"میری پسند"

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
یہ لیجیئے میں نے کر دی ہے صحیح،

کوئی بات نہیں آپ بھی آہستہ آہستہ سیکھ جائیں گی۔
 

شائستہ

محفلین
شکریہ ، اب کچھ اور سوال ، فونٹ‌کا ساٰیز کیسے تبدیل کرو
کلر بھی تبدیل نہیں‌ہورہا، کیا یہاں پر اس کے علاوہ دوسرے فونٹ ہیں‌جو یوز کر سکو میں
 

شمشاد

لائبریرین
فونٹ کا سائز
پہلے آپ اپنی پوسٹ لکھ لیں، اس کے بعد اپنی مکمل پوسٹ کو ہائی لایٹ کر لیں۔ مکمل پوسٹ کو ہائی لایٹ کرنے کے لیے آپ CTRL+A بھی دبا سکتی ہیں۔ اس کے بعد اوپر فونٹ سائز میں جا کر بڑا، بہت بڑا یا بہت ہی بڑا کوئی بھی select کر لیں تو آپ کے پوسٹ کے شروع اور آخر میں خود بخود size آ جائے گا۔ اسی طرح آپ دوبارہ مکمل پوسٹ کو ہائی لایٹ کر کے کوئی بھی پسندیدہ رنگ پر کلک کر دیں تو آپ کا پسندیدہ رنگ آ جائے گا۔

آپ اپنی مکمل پوسٹ یا اس کا کچھ حصہ بھی تبدیل کر سکتی ہیں۔

بہتر ہے کہ آپ “ سوال آپ کے جواب ہمارے “ کے زمرے میں جائیں، وہاں آپ کو ہر قسم کی مدد مل جائے گی اور کوئی نہ کوئی رکن آپ کی مدد کے لیے ہر وقت موجود ہو گا۔
 

دوست

محفلین
خوش آمدید شائستہ اگرچہ میں آ پ کو دیر سے یہ کہہ رہا ہوں۔
کلر آپ ایسا کریں جو اوپر کلر بار نظر آرہی ہے اس کو استعمال کریں۔
جو کچھ بھی رنگنا ہے اس کو نمایاں کرلیں یعنی ہائی لائٹ کرلیں پھر پسندیدہ کلر پر کلک کریں اس عبارت کے گرد کلر ٹیگ لگ جائے گا۔
جیسے مجھے نیلا رنگ پسند ہے۔
فونٹ ٹائپ کی لسٹ نظر آرہی ہوگی اردو میں ہی لکھا ہوا ہے کلر بار کے اوپر۔ اپنی عبارت منتخب کریں اور اسی طرح متعلقہ فونٹ پر کلک کردیں عبارت کے گرد فونٹ ٹیگ لگ جائیں گے۔
جیسے یہ نفیس ویب نسخ ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
تصویر تیری دل میرا بہلا نہ سکے گی
یہ تیری طرح مجھ سے تو شرما نہ سکے گی

میں بات کرؤں گا تو یہ خاموش رہے گی
سینے سے لگاؤں گا تو یہ کچھ نہ کہے گی
آرام وہ کیا دے گی جو تڑپا نہ سکے گی

یہ آنکھیں ہیں ٹھہری ہوئیں چنچل وہ نگاہیں
یہ ہاتھ ہیں سہمے ہوئے اور مست وہ بانہیں
پرچھائیں تو انسان کی کام آ نہ سکے گی

ان ہونٹوں کو “ فیاض “ میں کچھ دے نہ سکوں گا
اس زلف کو میں ہاتھ میں بھی لے نہ سکوں گا
الجھی ہوئی راتوں کو یہ سلجھا نہ سکے گی
(فیاض ہاشمی)
 

شمشاد

لائبریرین
تیرے در پے تہ آ ہی جاتے ہیں
جن کو پینے کی آس ہو ساقی

آج اتنی پلا دے آنکھوں سے
ختم رندوں کی پیاس ہو ساقی
(عبد الحمید عدم)
 

شمشاد

لائبریرین
میں اور میری آوارگی

پھرتے ہیں کب سے در بہ در اب اس نگر اب اُس نگر
اک دوسرے کے ہمسفر میں اور میری آوارگی
نا آشنا ہر رہگذر نہ مہرباں ہے اک نظر
جائیں تو اب جائیں کدھر میں اور میری آوارگی

ہم بھی کبھی آباد تھے ایسے کہاں برباد تھے
بے فکر تھے آزاد تھے مسرور تھے دلشاد تھے
وہ چال ایسی چل گیا ہم بُج گئے دل جل گیا
نکلے جلا کے اپنا گھر میں اور میری آوارگی

وہ مہوش وہ مہ رو وہ مہ کامل ہو بہو
تھیں جس کی باتیں کُو با کُو اُس سے عجب تھی گفتگو
پھر یوں ہوا وہ کھو گئی اور مجھ کو ضد سی ہو گئی
لائیں گے اس کو ڈھونڈ کر میں اور میری آوارگی

