری تھا۔
(2)
اس عدو نے رکھ دیا مغلوبِ رد و کد ہمیں
جس کو ہم لوگوں کی قیل و قال نے غالب رکھا
۔۔۔کسی قدر بات بن بھی رہی ہے، دوسرے مصرعے میں صوتی اعتبار سے کمزوری لگتی ہے ۔۔ (کی کے بعد قیل ) ۔۔۔ تاہم محبوب کو عدو کہنا یا پھر عدو کو قیل و قال سے غالب رکھنا، اپنی جگہ ایک سوال ہے ۔۔۔
(3)
ہے بظاہر کارواں کے غم کا آفاقی صلہ
درحقیقت میر کو اقبال نے غالب رکھا
۔۔ یہ تاریخی حقیقت ہے بھائی ۔۔۔ کیا میر کو اقبال نے اہم شاعر بنایا۔ وہ پہلے اہم نہیں تھے؟ ۔۔۔ بظاہر کا لفظ بھی اس بیان کو مزید مشکوک کر رہا ہے ۔۔۔ ویسے بھی میر اور اقبال کا ذکر ایک مصرعے میں لایا جارہا ہے تو چاہئے تھا کہ زبردست ہوتا، اگر یہ مطلب تھا کہ اقبال نے میر کے غم کو اپنے اشعار کا خاصہ بنایا تو یہ بھی درست بات نہیں لگتی۔ میر کے غم میں گھٹن محسوس ہوتی ہے۔ اقبال کا غم آفاقی ہے ۔۔ وہاں قوم کے درد کی بات کم ہے کیونکہ میر غزل گو شاعر کے طور پر آگے آئے ۔۔۔ اقبال نظم کا شاعر ہے ۔۔۔ قومی شاعر ۔۔۔ ہوسکتا ہے ، آپ کی دلیل کچھ اور ہو۔۔۔
(4)
سَرؔسَری! فکر و تغزل کی اہمیت بجا
اِس غزل کو بے خودی کے حال نے غالب رکھا
۔۔۔ کمزور بیان ہے ۔۔۔ غزل کو بے خودی کے حال نے غالب کیا ، یا پھر بے خودی کا حال اس غزل یا شاعر پر غالب آگیا ۔۔۔ غزل پیچھے چلی گئی ۔۔۔
۔۔۔۔
طالب علم کی رائے ہے ۔۔۔ غلط بھی ہوسکتی ہے ۔۔ رہنمائی کی درخواست کے ساتھ ۔۔۔
 
ہمارے دوست ہیں محترم @فاروق احمد
اپنی غزل تنقید کے لئے پیش کرنا چاہ رہے ہیں۔ میں نے اپنے تئیں ان کی یوں مدد کر دی ہےکہ ان کی غزل یہاں پوسٹ کر رہا ہوں۔
امید واثق ہے کہ اہلِ نظر توجہ فرمائیں گے
۔۔۔۔
کون تیری دلِ بیمار مسیحا ئی کرے
دورِ حاضر کے بتوں کو تو جبیں سائی کرے

خامیاں اپنی کسی طور نظر آئیں تجھے
حق کسی روز تجھے تیرا تماشا ئی کرے

کام کی بات ترے پاس نہیں ہے کوئی
حسرتِ خام !کوئی تیری پذیرا ئی کرے

تیرے بے کار خیالوں کو نہیں پڑھتا کوئی
کارِ بے کار میں تو صرف توانا ئی کرے

اس زمانے میں ترا ساتھ کوئی کیا دے گا
درد احمدؔ ہے جو اک تجھ سے شناسا ئی کرے

جناب الف عین ، جناب ایوب ناطق ، جناب محمد خلیل الرحمٰن ، جناب محمد اسامہ سَرسَری ، جناب قیصرانی ، جناب فلک شیر ، جناب نیرنگ خیال ، جناب سید عاطف علی ، جناب سید فصیح احمد ، جناب نایاب ، جناب دوست ، جناب محمد وارث اور دیگر احبابِ گرامی۔​
 
آخری تدوین:
کون تیری دلِ بیمار مسیحا ئی کرے
دورِ حاضر کے بتوں کو تو جبیں سائی کرے

