"میری پسند"

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

ماوراء

محفلین
میرے بازوں میں تھکی تھکی ابھی محو خواب ہے چاندنی
نہ اٹھے ستاروں کی پلکیں ابھی آہٹوں کا اثر نہ ہو​
 

حجاب

محفلین
آپس کی شکر رنجی کا غیروں سے کیا شکوہ
شکوہ تمہیں کرنا تھا تو ہم سے کیا ہوتا
وہ جب بھی ذرا روٹھا چپ بیٹھے رہے ہم بھی
اک بار منا لیتے تو روز خفا ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
یہ انتظار غلط ہے کہ شام ہو جائے
جو ہو سکے تو ابھی دورِ جام ہو جائے

خدانخواستہ پینے لگے جو واعظ بھی
ہمارے واسطے پینا حرام ہو جائے

مجھ جیسے رند کو بھی تو نے حشر میں یا رب
بلا لیا ہے تو کچھ انتظام ہو جائے

وہ صحنِ باغ میں آئے ہیں مئے کشی کے لیے
خدا کرئے کہ ہر اک پھول جام ہو جائے

مجھے پسند نہیں اس پہ گامزن ہونا
وہ رہگزر جو گزر گاہِ عام ہو جائے
(نریش کمار شاد)
 

ظفری

لائبریرین
چمکتی دھُوپ تُم، اپنے ہی دامن میں نہ بھر لینا
میں ساری رات پیڑوں کی طرح بارش میں بھیگا ہوں

روبِ شام ہی سے ، خود کو یُوں محسوس کرتا ہوں
کہ جیسے اک دیا ہوں، اور ہَوا کی ذرد پہ رکھّا ہوں

کوئ ٹُوٹا ہُوا رشتہ نہ دامن سے اُلجھ جائے
تُمھارے ساتھ پہلی بار، بازاروں میں نکلاہُوں

یہ کس آواز کا بوسہ، میرے ہونٹوں پہ کانپا ہے
میں پچھلی سب صداؤں کی حلاوت بھُول بیٹھا ہوں

بچھڑ کر تُم سےمیں نے بھی کوئ ساتھی نہیں ڈھونڈا
ہجومِ رہگُزر میں دوُر تک دیکھو، اکیلا ہوں

(زبیر رضوی)
 

ظفری

لائبریرین
دیر لگی آنے میں تُم کو، شکر ہے پھر بھی آئے تو
آس نے دل کا ساتھ نہ چھوڑا، ویسے ہم گھبرائے تو

شفق، دھنک، مہتاب، گھٹائیں، تارے، نغمے، بجلی ، پُھول
اُس دامن میں کیا کیا کچھ ہے، ہاتھ وہ دامن آئے تو

چاہت کے بدلے میں ہم تو، بیچ دیں اپنی مرضی تک
کوئ ملے تو دل کا گاہک، کوئ ہمیں اپنائے تو

کیوں یہ مہر انگیز تبسّم، مدّ ِ نظر، جب کچھ بھی نہیں
ہائے کوئ انجان اگر، اس دھوکے میں آ جائے تو

سُنی سُنائ بات نہیں ہے، اپنے اُوپر بیتی ہے
پُھول نکلتے ہیں شعلوں سے، چاہت آگ لگائے تو

جھوٹ ہے سب، تاریخ ہمیشہ، اپنے کو دُھراتی ہے
اچھّا، میرا خوابِ جوانی، تھوڑا سا دُھرائے تو

نادانی اور مجُبوری میں، یارو، کچھ تو فرق کرو
اک بے بس انسان کرے کیا، ٹُوٹ کے دل آ جائے تو​
 

ڈاکٹر عباس

محفلین
جی دیکھا ہے مر دیکھا ہے



جی دیکھا ہے مر دیکھا ہے
ہم نے سب کچھ کر دیکھا ہے

برگِ آوارہ کی صورت
رنگِ خشک و تر دیکھا ہے

ٹھنڈی آہیں بھرنے ولو
ٹھنڈی آہیں بھر دیکھا ہے

تیری زُلفوں کا افسانہ
رات کے ہونٹوں پر دیکھا ہے

اپنے دیوانوں کا عالم
تم نے کب آکر دیکھا ہے

انجم کی خاموش فضا میں
میں نے تمھیں اکثر دیکھا ہے

ہم نے اس بستی میں جالب
جھوٹ کا اُونچا سر دیکھا ہے

حبیب جالب​
 

حجاب

محفلین
ہزار آنکھوں پہ خوابوں نے دستکیں دی تھیں
مگر وہ حال تھا دل کا کھلا نہ کرتا تھا۔۔۔۔۔۔
بہت کمال تھے اس میں اور ایک یہ بھی تھا
کہ ایک مقام سے آگے وفا نہ کرتا تھا۔۔۔۔۔۔
 

