مغزل
محفلین
غزل
ہر طرف شورِ فغا ں ہے کوئی سنتا ہی نہیں
قافلہ ہے کہ رواں ہے کوئی سنتا ہی نہیں
اک صدا پوچھتی رہتی ہے کوئی زندہ ہے ؟
میں کہے جاتا ہوں ہاں ہے کوئی سنتا ہی نہیں
میں جو چپ تھا ، ہمہ تن گوش تھی بستی ساری
اب مرے منھ میں زباں ہے کوئی سنتا ہی نہیں
ایک ہنگامہ کہ اس دل میں بپا رہتا تھا
اب کراں تابہ کراں ہے کوئی سنتا ہی نہیں
دیکھنے والے تو اس شہر میں یوں بھی کم تھے
اب سماعت بھی گراں ہے کوئی سنتا ہی نہیں
کیا ستم ہے کہ مرے شہر میں میری آواز
جیسے آوازِ سگاں ہے کوئی سنتا ہی نہیں
عباس رضوی
کل مجھے اسپارکو کے ایک مشاعرے میں جناب ِ عباس رضوی سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا مجھے معلوم نہ تھا کہ جناب میرے ہی بلاک میں سکونت رکھتے ہیں ۔۔ بہر کیف ایک غزل جناب سے سنی تو روح پھڑک اٹھی سوچا کہ آپ کی نذر کردوں ۔۔ مذکورہ بالا ٍغزل عباس رضوی کے شعری مجموعے ’’ خوابوں سے تراشے ہوئے دن ‘‘ میں شامل ہے ۔ اس کتاب کو اکادمی ادبیاب پاکستان اسلام آباد نے 19985 کا بہترین شعری مجموعہ قرار دیتے ہوئے ’’ علامہ اقبال ایوارڈ‘‘ عطا کیا ۔۔۔۔۔۔۔والسلامہر طرف شورِ فغا ں ہے کوئی سنتا ہی نہیں
قافلہ ہے کہ رواں ہے کوئی سنتا ہی نہیں
اک صدا پوچھتی رہتی ہے کوئی زندہ ہے ؟
میں کہے جاتا ہوں ہاں ہے کوئی سنتا ہی نہیں
میں جو چپ تھا ، ہمہ تن گوش تھی بستی ساری
اب مرے منھ میں زباں ہے کوئی سنتا ہی نہیں
ایک ہنگامہ کہ اس دل میں بپا رہتا تھا
اب کراں تابہ کراں ہے کوئی سنتا ہی نہیں
دیکھنے والے تو اس شہر میں یوں بھی کم تھے
اب سماعت بھی گراں ہے کوئی سنتا ہی نہیں
کیا ستم ہے کہ مرے شہر میں میری آواز
جیسے آوازِ سگاں ہے کوئی سنتا ہی نہیں
عباس رضوی