میرے پسندیدہ اشعار

سیما علی

لائبریرین
اجالا دے چراغ رہ گزر آساں نہیں ہوتا
ہمیشہ ہو ستارا ہم سفر آساں نہیں ہوتا
جو آنکھوں اوٹ ہے چہرہ اسی کو دیکھ کر جینا
یہ سوچا تھا کہ آساں ہے مگر آساں نہیں ہوتا
بڑے تاباں بڑے روشن ستارے ٹوٹ جاتے ہیں
سحر کی راہ تکنا تا سحر آساں نہیں ہوتا
اندھیری کاسنی راتیں یہیں سے ہو کے گزریں گی
جلا رکھنا کوئی داغ جگر آساں نہیں ہوتا
کسی درد آشنا لمحے کے نقش پا سجا لینا
اکیلے گھر کو کہنا اپنا گھر آساں نہیں ہوتا
جو ٹپکے کاسۂ دل میں تو عالم ہی بدل جائے
وہ اک آنسو مگر اے چشم تر آساں نہیں ہوتا
گماں تو کیا یقیں بھی وسوسوں کی زد میں ہوتا ہے
سمجھنا سنگ در کو سنگ در آساں نہیں ہوتا
نہ بہلاوا نہ سمجھوتا جدائی سی جدائی ہے
اداؔ سوچو تو خوشبو کا سفر آساں نہیں ہوتا
ادا جعفری
 

سیما علی

لائبریرین
اجنبی سا اک ستارہ ہوں میں سیاروں کے بیچ
اک جدا کردار ہوں اپنے ہی کرداروں کے بیچ
پھر رہی ہوں بے سبب پاگل ہوا سی جا بجا
دھند میں لپٹے ہوئے خاموش کہساروں کے بیچ
اس حصار خاک کو جب توڑ کر نکلوں گی میں
ڈھونڈتے رہ جاؤگے تم مجھ کو دیواروں کے بیچ
کچھ کڑے ٹکراؤ دے جاتی ہے اکثر روشنی
جوں چمک اٹھتی ہے کوئی برق تلواروں کے بیچ
شکل یہ بہتر ہے لیکن پختگی کے واسطے
آؤ مٹی کو رکھیں کچھ دیر انگاروں کے بیچ
علینا عترت
 

سیما علی

لائبریرین
کیسے بناؤں ہاتھ پہ تصویر خواب کی
مجھ کو ملی نہ آج بھی تعبیر خواب کی
آنکھوں سے نیند روٹھ کے جانے کدھر گئی
کٹتی نہیں ہے رات کو زنجیر خواب کی
جس شہر میں ہو خواب چرانے کی واردات
کیسے کروں وہاں پہ میں تشہیر خواب کی
خوابوں نے ہر قدم پہ مجھے حوصلہ دیا
دیکھی نہیں ہے تم نے کیا تاثیر خواب کی
کب تک رہے گی تیرگی تیرے خیال میں
روشن کرے گی اس کو بھی تنویر خواب کی
اس دن تو میرے خوابوں کو پہچان جاؤ گے
جس دن لکھے گا کوئی بھی تفسیر خواب کی
خوابوں کو ہی ارمؔ نے اثاثہ بنا لیا
رہنے دو میرے پاس یہ جاگیر خواب کی
ارم زہرا
 

