"میری پسند"

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

ماوراء

محفلین
اپنی پسند کی شاعری کا تھریڈ باجو (بوچھی) نے شروع کیا تھا۔ زکریا نے سو صفحات بھی مکمل نہ ہونے دئیے اور ہمیشہ کی طرح ایک اور تھریڈ کو مقفل کر دیا۔

یہاں آپ اپنی پسند کی اشعار، غزلیں، نظمیں، قطعات پوسٹ کر سکتے ہیں۔
 

ماوراء

محفلین
پیڑ لگاتا رہتا ہوں
پھر بھی دھوپ میں بیٹھا رہتا ہوں
دریاؤں سے ڈرتا ہوں
میں بھی کیسا پیاسا ہوں
خود کو سچا کہتا ہوں
میں بھی کتنا جھوٹا ہوں
تیری یاد میں ڈوب کے میں
اب خود کو خط لکھتا ہوں
تیرے وصل کے موسم کا
ایک اک لمحہ گنتا ہوں
اپنے دل کی بات کو اب
دیواروں سے کہتا ہوں
ساتھ رہا ہے تو لیکن
اکثر تنہا جاگا ہوں
اتنے صدمے سہہ کر بھی
جانے کیسے زندہ ہوں
اجلے اجلے شہروں میں
روشنیوں کو ترسا ہوں
نیندوں کی دہلیزوں سے
جھوٹے سپنے چنتا ہوں
خاموشی آزار نہ بن !
میں اب بولنے والا ہوں
چاہت کی بینائی سے
تیرا چہرہ پڑھتا ہوں
مجھ میں ڈوبنے والے،میں
دریا سے بھی گہرا ہوں !
خود کو پھول سا کہتا ہے
جیسے میں نابینا ہوں
شاخوں تک محدود نہیں
باتوں میں بھی مہکا ہوں
جس کا باسی کوئی نہیں
میں اس دیس کا نقشہ ہوں
میرا گھر کیا ٹوٹ گیا
ایک اک گھر کو تکتا ہوں​
 
ماورا وہ دھاگہ ہی بدل گیا اب رنگ پر کیا بات کروں۔

اس کو احساس دلایا ہے تو ملتا ہی نہیں
اجنبی تھا تو روز ملا کرتا تھا
اب وہ میری ہر بات کے معنی پوچھے
جو میری سوچ کی تحریر پڑھا کرتا تھا
 

شمشاد

لائبریرین
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر
 

حجاب

محفلین
اچھا تو نظر تو نہیں آئے گا نہ اب وہ دھاگہ۔؟؟؟؟؟

وہ جھوٹ کا خوگر تو صداقت میرا مسلک
دونوں کے مزاج اور ارادے نہیں ملتے
برہم ہے کہ اُس کو میری خوددار جبیں سے
اپنے لئے تعظیم کے سجدے نہیں ملتے
 

شمشاد

لائبریرین
نظر آئے گا، آئے گا کیوں نہیں۔ جس کا جب جی چاہے کھول کے دیکھ لے۔
-----------------------------------------------------------------------------

اپنی جولاں گاہ زیرِ آسماں سمجھا تھا میں
آب و گل کے کھیل کو اپنا جہاں سمجھا تھا میں

بے حجابی سے تری ٹوٹا نگاہوں کا طلسم
اِک ردائے نیلگوں کو آسماں سمجھا تھا میں
 

تیشہ

محفلین
چاہت میں ہم نے طور پرُانے بدل دئیے
جذبہ ہر اک سنبھال کر خانے بدل دئیے

روکے کہاں رُکے ہیں محبت کے قافلے

بس

یوں ہوا کہ دل نے زمانے بدل دئیے ۔
 

ظفری

لائبریرین
شعلہ ہوں بھڑکنے کی گذارش نہیں کرتا
سچ منہ سے نکل جاتا ہے کوشش نہیں کرتا

گرتی ہوئی دیوار کا ہمدرد ہوں لیکن
چڑھتے ہوئے سورج کی پرستش نہیں کرتا

ماتھے کے پسینے کی مہک آئے نہ جس سے
وہ خون میرے جسم میں گردش نہیں کرتا

ہمدریَِ احباب سے ڈرتا ہوں مظفر
میں زخم تو رکھتا ہوں نمائش نہیں کرتا

مظفر وارثی​
 

ظفری

لائبریرین
دُنیا جسے کہتے ہیں جادو کا کھلونا ہے
مل جائے تو مٹی ہے کھو جائے سونا ہے

اچھا سا کوئی موسم ، تنہائی سا کوئی عالم
ہر وقت کا رونا تو بے کار کا رونا ہے

برسات کا بادل ہے ، دیوانہ ہے کیا جانے
کس راہ سے بچنا ہے کس چھت کو بھگونا ہے

غم ہو کہ خوشی دونوں کچھ دیر کے ساتھی ہیں
پھر رستہ ہی رستہ ہے ہنسنا ہے پھر نہ رونا ہے


