میں‌ نے دیکھا تھا

دوست

محفلین
میں نے دیکھا تھا ان دنوں میں اسے
جب وہ کھلتے گلاب جیسا تھا
اس کی پلکوں سے نیند چھنتی تھی
اس کا لہجہ شراب جیسا تھا
لوگ پڑھتے تھے خال و خد اس کے
وہ ادب کی کتاب جیسا تھا
بولتا تھا زبان خوشبو کی
لوگ سنتے تھے دھڑکنوں میں اسے
میں نے دیکھا تھا ان دنوں میں اسے
 
میں نے دیکھا تھا ان دنوں میں اسے
جب وہ کھلتے گلاب جیسا تھا
اُس کی پلکوں سے نیند چھنتی تھی
اُس کا لہجہ شراب جیسا تھا
اُس کی زلفوں سے بھیگتی تھی گھٹا
اُس کا رُخ ماہتاب جیسا تھا
لوگ پڑھتے تھے خال و خد اُس کے
وہ ادب کی کتاب جیسا تھا
جب وہ ہنس ہنس کے بات کرتا تھا
دل کے خیمے میں رات کرتا تھا
رنگ پڑتے تھے آنچلوں میں اُسے
بولتا تھا زبان خوشبو کی
لوگ سنتے تھے دھڑکنوں میں اُسے
ساری آنکھیں تھیں آئنیے اُس کے
سارے چہروں میں انتخاب تھا وہ
سب سے گھل مل کے اجنبی رہنا
ایک دریا نما سراب تھا وہ
خواب یہ ہے کہ وہ حقیقت تھا
یہ حقیقت ہے کوئی خواب تھا وہ
دل کی دھرتی پہ آسماں کی طرح
صورتِ سایہ و سحاب تھا وہ
اپنی نیندیں اُسی کی نذر ہوئیں
میں نے پایا تھا رت جگوں میں اُُسے
یہ مگر دیر کی کہانی ہے
یہ مگر دور کا فسانہ ہے
اُس کے میرے ملاپ میں حائل
اب تو صدیوں بھرا زمانہ ہے
اب تو یوں ہے کہ حال اپنا بھی
دشتِ ہجراں کی شام جیسا ہے
کیا خبر اِن دنوں وہ کیسا ہے؟
میں نے دیکھا تھا اُن دنوں میں اُسے
جب وہ کھلتے گلاب جیسا تھا

محسن نقوی
 
آخری تدوین:
Top