میرے پسندیدہ اشعار

سیما علی

لائبریرین
میں خیال ہوں کِسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے
سرِ آئینہ مِرا عکس ہے، پسِ آئینہ کوئی اور ہے
میں کِسی کے دستِ طلب میں ہوں نہ کسی کے حرفِ دعا میں ہوں
میں نصیب ہوں کِسی اور کا مجھے مانگتا کوئی اور ہے
جو وہ لوٹ آئیں تو پوچھنا نہیں دیکھنا انہیں غور سے
جنہیں راہ میں یہ خبر ملی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے
مِری روشنی تِرے خد و خال سے مختلف تو نہیں مگر
تو قریب آ تجھے دیکھ لوں تُو وہی ہے یا کوئی اور ہے
تجھے دُشمنوں کی خبر نہ تھی، مجھے دوستوں کا پتہ نہیں
تِری داستاں کوئی اور تھی، مِرا واقعہ کوئی اور ہے

سلیمؔ کوثر
 

سیما علی

لائبریرین
کدُورتوں کے درمیاں، عداوتوں کے درمیاں
تمام دوست اجنبی ہیں، دوستوں کے درمیاں
زمانہ میری داستاں پہ رو رہا ہے آج کیوں
یہی تو کل سُنی گئی تھی، قہقہوں کے درمیاں
ضمیرِ عصر میں کبھی، نوائے درد میں کبھی
سخن سرا تو میں بھی ہوں، عداوتوں کے درمیاں
شعورِ عصر ڈھونڈتا رہا ہے مُجھ کو، اور میں
مگن ہوں عہدِ رفتگاں كى عظمتوں کے درمياں
ابھی شکست کیا کہ رسمِ آخری اِک اور ہے
پکارتی ہے زندگی، ہزیمتوں کے درمیاں
ہزار بُردباریوں کے ساتھ، جِی رہے ہیں ہم
مُحال تھا یہ کارِ زیست، وحشتوں کے درمیاں
یہ سوچتے ہیں، کب تلک ضمیر کو بچائیں گے
اگر یوں ہی جِیا کریں، ضرورتوں کے درمیاں