سیما علی

لائبریرین
نیند مستوں کو کہاں اور کدھر کا تکیہ
خشت خم خانہ ہے یاں اپنے تو سر کا تکیہ
لخت دل آ کے مسافر سے ٹھہرتے ہیں یہاں
چشم ہے ہم سے گداؤں کی گزر کا تکیہ
جس طرف آنکھ اٹھا دیکھیے ہو جائے اثر
ہم تو رکھتے ہیں فقط اپنی نظر کا تکیہ
چین ہرگز نہیں مخمل کے اسے تکیے پر
اس پری کے لیے ہو حور کے پر کا تکیہ
ہاتھ اپنے کے سوا اور تو کیا ہو ہیہات
والہ و در بہ در و خاک بسر کا تکیہ
سر تو چاہے ہے مرا ہووے میسر تیرے
ہاتھ کا بازو کا زانو کا کمر کا تکیہ
یہ تو حاصل ہے کہاں بھیج دے لیکن مجھ کو
جس میں بالوں کی ہو بو تیرے ہو سر کا تکیہ
تیکھے پن کے ترے قربان اکڑ کے صدقے
کیا ہی بیٹھا ہے لگا کر کے سپر کا تکیہ
گرچہ ہم سخت گنہ گار ہیں لیکن واللہ
دل میں جو ڈر ہے ہمیں ہے اسی ڈر کا تکیہ
گریہ و آہ و فغاں نالہ و یا رب فریاد
سب کو ہے ہر شب و روز اپنے اثر کا تکیہ
رند و آزاد ہوئے چھوڑ علاقہ سب کا
ڈھونڈھتے کب ہیں پدر اور پسر کا تکیہ
گر بھروسا ہے ہمیں اب تو بھروسا تیرا
اور تکیہ ہے اگر تیرے ہی در کا تکیہ
شوق سے سوئیے سر رکھ کے مرے زانو پر
اس کو مت سمجھئے کچھ خوف و خطر کا تکیہ
جب تلک آپ نہ جاگیں گے رہے گا یوں ہی
سرکے گا تب ہی کہ جب کہیے گا سرکا تکیہ
لطف ایزدی ہی سے امید ہے انشا اللہ
کچھ نہیں رکھتے ہیں ہم فضل و ہنر کا تکیہ
انشا اللّہ خاں انشاء
 

سیما علی

لائبریرین
شمعِ محفل ہو کے تُو جب سوز سے خالی رہا
تیرے پروانے بھی اس لذّت سے بیگانے رہے
رشتۂ اُلفت میں جب ان کو پرو سکتا تھا تُو
پھر پریشاں کیوں تری تسبیح کے دانے رہے
شوقِ بے پروا گیا، فکرِ فلک پیما گیا
تیری محفل میں نہ دیوانے نہ فرزانے رہے
وہ جگر سوزی نہیں، وہ شعلہ آشامی نہیں
فائدہ پھر کیا جو گِردِ شمع پروانے رہے
خیر، تُو ساقی سہی لیکن پِلائے گا کسے
اب نہ وہ مے کش رہے باقی نہ مے‌خانے رہے
رو رہی ہے آج اک ٹوٹی ہُوئی مِینا اُسے
کل تلک گردش میں جس ساقی کے پیمانے رہے
آج ہیں خاموش وہ دشتِ جُنوں پروَر جہاں
رقص میں لیلیٰ رہی، لیلیٰ کے دیوانے رہے
وائے ناکامی! متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
علامہ اقبال
 

سیما علی

لائبریرین
‏اکبر اِلہ آبادی کا ایک قطعہ

تمھارا دین مشکل ہے
‏ میرا آسان رہنے دو

‏خدارا شیخ مجھ کو تم
‏ فقط انسان رہنے دو

‏کہانی قصہ گو، مجھ کو
‏جہنم کی سناؤ مت

‏خدا کی رحمتوں پر تم
‏میرا ایمان رہنے دو

 

سیما علی

لائبریرین
سو بار چمن مہکا سو بار بہار آئی
دنیا کی وہی رونق، دل کی وہی تنہائی

اک لحظہ بہے آنسو، اک لحظہ ہنسی آئی
سیکھے ہیں نئے دل نے اندازِ شکیبائی

اس موسمِ گل ہی سے بہکے نہیں دیوانے
ساتھ ابرِ بہاراں کے وہ زلف بھی لہرائی

ہر دردِ محبّت سے الجھا ہے غمِ ہستی
کیا کیا ہمیں یاد آیا جب یاد تری آئی

چرکے وہ دیے دل کو محرومیٔ قسمت نے
اب ہجر بھی تنہائی اور وصل بھی تنہائی

دیکھے ہیں بہت ہم نے ہنگامے محبّت کے
آغاز بھی رسوائی، انجام بھی رسوائی

یہ بزمِ محبّت ہے، اس بزمِ محبّت میں
دیوانے بھی شیدائی، فرزانے بھی شیدائی
صوفی غلام مصطفیٰ تبسم
 

