میرے پسندیدہ اشعار

سیما علی

لائبریرین
برگشتۂ یزدان سے کچھ بھول ہوئی ہے
بھٹکے ہوئے انسان سے کچھ بھول ہوئی ہے
تا حد نظر شعلے ہی شعلے ہیں چمن میں
پھولوں کے نگہبان سے کچھ بھول ہوئی ہے
جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس عہد کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے
ہنستے ہیں مری صورت مفتوں پہ شگوفے
میرے دل نادان سے کچھ بھول ہوئی ہے
حوروں کی طلب اور مے و ساغر سے ہے نفرت
زاہد ترے عرفان سے کچھ بھول ہوئی ہے

ساغر صدیقی
 

سیما علی

لائبریرین
وہ دو بھنور , جو تیرے گالوں پہ رقص کرتے ھیں
دل آج بھی , اُنہی تُغیانیوں میں رھتا ھے.
ہم بیکسوں کی بزم میں آئے گا اور کون
آ بیٹھتی ہے گردشِ دوراں کبھی کبھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قابلؔ اجمیری
 

سیما علی

لائبریرین
دیوتا بننے کی حسرت میں معلق ہو گئے
اب ذرا نیچے اُترئیے آدمی بن جائیے

دل کی بے حیائی کو آواز بنا لیتے ہیں
جب کوئی لفٹ نہ کرائے تو یونہی پھسا لیتے ہیں

میں صرف محبت کا طلب گار تھا لیکن
اِس میں تو بہت کام اضافی نکل آئے
سعود عثمانی
 

سیما علی

لائبریرین
شیخ جانے ……کبیرہ ہے یا صغیرہ ہے
ہمارے پاس ………گناہوں کا ذخیرہ ہے!

وہ دوستی تو خیر اب نصیبِ دشمناں ہوئی
وہ چھوٹی چھوٹی رنجشوں کا لُطف بھی چلا گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناصر رضا کاظمی
 

سیما علی

لائبریرین
تیری صُورت سے نہیں ملتی , کسی کی صُورت
ھم جہاں میں , تیری تصویر لیے پھرتے ھیں۔
بے سبب کب کوئی رسوائے فغاں ہوتا ہے
دل سے جب آگ نکلتی ہے دهواں ہوتا ہے
تو جو ہے پاس ، تو اک زندہ حقیقت ہے جہاں
تو نہیں جب، تو یہ وہم و گماں ہوتا ہے
جگر مراد آبادی
 

سیما علی

لائبریرین
ﻃﻮﻝ ﻏﻢ ﺣﯿﺎﺕ ﺳﮯ ﮔﮭﺒﺮﺍ ﻧﮧ ﺍﮮ ﺟﮕﺮؔ
‏ﺍﯾﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺷﺎﻡ ﮨﮯ ﺟﺲ ﮐﯽ ﺳﺤﺮ ﻧﮧ ﮨﻮ

‏ﺟﮕﺮ ﻣﺮﺍﺩ ﺁﺑﺎﺩﯼ
 

سیما علی

لائبریرین
زندگی تو ہی مختصر ہو جا
شب غم مختصر نہیں ہو گی
تھی ایک زندگی کے برابر وہ ایک رات
اُس رات کو بسر کیا ___ اور تا سحر کیا
عبید اللہ علیم
 

سیما علی

لائبریرین
بھولی بسری چند امیدیں ۔۔۔۔ چند فسانے یاد آئے
تم یاد آئے ۔۔۔۔۔ اور تمہارے ساتھ زمانے یاد آئے
سید رضی ترمذی
 

سیما علی

لائبریرین
یہ نوِید اَوروں کو جا سُنا ___ ہم اسیرِ دام ہیں ___ اے صبا
ہمیں کیا چمن ہے جو رنگ پر ____ ہمیں کیا جو فصلِ بہار ہے
اکبرالہٰ آبادی
 

سیما علی

لائبریرین
حرف و خیال و تازگی، شعری جمال اور شے
گویا وہ حسن اور ہے اس کی سنبھال اور شے

