مصطفیٰ زیدی مِری پتھر آنکھیں،،،،مصطفی زیدی

علی فاروقی

محفلین
اب کے مٹی کی عبارت میں لکھی جائے گی
سبز پتّوں کی کہانی رُخِ شاداب کی بات
کل کے دریاوں کی مٹتی ہوئ مبہم تحریر
اب فقط ریت کے دامن میں نظر آئے گی
بُوند بَھر نَم کو ترس جائے گی بے سود دعا
نَم اگر ہو گی کوئ چیز تو میری آنکھیں
میری پلکوں کے دریچے مرِی بنجر آنکھیں
میرا اُجڑا ہو چہرہ ، مری پتھر آنکھیں
قحط افسانہ نہیں اور یہ بے ابر فلک
آج اُس دیس کل اس دیس کا وارث ہوگا
ہم سے ترکے میں ملیں گے اُسے بیمار درخت
تیز کرنوں کی تمازت سے چٹختے ہوئے ہونٹ
دُھوپ کا حُرفِ جنوں ، لُو کا وصّیت نامہ
اور مِرے شہرِ طلسمات کی بے در آنکھیں
مِری بے در مِری بنجر ، مِری پتھرآنکھیں
 

غزل قاضی

محفلین

مِری پتّھر آنکھیں​
اب کے مٹّی کی عبارت میں لِکھی جائے گی
سبز پتّوں کی کہانی ، رُخ ِ شاداب کی بات
کل کے دریاؤں کی مٹتی ہُوئی مُبہم تحریر
اب فقط ریت کے دامن میں نظر آئے گی
بُوند بھر نَم کو ترس جائے گی بےسُود دعا
نَم اگر ہو گی کوئی چیز تو میری آنکھیں
میری پلکوں کے دریچے ، مری بنجر آنکھیں
میرا اُجڑا ہوا چہرہ ، مری پتّھر آنکھیں
قحط افسانہ نہیں ، اور یہ بے اَبر فلک
آج اُس دیس ، کل اِس دیس کا وارث ہو گا
ہم سے ترکے میں ملیں گے اُسے بیمار درخت
تیز کرنوں کی تمازت سے چٹختے ہوئے ہونٹ​
دُھوپ کا حرف ِ جنوں ، لُو کا وصّیت نامہ
اور مرے شہر ِ طلسمات کی بےدَر آنکھیں
مری بےدَر ، مری بنجر ، مری پتّھر آنکھیں​
مصطفیٰ زیدی​

از کوہ ِ ندا​
 
Top