سیما علی

لائبریرین
ہم سے مت پوچھو راستے گھر کے
ہم مسافر ہیں زندگی بھر کے

کون سورج کی آنکھ سے دن بھر
زخم گنتا ہے شب کی چادر کے

صلح کر لی یہ سوچ کر میں نے
میرے دشمن نہ تھے برابر کے

خود سے خیمے جلا دیئے میں نے
حوصلے دیکھنا تھے لشکر کے

یہ ستارے یہ ٹوٹتے موتی
عکس ہیں میرے دیدہ تر کے

گر جنوں مصلحت نہ اپنائے
سارے رشتے ہیں پتھر کے
محسن نقوی
 

سیما علی

لائبریرین
وفا میں اب یہ ہنر اختیار کرنا ہے
وہ سچ کہے نہ کہے اعتبار کرنا ہے
یہ تجھ کو جاگتے رہنے کا شوق کب سے ہوا
مجھے تو خیر ترا انتظار کرنا ہے
وہ مسکرا کے وسوسوں میں‌ڈال گیا
خیال تھا کہ اسے شرمسار کرنا ہے
ترے فراق میں دن کس طرح کٹیں اپنے
کہ شغل شب تو ستارے شمار کرنا ہے
خدا خیر یہ کوئی ضد کہ شوق ہے محسن
خود اپنی جاں کے دشمن سے پیار
 

سیما علی

لائبریرین
خبر تحیر عشق سن نہ جنوں رہا نہ پری رہی
نہ تو تو رہا نہ تو میں رہا جو رہی سو بے خبری رہی

شہ بے خودی نے عطا کیا مجھے اب لباس برہنگی
نہ خرد کی بخیہ گری رہی نہ جنوں کی پردہ دری رہی

چلی سمت غیب سیں کیا ہوا کہ چمن ظہور کا جل گیا
مگر ایک شاخ نہال غم جسے دل کہو سو ہری رہی

نظر تغافل یار کا گلہ کس زباں سیں بیاں کروں
کہ شراب صد قدح آرزو خم دل میں تھی سو بھری رہی

وہ عجب گھڑی تھی میں جس گھڑی لیا درس نسخۂ عشق کا
کہ کتاب عقل کی طاق پر جوں دھری تھی تیوں ہی دھری رہی

ترے جوش حیرت حسن کا اثر اس قدر سیں یہاں ہوا
کہ نہ آئینے میں رہی جلا نہ پری کوں جلوہ گری رہی

کیا خاک آتش عشق نے دل بے نوائے سراجؔ کوں
نہ خطر رہا نہ حذر رہا مگر ایک بے خطری رہی
سراج اورنگ آبادی
 

سیما علی

لائبریرین
مجھ کو نہ دل پسند نہ دل کی یہ خو پسند
پہلو سے میرے جائے دل آرزو پسند
تجھ کو عدو پسند ہے وضع عدو پسند
مجھ کو ادا پسند تری مجھ کو تو پسند
روز ازل تھے ڈھیر ہزاروں لگے ہوئے
چپکے سے چھانٹ لائے دل آرزو پسند
تم نے تو آستیں کے سوا ہاتھ بھی رنگے
آیا شہید ناز کا اتنا لہو
ریاض خیر آبادی
 

سیما علی

لائبریرین
وہ اپنے چہرے میں سو آفتاب رکھتے ہیں
اسی لیے تو وہ رخ پہ نقاب رکھتے ہیں
وہ پاس بیٹھے تو آتی ہے دلربا خوشبو
وہ اپنے ہاتھوں پہ کھلتے گلاب رکھتے ہیں
..حسرت جے پوری
 

سیما علی

لائبریرین
وہ کہ ہر عہدِ مُحبت سے مُکرتا جائے
دِل وہ ظالم کہ اُسی شخص پہ مَرتا جائے

میرے پہلو میں وہ آیا بھی تو خُوشبُو کی طرح
میں اُسے جتنا سمیٹوں وہ بِکھرتا جائے

کُھلتے جائیں جو تیرے بندِ قبا زلف کے ساتھ
رنگِ پیراہنِ شب اور نِکھرتا جائے

عشق کی نرم نگاہی سے حِنا ہوں رُخسار
حُسن وہ حُسن جو دیکھے سے نِکھرتا جائے

کیوں نہ ہم اُس کو دل و جان سے چاہیں تشنہؔ
وہ جو اک دشمنِ جاں پیار بھی کرتا جائے

(عالم تاب تشنہ)
 
Top