اس میں دو مسئلے ہیں، حضرت!۔
پہلے مصرعے میں غیر ضروری تعقیدِ لفظی ہے۔
تعقیدِ لفظی ہے کیا؟ تعقید (خوب اچھی طرح یا کس کر باندھنا) ۔ بسا اوقات شعر میں الفاظ کی ترتیب نثر سے مختلف ہوتی ہے۔ یہ شعر کی ضرورت بھی ہو سکتی ہے، آپ کو ایک مفہوم بھی بیان کرنا ہے اور شعر کی زمین کے مطابق کرنا ہے۔ بحر پر پورا اترنے کے لئے الفاظ کو نثر کے فطری انداز میں لانا ہر جگہ ممکن نہیں ہوتا۔ پھر آپ کے سامنے قوافی ہیں، اور ردیف بھی۔ الفاظ کو تو آگے پیچھے کرنا پڑے گا! اس عمل کو تعقیدِ لفظی کہتے ہیں یہ فنِ شعر کا حصہ ہے۔ اس کے باوجود "رواں" مصرع بھی آتا ہے یعنی اس میں الفاظ کی ترتیب بالکل نثر کی طرح ہوتی ہے۔ یہ بات یقیناً شعر کے حق میں جاتی ہے۔ جہاں الفاظ کی تبدیل شدہ ترتیب بہت دور جا پڑے یا معانی میں مخل ہونے لگے اس کو غیر ضروری یا ناروا لہا جاتا ہے۔ پہلے مصرعے ’’دلِ بیمار مسیحائی کرے‘‘ تو قطعاً مطلوب نہیں ہے، یہاں مطلوب ہے ’’کون‘‘۔ دیکھتے ہیں اس کو کس حد تک نثر کے قریب لایا جا سکتا ہے۔ اگر یہ یوں ہو:
ع: دلِ بیمار تری کون مسیحائی کرے
میرا خیال ہے معنوی تقاضا بھی پورا ہو گیا، بحر بھی نبھ گئی اور قافیہ ردیف بھی اپنی جگہ قائم رہے۔

جبیں سائی کا مطلب ہے ماتھے کو گھسانا، زمین پر ڈال دینا وغیرہ۔ یہاں تقاضا ’’بتوں کے آگے‘‘ یا ’’بتوں کے سامنے‘‘ کا ہے۔ معنوی سطح پر اگرچہ یہاں یہ ’’بتوں کو‘‘ سجدہ ہی ہے مگر لفظی سطح پر ایسا نہیں۔ ہمیں لفظ اور محاورے کا بھی دھیان رکھنا ہے۔

اس غزل کی ردیف ’’مضارع‘‘ ہے۔ فعل مضارع موقع کے مطابق حال، امر، مستقبل تینوں میں سے کسی بھی معانی میں لے آتے ہیں۔ فی زمانہ اردو میں مضارع کو حال کے معانی میں لانا کم ہو گیا ہے اور اس ترک کی وجوہ بھی ہیں۔ جیسے آپ کا مصرع کہہ رہا ہے ’’جبیں سائی کرے‘‘ یعنی تو کرتا ہے، کر رہا ہے۔ لانے کو تو بہت لوگ ایسے لاتے ہیں مگر یہ ذوقِ سلیم پر گراں گزرتا ہے۔

 
خامیاں اپنی کسی طور نظر آئیں تجھے
حق کسی روز تجھے تیرا تماشا ئی کرے

اس شعر پر میں نے پسند آوری کا اظہار کیا، اس کی خاص وجہ ہے ’’تجھے تیرا تماشائی کرے‘‘ بلکہ دوسرے پورے مصرعے کی روانی۔ پہلے مصرع میں لفظ ’’اپنی‘‘ کی نشست تھوڑی سی ثقالت پیدا کر رہی ہے (اپن پڑھنا پڑ رہا ہے)۔ یہ ثقالت بھی کسی طور دور ہو جائے تو شعر بہت اوپر اٹھ جائے۔

