امجد اسلام امجد نئی نسل کا نوحہ - امجد اسلام امجد

ابوشامل

محفلین
میں سوچتا ہوں
لکھا ہے جو کچھ،پڑھا ہے جو کچھ وہ کس لئے تھا،
کہاں سے پوچھوں!
وہ کس لیے ہے کسے بتاؤں!
مجھے عقیدوں کے خواب دے کر کہا گیا،ان میں روشنی ہے
چمکتی قدروں کی چھب دکھا کر مجھے بتایا یہ زندگی ہے
سکھائے مجھ کو کمال ایسے
یقیں نہ لا ئیں سکھانے والے اگر انہیں کو میں جا سناؤں
میں کہنہ آنکھوں کی دسترس میں نئے مناظر کہاں سے لاؤں
کہاں پہ جنسِ کمال رکھوں، خیالِ تازہ کہاں سجاؤں
زمین پاؤں تلے نہیں ہے،تو کیسے ستاروں کی سمت جاؤں
پرانی قدریں جو محترم ہیں
انھیں سنبھالوں یا آنے والے نئے عقیدوں کا بھید پاؤں
وہ سب عقیدے،تمام قدریں ،خیال سارے
جو مجھ کو سکے بنا کے بخشے گئے تھے میرے حواسِ خمسہ سے معتبر تھے
جب ان کو رہبر بنا کے نکلا
تو میں نے دیکھا کہ میرے ہاتھوں میں کچھ نھیں ہے
میں ایسے بازار میں کھڑا ہوں جہاں کرنسی بدل چکی ہے
 

مغزل

محفلین
بہت خوب نظم ہے ، سبحان اللہ ۔
یہ سطور اپنی مثال آپ ہیں
کہاں پہ جنسِ کمال رکھوں، خیالِ تازہ کہاں سجاؤں
زمین پاؤں تلے نہیں ہے،تو کیسے ستاروں کی سمت جاؤں
پرانی قدریں جو محترم ہیں
انھیں سنبھالوں یا آنے والے نئے عقیدوں کا بھید پاؤں
وہ سب عقیدے،تمام قدریں ،خیال سارے
جو مجھ کو سکے بنا کے بخشے گئے تھے میرے حواسِ خمسہ سے معتبر تھے
جب ان کو رہبر بنا کے نکلا
تو میں نے دیکھا کہ میرے ہاتھوں میں کچھ نھیں ہے
میں ایسے بازار میں کھڑا ہوں جہاں کرنسی بدل چکی ہے

صرف آخر میں لفظ’’ کرنسی ‘‘ سے حسن ماند پڑ رہا ہے ۔ ’’ سکّہ ‘‘ بہترین لفظ تھا۔
بہر کیف فہد بھیا بہت خوب ، خوبصورت کلام پیش کرنے پر مبارکباد اور شکریہ
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت خوب نظم ہے ، سبحان اللہ ۔
یہ سطور اپنی مثال آپ ہیں


صرف آخر میں لفظ’’ کرنسی ‘‘ سے حسن ماند پڑ رہا ہے ۔ ’’ سکّہ ‘‘ بہترین لفظ تھا۔
بہر کیف فہد بھیا بہت خوب ، خوبصورت کلام پیش کرنے پر مبارکباد اور شکریہ

میرے خیال میں کرنسی لفظ نے ہی اس نظم میں جان ڈالی ہے ۔ کیونکہ نئے عقیدے اور سوچ کرنسی میں علامت کے طور پر موجود ہیں جبکہ امجد نے جہاں پرانے عقائد و خیالات کا ذکر کیا ہے وہاں سکے کا لفظ ہی استعمال کیا ہے۔
 
Top