میرا یار کمپیوٹر بولا ”اردو صرف اردو ہے“

بلال

محفلین
بسم اللہ الرحمن الرحیم
میرا یار کمپیوٹر بولا ”اردو صرف اردو ہے“
یارو! کل میری بڑی بے عزتی ہوئی ہے۔ دل تو کر رہا ہے ”کمپیوٹر“ کو اچھی بھلی گالیاں نکالوں کیونکہ اس نے کل وہ کیا جس کی کبھی مجھے امید نہیں تھی۔ خیر کمپیوٹر بھی اپنا یار ہے اس لئے اس کی گستاخی پر درگزر کرتے ہیں۔ ویسے بھی بات چیت کے آخر پر اس نے یاروں کا یار بنتے ہوئے بڑے پیار سے بات کی۔
ہوا یوں کہ کل میں کمپیوٹر کو یہ پوچھ بیٹھا کہ ”یارا! یہ یونیکوڈ اردو کیا ہوتی ہے؟“ کمپیوٹر سر نیچے کیے ہوئے کاغذات کی دیکھ بھال کرنے میں خوب مگن تھا، اس لئے کمپیوٹر نے میرے سوال پر ذرا بھی توجہ نہ دی۔ جب میں نے دوبارہ بڑے پیار سے اپنا سوال دہرایا تو، ناک پر رکھی ہوئی عینک کے اوپر سے آنکھیں تھوڑی زیادہ کھول کر کمپیوٹر میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگا کہ ”اردو صرف اردو ہے اس لئے کسی یونیکوڈ اردو کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا“۔
مجھے سمجھ نہ آئی تو میں نے مزید سوال کیا کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ”کمپیوٹر کی ایک یونیکوڈ اردو اور دوسری تصویری اردو ہوتی ہے“۔
بس میرا یہی کہنا تھا کہ کمپیوٹر کا دماغ گھوم گیا۔ غصے میں عینک اتار کر زور سے میز پر مارتے ہوا بولا ”تم پتہ نہیں کہاں کہاں سے الٹی سیدھی باتیں سن آتے ہو اور آ کر میرا دماغ کھانے لگ پڑتے ہو۔ جب میں نے کہا کہ اردو صرف اردو ہے، تو پھر مزید کسی سوال کی گنجائش باقی نہیں رہتی“۔
اس دوران مجھے صاف پتہ چل رہا تھا کہ کمپیوٹر کو بہت غصہ آیا ہوا ہے۔ کمپیوٹر کے تاثرات سے لگ رہا تھا کہ اسے اپنے اوپر کوئی تہمت لگتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے۔
ابھی میں اندازے ہی لگا رہا تھا کہ کمپیوٹر خود بول پڑا ”یار بلال! یہ کچھ اردو والوں نے مجھ پر ”تہمت“ لگا رکھی ہے کہ میری دو قسم کی اردو ہے جبکہ ایسا نہیں۔ جب میں دیگر زبانوں کی ایک ہی قسم رکھتا ہوں تو پھر مجھے اردو کی دو قسمیں رکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ بلکہ لوگوں نے ہی میری اردو کے ساتھ ساتھ ایک تصویری اردو لا کھڑی کی ہے۔ ایک تو مجھ سے میری اردومیں بات نہیں کرتے اور اوپر سے مجھ پر دو قسم کی اردو رکھنے کی تہمت لگاتے ہیں۔ اب میں فضل الحق سری پائے اور کوزی حلیم والوں کی طرح جگہ جگہ اصلی اردو اور نقالوں سے ہوشیار رہنے کے بورڈ لگانے سے تو رہا۔ کچھ تم لوگ ہی اپنی کھوپڑی سے کام لے لو۔“