ظفری

لائبریرین
پہلے تُم نے سارے شہر کی سانسوں میں گرداب بھرے
راہ دکھاتے پھرتے ہو اب ، جیبوں میں مہتاب بھرے

ساری عمر حساب نہ آیا ، بچپن سے لیکر اب تک
سارے ٹھیک سوال اُتارے، سارے غلط جواب بھرے

سچّی بات تو میٹھی بات بھی ہو سکتی ہے میرے دوست
کتنے دھبّے چھوڑ گئے ہیں، حرف تیرے تیزاب بھرے

میرے لڑکپن کی یادوں کی چوکھٹ پر، کوئ لڑکی
اب تک بیٹھی ہے، آنچل میں، جُگنو اور گُلاب بھرے​
 

شمشاد

لائبریرین
بہت ہی خوبصورت غزل ہے ظفری بھائی۔

بس اسی طرح روز ایک اچھی سی غزل لکھ جایا کرو، میرا نشہ پورا ہو جایا کرئے۔
 

سارہ خان

محفلین
اے چشم فلک اے چشم زمیں ہم لوگ تو پھر آنے کے نہیں
دو چار گھڑی کا سپنا ہیں دو چار گھڑی کا خواب ہیں ہم

کیا اپنی حقیقت کیا ہستی’ مٹی کا ایک حباب ہیں ہم
دو چار گھڑی کا سپنا ہیں دو چار گھڑی کا خواب ہیں ہم۔۔
 

سارہ خان

محفلین
صلہ وفا کا فقط وفا ہے، یہ محتصر سا جواب لکھہ دوں
سمجھہ سکو تو یہی بہت ہے، کہو تو پوری کتاب لکھہ دوں
 

ظفری

لائبریرین
شمشاد نے کہا:
بہت ہی خوبصورت غزل ہے ظفری بھائی۔

بس اسی طرح روز ایک اچھی سی غزل لکھ جایا کرو، میرا نشہ پورا ہو جایا کرئے۔
شکریہ شمشاد بھائی ۔۔۔ میری کوشش یہی ہوتی ہے کہ ان مصروفیت کے دنوں کم از کم کوئی شعر یا غزل پوسٹ کر کے اپنی حاضری لگا جایا کروں ۔ مگر کبھی کبھی ناغہ ہوہی جاتا ہے ۔ :cry:
 

ظفری

لائبریرین

پانی آنکھ میں بھر کر لایا جا سکتا ہے
اب بھی جلتا شہر بچایا جا سکتا ہے

ایک محبّت اور وہ بھی ناکام محبّت
لیکن اس سے کام چلایا جا سکتا ہے

دل پر پانی پینے آتی ہیں اُمیدیں
اس چشمے میں زہر ملایا جاسکتا ہے


مجھ نادان سے پوچھتے ہیں فرہاد و مجنوں
عشق میں کتنا نام کمایا جا سکتا ہے

یہ مہتاب یہ رات کی پیشانی کا گھاؤ
ایسا زخم تو دل پر کھایا جا سکتا ہے

پھٹا پرانا خواب ہے میرا پھر بھی تابش
اس میں اپنا آپ چُھپایا جا سکتا ہے

(عباس تابش)​
 

شائستہ

محفلین
مستی حال کبھی تھی کہ نہ تھی بھول گئے
یاد اپنی کوئ حالت نہ رہی بھول گئے

حرم ناز و ادا تجھ سے بچھڑنے والے
بت گری بھول گئے ،بت شکنی بھول گئے

یوں مجھے بھیج کے تنہا سر بازار فریب
کیا مرے دوست مری سادہ دلی بھول گئے

میں تو بے حس ہوں مجھے درد کا احساس نہیں
چارہ گر کیوں روش چارہ گری بھول گئے

اب میرے اشک محبت بھی نہیں آپ کو یاد
آپ تو اپنے ہی دامن کی نمی بھول گئے

اب کوئ مجھ کو دلائے نہ محبت کا یقین
جو مجھے بھول نہ سکتے تھے وہی بھول گئے

اور کیا چاہتی ہے گردش ایام کہ ہم
اپنا گھر بھول گئے اس کی گلی بھول گئے

کیا کہیں کتنی ہی باتیں تھیں جو اب یاد نہیں
کیا کریں ہم سے بڑی بھول ہوئ بھول گئے​
 

شمشاد

لائبریرین
یہ دو دفعہ نہیں بلکہ تین دفعہ لکھی گئی ہے۔ اب آپ “ قطع و برید “ کو دبائیں، یہ انگریزی کا Edit ہے اور اس کو صحیح کر لیں۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top