میری دسویں غزل۔بجلیوں کا وہی نشانہ ہے

بہت شکریہ ہما حمید ناز صاحبہ پذیرائی پر ممنون ہوں اور آپ نے ایک اچھے نکتے کی طرف اشارہ فرمایا ۔ ویسے تو زبان و بیان کے لحاظ سے مانند کے ساتھ کی اور کے ،دونوں ہی اہل زبان کے موافق لگتے ہیں ۔ تا ہم مجھے آج کے مروج معیار کی نسبت کی زیادہ موافق تر لہجہ "کی" ہی لگا۔سو اسی کو استعمال کر لیا۔۔۔ الف عین صاحب سے رائے بھی لے لیتے ہیں۔آپ بھی کوئی مثال پیش کریں ۔میر تقی صاحب کے ہاں کے مانند کی ایک غزل ہے کے مانند کی ردیف کی۔تجھ بن اے نوبہار کے مانند۔چاک ہے دل انار کے مانند۔
تاہم میر ہی کا ایک شعر لڑکپن کے زمانے سے یونہی یاد پڑتا ہے۔۔۔۔نیز میر تقی صاحب کے زمانے کا املا ءبھی ی اور ے کے اعتبار سے اتنا مستحکم نہ تھا ۔
سر اٹھاتے ہی ہو ئے پامال
سبزہء نودمیدہ کی مانند


محسن نقوی صاحب کی ایک غزل ردیف کی مانند کی نظر سے گزری ہے ذہن میں آرہی ہے
مقروض کہ بگڑے ہوئے حالات کی مانند
مجبور کہ ہونٹوں پہ سوالات کی مانند
دل کا تیری چاہت میں عجب حال ہوا ہے
سیلاب سے برباد مکانات کی مانند
میں ان میں بھٹکے ہوئے جگنو کی طرح ہوں
اس شخص کی آنکھیں ہیں کسی رات کی مانند
دل روز سجاتا ہوں میں دلہن کی طرح سے
غم روز چلے آتے ہیں بارات کی مانند
اب یہ بھی نہیں یاد کہ کیا نام تھا اس کا
جس شخص کو مانگا تھا مناجات کی مانند
کس درجہ مقدس ہے تیرے قرب کی خواہش
معصوم سے بچے کے خیالات کی مانند
اس شخص سے ملنا محسن میرا ممکن ہی نہیں ہے
میں پیاس کا صحرا ہوں وہ برسات کی مانند
------------------------
ایک بار پھر آداب و سپاس۔

سید صاحب مثال تو مجھے کوئی یاد نہیں آرہی ۔ بس بزرگوں سے یہی سنتے آئے تھے کہ زیادہ فصیح کا مانند اور کے مانند ہوتا ہے ۔ جون ایلیا مرحوم سے خود ایک دفعہ ایسا ہی سننے کا اتفاق ہوا تھا۔ بہرحال یہ لفظ دونوں طرح سے ہی مستعمل ہے اس لئے مسئلہ تو کوئی نہیں ۔ میرا اشارہ اس طرف تھا کہ " کی پارسائی کی مانند" میں جو یائے معروف کی تکرار ہورہی ہے اسے "پارسائی کے مانند" لکھنے سے صوتی طور پر بہتر بنایا جاسکتا تھا۔ آپ زیادہ بہتر سوچ سکتے ہیں ۔ :)
غزل پر ایک دفعہ پھر داد!
 
شمع کے مانند ہم اس بزم میں
چشمِ نم آئے تھے دامن تر چلے
میردردؔ۔۔۔۔

میرؔ صاحب بھی اس کے ہاں تھے لیک
بندہِ زر خریدہ کے مانند
میر تقی میرؔ
 
آخری تدوین:
دل میرا سوزِ نہاں سے بے محابا جل گیا
آتشِ خاموش کی مانند گویا جل گیا

عرق ریزِ تپش ہیں، موج کی مانند، زنجیریں
خیالِ سادگی ہائے تصور، نقشِ حیرت ہے

اور کے کے ساتھ

لگتی ہے مجھے تیر کے مانند، ہر انگشت
ہر غنچۂ گل صورتِ یک قطرۂ خوں ہے

دیکھ لی جوشِ جوانی کی ترقّی بھی کہ اب
بدر کے مانند، کاہش روز افزوں ہے مجھے

غالب
 

سید عاطف علی

لائبریرین
دل میرا سوزِ نہاں سے بے محابا جل گیا
آتشِ خاموش کی مانند گویا جل گیا
عرق ریزِ تپش ہیں، موج کی مانند، زنجیریں
خیالِ سادگی ہائے تصور، نقشِ حیرت ہے
اور کے کے ساتھ
لگتی ہے مجھے تیر کے مانند، ہر انگشت
ہر غنچۂ گل صورتِ یک قطرۂ خوں ہے
دیکھ لی جوشِ جوانی کی ترقّی بھی کہ اب
بدر کے مانند، کاہش روز افزوں ہے مجھے
غالب
ان اشعار سے تو لگتا ہے کہ مرزا نے یہاں "مانند" کے استعمال کی نسبت کو منسوب کی جنس کے مطابق ملتزم کیا ہے ۔ اور ہردو صورتوں کو مقبول رکھا ہے۔
آتش اور موج مؤنث ہیں، سو اس کے لیے ۔ کی مانند ۔
تیر اور بدر مذکر سو اس کے ساتھ ۔۔۔ کے مانند ۔۔۔ واللہ اعلم
 

سید عاطف علی

لائبریرین
بجلیوں کا وہی نشانہ ہے
وہ شجر جس پہ آشیانہ ہے
-
کیوں بڑھائی گئی سزا میری ؟
کیا مرا جرم مسکرا نا ہے
-
شیخ کی پارسائی کی مانند
تیری نظروں کا تازیانہ ہے
-
میں سمجھ ہی نہ پایا آخر تک
اس کا انداز دوستانہ ہے
-
مسکرانے سے التفات گیا
اس سے بہتر تو روٹھ جانا ہے
-
پہلے قید قفس میں تھی بلبل
اب وہ پابند آب و دانہ ہے
-
چشم گریاں سے ہو گیا ظاہر
دل کا موسم بہت سہانا ہے
۔
ایک شعر بعد میں شامل کیا تھا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں یہ کہتا رہا "یقین کرو"
وہ یہ کہتے رہے "دوانہ ہے"
 

ابن رضا

لائبریرین
Top