پیرزادہ قاسم
 

سیما علی

لائبریرین
مجھ کو شکستِ دل کا مزا یاد آ گیا
‏تم کیوں اداس ہو گئے کیا یاد آ گیا

‏کہنے کو زندگی تھی بہت مختصر مگر
‏کچھ یوں بسر ہوئی کہ خدا یاد آ گیا

‏واعظ سلام لے کہ چلا مے کدے کو میں
‏فردوسِ گم شدہ کا پتا یاد آ گیا

‏برسے بغیر ہی جو گھٹا گھر کے کھل گئی
‏اک بے وفا کا عہدِ وفا یاد آ گیا


مانگیں گے اب دعا کہ اسے بھول جائیں ہم
‏لیکن جو وہ بوقتِ دعا یاد آ گیا

‏حیرت ہے تم کو دیکھ کے مسجد میں اے خمارؔ
‏کیا بات ہو گئی جو خدا یاد آ گیا

‏- خمارؔ بارہ بنکوی
 

سیما علی

لائبریرین
محبت کے بازار میں اور کیا ہے
‏کوئی دل دکھائے اگر دیکھ لینا

‏مرے سامنے غیر سے بھی اشارے
‏ادھر بھی ادھر دیکھ کر دیکھ لینا

‏نہ ہو نازک اتنا بھی مشاطہ کوئی
‏دہن دیکھ لینا کمر دیکھ لینا

‏نہیں رکھنے دیتے جہاں پاؤں ہم کو
‏اسی آستانے پہ سر دیکھ لینا

تماشائے عالم کی فرصت ہے کس کو
‏غنیمت ہے بس اک نظر دیکھ لینا

‏دیے جاتے ہیں آج کچھ لکھ کے تم کو
‏اسے وقت فرصت مگر دیکھ لینا

‏ہمیں جان دیں گے ہمیں مر مٹیں گے
‏ہمیں تم کسی وقت پر دیکھ لینا

‏جلایا تو ہے داغؔ کے دل کو تم نے
‏مگر اس کا ہوگا اثر دیکھ لینا

‏- داغؔ دہلوی
 

سیما علی

لائبریرین
اب کون منتظر ہے ہمارے لئے وہاں
شام آگئی ہے لوٹ کے گھر جائیں ہم تو کیا

دل کی خلش تو ساتھ رہے گی تمام عمر
دریائے غم کے پار اتر جائیں ہم تو کیا

منیر نیازی
 

سیما علی

لائبریرین
رستہ بھی کٹھن دھوپ میں شدت بھی بہت تھی
سائے سے مگر اس کو محبت بھی بہت تھی

بارش کی دعاؤں میں نمی آنکھ کی مل جائے
جذبے کی کبھی اتنی رفاقت بھی بہت تھی

پھولوں کا بکھرنا تو مقدر ہی تھا لیکن
کچھ اس میں ہواؤں کی سیاست بھی بہت تھی

_پروینؔ_شاکر
 

سیما علی

لائبریرین
ہے یہ میری ذات کا اک بایں
ملے اس میں مجھ کو میرا نہاں
میرے ذوق کا، میرے شوق کا
میرے درد کا، میرے چین کا
میری ہر خوشی، میرا کوئی دکھ
وہ ہے اس کے ورق پر عیاں
کبھی اس کو کھول کے دیکھوں تو
یہ ملاتی ہے میری ذات سے
میں نے کب لکھا؟
میں نے کیوں لکھا؟
یہ ملاتی ہے اسی یاد سے
کوئی اس کو اپنی سکھی کہے
کوئی یہ کہے، میری رازداں
مگر میں تو بس اسے یہ کہوں
 

سیما علی

لائبریرین
زندگی نے جھیلے ہیں سب عذاب دنیا کے
بس رہے ہیں آنکھوں میں پھر بھی خواب دنیا کے

دل بجھے تو تاریکی دُور پھر نہیں ہوتی
لاکھ سر پہ آ پہنچیں آفتاب دنیا کے

دشتِ بےنیازی ہے اور میں ہوں اب لوگو
اس جگہ نہیں آتے باریاب دنیا کے

میں نے تو ہواؤں سے داستانِ غم کہہ دی
دیکھتے رہے حیراں سب حجاب دنیا کے

دیکھیں چشمِ حیراں کیا انتخاب کرتی ہے
میں کتابِ تنہائی، تم نصاب دنیا کے

زندگی سے گزرا ہوں کتنا بےنیازانہ
ساتھ ساتھ چلتے تھے انقلاب دنیا کے

ہم نے دستِ دنیا پر پھر بھی کی نہیں بیعت
جانتے تھے ہم، تیور ہیں خراب دنیا کے

پیر زادہ قاسم
 

سیما علی

لائبریرین
تعزیرِ اہتمامِ چمن کون دے گیا
مجھ کو گلاب جیسا کفن کون دے گیادیکھے جو خدّوخال تو سوچا ہے بارِہا
صحرا کی چاندنی کو بدن کون دے گیا


میری جبیں کی ساری لکیریں تیری عطا
لیکن تِری قبا کو شکن کون دے گیا

تیرے ہنر میں خلقتِ خوشبو سہی مگر
کانٹوں کو عمر بھر کی چبھن کون دے گیا

جنگل سے پوچھتی ہے ہواؤں کی برہمی
جگنو کو تیرگی میں کرن کون دے گیا

کس نے بسائے آنکھ میں اشکوں کے قافلے
بے گھر مسافروں کو وطن کون دے گیا

تجھ سے تو ہر پَل کی مسافت کا ساتھ تھا
میرے بدن کو اتنی تھکن کون دے گیا

توڑا ہے کس نے نوکِ سناں پر سکوتِ صبر
لب بستگی کو تابِ سخن کون دے گیا
 

سیما علی

لائبریرین
سجا کے سر پہ ستاروں کے تاج رکھتا ھے
زمیں پہ بھی وہ فلک کا مزاج رکھتا ہے

