میری پسند کی شاعری

سیما علی

لائبریرین
امجد اسلام امجد 🌹🌹🌹🌹🌹

گُزر گیا جو زمانہ ٫ اُسے بُھلا ہی دو
جو نَقش بن نہیں سکتا، اُسے مِٹا ہی دو

کُھلے گا ترکِ تعلق کے بعد بابِ فنا
یہ ایک آخری پردہ بھی اَب اُٹھا ہی دو

رُکی رُکی سی ہوا ھے، تھکا تھکا سا چاند
وفا کے دَشت میں حیراں کھڑے ہیں راہی دو

گُزر رہا ھے جو لمحَہ ، اُسے اَمر کر لیں
مَیں اپنے خُون سے لِکھتا ہوں، تُم گواہی دو

کِسی طرح سے تغافُل کا بابِ شک تو کُھلے
نہیں میں پیار کے قابِل ، تو کُچھ سزا ہی دو

مَیں کائنات سے ، غم کو نِجات دے دوں گا
میری گِرِفت میں اِک دِن ، اگر تباہی دو

امجد اِسلام امجدؔ 🌹🌹🌹🌹🌹
 

سیما علی

لائبریرین
شیشہ ہو یا دل ہو آخر، ٹوٹ جاتا ہے
لب تک آتے آتے ہاتھوں سے ساغر چھوٹ جاتا ہے

کافی بس ارمان نہیں، کچھ ملنا آسان نہیں
دنیا کی مجبوری ہے، پھر تقدیر ضروری ہے
یہ جو دشمن ہیں ایسے، دونوں راضی ہوں کیسے
ایک کو مناؤں تو دوجا، روٹھ جاتا ہے

بیٹھے تھے کنارے پہ موجوں کے اشارے پہ
ہم کھیلے طوفانوں سے، اس دل کے ارمانوں سے
ہم کو یہ معلوم نہ تھا کوئی ساتھ نہیں دیتا
ماجھی چھوڑ جاتا ہے ساحل چھوٹ جاتا ہے

دنیا ایک تماشا ہے، آشا اور نراشا ہے
تھوڑے پھول ہیں کانٹے ہیں جو تقدیر نے بانٹے ہیں
اپنا اپنا حصہ ہے، اپنا اپنا قصہ ہے
کوئی لُٹ جاتا ہے، کوئی لوٹ جاتا ہے

کیفی اعظمی
 

سیما علی

لائبریرین
روشن ہوں دل کے داغ تو لب پر فغاں کہاں
اے ہم صفیر آتش گل میں دھواں کہاں

ہے نام آشیاں کا مگر آشیاں کہاں
نکھرے ہوئے ہیں خاک میں تنکے کہاں کہاں

اٹھ اٹھ کے پوچھتا ہی رہا راہ کا غبار
کہتا مگر یہ کون لٹا کارواں کہاں

باقی نہیں ہیں جیب و گریباں کے تار بھی
لکھیں گے اے بہار تری داستاں کہاں

ہم اجنبی ہیں آج بھی اپنے دیار میں
ہر شخص پوچھتا ہے یہی تم یہاں کہاں

دیکھو کہ اب ہے برق ستم کی نظر کدھر
پوچھو نہ یہ چمن میں جلے آشیاں کہاں

عالم گزر رہا ہے عجب اہل درد پر
ہو دل میں مدعا بھی تو منہ میں زباں کہاں

اپنی خوشی وجود گلستاں پہ اے نسیمؔ
مانا کہ وہ سکون نشیمن یہاں کہاں

(وحیدہ نسیم)
 