بات کرتے ہوئے کمپیوٹر کے لہجے میں تھوڑی نرمی آئی ہوئی تھی لیکن ساتھ ہی چیخ کر بولا ”تم لوگ ہو ہی ناشکرے۔ میں نے اپنے اندر ایک نظام یونیکوڈ بنایا تاکہ جہاں میں دیگر زبانوں کے لئے اچھے طریقے سے کام آتا ہوں وہاں پر اردو کے لئے بھی بہتر کام آ سکوں۔ میں نے اس جدت کی خاطر کئی پاپڑ بیلے، کئی سالوں تک محنت کی، لیکن تم ناشکرے لوگوں نے میری اس جدت سے فائدہ اٹھانے کی بجائے میری اردو کے مقابلے میں تصویری اردو کو سوتن بنا دیا۔“
کمپیوٹر نے یہاں پر تھوڑا سا سانس لیا۔ میں سمجھا مجھے بات کرنے کا موقع مل گیا ہے، آخر میں بھی اس معاشرے کا حصہ ہوں جہاں پر صرف تنقید برائے تنقید اور پوری بات سنے، سمجھے بغیر لیکن لیکن کہا جاتا ہے، اس لئے میں نے موقع سمجھتے ہوئے سوال کرنا چاہا مگر کمپیوٹر نے مجھے سوال کرنے کا موقع ہی نہ دیا اور بول پڑا۔
”بھائی صاحب! یہ اکیسویں صدی ہے، 2011ء ختم ہو چکا ہے اور 2012ء چل رہا ہے، لیکن تم اردو والے آج بھی 1999ء کی سوچ رکھے ہوئے ہو۔ دنیا نے پچھلے دس گیارہ سالوں میں ٹیکنالوجی کے میدان میں بہت ترقی کی ہے۔ خدا کے لئے تم بھی کوئی ہوش کے ناخن لو۔“
اب کی بار کمپیوٹر تھوڑا چپ ہوا لیکن اس کا غصہ عروج پر تھا۔ میں نے کمپیوٹر کا غصہ کم کرنے اور اس کی مدد کرنے کے لئے کہا ”یار مجھے ٹھیک ٹھیک اور تفصیلی معلومات دے۔ میں چاہے ایک گیا گزرا بلاگر ہی سہی لیکن اگر تو مجھے ٹھیک معلومات دے گا تو میں اس معلومات کو لوگوں تک پہنچاؤں گا اور پھر ہو سکتا ہے لوگوں کو کچھ خیال آ جائے۔“
میرا اتنا کہنا تھا کہ کمپیوٹر نے بڑی نرمی سے کہا ”بتا تو دیا ہے لیکن پھر بھی تیرا کوئی سوال ہے تو پوچھ“۔
میں نے کہا ”یار! ٹھیک ہے مجھے سمجھ آ گئی ہے کہ تیری اردو ایک ہی ہے، لیکن انگریزی صرف انگریزی ہے اور دیگر زبانیں بھی بالکل ایسے ہی ہیں لیکن یہ اردو کے ساتھ ہی ”یونیکوڈ“ کیوں لگا ہے؟“
کمپیوٹر بولا ”بات صرف اتنی سمجھنے والی ہے کہ میرا پہلے کوئی اور نظام تھا جس میں اردو لکھنے کی گنجائش نہیں تھی۔ تب تم لوگ تصویروں کی صورت میں اردو لکھتے تھے۔ ایسی تصویری اردو نہ کل میری تھی اور نہ آج میری ہے۔ ایسی تصویری حالت میں اردو کو میں نہیں سمجھ سکتا بلکہ میں تو اسے اردو سمجھتا ہی نہیں۔ میرے لئے جیسے دیگر تصاویر ہوتی ہیں بالکل ایسے ہی یہ بھی تصاویر ہی ہیں اور ان تصاویر میں لکھی ہوئی اردو سے تم لوگ عارضی فائدہ تو اٹھا سکتے ہو لیکن اگر مجھ سے کہو کہ میں ایسی تصویری حالت میں موجود اردو کی سائبر لائیبریریوں سے مواد تلاش کر کے دوں تو یہ میرے لئے فی الحال ممکن نہیں۔ جب پرانا وقت تھا تب تو تصویری حالت میں اردو رکھنا تمہاری مجبوری تھی اور مجھے بھی بہت شرمندگی ہوتی تھی کہ میں باقی کئی زبانوں کے لئے تلاش اور دیگر کئی کاموں میں مدد دیتا ہوں لیکن اردو کے لئے سوائے ڈیسکٹاپ پبلشنگ کے اور کسی کام نہیں آ رہا تو پھر مجھے خیال آیا کہ ایسا کوئی نظام ہو جس سے میں زیادہ سے زیادہ زبانوں کو سمجھ سکوں اور انسانوں کو فائدہ پہنچاؤ۔ یوں میں نے ایک نظام بنایا جس کو یونیکوڈ کا نام دیا۔ میں نے اس یونیکوڈ نظام میں اردو کو بھی جگہ دی۔ اب میری زیادہ تر زبانیں اسی نظام میں موجود ہیں۔ میں صرف اسے زبان مانتا ہوں جو میرے زبانوں کے نظاموں کے تحت لکھی جاتی ہیں۔“
ابھی اتنی گفتگو ہوئی تھی کہ بجلی چلی گئی اور بات چیت کا سلسلہ رک گیا۔ میں باہر صحن میں چلا گیا۔ دھوپ میں بیٹھ کر مالٹے کھائے۔ مالٹے کھانا مجبوری تھی کیونکہ ایک بہت پیارے دوست نے سرگودھا سے کافی سارے مالٹے بھیج دیئے ہیں۔ مالٹے کھانے کے ساتھ میں سوچتا رہا کہ آخر کمپیوٹر آج اتنے عجیب و غریب لہجے میں بات چیت کیوں کر رہا تھا۔ خیر اللہ اللہ کر کے پانچ گھنٹے بعد شام کے وقت بجلی نے دیدار کروایا اور میں بھاگتا ہوا کمپیوٹر کے پاس پہنچا تاکہ گفتگو کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا جائے اور یوں کمپیوٹر سے دوبارہ بات چیت شروع ہوئی۔
کمپیوٹر سے سلام دعا کے بعد میں نے کہا”تم نے مجھے اتنی لمبی چوڑی تقریر سنا دی ہے لیکن میرا سوال تو وہیں کا وہیں ہے کہ آخر اردو کے ساتھ یونیکوڈ کیوں بولا جاتا ہے؟“
سوال کرنے کی دیر تھی کہ کمپیوٹر بڑے طنزیہ انداز میں بولا ”میں نے تو تم لوگوں کو کب کہا کہ میری اردو کے ساتھ یونیکوڈ لفظ کا اضافہ کرو؟ ٹھیک ہے یونیکوڈ میرے ایک نظام، ایک ٹیکنالوجی کا نام ہے لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ تم اس نظام کے نام کو زبان کے نام کے ساتھ ملا دو۔ بھائی صاحب! میں تو اردو کی طرح کئی دیگر زبانیں بھی یونیکوڈ نظام کے تحت ہی سمجھتا ہوں لیکن کبھی تم نے ان زبانوں کے ساتھ یونیکوڈ کا لفظ لگا دیکھا یا سنا؟ اصل میں تم لوگ پہلے تصویروں کی صورت میں اردو لکھتے تھے۔ جس کا مجھے کچھ پتہ نہیں ہوتا تھا۔ میں ان اردو لکھی تصویروں کو تصویریں سمجھ کر ادھر سے ادھر کرتا اور پرنٹر کو بھیجتا تھا لیکن جب میں نے اردو کو سمجھنا شروع کیا اور جس نظام کے تحت سمجھا تم لوگوں نے اردو کے ساتھ اس نظام کا نام لگا دیا۔ ٹھیک ہے ڈویلپر اور دیگر ماہرین تکنیکی لحاظ سے بات چیت کرتے ہوئے میرے نظام کو زیر بحث لائیں اور بات سمجھنے کے لئے یونیکوڈ اردو کہہ لیں، لیکن لوگوں کو بتا دو کہ میری اردو صرف ”اردو“ ہے کوئی ”یونیکوڈ اردو“ نہیں، اس لئے جب تم لوگ میرے حوالے سے اردو کا ذکر کرو تو زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہو کہ کمپیوٹر کی اردو۔“
آخر کار میں نے کمپیوٹر سے کہا ”چھوڑ ساری باتوں کو مجھے صرف دو ٹوک بتا کہ اردو کے معاملے میں آخر تو چاہتا کیا ہے؟“
کمپیوٹر نے نہایت ہی نرمی سے کہا ”دیکھو بھائی بلال! پہلی بات تو یہ کہ میری صرف ایک ہی اردو ہے جس کو میں یونیکوڈ نظام کے تحت سمجھتا ہوں۔ دوسری بات اگر چاہتے ہو کہ میں انٹرنیٹ اور ہر جگہ پر اردو کے حوالے سے تم لوگوں کی مدد کر سکوں تو پھر مجھ سے میری اردو میں ہی بات کرو۔ ٹھیک ہے ابھی میں اردو کو بہتر سے بہتر انداز میں دکھانے اور دیگر کئی کاموں کے لئے نظام تیار کر رہا ہوں اور وقت کے ساتھ ساتھ میں تم لوگوں کو مزید اچھے رسم الخط (فانٹ) میں اردو دکھاؤں گا اور کئی قسم کی زیب و آرائش کر کے دوں گا لیکن یہ سارے نظام میں تب ہی بناؤں گا جب تم میری اردو میں مجھ سے مخاطب ہونا پسند کرو گے۔ اگر آج بھی تم زیب و آرائش کے چکر میں تصویروں میں ہی اردو لکھتے رہے تو پھر سوچ لو میں قیامت تک تم لوگوں کو اردو کے متعلق اچھے نظام نہیں دوں گا۔ تجھے آخری اور خاص بات بتا دوں کہ یونیکوڈ نظام کے تحت لکھی جانے والی اردو کا ہی مستقبل ہے اور یہ بات اردو کے مامے چاچے سافٹ ویئروں کو بھی سمجھ آ چکی ہے جبھی تو وہ بھی خود کو اسی نظام کے تحت لے آئے ہیں۔ باقی اب اٹھو اور جاؤ میرا زیادہ دماغ نہ کھاؤ۔ مجھے اور بھی بہت سے کام کرنے ہیں۔ یہ نہ ہو بجلی دوبارہ چلی جائے اور کام وہیں کے وہیں رکے رہ جائیں۔“
خیر میں نے بھی سوچا کمپیوٹر ٹھیک ہی کہہ رہا ہے باقی کام کاج کر لینے چاہئیں۔ یوں میں کمپیوٹر سے گفتگو کرنے کے بعد اٹھ کر جانے لگا تو کمپیوٹر نے پیچھے سے آواز دی ”اس گفتگو پر تحریر ضرور لکھنا۔ زیادہ نہیں تو لوگوں کو میرا صرف اتنا پیغام دے دینا کہ کمپیوٹر نے کہا ہے کہ میری صرف ایک ہی اردو ہے جسے میں یونیکوڈ نظام کے تحت سمجھتا ہوں، باقی رنگ برنگی تصویروں کو میں اردو نہیں سمجھتا اور میرا ان تصویروں سے اردو کے حوالے سے کوئی لینا دینا نہیں بلکہ فی الحال میرے سامنے چاہے اردو لکھی تصویریں رکھو یا وینا ملک کی تصویریں رکھو، میں دونوں کو ایک ہی کھاتے میں ڈال دوں گا۔“
 

