کاشفی

محفلین
خدا
از: ضرر وصفیؔ

اس خرابے میں کون آئے گا
کس کا یہ انتظار رہتا ہے
کون کس کا خیال کرتا ہے
خاک اُڑتی ہوئی حوادث کی
آرزو، حسرتیں، تمنائیں
سبز سے زرد تک سفر تنہا
کیا خبر اس کی کچھ نہیں تم کو
تم ہی روٹھے ہوئے سے رہتے ہو
زیست کا درد و کرب سہتے ہو
ورنہ اک مہرباں بھی ہے اپنا
"کالے پتھر پہ
کالی چیونٹی کو
کالی راتوں میں دیکھ سکتاہے
اپنی شہ رگ سے بھی قریب ہے وہ"
سب کی آواز سُن رہا ہے وہ
اپنے دکھ درد سب سُناؤ اسے
تم ہی روٹھے ہوئے سے رہتے ہو
ورنہ اک مہرباں بھی ہے اپنا
 
Top