مولانا مودودی خادمِ اسلام یا انتہا پسند؟ - وسعت اللہ خان

ربیع م

محفلین
مولانا مودودی خادمِ اسلام یا انتہا پسند؟


وسعت اللہ خان بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی

151208232323_jamat_e_islami_pakistan_640x360_afp.jpg
انیس سو اناسی میں جب کنگ فیصل فاؤنڈیشن نے سائنس، مذہب، فلسفے اور خدمات کے شعبوں میں اسلامی دنیا کے نوبیل پرائز کنگ فیصل ایوارڈ کا اجرا کیا تو خدمتِ اسلام کے شعبے میں پہلا فیصل ایوارڈ ( چوبیس قیراط دو سو گرام کا طلائی تمغہ مع دو لاکھ ڈالر ) مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کو دیا گیا۔اگر آپ کنگ فیصل فاؤنڈیشن کی ویب سائٹ کھولیں تو آج بھی مولانا مودودی کا تعارف کچھ یوں ہے ۔

’وہ معروف مذہبی سکالر اور مبلغِ اسلام تھے۔ان کا شمار بیسویں صدی کے صفِ اول کے موثر اسلامی فلسفیوں میں ہوتا ہے۔ان کی زندگی اور نظریات کو دنیا بھر میں مسلمان اور غیر مسلم محققین نے اپنی تحقیق کا موضوع بنایا ۔وہ ایک وسیع العلم شخصیت تھے جن کی تحریروں نے عالمِ اسلام میں اسلامی اقدار اور روحِ اسلام کو اجاگر کیا۔ انھیں کنگ فیصل ایوارڈ اسلامی صحافت کے فروغ اور برصغیر میں اسلامی نظریات کے احیا کے اعتراف میں عطا کیا گیا۔‘

مولانا مودودی کے بعد خدمت ِ اسلام کے شعبے میں کنگ فیصل ایوارڈ شاہ خالد اور پھر شاہ فہد بن عبدالعزیز کو بھی دیا گیا اور یہی ایوارڈ مولانا مودودی کو ملنے کے گیارہ برس بعد (1990) ان کے شاگرد پروفیسر خورشید احمد کو بھی عطا ہوا۔

اور پھر دو دسمبر 2015 کو سعودی اخبار عرب نیوز میں یہ خبر شائع ہوئی کہ سعودی وزارتِ تعلیم نے اخوان المسلمون کے بانی حسن البنا، سئید محمد قطب، قطر کے عالم یوسف القرادوی اور مولانا مودودی کی تصنیفات سمیت 80 کتابوں پر پابندی عائد کردی ہے۔

تمام سعودی سکولوں، لائبریریوں اور ریسورس سینٹرز کو حکم دیا گیا ہے کہ دو ہفتے کے اندر ان مصنفین کی کتابیں وزراتِ تعلیم میں جمع کرا دیں ورنہ تادیبی کاروائی ہوگی۔ نیز خبردار کیا گیا کہ آئندہ کوئی سکول، لائبریری اور ریسورس سینٹر سوائے وزارتِ تعلیم کسی اور سے کتابوں کا عطیہ یا تحائف قبول نہ کرے۔

گو ان تصنیفات کو ممنوع قرار دینے کی سرکاری وجہ تو نہیں بتائی گئی البتہ وزارتِ تعلیم کے اندرونی ذرائع کے مطابق یہ فیصلہ سعودی عرب میں دہشت گردی اور انتہا پسندی ابھارنے والے لٹریچر کے خلاف مہم کا حصہ ہے۔

مولانا مودودی کی جن 20 کتابوں اور کتابچوں کو ممنوع قرار دیا گیا ان میں پردہ، اسلام اور جاہلیت، تفسیر سورہِ نور، شہادتِ حق، اسلامی دستور کی تدوین، اسلامی نظامِ زندگی اور اس کے بنیادی تصورات، مبادیِ اسلام، معاشیاتِ اسلام، قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں اور قرآن فہمی کے بنیادی اصول نامی کتابیں بھی شامل ہے۔

151208233005_bangladedsh_protest_640x360_afp.jpg
؎
جولائی 2010 میں بنگلہ دیش میں مولانا ابو اعلیٰ مودودی کی تمام کتابیں ملکی مساجد کی لائبریریوں سے ہٹا دی گئیں
سعودی عرب سے پہلے بنگلہ دیش میں عوامی لیگ کی حکومت نے جولائی 2010 میں مولانا مودودی کی تفسیر القران سمیت تمام تصنیفات کو بلیک لسٹ قرار دے کر ملک کی 27 ہزار مکتب لائبریریوں سے اٹھانے کا حکم دیا۔ ان لائبریریوں کو سرکاری گرانٹ ملتی ہے۔

