میرے پسندیدہ اشعار

سیما علی

لائبریرین
کسی کلی نے بھی دیکھا نہ آنکھ بھر کے مجھے
گُذر گئی جِرسِ گُل اُداس کر کے مجھے

میں سو رہا تھا کسی یاد کے شبستاں میں
جگا کے چھوڑ گئے قافلے سحر کے مجھے

میں رو رہا تھا مقدّر کی سخت راہوں میں
اُڑا کے لے گئے جادو تری نظر کے مجھے

میں تیرے درد کی طغیانیوں میں ڈوب گیا
پُکارتے رہے تارے اُبھر اُبھر کے مجھے

ترے فراق کی راتیں کبھی نہ بھولیں گی
مزے ملے انھیں راتوں میں عمر بھر کے مجھے

ذرا سی دیر ٹھہرنے دے اے غمِ دنیا
بُلا رہا ہے کوئی بام سے اتر کے مجھے

پھر آج آئی تھی اِک موجہء ہوائے طرب
سُنا گئی ہے فسانے اِدھر اُدھر کے مجھے

*ناصر کاظمی*
 

سیما علی

لائبریرین
دل کو مٹا کے داغ تمنا دیا مجھے
اے عشق تیری خیر ہو یہ کیا دیا مجھے

محشر میں بات بھی نہ زباں سے نکل سکی
کیا جھک کے اس نگاہ نے سمجھا دیا مجھے

میں اور آرزوئے وصال پری رخاں
اس عشق سادہ لوح نے بہکا دیا مجھے

ہر بار یاس ہجر میں دل کی ہوئی شریک
ہر مرتبہ امید نے دھوکا دیا مجھے

اللہ رے تیغ عشق کی برہم مزاحیاں
میرے ہی خون شوق میں نہلا دیا مجھے

خوش ہوں کہ حسن یار نے خود اپنے ہاتھ سے
اک دل فریب داغ تمنا دیا مجھے

دنیا سے کھو چکا ہے مرا جوش انتظار
آواز پائے یار نے چونکا دیا مجھے

دعویٰ کیا تھا ضبط محبت کا اے جگر
ظالم نے بات بات پہ تڑپا دیا مجھے

جگر مراد آبادی
 

سیما علی

لائبریرین
اے دلِ بے قرار... چپ ہو جا
جا چکی ہے بہار،چپ ہو جا

اب نہ آئیں گے روٹھنے والے
دیدۂ اشک بار... چپ ہو جا

جا چکا کاروانِ لالہ و گل
اڑ رہا ہے غبار. چپ ہو جا

چھوٹ جاتی ہے پھول سے خوشبو
روٹھ جاتے ہیں یار. چپ ہو جا

ہم فقیروں کا اس زمانے میں
کون ہے غمگسار.. چپ ہو جا

حادثوں کی نہ آنکھ کھل جائے
حسرتِ سوگوار. چپ ہو جا

گیت کی ضرب سے بھی اے ساغر
ٹوٹ جاتے ہیں تار. چپ ہو جا

ساغر صدیقی
 

سیما علی

لائبریرین
" تُو بھی ھمیں بِن دیکھے ، گزر جائے گا ، اِک دن
کچھ سوچ کے , ھم بھی تجھے آواز نہ دیں گے

”سلیم کوثر“
 

سیما علی

لائبریرین
قطعہ

آپ کی تلخ نوائی کی ضرورت ہی نہیں
میں تو ہر وقت ہی مایوسِ کرم رہتا ہوں
آپ سے مجھ کو ہے اک نسبتِ احساسِ لطیف
لوگ کہتے ہیں ، مگر میں تو نہیں کہتا ہوں

جون ایلیا
 

سیما علی

لائبریرین
حسرت و رنج و اَلَم قسمت مری کہہ لیجیے
کیوں کہیَں اپنی جفا میری خوشی کہہ لیجیے
ہر قدم پر گھونٹتا ہُوں اِک تمنّا کا گَلا
زندگی کو ایک پیہم خودکشی کہہ لیجیے
زندگی نے کیا دیا جز داغِ ناکامی ہمیں
جی رہے ہیں پھر بھی، پاسِ بندگی کہہ لیجیے
کیوں پشیماں آپ ہیں اپنی جفائیں سوچ کر
گردشِ دواراں ، فلک کی کجرَوی کہہ لیجیے
نقشِ حیرت یہ، وہ اِک پرتَو نگاہِ حسن کا
نقشِ مانی کہیے، سحرِ سامری کہہ لیجیے
کاشفِ رازِ حقیقت کہیے ضامن موت کو
اُور فریبِ سَر بَسَر کو زندگی کہہ لیجیے