دیکھ یہ تو، نہیں ہے تو، دیکھ یہ میں، نہیں ہوں میں
موت الگ معاملہ عین وصال اور شے

یعنی کہ عشق کیجیے، یعنی یہ عمر کچھ نہیں
یعنی کہ شوق اور شے، اہل و عیال اور شے

یعنی فقیر خامشی ،یعنی گدائی شور ہے
یعنی یہ رقص کچھ نہیں، یعنی دھمال اور شے

جو نہ دکھائی دے سکے، اس پر یقین کیجیے
عین جمال اور ہے عکسِ جمال اور شے

تو نے جو پالیا، وہ کیا ،مجھ سے جو کھو گیا وہ کیا!
تیرا عروج کچھ نہیں، میرا زوال اور شے

دیکھ جنون و خبط میں فرق بہت ہے دوستا
عشق کی آگ اور ہے تیرا ابال اور شے

دل میں ابھر چکا ہے جو اس کا غروب ہی نہیں
یعنی یہ شرق اور ہے گویا شمال اور شے

آزاد حسین آزاد
 

سیما علی

لائبریرین
عبرت سرائے دہر میں وہ بھی لہولہان تھا
اپنے تئیں جو شہر میں دہشت کا اک نشان تھا

خوف میں رکھ دیا گیا کیسی کشش کا ذائقہ
وہ بھی ہے محوِ گفتگو کل تک جو بے زبان تھا

آگ لگے پڑاؤ کو رستے ترستے رہ گئے
آیا ہی راس کیوں اسے میرا جو کاروان تھا

ہم نے تھے اپنے ظرف میں خود ہی شگاف کر لیے
دعوت پہ کیا گلہ کریں جیسا بھی میزبان تھا

آتا ہے خوف کیوں تجھے نیچے کی سمت دیکھ کر
دھرتی کا شانہ مت پکڑ تیرا یہ پائدان تھا

منیر جعفری
 

سیما علی

لائبریرین
زرد ہوائیں ، زرد آوازیں، زرد سرائے شام خزاں
زرد اداسی کی وحشت ہے اور فضائے شام خزاں

تنہائی کا اک جنگل ہے ، سنّاٹا ہے اور ہوا
پیڑوں کے پیلے پتے ہیں نغمہ سرائے شام خزاں
🖤
جون ایلیا
 

سیما علی

لائبریرین
آنکھ لگتے ہی مِری نیند اڑانے لگ جائیں
خواب چڑیوں کی طرح شور مچانے لگ جائیں

یہ بھی ممکن ہے کوئی روکنے والا نہ ہو
یہ بھی ممکن ہے یہاں مجھ کو زمانے لگ جائیں

دیکھ اے حسنِ فراواں! یہ بہت ممکن ہے
میرا دل تک نہ لگے تیرے خزانے لگ جائیں

عباس تابش
 

سیما علی

لائبریرین
سُرمئی شال کا ڈالے ھوئے ماتھے پہ سِرا
بال کھولے ھوئے، صندل کا لگائے ٹِیکا
یوں جو ھنستی ھوئی تُو صبح کو آ جائے ذرا
باغِ کشمیر کے پھولوں کو اچھنبا ھو جائے

لے کے انگڑائی جو تُو گھاٹ پہ بدلے پہلو
چلتا پھرتا نظر آ جائے ندی پر جادو
جھک کہ منھ اپنا جو گنگا میں ذرا دیکھ لے تُو
نِتھرے پانی کا مزا اور بھی میٹھا ھو جائے

صبح کے رنگ نے بخشا ھے وہ مُکھڑا تجھ کو
شام کی چھاؤں نے سونپا ھے وہ جُوڑا تجھ کو
کہ کبھی پاس سے دیکھے جو ھِمالا تجھ کو
اِس ترے قد کی قسم! اور بھی اونچا ھو جائے

تُو اگر سیر کو نکلے تو اُجالا ھو جائے

جوشؔ ملیح آبادی
hYZUy9s.jpg
 

سیما علی

لائبریرین

نذرِ فیضؔ ۔ افتخار عارف​

جو فیضؔ سے شرفِ استفادہ رکھتے ہیں
کچھ اہلِ درد سے نِسبت زیادہ رکھتے ہیں
رُمُوزِ مُملکتِ حرف جاننے والے
دِلوں کو صُورتِ معنی کشادہ رکھتے ہیں
شبِ ملال بھی، ہم رہْروانِ منزلِ عِشْق
وصالِ صُبح ِسفر کا اِرادہ رکھتے ہیں
جمالِ چہرۂ فردا سےسُرخ رُو ہے جو خواب
اُس ایک خواب کو جادہ بہ جادہ رکھتے ہیں
مُقامِ شُکر کہ اِس شہرِ کج ادا میں بھی لوگ
لحاظِ حرفِ دل آویز و سادہ رکھتے ہیں
بنامِ فیضؔ، بجانِ اسدؔ فقیر کے پاس
جو آئے آئے کہ ہم دِل کشادہ رکھتے ہیں
 