چلیے بنگلہ دیش کی عوامی لیگی حکومت کے بارے میں تو طے ہے کہ اس نے ہمیشہ جماعتِ اسلامی اور اس کے بانی کو نظریاتی دشمن سمجھا اور ان سے اسی طرح نپٹا بھی۔ لیکن سعودی عرب تو ایسا نہ تھا۔

جس زمانے میں جمال ناصر کی عرب قوم پرستی ہر جانب چھا رہی تھی اس دور میں سعودی اسٹیبشلمنٹ اخوان المسلمون سے ہمدردی رکھتی تھی۔ جب افغانستان میں روسی فوج اتری تو سعودی عرب، پاکستانی اسٹیبشلمنٹ اور جماعتِ اسلامی یک جان دو قالب تھے۔

مگر یہ دن بھی آ گیا کہ سعودی عرب نے گذشتہ برس ( مارچ 2014 ) اخوان کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا اور اب اخوانی مصنفین کے ساتھ ساتھ مولانا مودودی کی تصانیف بھی سعودی مملکت کے لیے نظریاتی خطرہ ٹھہریں۔ لیکن حسن البنا، سئید قطب اور یوسف القرداوی کے برعکس مولانا کو تو اعلیٰ ترین علمی ایوارڈ عطا ہوا تھا۔ تو پھر یہ کیا ہوا کہ

فرشتوں سے بھی اچھا میں برا ہونے سے پہلے تھا

وہ مجھ سے انتہائی خوش خفا ہونے سے پہلے تھا۔

دیکھنے کی بات یہ ہوگی کہ جس غیر معمولی اسلامی سکالر کو غیر معمولی خدمتِ اسلام پر 36 برس پہلے کنگ فیصل ایوارڈ ملا ۔اسی سکالر کی وہی تحریریں ممنوع ہونے کے بعد کنگ فیصل ایوارڈ بھی واپس لیا جاتا ہے کہ نہیں۔

یا تو وہ کور چشم فیصلہ تھا یا پھر تازہ فیصلہ غلط ہے۔ مگر وہ بادشاہ ہی کیا جس کا کوئی فیصلہ کبھی غلط ہو ۔اسی لیے تو سیانے کہتے ہیں کہ بادشاہ کی اگاڑی سے بھی بچو اور پچھاڑی سے بھی۔

اس کی نگاہ بدلنے سے پہلے کی بات ہے

میں آسمان پر تھا ، ستارہ زمین پر ۔
 

عادل اسحاق

محفلین
مولانا مودودی خادمِ اسلام یا انتہا پسند؟


وسعت اللہ خان بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی

151208232323_jamat_e_islami_pakistan_640x360_afp.jpg
انیس سو اناسی میں جب کنگ فیصل فاؤنڈیشن نے سائنس، مذہب، فلسفے اور خدمات کے شعبوں میں اسلامی دنیا کے نوبیل پرائز کنگ فیصل ایوارڈ کا اجرا کیا تو خدمتِ اسلام کے شعبے میں پہلا فیصل ایوارڈ ( چوبیس قیراط دو سو گرام کا طلائی تمغہ مع دو لاکھ ڈالر ) مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کو دیا گیا۔اگر آپ کنگ فیصل فاؤنڈیشن کی ویب سائٹ کھولیں تو آج بھی مولانا مودودی کا تعارف کچھ یوں ہے ۔

’وہ معروف مذہبی سکالر اور مبلغِ اسلام تھے۔ان کا شمار بیسویں صدی کے صفِ اول کے موثر اسلامی فلسفیوں میں ہوتا ہے۔ان کی زندگی اور نظریات کو دنیا بھر میں مسلمان اور غیر مسلم محققین نے اپنی تحقیق کا موضوع بنایا ۔وہ ایک وسیع العلم شخصیت تھے جن کی تحریروں نے عالمِ اسلام میں اسلامی اقدار اور روحِ اسلام کو اجاگر کیا۔ انھیں کنگ فیصل ایوارڈ اسلامی صحافت کے فروغ اور برصغیر میں اسلامی نظریات کے احیا کے اعتراف میں عطا کیا گیا۔‘

مولانا مودودی کے بعد خدمت ِ اسلام کے شعبے میں کنگ فیصل ایوارڈ شاہ خالد اور پھر شاہ فہد بن عبدالعزیز کو بھی دیا گیا اور یہی ایوارڈ مولانا مودودی کو ملنے کے گیارہ برس بعد (1990) ان کے شاگرد پروفیسر خورشید احمد کو بھی عطا ہوا۔