شمشاد

لائبریرین
ہاہاہاہاہا بہت خوب بلال بھائی بہت ہی عمدہ

کمپیوٹر سے مکالمہ اور وہ بھی اردو میں اور اردو زبان پر۔ شاندار
 

الف عین

لائبریرین
مزے کی تحریر ہے بلال۔ مجھے خود بھی عجیب لگتا رہا ہے اردو کو ’یونی کوڈ اردو‘ لکھنا۔ اور میں تصویری اردو کو تو پہلے بھی اردو مانتا ہی نہیں!!!
 

باسم

محفلین
یہ تحریر اردو کے مامے چاچوں اور ان کے بھانجے بھتیجوں تک پہنچادی جائے جو محض رقم کیلیے تصویر کو اردو کہہ رہے ہیں
 

باذوق

محفلین
یہ تحریر اردو کے مامے چاچوں اور ان کے بھانجے بھتیجوں تک پہنچادی جائے جو محض رقم کیلیے تصویر کو اردو کہہ رہے ہیں
کوئی پانچ سال پہلے ایک "مامے" صاحب نے یوں عرض فرمایا تھا ۔۔۔
میں نے اب تک جتنے بھی اردو یونیکوڈ فانٹس دیکھے ہیں ان میں سے کسی نے مجھے زیادہ متاثر نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ میں ابھی تک ان پیج اردو سافٹ وئر استعمال کرتا ہوں۔ ہمیں اپنی تحریر کی پیشکش کا اسلوب خوبصورت بنانا چاہیے جو کہ شاید اب تک بنے کوئی اردو یونیکوڈ فانٹ نہ بنا سکے۔
اور میرا جواب تھا ۔۔۔۔
یہ جو کہا گیا ہے کہ : ہمیں اپنی تحریر کی پیش کش کا اسلوب خوبصورت بنانا چاہئے ۔۔۔
اگر ناگوار خاطر نہ گزرے تو بہت ادب اور معذرت کے ساتھ عرض کروں گا کہ : یہ ایک انتہائی بودی اور بچکانہ دلیل ہے۔
دنیا میں ایسی بہت سی زبانیں ہیں جن کے شکستہ خط (‫font) کو دیکھ کر ہی ہمارا پارا چڑھ جائے گا کہ یہ کیا کیڑے مکوڑے رینگ رہے ہیں؟ جاپانی اور چینی زبان ہی لے لیں۔ کیا ان زبانوں کا طرزِ تحریر ہمارے نزدیک خوبصورت کہلائے جانے کا حقدار ہو سکتا ہے؟
اس کے باوجود ، جاپانی اور چینی زبانوں میں جو ادب تخلیق ہوتا ہے وہ دنیا کی بڑی سے بڑی زبانوں کے مقابلے میں رکھے جانے کے قابل ہوتا ہے۔
ثابت یہ ہوا کہ کوئی تحریر یا تخلیق ، کسی فونٹ کی محتاج نہیں ہے کہ خوبصورت نظر آئے۔ خیال خوبصورت ہونا چاہئے ، لکھنے کا انداز خوبصورت ہونا چاہئے ، الفاظ کی نشست و برخاست اور انتخاب خوبصورت ہونا چاہئے۔ صرف ظاہری خوبصورتی اگر سب کچھ ہوتی تو پھر دنیا میں چینی ، جاپانی اور اس جیسی شکستہ خط والی دیگر زبانوں میں کوئی زندہ ادب کبھی تخلیق ہی نہ ہو پاتا۔

دنیا بھر کے ماں باپ (ایک آدھ استثنائی مثال کو چھوڑ کر) ، بہو کو ڈھونڈنا ہو تو صرف اس کی ظاہری خوبصورتی کو دیکھ کر فوراَ اپنے فرمانبردار بیٹے کی شادی اس سے نہیں کر دیتے۔ لڑکی کی سیرت جاننے کے لیے بھی کافی کھوج کرید کی جاتی ہے۔ اب یہ الگ بات ہے کہ برصغیر میں آج کل یہی رجحان چل نکلا ہے کہ گوری چمڑی ہونا چاہئے بس ، باطن چاہے کتنا ہی سیاہ کیوں نہ ہو اور بیٹا چاہے عمر بھی روتا کیوں نہ بیٹھے۔


اور یہ آخری جواب تھا مامے جی کے اُس فورم پر راقم کا !!! :)
 

