،میرے ھمسفر تجھے کیا خبر

یہ جو وقت ھے کسی دھوپ چھاؤں کے کھیل سا

اسے دیکھتے، اسے جھیلتے

میری آنکھ گرد سے اٹ گئی

میرے خواب ریت میں کھو گئے

میرے ہاتھ برف سے ہو گئے

میرے بے خبر، تیرے نام پر

وہ جو پھول کھلتے تھے ہونٹ پر

وہ جو دیپ جلتے تھے بام پر

وہ نہیں رہے ۔۔۔۔وہ نہیں رہے

وہ جو ایک ربط تھا درمیاں

وہ بکھر گیا۔۔۔

وہ ہوا چلی

کسی شام ایسی ہوا چلی

کہ جو برگ تھے سر شاخ جاں

وہ گرا دئیے

وہ جو حرف دشت تھے ریت پر

وہ اڑا دئیے

وہ جو راستوں کے یقیں تھے

وہ جو منزلوں کے امیں تھے

وہ نشان ِ پا بھی مٹا دئیے

میرے ہمسفر ہے وہی سفر مگر ایک موڑ کے فرق سے

تیرے ہاتھ سے میرے

ہاتھ تک

وہ جو ہاتھ بھر کا تھا فاصلہ

کئی موسموں میں بدل گیا

اسے ناپتے، اسے کاٹتے

میرا سارا وقت نکل گیا

تو میرے سفر کا شریک ھے

میں تیرے سفر کا شریک ھوں

تھے جو درمیاں سے نکل گیا

کسی فاصلے کے شمار سے

کسی بے یقیں سے غبار سے

کسی رہ گزر کے حصار میں

تیرا راستہ کوئی اور ھے

!میرا راستہ کوئی اور ھے


(ناصرہ زبیری)
 
Top