اور پھر دو دسمبر 2015 کو سعودی اخبار عرب نیوز میں یہ خبر شائع ہوئی کہ سعودی وزارتِ تعلیم نے اخوان المسلمون کے بانی حسن البنا، سئید محمد قطب، قطر کے عالم یوسف القرادوی اور مولانا مودودی کی تصنیفات سمیت 80 کتابوں پر پابندی عائد کردی ہے۔

تمام سعودی سکولوں، لائبریریوں اور ریسورس سینٹرز کو حکم دیا گیا ہے کہ دو ہفتے کے اندر ان مصنفین کی کتابیں وزراتِ تعلیم میں جمع کرا دیں ورنہ تادیبی کاروائی ہوگی۔ نیز خبردار کیا گیا کہ آئندہ کوئی سکول، لائبریری اور ریسورس سینٹر سوائے وزارتِ تعلیم کسی اور سے کتابوں کا عطیہ یا تحائف قبول نہ کرے۔

گو ان تصنیفات کو ممنوع قرار دینے کی سرکاری وجہ تو نہیں بتائی گئی البتہ وزارتِ تعلیم کے اندرونی ذرائع کے مطابق یہ فیصلہ سعودی عرب میں دہشت گردی اور انتہا پسندی ابھارنے والے لٹریچر کے خلاف مہم کا حصہ ہے۔

مولانا مودودی کی جن 20 کتابوں اور کتابچوں کو ممنوع قرار دیا گیا ان میں پردہ، اسلام اور جاہلیت، تفسیر سورہِ نور، شہادتِ حق، اسلامی دستور کی تدوین، اسلامی نظامِ زندگی اور اس کے بنیادی تصورات، مبادیِ اسلام، معاشیاتِ اسلام، قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں اور قرآن فہمی کے بنیادی اصول نامی کتابیں بھی شامل ہے۔

151208233005_bangladedsh_protest_640x360_afp.jpg
؎
جولائی 2010 میں بنگلہ دیش میں مولانا ابو اعلیٰ مودودی کی تمام کتابیں ملکی مساجد کی لائبریریوں سے ہٹا دی گئیں
سعودی عرب سے پہلے بنگلہ دیش میں عوامی لیگ کی حکومت نے جولائی 2010 میں مولانا مودودی کی تفسیر القران سمیت تمام تصنیفات کو بلیک لسٹ قرار دے کر ملک کی 27 ہزار مکتب لائبریریوں سے اٹھانے کا حکم دیا۔ ان لائبریریوں کو سرکاری گرانٹ ملتی ہے۔

چلیے بنگلہ دیش کی عوامی لیگی حکومت کے بارے میں تو طے ہے کہ اس نے ہمیشہ جماعتِ اسلامی اور اس کے بانی کو نظریاتی دشمن سمجھا اور ان سے اسی طرح نپٹا بھی۔ لیکن سعودی عرب تو ایسا نہ تھا۔

جس زمانے میں جمال ناصر کی عرب قوم پرستی ہر جانب چھا رہی تھی اس دور میں سعودی اسٹیبشلمنٹ اخوان المسلمون سے ہمدردی رکھتی تھی۔ جب افغانستان میں روسی فوج اتری تو سعودی عرب، پاکستانی اسٹیبشلمنٹ اور جماعتِ اسلامی یک جان دو قالب تھے۔

مگر یہ دن بھی آ گیا کہ سعودی عرب نے گذشتہ برس ( مارچ 2014 ) اخوان کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا اور اب اخوانی مصنفین کے ساتھ ساتھ مولانا مودودی کی تصانیف بھی سعودی مملکت کے لیے نظریاتی خطرہ ٹھہریں۔ لیکن حسن البنا، سئید قطب اور یوسف القرداوی کے برعکس مولانا کو تو اعلیٰ ترین علمی ایوارڈ عطا ہوا تھا۔ تو پھر یہ کیا ہوا کہ

فرشتوں سے بھی اچھا میں برا ہونے سے پہلے تھا

وہ مجھ سے انتہائی خوش خفا ہونے سے پہلے تھا۔

دیکھنے کی بات یہ ہوگی کہ جس غیر معمولی اسلامی سکالر کو غیر معمولی خدمتِ اسلام پر 36 برس پہلے کنگ فیصل ایوارڈ ملا ۔اسی سکالر کی وہی تحریریں ممنوع ہونے کے بعد کنگ فیصل ایوارڈ بھی واپس لیا جاتا ہے کہ نہیں۔

