مگر دونوں عصا ٹوٹے ہوئے ہیں۔۔۔۔ حیدر گیلانی

زھرا علوی

محفلین
"پسپائی"

یہ سوچا تھا
کہ تیرا ہاتھ تھامے
سرحدِ جاں سے آگے جا پڑاؤ ڈالنا ہے
ہمیشہ ساتھ رہنا ہے
سدا اک دوسرے کو چاہنا ہے

یہ سوچا تھا
وہاں تک تجھ کو دیکھوں میں
جہاں تک ساتھ دیں اجڑی نگاہیں
مری نظرون کے ہر اک زاویے کی آخری حد پر
ترا کھلتا ہوا چہرہ
مرے احساس کے تپتےہوئے
بے انت صحرا کی سلگتی ریت پر پت جھڑ کے
ہرے لہجے میں لپٹے
آرزوؤں کی دھنک اوڑھے ہوئے
لفظوں کی شبنم

یہ سوچا تھا
تری خوشبو کے موسم بیتنے سے قبل
میری سانس ٹوٹے

یہ سوچا تھا
کہ تیری دید کے لمحے گزرنے سے ذرا پہلے
مری آنکھیں ہوں پتھر
تری امرت گھلی آواز کی رم جھم رتیں ڈھلنے سے پہلے ہی
مری تابِ سماعت ساتھ چھوڑے

مگر یہ غیر ممکن تھا
کہ میں سرحدِ امکاں پہ پہنچا تو یہ دیکھا
مرے پیروں میں اک زنجیر تھی
زنجیر، جس کو توڑنا تھا میرے بس میں
نہ میری ذات ہی تھی میرے دل کی دسترس میں

مری جاں سن
مرے وعدے تھے سچے

مگر اب کیا؟
کہ سب جھوٹے ہوئے ہیں

مجھے تیرا ۔ تجھے میرا سہارا
مگر دونوں عصا ٹوٹے ہوئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔
 
Top