ندا فاضلی​
 

شمشاد

لائبریرین
موج نسيم صبح نہ جوش نمو سے تھا
جو پھول سرخرو تھا خزاں کے لہو سے تھا

تيرے سکوت نے اسے ويران کر ديا
دل باغ باغ تھا تو تري گفتگو سے تھا
(راغب مراد آبادی)
 

حجاب

محفلین
ہم عجیب طرز کے لوگ تھے ہمارے اور ہی روگ تھے
میں خزاں میں اُس کا منتظر اُسے انتظارِ بہار تھا
میری لمحہ بھر کی گفتگو کبھی اُس کے ساتھ نہ ہوسکی
مجھے فرصتیں نہ مل سکیں وہ ہوا کی رتھ پہ سوار تھا۔
 

شمشاد

لائبریرین
بہزاد لکھنوی کی لکھی ہوئی اور نیرہ نور کی گائی ہوئی یہ غزل مجھے بہت پسند ہے :

اے جذبہ دل گر ميں چاہوں ہر چيز مقابل آجائے
منزل کے لئے دو گام چلوں اور سامنے منزل آجائے

اے دل کي خلش چل يوں ہي سہي چلتا تو ہوں ان کي محفل ميں
اس وقت مجھے چونکا دينا جب رنگ پہ محفل آجائے

اے رہبر کامل چلنے کو تيار تو ہوں پر ياد رہے
اس وقت مجھے بھٹکا دينا جب سامنے منزل آجائے

ہاں ياد مجھے تم کر لينا آواز مجھے تم دے لينا
اس راہ محبت ميں کوئي درپيش جو مشکل آجائے

اب کيوں ڈھونڈوں وہ چشم کرم ہونے دے ستم بالائے ستم
ميں چاہتا ہوں اے جذبہ غم مشکل پہ مشکل آجائے
 

ظفری

لائبریرین
تم بھی خفا ہو ، لوگ بھی برہم ہیں دوستو
اب ہو چلا ہے یقین کہ برے ہم ہیں دوستو

کس کو ہمارے حال سے نسبت ہے کیا کہیں
آنکھیں تو دشمنوں کی بھی پُرنم ہیں دوستو

اپنے سوا ہمارے نہ ہونے کا غم کسے
اپنی تلاش میں تو ہم ہی ہم ہیں دوستو

کچھ آج شام ہی سے ہے دل بھی بجھا بجھا
کچھ شہر کے چراغ بھی مدھم ہیں دوستو

سب کچھ سہی فراز ، پر اتنا ضرور ہے
دنیا میں ایسے لوگ بہت کم ہیں دوستو​
 

ظفری

لائبریرین

جاتے جاتے وہ مجھے اچھی نشانی دے گیا
عمر بھر دہراؤں گا ایسی کہانی دے گیا

اُس سے میں کچھ پا سکوں ایسی کہاں اُمید تھی
غم بھی وہ شاید برائے مہربانی دے گیا

سب ہوائیں لے گیا میرے سمندر کی کوئی
اور مجھ کو ایک کشتی بادبانی دے گیا

خیر میں پیاسا رہا پر اُس نے اتنا تو کیا
میری پلکوں کی قطاروں کو وہ پانی دے گیا

(جاوید اختر​
 

ظفری

لائبریرین

آج میں نے اپنا پھر سودا کیا
اور پھر میں دور سے دیکھا کیا

زندگی بھر میرے کام آئے اُصول
ایک ایک کرکے انہیں بیچا کیا

کچھ کمی اپنی وفاؤں میں بھی تھی
تم سے کیا کہتے کہ تم نے کیا کیا

ہوگئی تھی دل کو کچھ اُمید سی
خیر تم نے جو کیا اچھا کیا
 

تیشہ

محفلین
ظفری نے کہا:
تم بھی خفا ہو ، لوگ بھی برہم ہیں دوستو
اب ہو چلا ہے یقین کہ برے ہم ہیں دوستو

کس کو ہمارے حال سے نسبت ہے کیا کہیں
آنکھیں تو دشمنوں کی بھی پُرنم ہیں دوستو

اپنے سوا ہمارے نہ ہونے کا غم کسے
اپنی تلاش میں تو ہم ہی ہم ہیں دوستو

کچھ آج شام ہی سے ہے دل بھی بجھا بجھا
کچھ شہر کے چراغ بھی مدھم ہیں دوستو

سب کچھ سہی فراز ، پر اتنا ضرور ہے
دنیا میں ایسے لوگ بہت کم ہیں دوستو​


ارے واہ ، بہت خوب ، :best:
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top