ضامن جعفری
 

سیما علی

لائبریرین
دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار، کوئی ہمیں ستائے کیوں

دیر نہیں، حرم نہیں، در نہیں، آستاں نہیں
بیٹھے ہیں رہ گزُر پہ ہم، غیر ہمیں اُٹھائے کیوں

جب وہ جمالِ دل فروز، صورتِ مہرِ نیم روز
آپ ہی ہو نظارہ سوز، پردے میں منہ چھپائے کیوں

دشنۂ غمزہ جاں سِتاں، ناوکِ ناز بے پناہ
تیرا ہی عکسِ رُخ سہی، سامنے تیرے آئے کیوں

قیدِ حیات و بندِ غم، اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی، غم سے نجات پائے کیوں

حُسن اور اُس پہ حُسنِ ظن، رہ گئی بوالہوس کی شرم
اپنے پہ اعتماد ہے، غیر کو آزمائے کیوں

واں وہ غرورِ عزّ و ناز، یاں یہ حجابِ پاس وضع
راہ میں ہم ملیں کہاں، بزم میں وہ بلائے کیوں

ہاں وہ نہیں خُدا پرست، جاؤ وہ بے وفا سہی
جس کو ہوں دین و دل عزیز، اُس کی گلی میں جائے کیوں

غالبِ خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں
روئیے زار زار کیا، کیجئے ہائے ہائے کیوں
 

سیما علی

لائبریرین
رزق، ملبوس ، مکان، سانس، مرض، قرض، دوا
منقسم ہو گیا انساں انہی افکار کے بیچ

دیکھے جاتے نہ تھے آنسو مرے جس سے محسن
آج ہنستے ہوئے دیکھا اسے اغیار کے بیچ
محسن نقوی
 

سیما علی

لائبریرین
ہوا کا لمس جو اپنے کواڑ کھولتا ہے
تو دیر تک مرے گھر کا سکوت بولتا ہے

ہم ایسے خاک نشیں کب لبھا سکیں گے اسے
وہ اپنا عکس بھی میزان زر میں تولتا ہے
محسن نقوی
 

سیما علی

لائبریرین
اک تو کہ گریزاں ہی رہا مجھ سے بہر طور
اک میں کہ ترے نقش قدم چوم رہا تھا

دیکھا نہ کسی نے بھی مری سمت پلٹ کر
محسن میں بکھرتے ہوئے شیشوں کی صدا تھا
 

سیما علی

لائبریرین
گزرا ہے سب کو دشت سے شاید وہ پردہ دار
ہر نقش پا کے ساتھ ردا کی لکیر تھی

کل اس کا خط ملا کہ صحیفہ وفا کا تھا
محسن ہر ایک سطر حیا کی لکیر تھی
 

سیما علی

لائبریرین
میری دنیا کے بادشاہوں کی
عادتیں ہیں گداگروں جیسی

رخ پہ صحرا ہیں پیاس کے محسن
دل میں لہریں سمندروں جیسی
 

سیما علی

لائبریرین
اک دیا دل میں جلانا بھی بجھا بھی دینا
یاد کرنا بھی اسے روز بھلا بھی دینا

خط بھی لکھنا اسے مایوس بھی رہنا اس سے
جرم کرنا بھی مگر خود کو سزا بھی دینا

مجھ کو رسموں کا تکلف بھی گوارہ لیکن
جی میں‌آئے تو یہ دیوار گرا بھی دینا

کیا کہوں یہ مری چاہت ہے کہ نفرت اس کی
نام لکھنا بھی مرا لکھ کے مٹا بھی دینا

صورت نقش قدم دشت میں رہنا محسن
اپنے ہونے سے نہ ہونے کا پتہ بھی دینا
 
Top