میرے پسندیدہ اشعار

سارا

محفلین
میں وہ مجرم ہوں جو ہر دور میں سچ بولتا ہوں
اس خطا پر مجھے سُولی پر چڑھایا جائے

جس سے روشن ہیں ابھی تک میری یادوں کے چراغ
کیسے ممکن ہے کہ وہ شخص بھلایا جائے۔۔
 

عمر سیف

محفلین
مِلو کے آج کوئی بات روبرو کر لیں
یہ کیوں ہیں دوریاں، کچھ اس پہ گفتگو کر لیں
کریں گے پھر سے عبادت تمھارے چہرے کی
کے پہلے آنکھ کو اشکوں سے باوضو کر لیں
 

سارا

محفلین
مرے لہجے میں مرے عہد کی سچائی ہے
میری آواز سے آواز ملاتے رہنا

یہ نہ ہو شہر میں تنہائی کے مجرم ٹھہرو
دل ملیں یا نہ ملیں ہاتھ ملاتے رہنا۔۔
 

سارا

محفلین
چھپائے دل میں غموں کا جہاں بیٹھے ہیں
تمہاری بزم میں ہم بے زبان بیٹھے ہیں

یہ اور بات ہے کہ منزل پہ ہم پہنچ نہ سکے
مگر یہ کم ہے کہ راہوں کو چھان بیٹھے ہیں۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
پھول خوشبو کے نشے ہی میں بکھر جاتے ہیں
لوگ پہچان بناتے ہوئے مر جاتے ہیں

منزلیں اُن کا مُقدّر کہ طلب ہو جن کو
بے طلب لوگ تو منزل سے گُزر جاتے ہیں
(سعد اللہ شاہ)
 

عیشل

محفلین
بے زمین لوگوں کو
بے قرار آنکھوں کو
بد نصیب قدموں کو
جس طرف بھی لے جائیں
راستوں کی مرضی ہے
بے نشاں جزیروں پر
بد گماں شہروں میں
بے زباں مسافر کو
جس طرف بھی بٹھکا دیں
راستوں کی مرضی ہے
روک لیں یا بڑھنے دیں
تھام لیں یا گرنے دیں
وصل کی لکیروں کو
توڑ دیں یا ملنے دیں
راستوں کی مرضی ہے
اجنبی کوئی لا کر ہمسفر بنا ڈالیں
ساتھ چلنے والے کی راکھ بھی اُڑا ڈالیں
یا مسافتیں ساری
خاک میں ملا ڈالیں
راستوں کی مرضی ہے
راستوں کی مرضی ہے!!!!
 

سارہ خان

محفلین
دیکھنا کچھ ہے دیکھتے کچھ ہیں
مسئلے کچھ ہیں، سوچتے کچھ ہیں
ہم دُعاؤں میں بھی نہیں ہیں مخلص
چاہتے کچھ ہیں مانگتے کچھ ہیں
 

سارہ خان

محفلین
اچھے، بُرے کبھی ہیں حالات آدمی کے
پیچھے لگے ہُوئے ہیں دن رات آدمی کے

رخصت ہُوئے تو جانا، سب کام تھے ادھورے
کیا کیا کریں‌جہاں میں، دو ہاتھ آدمی کے

مٹی سے وہ اُٹھا ہے، مٹی میں جا ملے گا
اُڑتے پھریں گے اک دن، ذرّات آدمی کے

اِک آگ حسرتوں کی، سوچوں کا اِک سمندر
کیا کیا وبال یا رب! ہیں ساتھ آدمی کے؟

اس دورِ ارتقا میں، منذر قدم قدم پر
پامال ہو رہے ہیں، جذبات آدمی کے

بشیر منذر
 

شمشاد

لائبریرین
دل میں تمہارے عکس ہمارا نہیں رہا
ہم کو بھی اب خیال تمہارا نہیں رہا

سود و زیاں کا دونوں کو رہتا رہا خیال
اپنی شکست میں بھی خسارا نہیں رہا
 

فرحت کیانی

لائبریرین
پتھر ہی سہی، راہ میں حائل تو رہوں گا
کچھ دیر تیرا مدِ مقابل تو رہوں گا

جب تک تیری بخشش کو بھرم کُھل نہیں جاتا
اے میرے سخی! میں تیرا سائل تو رہوں گا

اس واسطے زندہ ہوں سرِ مقتلِ یاراں
وابستہء کم ظرفیِ قاتل تو رہوں گا

اے تیز ہوا میرا دھواں دیکھ کے جانا
بجھ کر بھی نشانِ راہِ منزل تو رہوں گا

دشمن ہی سہی نام تو لے گا میرا تُو بھی
یوں میں تیری آواز میں شامل تو رہوں گا

محسن ضدِ اعدا سے اگر مر بھی گیا میں
معیارِ تمیزِ حقِ باطل تو رہوں گا

۔۔۔محسن نقوی
 
نیند جب خوابوں سے پیاری ہو تو ایسے عہد میں
خواب دیکھے کون اور خواب کو دے تعبیر کون
ریت ابھی پچھلے مکانوں کی نہ واپس آئی تھی
پھر لب ساحل گھروندہ کر گیا تعمیر کون
 
Top