سنورنے والے سداآئینے کو ڈھونڈتے ھیں
بچھڑ کے بھی وہ مری احتیاج رکھتا ھے

صبا خرام خزاں پیرہن بہار بدن
وہ موسموں کا عجب امتزاج رکھتا ھے

ہم اس کے حسن کو تسخیر کرکے دیکھیں‌گے
جبیں پہ کون شکن کا خراج رکھتا ھے

چرا کے آنکھ میں‌کچھ خواب رکھ لیے محسن
کسان جیسے بچا کے اناج رکھتا ھے
 

سیما علی

لائبریرین
اِکّا دکّا صدائے زنجیر
زنداں میں رات ہو گئی ہے

ایک ایک صفت فراق! اُس کی
دیکھا ہے تو ذات ہو گئی ہے
فراق گورکپوری
 

سیما علی

لائبریرین
نظر والو! چمک پر مر رہے ہو
ہر اِک پتھر یہاں گوہر نہیں ہے

کہاں ہیں آج کل احباب محسن
صلیب و دار کا منظر نہیں ہے
محسن نقوی
 

سیما علی

لائبریرین
دَر اَندازی کرنے والی آنکھیں رسوا ہوتی ہیں
اَور جھیلوں میں جھالر دار شِکارے چلتے رہتے ہیں

دنیا اپنے بازاروں میں ہاتھ ہِلاتی رہتی ہے
اپنے دھیان کی گلیوں میں بنجارے چلتے رہتے ہیں
شناور اسحاق
 

سیما علی

لائبریرین
خلیل جبران کی نظم" pity the nation " جس کا اردو ترجمہ جناب فیض احمد فیض نے کیا

‏قابلِ رحم ہے وہ قوم
‏جس کے پاس عقیدے تو بہت ہیں
‏مگر دل یقیں سے خالی ہیں

‏قابلِ رحم ہے وہ قوم
‏جو ایسے کپڑے پہنتی ہے
‏جس کے لیے کپاس
‏اُن کے اپنے کھیتوں نے پیدا نہیں کی

‏.
 

سیما علی

لائبریرین
جو چراغ سارے بُجھا چُکے .... اُنھیں اِنتِظار کہاں رہا
یہ سُکوں کا دَورِ شدِید ہے ...... کوئی بے قرار کہاں رہا
.
جو دُعا کو ہاتھ اُٹھائے بھی ..... تو مُراد یاد نہ آ سکی
کسی کارواں کا جو ذکر تھا ..... وہ پَسِ غُبار کہاں رہا
.
یہ طلُوعِ روزِ ملال ہے .... سو گِلہ بھی کِس سے کریں گے ہم
کوئی دِل رُبا ... کوئی دِل شکن ... کوئی دِل فگار کہاں رہا
.
کوئی بات خواب و خیال کی .... جو کرو تو وقت کٹے گا اب
ہَمیں موسموں کے مزاج پر ...... کوئی اعتبار کہاں رہا
.
ہَمیں کُو بہ کُو جو لیِے پِھری .... کسی نقشِ پا کی تلاش تھی
کوئی آفتاب تھا ضو فگن ........ سرِ رہ گُزار کہاں رہا
.
مگر ایک دُھن تو لگی رہی .... نہ یہ دِل دُکھا ... نہ گِلہ ہُوا
کہ نِگہ کو رنگِ بہار پر ........ کوئی اِختیار کہاں رہا
.
سر ِدشت ہی رہا تشنہ لب ... جسے زندگی کی تلاش تھی
جسے زندگی کی تلاش تھی ....... لب جوئبار کہاں رہا
.
ادآ جعفری
 

سیما علی

لائبریرین
مشکل کہاں تھے ترکِ محبّت کے مرحلے
اے دل مگر سوال تیری زندگی کا تھا

وہ جس کی دوستی ہی متاعِ خلوص تھی
محسن وہ شخص بھی مرا دشمن کبھی کا تھا
🖤
محسن نقوی
 
Top