بہ ایں ہمہ ایک نو مشق کی حیثیت سے آپ کا یہ شعر قابلِ داد ہے۔
 
کام کی بات ترے پاس نہیں ہے کوئی
حسرتِ خام !کوئی تیری پذیرا ئی کرے

یہاں آپ کا مخاطب ہے کون؟ حسرتِ خام؟ یا وہی ایک غیر مرئی شخص جو کبھی شاعر خود ہوتا ہے اور کبھی اس کا قاری، کبھی ایک عام آدمی؟ حسرتوں کی تو پذیرائی نہیں ہوتی اور نہ حسرتیں پذیرائی چاہتی ہیں۔ ایسا مضمون لانا مقصود ہو تو کسی قدر چابک دستی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس سے ملتے جلتے مفہوم کا ایک شعر یہاں نقل کرتا ہوں:
دشتِ حسرت تو بسے گا ہی اگر مر بھی گئیں
پھر تمناؤں کا اک شہر بسانا چاہوں
(مزے کی بات کہ مضارع والا مسئلہ اس شعر میں بھی ہے)
 
تیرے بے کار خیالوں کو نہیں پڑھتا کوئی
کارِ بے کار میں تو صرف توانا ئی کرے

شعر کے دائرۂ معانی میں توانائی تو اس کی صرف ہو رہی ہے جو ’’بے کار خیالوں کو پڑھے گا، یا پڑھتا‘‘ نہ کہ ایسے خیالات کے حامل شخص کی۔ پھر یہ بھی ہے کہ خیال اپنے بس میں ہوتے کہاں ہیں، خاص طور پر جو فضا اس شعر میں بن رہی ہے۔ اور کارِ بے کار ہے یا نہیں، بلکہ یہ کام ہے ہی نہیں، خیال تو از خود اٹھتے ابھرتے چلے آتے ہیں۔
یا تو سیدھی سیدھی لکھنے کی بات کریں کہ میاں اپنی بے کار سوچوں کو لکھے جا رہے ہو، انہیں پڑھے گا کون؟ یہ مفہوم اگر ہے بھی تو شعر میں نہیں آ پایا۔
 
اس زمانے میں ترا ساتھ کوئی کیا دے گا
درد احمدؔ ہے جو اک تجھ سے شناسا ئی کرے

پہلا مصرع بہت اچھا ہے۔ خیال کی گہرائی اور گیرائی سے قطع نظر اس میں لمحۂ موجود کا المیہ بیان ہو رہا ہے اور وہ بھی بہت سہل انداز میں۔ دوسرے مصرعے میں ایک لمحے کے لئے متخلص کو نکال دیجئے تو ۔۔۔ درد ہے جو اکِ تجھ سے ۔۔ ۔۔ یہاں مقصود غالباً یہ ہے کہ ’’ایک درد ہے جو تجھ سے شناسائی کر سکتا ہے‘‘ لیکن الفاظ آگے پیچھے ہونے سے کچھ ایسا لگ رہا ہے کہ تخصیص ’’تجھ‘‘ کو مل رہی ہے بجائے ’’درد‘‘ کے۔ اور اس پر طرہ ’’درد ہے‘‘ کے عین بیچ میں تخلص؟ معانی تو مزید گڑبڑا گئے! اگر یہ کچھ اس طور ہوتا:
ع: درد ہے ایک جو احمد سے شناسائی کرے
مگر ایسے میں اوپر والے مصرعے کا ’’ترا‘‘ بے محل سا لگنے لگے گا۔ ترا کو ’’مرا‘‘ کر کے دیکھ لیں کہ احمد تخلص شاعر کا ہے اور ’’مرا‘‘ ضمیر متکلم ہے۔
اس زمانے میں مرا ساتھ کوئی کیا دے گا
درد ہے ایک جو احمد سے شناسائی کرے
بہر حال، دیکھ لیجئے گا۔
 
شعر آپ کا ہے، اختیار آپ کا ہے۔ میری سوچ کے مطابق جو بات بہتری کی طرف لے جاتی محسوس ہوئی میں نے بے کم و کاست کہہ دی۔
اسی لئے تو میں نے کہا تھا کہ بھائی مجھے دوسروں کو ناراض کرنے کا فن آتا ہے، منا لینے کا نہیں آتا۔

فاروق احمد
 
Top