یہ دل ہی تھا جو سہہ گیا وہ بات ایسی کہہ گیا
کہنے کو پھر کیا رہ گیا اشکوں کا دریا بہہ گیا
جب کہہ کر وہ دلبر گیا تیرے لیے میں مر گیا
روتے ہیں اس کو رات بھر میں اور میری آوارگی

اب غم اٹھائیں کس لیے یہ دل جلائیں کس لیے
آنسو بہائیں کس لیے یوں جاں گنوائیں کس لیے
پیشہ نہ ہو جس کا ستم ڈھونڈیں بے اب ایسا صنم
ہوں گی کہیں تو کارگر میں اور میری آوارگی

آثار ہیں سب کھوٹ کے امکاں ہیں سب چوٹ کے
گھر بند ہیں سب کوٹ کے اب ختم ہیں سب ٹوٹکے
قسمت کا سب یہ کھیل ہے اندھیر ہی اندھیر ہے
ایسے ہوئے ہیں بے اثر میں اور میری آوارگی

جب ہمدم و ہمراز تھا تب اور ہی انداز تھا
اب سوز ہے تب ساز تھا اب شرم ہے تب ناز تھا
اب مجھ سے ہو تو ہو بھی کیا ہے ساتھ وہ تو وہ بھی کیا
اک بے ہنر اک بے صبر میں اور میری آوارگی
(جاوید اختر)
 

شائستہ

محفلین


ساری دُنیا میں مرے جی کو لگا ایک ہی شخص
ایک ہی شخص تھا بخدا ایک ہی شخص

درجہء کفر سہی مدحِ جمالِ جاناں
دل سے پوچھو تو خُدا سے بھی بنا ایک ہی شخص

ایسا لگتا ہے سبھی عشق کسی ایک سے تھے
ایسا لگتا ہے مجھے ملتا رہا ایک ہی شخص

وہ جو میں اس کی محبّت بھی کسی اور سے کی
ان دنوں شہر کا ہر شخص لگا ایک ہی شخص

میں تو اے عشق تری کوزہ گری جانتا ہوں
تو نے ہم دو کو ملایا تو بنا ایک ہی شخص

مجھ سے ناراض نہ ہونا میرے اچھے لوگو !
کیا کروں میری محبّت نے چُنا ایک ہی شخص

تو جو کہتا ہے ترے جیسے کئی اور بھی ہیں
تجھ دعوٰی ہے تو پھر خود سا دکھا ایک ہی شخص

تو جسے چاہتا ہے میں بھی اُسے چاہتا ہوں
اچھا لگتا ہے مجھے تیرے سوا ایک ہی شخص

دوست ! سب سےکہاں کھینچتا ہے غزل کا چلہ
حجرہءِ میر میں ہونا ہے سدا ایک ہی شخص



عباس تابش​
 

حجاب

محفلین
بڑا ویران موسم ہے کبھی ملنے چلے آؤ
ہر اک جانب تیرا غم ہے کبھی ملنے چلے آؤ

ہمارا دل کسی کی جدائی کے بھنور میں ہے
ہماری آنکھ بھی نم ہے کبھی ملنے چلے آؤ

تمہیں تو علم ہے میرے دلِ وحشی کے زخموں کو
تمہارا وصل مرہم ہے کبھی ملنے چلے آؤ

اندھیری رات کی خموشی اور تنہا دل
دیئے کی لو بھی مدّھم ہے کبھی ملنے چلے آؤ

تمہارے روٹھ جانے سے ہم کو ایسا لگتا ہے
مقدّر ہم سے برہم ہے کبھی ملنے چلے آؤ

ہوا اور پھولوں کی نئی خوشبو بتاتی ہے
تیرے آنے کا موسم ہے کبھی ملنے چلے آؤ ( علی اکبر منصور )
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
 

شائستہ

محفلین
حجاب نے کہا:
بڑا ویران موسم ہے کبھی ملنے چلے آؤ
ہر اک جانب تیرا غم ہے کبھی ملنے چلے آؤ

ہمارا دل کسی کی جدائی کے بھنور میں ہے
ہماری آنکھ بھی نم ہے کبھی ملنے چلے آؤ

تمہیں تو علم ہے میرے دلِ وحشی کے زخموں کو
تمہارا وصل مرہم ہے کبھی ملنے چلے آؤ

اندھیری رات کی خموشی اور تنہا دل
دیئے کی لو بھی مدّھم ہے کبھی ملنے چلے آؤ

تمہارے روٹھ جانے سے ہم کو ایسا لگتا ہے
مقدّر ہم سے برہم ہے کبھی ملنے چلے آؤ

ہوا اور پھولوں کی نئی خوشبو بتاتی ہے
تیرے آنے کا موسم ہے کبھی ملنے چلے آؤ ( علی اکبر منصور )
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
حجاب بہت خوب ، زبردست
 