یا تو وہ کور چشم فیصلہ تھا یا پھر تازہ فیصلہ غلط ہے۔ مگر وہ بادشاہ ہی کیا جس کا کوئی فیصلہ کبھی غلط ہو ۔اسی لیے تو سیانے کہتے ہیں کہ بادشاہ کی اگاڑی سے بھی بچو اور پچھاڑی سے بھی۔

اس کی نگاہ بدلنے سے پہلے کی بات ہے

میں آسمان پر تھا ، ستارہ زمین پر ۔


واللہ اعلم !!!! بھائی ہمارے لیے حجت نا تو سعودی بادشاہ ہیں نا ہی مولانا مودودی ۔
بلکہ ایک مسلمان کے لیے حجت صرف اسلامی شریعہ ہے۔
ایسے فیصلے اکثر اوقات سیاسی فیصلے ہوا کرتے ہیں ۔
 
یہ دونوں فیصلے اپنے اپنے وقت کی ضرورت بنے۔

دیکهتے ہیں ہمارےسعودی پرست اس فیصلے کی توثیق کرتے ہوئے کب مولانا کی تصانیف پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کرتے;)
 

آوازِ دوست

محفلین
عربوں کی بادشاہتیں، شاہی افراد کے مشاغل اوراُن کا وضع کردہ مخصوص اسلامک ورژن سب بندے کو دم بخود کر دینے والی چیزیں ہیں اور ایک ہی آفاقی قانون کو ظاہر کرتی ہیں کہ خُدا بے نیاز ہے :)
 

عادل اسحاق

محفلین
اوراُن کا وضع کردہ مخصوص اسلامک ورژن سب بندے کو دم بخود کر دینے والی چیزیں ہیں
محترم عرب سیاسی معاشرتی لحاظ سے کرپٹ ہیں میں مانتا ہوں لیکن دین کے معاملے میں وہ ہم سے اچھے ہیں ۔
ہاں البتہ اچھے برے افراد تو پھرہر جگہ ہیں ۔
 

آوازِ دوست

محفلین
محترم عرب سیاسی معاشرتی لحاظ سے کرپٹ ہیں میں مانتا ہوں لیکن دین کے معاملے میں وہ ہم سے اچھے ہیں ۔
ہاں البتہ اچھے برے افراد تو پھرہر جگہ ہیں ۔
آپ کی سٹیٹمنٹ سیلف کنٹراڈکٹری (اپنی نفی آپ کرنے والی) ہے ۔ جن لوگوں کو دین کی سمجھ آ جائے وہ سیاسی اور معاشرتی کرپشن سے اپنا دامن آلودہ نہیں کرتے :)
 

عادل اسحاق

محفلین
آپ کی سٹیٹمنٹ سیلف کنٹراڈکٹری (اپنی نفی آپ کرنے والی) ہے ۔ جن لوگوں کو دین کی سمجھ آ جائے وہ سیاسی اور معاشرتی کرپشن سے اپنا دامن آلودہ نہیں کرتے :)

دین کی سمجھ آنا اور بات ہے شریعت اسلامیہ پہ عمل پیرا رہنا اور بات ہے
جیسا کہ مومن اور مسلمان میں فرق ہے
 

bilal260

محفلین
بہت اچھا فیصلہ بہت ہی زیادہ دیر بعد کیا گیا۔
بہت اچھے سعودی گورنمنٹ بہت اچھے۔ویلڈن۔
 
یہ کیسا دین ہے جو معاشرتی طور پر اپنے پیروکاروں کو اچھا نہیں بناتا؟
بہت اچھے! زیک بھائی!

کیا دُکھتی رگ پر ہاتھ رکھا ہے۔ آج کے مسلمان دین کو زبانی پھیلاتے ہوئے یہ کہتے مظر آتے ہیں کہ مسلمانوں کے طرزِ عمل کو نہ دیکھیے ، اسلام کی تعلیمات کو دیکھیے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دین پھیلانے کے لیے سب سے پہلے اپنی ذات مبارک کو کسوٹی پر پیش فرمایا تھا کہ اے اہل دنیا اگرچمیں کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے غنیم کا لشکر تم پر حملہ کرنے کے لیے موجود ہے تو کیا تم میری بات کا یقین کرلو گے۔

لوگوں کا جواب آج تاریخ کی زینت ہے۔

اللہ ہمیں ہدایت دے۔
 
ہم نے دین کو صرف نماز روزہ قرار دے لیا اور دنیا وی معاملات اپنے آپ کو مادر پدر آزاد چھوڑدیا۔ آج دین کا ہر داعی لوگوں کو صرف نماز روزے کی تعلیم دے رہا ہے۔