بلال

محفلین
ہاہاہاہاہا بہت خوب بلال بھائی بہت ہی عمدہ

کمپیوٹر سے مکالمہ اور وہ بھی اردو میں اور اردو زبان پر۔ شاندار
وہ کیا ہے کہ شمشاد بھائی کمپیوٹر اردو بڑی اچھی سمجھتا ہے اس لئے اب ہم زیادہ تر اس سے اردو میں ہی بات کرتے ہیں۔
تحریر پسند کرنے کا بہت شکریہ۔
جب تک اردو کے دامن میں آپ جیسے لوگ موجود ہیں تب تک اردو کو نقصان نہیں پہنچ سکتا :)
یہ آپ کا بڑا پن ہے ورنہ بندہ ناچیز اس قابل نہیں۔ ہم تو اس میدان میں بمشکل پیادے کی حیثیت رکھتے ہیں۔
خوب لکھا بلال صاحب، لاجواب
محمد وارث بھائی یہ بلال ”صاحب“ کی بجائے صرف بلال کہہ دیا کریں۔ پتہ کیوں جب آپ جیسے محسن لوگ بلال صاحب کہتے ہیں تو عجیب سا محسوس ہوتا ہے۔ باقی تحریر پسند کرنے کا بہت شکریہ۔
مزے کی تحریر ہے بلال۔ مجھے خود بھی عجیب لگتا رہا ہے اردو کو ’یونی کوڈ اردو‘ لکھنا۔ اور میں تصویری اردو کو تو پہلے بھی اردو مانتا ہی نہیں!!!
یہ ہوئی اصل بات۔ انکل جی تحریر پسند کرنے کا بہت بہت شکریہ۔ آپ لوگ یونہی حوصلہ افزائی کرتے رہے تو امید ہے مزید اچھا لکھنا آ جائے گا۔
یہ تحریر اردو کے مامے چاچوں اور ان کے بھانجے بھتیجوں تک پہنچادی جائے جو محض رقم کیلیے تصویر کو اردو کہہ رہے ہیں
بس جی اردو کے مامے چاچوں کی زرد مارکیٹنگ کی وجہ سے ہی خیال آیا کہ تھوڑی ہم بھی وضاحت کر دیں۔ تاکہ لوگوں کو گمراہ کرنے والوں کو ہو سکتا ہے کچھ خیال آ جائے۔
کوئی پانچ سال پہلے ایک "مامے" صاحب نے یوں عرض فرمایا تھا ۔۔۔
اور میرا جواب تھا ۔۔۔ ۔
اور یہ آخری جواب تھا مامے جی کے اُس فورم پر راقم کا !!! :)
تب بھی آپ نے خوب جواب دیا تھا اور اب بھی کئی دوست اسے سمجھا چکے ہیں لیکن پتہ نہیں اس بندے کو کیا مسئلہ ہے؟ پانچ سالوں میں دنیا کہاں کی کہاں پہنچ گئی لیکن وہ بندہ آج بھی۔۔۔
 
اچھا جناب تو ہم سفر میں تھے اور آپ نے یہ رنگ بکھیر دیئے۔ بلال بھائی کی تحریر کا منفرد ذائقہ ہم کبھی نہیں بھولتے۔ :)

غالباً اس تحریر کی کھچڑی آپ کے دماغ میں پک رہی ہوگی جس وقت ہم آپ کا ذکر جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اردو ڈیپارٹمینٹ میں بیٹھے کر رہے تھے۔ آپ اپنی سائٹ کی ایکسس لاگ دیکھیں تو وہاں کی آئی پی ایڈریس کے نشان بھی مل سکتے ہیں۔ :)
 

میر انیس

لائبریرین
اپنی بات کتنی خوبصورت طریقہ سے آپ نے لوگوں تک پہنچائی ہے کہ پڑہنے میں بھی مزہ آئے اور تحریر کا مقصد بھی حاصل ہو جائے۔
 

بلال

محفلین
اچھا جناب تو ہم سفر میں تھے اور آپ نے یہ رنگ بکھیر دیئے۔ بلال بھائی کی تحریر کا منفرد ذائقہ ہم کبھی نہیں بھولتے۔ :)
غالباً اس تحریر کی کھچڑی آپ کے دماغ میں پک رہی ہوگی جس وقت ہم آپ کا ذکر جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اردو ڈیپارٹمینٹ میں بیٹھے کر رہے تھے۔ آپ اپنی سائٹ کی ایکسس لاگ دیکھیں تو وہاں کی آئی پی ایڈریس کے نشان بھی مل سکتے ہیں۔ :)
سعود بھائی تحریر پسند کرنے کا بہت بہت شکریہ۔ ویسے یہ سب کچھ آپ لوگوں کی رہنمائی میں ہی کر رہا ہوں۔ امید ہے آپ لوگ یونہی اپنے اس شاگرد کی رہنمائی کرتے رہیں گے اور یہ ناچیز اردو کے لئے کچھ نہ کچھ کرتا رہے گا۔
ہو سکے تو دعاؤں میں یاد رکھئے گا۔

بہت عمدہ بلال ، لگے رہو اسی طرح بھرپور توانائی کی ساتھ۔
پسند کرنے کا بہت شکریہ۔ امید ہے آپ یونہی اپنی بھر پور توانائی سے حوصلہ افزائی کرتے رہیں گے اور ہم یہ کارواں لے کر چلتے رہیں گے۔

اپنی بات کتنی خوبصورت طریقہ سے آپ نے لوگوں تک پہنچائی ہے کہ پڑہنے میں بھی مزہ آئے اور تحریر کا مقصد بھی حاصل ہو جائے۔
تحریر پسند کرنے اور حوصلہ افزائی کا بہت بہت شکریہ۔
 
Top