پاکستانی

محفلین
چاند چہرہ ستارہ آنکھیں

مرے خدایا! میں زندگی کے عذاب لکھوں کہ خواب لکھوں

یہ میرا چہرہ، یہ میری آنکھیں

بجھے ہوئے چراغ جیسے

جو پھر سے جلنے کے منتظِر ہوں

وہ چاند چہرہ ستارہ آنکھیں

وہ مہرباں سایہ دار زلفیں

جنھوں نے پیماں کئیے تھے مجھ سے

رفاقتوں کے، محبتوں کے

کہا تھا مجھ سے کہ اے مسافر رہِ وفا کے

جہاں بھی جائیگا ہم بھی آئیں گے ساتھ تیرے

بنیں گے راتوں میں چاند ہم تو دن میں سائے بکھیر دیں گے

وہ چاند چہرہ ستارہ آنکھیں

وہ مہرباں سایہ دار زلفیں

وہ اپنے پیماں رفاقتوں کے محبتوں کے

شکست کرکے

نہ جانے اب کس کی رہ گزر کا منارہءِ روشنی ہوئے ہیں

مگر مسافر کو کیا خبر ہے

وہ چاند چہرا تو بجھ گیا ہے

ستارہ آنکھیں تو سو گئی ہیں

وہ زلفیں بے سایہ ہوگئی ہیں

وہ سوشنی اور وہ سائے مری عطا تھے

سو مری راہوں میں آج بھی ہیں

کہ میں مسافر رہِ وفا ہوں

وہ چاند چہرہ ستارہ آنکھیں

وہ مہرباں سایہ دار زلفیں

ہزاروں چہروں ہزاروں آنکھوں

ہزاروں الفوں کا اک سیلابِ تند لے کر

مرے تعاقب میں آرہے ہیں

ہر ایک چہرہ ہے چاند چہرہ

ہیں ساری آنکھیں ستارہ آنکھیں

تمام ہیں

مہرباں سایہ دار زلفیں

میں کس کو چاہوں ، کس کو چوموں

میں کس کے سائے میں بیٹھ جاؤں

بچُوں کہ طوفاں میں ڈوب جاؤں

کہ میرا چہرہ، نہ مری آنکھیں

مرے خدایا! میں زندگی کے عذاب لکھوں کہ خواب لکھوں


عبید اللہ علیم
 

پاکستانی

محفلین
کوئي زنجير ہو۔۔

کوئي زنجير
آہن کي چاندي کي روايت کي
محبت توڑ سکتي ہے
يہ ايسي ڈھال ہے جس پر
زمانے کي کسي تلوار کا لوہا نہيں چلتا
يہ ايسا شہر ہے جس
ميں کسي آمر کسي سلطان کا سکہ نہيں چلتا
اگر چشم تماشا ميں ذرا سي بھي ملاوٹ ہو
يہ آئينہ نہيں چلتا
يہ ايسي آگ ہے جس ميں
بدن شعلون ميں جلتے ہيں تو روہيں مسکراتي ہيں
يہ وہ سيلاب ہے جس کو
دلوں کي بستياں آواز دے کر خود بلاتي ہيں
يہ جب چاہے کسي بھي خواب کو تعبير مل جائے
جو منظر بجھ چکے ہيں انکو بھي تنورير مل جائے
دعا جو بے ٹھکانہ تھي اسے تاثير مل جائے
کسي رستے ميں رستہ پوچھتي تقدير مل جائے
محبت روک سکتي ہے سمے کے تيز دھارے کو
کسي جلتے شرارے کو، فنا کے استعارے کو
محبت روک سکتي ہے کسي گرتے ستارے کو
يہ چکنا چور آئينے کے ريزے جوڑ سکتي ہے
جدھر چاھے يہ باگيں موسموں کي موڑسکتي ہے
کوئي زنجير ہو اس کو محبت توڑ سکتي ہے

امجد اسلام امجد
 

سارہ خان

محفلین
یہ زندگی بڑی عجیب سی
کبھی گلزار سی کبھی بیزار سی

کبھی خوشی ہمارے ساتھ ساتھ
کبھی غموں کی غبار سی

یہ زندگی بڑی عجیب سی

کبھی دل تمناوُں سے بھرا
کبھی آنکھ اشک بار سی

آنگن میں بچے دوڑتے پھرتے
کبھی کمرے میں ماں بیمار سی

یہ زندگی بڑی عجیب سی

کبھی غموں کے لمبے لمبے سائے
کبھی خوشیوں کی وہ برکھا

ہردم یہ رت بہار سی

یہ زندگی بڑی عجیب سی
 

عمر سیف

محفلین
بارش میں رہونگا کبھی کرنوں میں کہوں گا
حیرانی کی صورت تیری صورت میں رہوں گا
میں ہجر کی تصویر میں‌ ٹپکا ہوا آنسو
بکھرا تو پھیلے ہوئے رنگوں میں‌ رہوں گا۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top