ہم نے اسلام کو بھی ایک مذہب بنادیا ہے اور مسجد تک محدود کردیا ہے۔ جو شخص نماز پڑھتا ہے اور روزے رکھتا ہے آج اپنی تمام معاشرتی برائیوں کے باوجود بہترین مسلمان کہلاتا ہے۔
 

وجی

لائبریرین
محترم عرب سیاسی معاشرتی لحاظ سے کرپٹ ہیں میں مانتا ہوں لیکن دین کے معاملے میں وہ ہم سے اچھے ہیں ۔
ہاں البتہ اچھے برے افراد تو پھرہر جگہ ہیں ۔
آپ کے نذدیک اگر دین اسلام میں سیاست و حکومت و معاشرت کی تعلیم موجود نہیں ۔
تو پھر میرا خیال ہے آپکو اسلام کا پھر سے مطالعہ کرنا چاہیئے ۔

رہی بات دوسرے عرب ممالک کی تو وہ شیعہ حضرات سے ایسے خار کھاتے ہیں کہ نہ پوچھیں ۔ کئ لوگ جو متحدہ عرب امارات میں سے نکالے گئے صرف اس وجہ سے کہ انکے نام سے شیعہ ہونے کا شائباء ہوتا تھا یاد سے نوکری سے نہیں نکلالے گئے تھے بلکہ حکومت ویزہ دینے سے انکار اور ایک ہفتہ دیتی ہے ملک سے نکل جانے کا ۔
 

عادل اسحاق

محفلین
آپ کے نذدیک اگر دین اسلام میں سیاست و حکومت و معاشرت کی تعلیم موجود نہیں ۔
تو پھر میرا خیال ہے آپکو اسلام کا پھر سے مطالعہ کرنا چاہیئے ۔

رہی بات دوسرے عرب ممالک کی تو وہ شیعہ حضرات سے ایسے خار کھاتے ہیں کہ نہ پوچھیں ۔ کئ لوگ جو متحدہ عرب امارات میں سے نکالے گئے صرف اس وجہ سے کہ انکے نام سے شیعہ ہونے کا شائباء ہوتا تھا یاد سے نوکری سے نہیں نکلالے گئے تھے بلکہ حکومت ویزہ دینے سے انکار اور ایک ہفتہ دیتی ہے ملک سے نکل جانے کا ۔

میری بات کو غلط رخ پہ سوچنے کا شکریہ عزیزم لیکن
میں
اس معاملے پہ کچھ بھی نہیں کہونگا کیونکہ شائد محفل فرقہ واریت ممنوع ہے ۔
 

عادل اسحاق

محفلین
ہم نے دین کو صرف نماز روزہ قرار دے لیا اور دنیا وی معاملات اپنے آپ کو مادر پدر آزاد چھوڑدیا۔ آج دین کا ہر داعی لوگوں کو صرف نماز روزے کی تعلیم دے رہا ہے۔

ہم نے اسلام کو بھی ایک مذہب بنادیا ہے اور مسجد تک محدود کردیا ہے۔ جو شخص نماز پڑھتا ہے اور روزے رکھتا ہے آج اپنی تمام معاشرتی برائیوں کے باوجود بہترین مسلمان کہلاتا ہے۔

سر کچھ لوگ کچھ عالم حضرات جب اسلام کو ایک مذہب کے علاوہ ایک طرز زندگی کہتے ہیں اور
اپنے
ہر قول وفعل کو اسلامی شریعت کی کسوٹی پہ پرکھنے کی تلقین کرتے ہیں
تو
ہمارا معاشرہ انہیں کافر یا انتہا پسند جیسے القابات سے نوازتا ہے ۔
 

عادل اسحاق

محفلین
یہ کیسا دین ہے جو معاشرتی طور پر اپنے پیروکاروں کو اچھا نہیں بناتا؟

محترم دین ایک کسوٹی ہے ایک طرز زندگی ہے کلمہ پڑھ لینے کے بعد
ہر مسلمان اس دائرہ میں داخل ہو جاتا ہے جسے اسلامی شریعہ کہا جاتا ہے جو کہ انسان کی زندگی کے ہر ممکنہ پہلو کو احاطہ کیے ہوے ہے ۔
اب
یہ انسان پہ ڈیپینڈ کرتا ہے کہ وہ کتنے فیصد اسلام کی اس کسوٹی پہ خود کو پرکھتا کتنے فیصد لاگو کرتا ہے ۔
اور
میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ ایک مسلمان کے لیے عرب یا عربی لوگ
یا سعودی حکومت یا کوئی دوسرا تیسرا خاندان حجت نہیں ہے
ہاں مگر
اگر حجت ہے تو وہ اللہ کا قرآن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل ۔
 
Top