سیما علی

لائبریرین
۔۔۔۔۔
جانتی ہوں کہ وہ خفا بھی نہیں
دل کسی طور مانتا بھی نہیں

کیا وفا و جفا کی بات کریں
درمیاں اب تو کچھ رہا بھی نہیں

درد وہ بھی سہا ہے تیرے لیے
میری قسمت میں جو لکھا بھی نہیں

ہر تمنا سراب بنتی رہی
ان سرابوں کی انتہا بھی نہیں

ہاں چراغاں کی کیفیت تھی کبھی
اب تو پلکوں پہ اک دیا بھی نہیں

دل کو اب تک یقین آ نہ سکا
یوں نہیں ہے کہ وہ ما بھی نہیں

وقت اتنا گزر چکا ہے حناؔ
جانے والے سے اب گلہ بھی نہیں
۔۔۔۔۔۔۔
زاہدہ حناؔ
 

سیما علی

لائبریرین
پروین شاکر
۔۔۔۔۔۔۔
وہ جس کے نام کی بکھری نگر نگر خوشبو
ادب سے روٹھ گئی آج وہ مگر خوشبو
ہر ایک رنگ تھا اس کے سخن اجالے میں
دھنک گلاب شفق تتلیوں کے پر خوشبو
اسے قرینہ تھا ہر ایک بات کہنے کا
سماعتوں کے وہ سب کھولتی تھی در خوشبو
وہ خود کلامی تری تیرا جبر سے انکار
ہیں تیری سوچ کے صد برگ نامہ بر خوشبو
جو تیرے پھول سے بکھری ہے ان ہوائوں میں
ہمیشہ کرتی رہے گی وہ اب سفر خوشبو
نہ جانے اتریں کہاں سے وہ ساعتیں سفاک
نہ جانے کس کی تجھے لگ گئی نظر خوشبو
ادب میں اس کا بدل کوئی بھی نہیں ہے جلیل
سخن میں اس نے بکھیری جو معتبر خوشبو
احمد جلیل
 

سیما علی

لائبریرین
عذر ان کی زبان سے نکلا
تیر گویا کمان سے نکلا

وہ چھلاوا اس آن سے نکلا
الاماں ہر زبان سے نکلا

خار حسرت بیان سے نکلا
دل کا کانٹا زبان سے نکلا

فتنہ گر کیا مکان سے نکلا
آسماں آسمان سے نکلا

آ گیا غش نگاہ دیکھتے ہی
مدعا کب زبان سے نکلا

کھا گئے تھے وفا کا دھوکا ہم
جھوٹ سچ امتحان سے نکلا

دل میں رہنے نہ دوں ترا شکوہ
دل میں آیا زبان سے نکلا

وہم آتے ہیں دیکھیے کیا ہو
وہ اکیلا مکان سے نکلا

تم برستے رہے سر محفل
کچھ بھی میری زبان سے نکلا

سچ تو یہ ہے معاملہ دل کا
باہر اپنے گمان سے نکلا

اس کو آیت حدیث کیا سمجھیں
جو تمہاری زبان سے نکلا

پڑ گیا جو زباں سے تیری حرف
پھر نہ اپنے مکان سے نکلا

دیکھ کر روئے یار صل علیٰ
بے تحاشا زبان سے نکلا

لو قیامت اب آئی وہ کافر
بن بنا کر مکان سے نکلا

مر گئے ہم مگر ترا ارمان
دل سے نکلا نہ جان سے نکلا

رہرو راہ عشق تھے لاکھوں
آگے میں کاروان سے نکلا

سمجھو پتھر کی تم لکیر اسے
جو ہماری زبان سے نکلا

بزم سے تم کو لے کے جائیں گے
کام کب پھول پان سے نکلا

کیا مروت ہے ناوک دل دوز
پہلے ہرگز نہ جان سے نکلا

تیرے دیوانوں کا بھی لشکر آج
کس تجمل سے شان سے نکلا

مڑ کے دیکھا تو میں نے کب دیکھا
دور جب پاسبان سے نکلا

وہ ہلے لب تمہارے وعدے پر
وہ تمہاری زبان سے نکلا

اس کی بانکی ادا نے جب مارا
دم مرا آن تان سے نکلا

میرے آنسو کی اس نے کی تعریف
خوب موتی یہ کان سے نکلا

ہم کھڑے تم سے باتیں کرتے تھے
غیر کیوں درمیان سے نکلا

ذکر اہل وفا کا جب آیا
داغؔ ان کی زبان سے نکلا

داغ دہلوی
 

طاہر شیخ

محفلین
صدمہ تو ہے مجھے بھی کہ تجھ سے جدا ہوں میں
لیکن یہ سوچتا ہوں کہ اب تیرا کیا ہوں میں
کیا جانے کس ادا سے لیا تو نے میرا نام
دنیا سمجھ رہی ہے کہ سچ مچ ترا ہوں میں

قتیل شفائی
 

سیما علی

لائبریرین
آ کہ پھر آج ہم آہنگ ہوئی ہے لبِ جُو
نے کی لے، چاند کی تنویر، صبا کی خوشبو

