نعیم صدیقی نعتیہ قصیده ٭ یہ قولِ مؤکّد ہے بہ الفاظِ مشدّد ٭ نعیم صدیقیؒ

یہ قولِ مؤکّد ہے بہ الفاظِ مشدّد
اللہ کے حمّادِ معظّم ہیں محمّدؐ

ایمان کا سرچشمہ ہے تو، صدق کا پیکر
ہر سحر کا ہے توڑ تو، ہر کذب کا ہے رد

آتا ہے میرے بعد وه قدوسیوں کے ساتھ
عیسٰیؑ نے یہ فرمایا کہ ہے ”اسمہٗ احمدؐ“

اے قومِ محمدؐ! مجھے آتی ہے ندامت
آئینِ محمدؐ ہے، نہ اخلاقِ محمدؐ

اے ختم رسلؐ! بعد ترے تا بقیامت
دعوائے نبوت جو کرے صاف ہے مرتد

تو روشنی و گرمی و رفتار کا پیغام
اور چاہنے والے ترے بےجاده و مقصد

قربان تری پاک محبت پہ ہے صد بار
حبِّ پسر و دخت و اخ و اخت و اب و جد

ایمانوں پہ یوں سایہ فگن ہے غمِ دنیا
جیسے ہو کسی تختۂ گل پر کوئی برگد

اک حسن ترا، حسنِ دل و جذبہ و کردار
اک حسن ترا، حسنِ لب و خال و مُو و خد

انساں نے ترے مکتبِ الہام سے سیکھا
کیا خوب ہے، کیا زشت ہے، کیا نیک ہے، کیا بد

مشتِ گلِ انساں میں پڑا بیج خودی کا
پروان چڑھا نخل، تو طوبیٰ کا ملا قد

آراستہ ہے انجمنِ ذکرِ محمدؐ
احساس کا یہ حال کبھی جزر، کبھی مد

پگھلے ہوئے یاقوت میں مرجاں کو ڈبو کر
لکھتا ہوں ترا نام سرِ لوحِ ز برجد

نزدیک ہے اب صاحبِؐ معراج کی درگاہ
اے عقل ٹھہر! آگے محبت کی ہے سرحد

تاریخ ہے اقوام کی تپتا ہوا صحرا
بارانِ بہاراں کی طرح تھی تری آمد

انصاف طریقہ ترا، بے لاگ لگاؤ
حق گوئی ہے شیوہ ترا، بے کینہ و بے کد

فرماں ترا، فرمانِ خداوند تعالیٰ
قرآن ہے ناطق کہ ید اللہ تھا ترا ید

مبعوث ہے، مامور ہے تو صادق و مصدوق
تو وحی کا مہبط ہے، تو الہام کا مورد

گفتار گہر بار ہے، کردار پُر انوار
اخلاق بھی محکم ترے، قانون بھی سرمد

اخشٰی ہے، تو اتقٰی ہے، تو اشجع ہے، تو ارفع
اجمل ہے، تو اکمل ہے، تو اشرف ہے، تو اسجد

واللہ تو اولٰی ہے، تو اعلٰی ہے، تو اهدیٰ
واللہ تو اسعد ہے، تو ارشد ہے تو اجود

سنت تری تبیین ہے قرآنِ مبیں کی
بے روحِ عمل ورنہ ہیں افکارِ مجرد

طاعت ہے، عبادت ہے، خدا والوں کا ہر کام
حجرہ ہو کہ جنگاہ، عدالت ہو کہ معبد

توحید کا نکتہ ہے فقط حاصلِ عرفاں
یوں پڑھنے کو صدہا ہیں تفاسیرِ مجلّد

تہذیب کا یہ نقشۂ احوال کہ جیسے
جھڑ بیری میں الجھے کسی چرواہے کا تہمد

اک سلسلۂ وحدتِ اعمال ہے ہستی
اور ہم نے بنا ڈالے ہیں خانے متعدد

اک گردشِ پُرکار ہوئی قسمتِ عشاق
اس گردشِ پُرکار کا مرکز ترا مرقد

اپنے قدمِ شوق کی زنجیر ہوں میں خود
اور میں ہی رہِ عشق میں اپنے لیے ہوں سد

مداح ترے ہم ہیں، مگر تارکِ طاعت
ناکاره ملازم کا طریقہ ہے خوشامد

ظاہر کا غلو تیری محبت میں جب آیا
دل تیری ہدایت سے ہوئے اور کی ابعد

شیدائی ترا اٹھے گا، با روئے منور
آئے گا معاند ترا با وجہِ مسوّد

وقت آئے گا جب سر ہی گریباں میں نہ ہو گا
یہ چاکِ گریباں تو محبت کی ہے ابجد

مٹی کا وہ ذرہ ہوا تابندہ ستاره
جس پر بھی تری چشمِ عنایت کی پڑی زد

دنیا کے در و بست پہ قابض بوئے طاغوت
اور دینِ محمدؐ ہوا مسجد میں مقیّد

اس دورِ مفاسد میں مجاہد ہوئے مایوس
کھو بیٹھی ہے امت تری تعلیم کا مقصد

فریاد بہ درگاه تو، اے داعیِ توحید
کافر بتراشد بت و مومن بپرستد

رزمِ حق و باطل ہو تو پھر خواب و خورش کیا
عشاقِ مہِ بدر! بڑھو جانبِ مشہد

بڑھنا ہے ہمیں تیروں کی بوچھاڑ کے اندر
اعداء ہیں کہ ہر سمت میں بیٹھے ہیں بہ مرصد

کوئی بھی زمیں ہو، میں پہنچ جاؤں گا تجھ تک
وا میرے تخیل پہ ہیں راہیں متعدد

بہتے ہیں یہاں زندگیِ تازہ کے دھارے
روحوں کے لیے چشمۂ حیواں ترا مرقد

ہے فقر خزانہ ترا، دعوت ترا پرچم
تلوار شجاعت ہے، نبوت تری مسند

ایک آدھ کرن! اے قمرِ چرخِ نبوت
ہُوں مجلسِ ظلمات میں قرنوں سے مقید

٭٭٭
نعیم صدیقیؒ
 

سید عاطف علی

لائبریرین
قربان تری پاک محبت پہ ہے صد بار
حبِّ پسر و دخت و اخ و اخت و اب و جد
بہت خوب ۔ ماشاءاللہ زبردست ۔ اللھم صل علی محمد
 

سید عاطف علی

لائبریرین
بہت خوب قصیدہ لکھا ہے ۔
سنت تری تبۡیِین ہے قرآنِ مبیں کی
تہذیب کا نقشۂ احوال کہ جیسے
ان مصرعوں میں کتابت کی کچھ کسر ہے شاید۔
کافر بہ تراشد بت و مومن بہ پرستد
یہاں میرے خیال میں بتراشد لکھا جانا چاہیئے ۔
 
بہت خوب قصیدہ لکھا ہے ۔


ان مصرعوں میں کتابت کی کچھ کسر ہے شاید۔

یہاں میرے خیال میں بتراشد لکھا جانا چاہیئے ۔
تبیین پر اعراب لگانے کی وجہ سے شکل بگڑ رہی تھی۔

دوسرا مصرع درست کر دیا ہے۔

کتاب میں بہ تراشد لکھا ہے، آپ کے مشورہ پر بتراشد کر رہا ہوں۔ :)
 
Top