سیما علی

لائبریرین
کون سی قوم فقط تیری طلبگار ہوئی
اور تیرے لئے زحمت کشِ پیکار ہوئی
کس کی شمشیر جہاں‌گیر ، جہاں‌دار ہوئی
کس کی تکبیر سے دنیا تری بیدار ہوئی
کس کی ہیبت سے صنم سہمے ہوئے رہتے تھے
مُنہ کے بَل گر کے ھُوَاللہُاَحَد‘ کہتے تھے
علامہ سر محمد اقبال
 

سیما علی

لائبریرین
دلیلِ صبحِ روشن ہے ستاروں کی تنک تابی
افق سے آفتاب ابھرا گیا دورِ گراں خوابی

عروقِ مردۂ مشرق میں خونِ زندگی دوڑا
سمجھ سکتے نہیں اس راز کو سینا و فارابی

مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفانِ مغرب نے
تلاطم ہائے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی

عطا مومن کو پھر درگاہِ حق سے ہونے والا ہے
شکوہِ ترکمانی ذہنِ ہندی نطقِ اعرابی

اثر کچھ خواب کا غنچوں میں باقی ہے تو اے بلبل!
“نوا را تلخ تر می زن چو ذوقِ نغمہ کم یابی”

تڑپ صحنِ چمن میں آشیاں میں شاخساروں میں
جُدا پارے سے ہو سکتی نہیں تقدیرِ سیمابی

وہ چشمِ پاک‌بیں کیوں زینتِ برگستواں دیکھے
نظر آتی ہے جس کو مردِ غازی کی جگر تابی

ضمیرِ لالہ میں روشن چراغِ آرزو کر دے
چمن کے ذرے ذرے کو شہیدِ جستجو کر دے
علامہ سر محمد اقبال
 

سیما علی

لائبریرین
میں نے راحت سے ترے ہجر کی راتیں کاٹیں
چارا سازاں براندیش کی باتیں کاٹیں
دل جو تڑپا تری فرقت میں تو آرام رہا
رات دن تیرے تصور سے مجھے کام رہا
کیا گلا خواب میں صورت نہ دکھائی مجھ کو
نیند ہی جب نہ شب غم کبھی آئی مجھ کو
دل مرا جلوہ‌‌ گہ طور نظر آتا ہے
ہر ستارے میں ترا نور نظر آتا ہے
رات کو جلوۂ مستور ترا پھیلا ہے
چاند کا نور نہیں نور ترا پھیلا
شب کو وا دیدۂ بے دار بیدار رہا کرتا ہے
ہر ستارہ مجھے حیرت سے تکا کرتا ہے
ساتھ میرا تیرا اے آئینہ رہتا تھا
وہ بھی دن یاد ہیں جب سامنے تو رہتا تھا
جگر وارثی
 

سیما علی

لائبریرین
طاری ہے اک سکوت جہان خراب پر
ہنگامہ زار دہر کی ہر شے خموش ہے
مے خانہ حیات ہے گہوارۂ سکوں
مے خوار ہوش میں ہے نہ بادہ فروش ہے
دست طلب ہے سبحہ شماری سے بے نیاز
مصروف خواب زاہد پشمینہ پوش ہے
رندِ خراب حال بھی ہے بے نیاز ہوش
فردا کی اب ہے فکر نہ کچھ رنج دوش ہے
غافل ہے اپنے فرض سے خود ساقی حسیں
اب نیم باز نرگس پیمانہ نوش ہے
مضراب حسن نغمہ ترازی سے بے خبر
ساز حیات عشق سراپا خموش ہے
المختصر ہے سارا جہاں وقف بیخودی
اک راز دل فگار کو البتہ ہوش ہے
راز چاند پوری
 
Top