منعقد پھر سے کروں محفلِ جمشید و قباد
دو گھڑی صدر نشینی پہ جو آمادہ ہو تُو

وقتِ کُن جو دلِ یزداں میں ہوا تھا غلطاں
میرے دل میں بھی وہی آ کے جگا دے جادو

کفر سجدے میں گرے، دِین کی نبضیں چھٹ جائیں
آج آ، دوش پہ بکھرائے ہوئے یوں گیسو

میں ہوں وہ رِند جسے دیکھ کے کہتے ہیں ملک
آفریں باد بر ایں خلوتئ جام و سبو

عقل کہتی ہے کہ کس طرح میسر ہو گا
عشق کہتا ہے کہ فردوس ہے تیرا پہلو

کیفِ مستی میں گہر بار کر ان آنکھوں کو
غمِ ہستی سے ٹپکتے نہیں جن کے آنسو

آ، پلا پھر مئے اسرارِ سکون و جنبش
اے بہ تمکیں حرمِ قدس و بہ شوخی آہو

آج یوں دل میں لطافت سے ہیں ارماں بے چین
جیسے طاعت میں بدلتے ہیں فرشتے پہلو

خاک مست، آبِ رواں تند، ہوائیں سرشار
آج اپنے پہ عناصر کو نہیں ہے قابو

آج اے نورِ نگاہِ قمر و بنتِ سحاب
کاش میرا سر شوریدہ ہو، تیرا زانو

پرسشِ چند نفس، اے مرے سرمایۂ شوق
زحمتِ چند قدم، اے مرے سروِ دلجو

آج اے جوش ترے رنگِ غزلگوئی سے
قندِ پارس کا مزا ہے بہ زبانِ اردو

جوش ملیح آبادی
 

سیما علی

لائبریرین
یہ تو نہیں فرہاد سے یاری نہیں رکھتے
ہم لوگ فقط ضربت کاری نہیں رکھتے

قیدی بھی ہیں اس شان کے آزاد تمہارے
زنجیر کبھی زلف سے بھاری نہیں رکھتے

مصروف ہیں کچھ اتنے کہ ہم کار محبت
آغاز تو کر لیتے ہیں، جاری نہیں رکھتے

جیتے ہیں مگر زیست کو آزار سمجھ کر
مرتے ہیں مگر موت سے یاری نہیں رکھتے

مہمان سرا دل کی گرا دیتے ہیں پل میں
ہم صدقۂ جاری کو بھی جاری نہیں رکھتے

تنہا ہی نکلتے ہیں سر کوئے ملامت
ہمراہ کبھی ذلت و خواری نہیں رکھتے

عباس تابش
 

سیما علی

لائبریرین
رات پھر جمع ہوئے شہرِ گریزاں والے
وہی چہرے تھے مِرے دیدۂ حیراں والے

سارے آشفتہ سراں اُن کے تعاقب میں رواں
وحشتیں کرتے ہوئے چشمِ غزالاں والے

چاند تاروں کی رِداؤں میں چھپائے ہوئے جسم
اور انداز وہی خنجرِ عُریاں والے

پاسداروں کا سرا پردۂ دولت پہ ہجوم
سلسلے چھت کی فصیلوں پہ چراغاں والے

نارسائی پہ بھی وہ لوگ سمجھتے تھے کہ ہم
شہرِ بلقیس میں ہیں ملک سلیماں والے

پھر کچھ اس طرح پڑے حلقۂ زنجیر میں پاؤں
سب جنُوں بھُول گئے دشت و بیاباں والے

میں بھی اک شامِ ملاقات کا مارا ہوا ہوں
مجھ سے کیا پوچھتے ہیں وادئ ہِجراں والے

اَب انہیں ڈھونڈ رہا ہوں جو صدا دیتے تھے
’اِدھر آ بے، ابے او چاک گریباں والے‘

عرفان صدیقی
 

سیما علی

لائبریرین
مشکل ہے کہ اب شہر میں نکلے کوئی گھر سے
دستار پہ بات آ گئی ہوتی ہوئی سر سے

برسا بھی تو کس دشت کے بے فیض بدن پر
اک عمر مرے کھیت تھے جس ابر کو ترسے

کل رات جو ایندھن کے لیے کٹ کے گرا ہے
چڑیوں کو بڑا پیار تھا اس بوڑھے شجر سے

محنت مری آندھی سے تو منسوب نہیں تھی
رہنا تھا کوئی ربط شجر کا بھی ثمر سے

خود اپنے سے ملنے کا تو یارا نہ تھا مجھ میں
میں بھیڑ میں گم ہو گئی تنہائی کے ڈر سے

بے نام مسافت ہی مقدر ہے تو کیا غم
منزل کا تعین کبھی ہوتا ہے سفر سے

پتھرایا ہے دل یوں کہ کوئی اسم پڑھا جائے
یہ شہر نکلتا نہیں جادو کے اثر سے

نکلے ہیں تو رستے میں کہیں شام بھی ہوگی
سورج بھی مگر آئے گا اس رہ گزر سے
پروین شاکر
 
لوگ پوچھیں گے

لوگ پوچھیں گے کیوں اداس ہو تم
اور جو دل میں آئے سو کہیو!
یوں ہی ماحول کی گرانی ہے'
'دن خزاں کے ذرا اداس سے ہیں'
کتنے بوجھل ہیں شام کے سائے
ان کی بابت خموش ہی رہیو
نام ان کا نہ درمیاں آئے
نام ان کا نہ درمیاں آئے
ان کی بابت خموش ہی رہیو
'کتنے بوجھل ہیں شام کے سائے'
'دن خزاں کے ذرا اداس سے ہیں'
'یونہی ماحول کی گرانی ہے'
اور جو دل میں آئے سو کہیو!
لوگ پوچھیں گے کیوں اداس ہو تم؟
 

سیما علی

لائبریرین
امجد اسلام امجد کی خوبصورت نظم جو محبت کی تھیوری کا عکس ہے۔
! محبت کی طبعیت میں یہ کیسا بچپنا قدرت نے رکھا ہے
کہ یہ جتنی پرانی جتنی بھی مضبوط ہو جائے
اسے تائید تازہ کی ضرورت پھر بھی رہتی ہے
! یقین کی آخری حد تک دلوں میں لہلہاتی ہو
! نگاہوں سے ٹپکتی ہو، لہو میں جگمگاتی ہو
! ہزاروں طرح کے دلکش حسیں ہالے بناتی ہو
اسے اظہار کے لفظوں کی حاجت پھر بھی رہتی ہے
محبت مانگتی ہے یوں گواہی اپنے ہونے کی
کہ جیسے طفل سادہ شام کو اک بیج بوئے
اور شب میں بار ہا اٹھے
زمیں کو کھود کر دیکھے کہ پودا اب کہاں تک ہے
محبت کی طبعیت میں عجب تکرار کی خو ہے
کہ یہ اقرار کے لفظوں کو سننے سے نہیں تھکتی
بچھڑ نے کی گھڑی ہو یا کوئی ملنے کی ساعت ہو
اسے بس ایک ہی دھن ہے
کہو ”مجھ سے محبت ہے“
کہو ”مجھ سے محبت ہے“
تمہیں مجھ سے محبت ہے
سمندر سے کہیں گہری، ستاروں سے سوا روشن
پہاڑوں کی طرح قائم ’ہواؤں کی طرح دائم
زمیں سے آسماں تک جس قدر اچھے مناظر ہیں
محبت کے کنائے ہیں، وفا کے استعارے ہیں
ہمارے ہیں
ہمارے واسطے یہ چاندنی راتیں سنورتی ہیں سنہرا دن نکلتا ہے
محبت جس طرف جائے، زمانہ ساتھ چلتا ہے ”
کچھ ایسی بے سکونی ہے وفا کی سرزمینوں میں
کہ جو اہل محبت کی سدا بے چین رکھتی ہے
کہ جیسے پھول میں خوشبو
کہ جیسے ہاتھ میں پارا
کہ جیسے شام کا تارا
محبت کرنے والوں کی سحر راتوں میں رہتی ہے
! گماں کے شاخچوں میں آشیاں بنتا ہے الفت کا
یہ عین وصل میں بھی ہجر کے خدشوں میں رہتی ہے
محبت کے مسافر زند گی جب کاٹ چکتے ہیں
تھکن کی کرچیاں چنتے
وفا کی اجرکیں پہنے
سمے کی رہگزر کی آخری سرحد پہ رکتے ہیں
تو کوئی ڈوبتی سانسوں کی ڈوری تھام کر
دھیرے سے کہتا ہے
! یہ سچ ہے نا
ہماری زندگی اک دو سرے کے نام لکھی تھی
دھندلکا سا جو آنکھوں کے قریب و دور پھیلا ہے
! اسی کا نام چاہت ہے
تمہیں مجھ سے محبت تھی
! تمہیں مجھ سے محبت ہے
محبت کی طبعیت میں
یہ کیسا بچپنا قدرت نے رکھا ہے
 
Top