موجبِ درد بھی راحت کا سبب بھی کوئی ہے

عباد اللہ

محفلین
'
موجبِ درد بھی راحت کا سبب بھی کوئی ہے
اندمالِ غمِ جاں خندۂ لب بھی کوئی ہے
حیطۂ جاں میں ہے پرہول یہ آشوبِ سکوت
پردۂ چپ میں مگر شور و شغب بھی کوئی ہے
چاہ کر بھی نہ کرے مجھ سے تغافل کا گلہ
سخت حیرت ہے کہ وہ مہر بہ لب بھی کوئی ہے
ڈھونڈتے ہیں کہ جو شایاں بھی تو ہو اس کے لئے
بول فرہنگ کہیں ایسا لقب بھی کوئی ہے
جوششِ عرضِ تمنا کو دبا کر رکھئے
خلوتِ حسن میں کچھ پاسِ ادب بھی کوئی ہے
ورد کرتے ہیں انا العشق کا سوتے ہوئے بھی
پوچھیو میر سے جا کر کہ یہ ڈھب بھی کوئی ہے
عباد اللہ
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوب!! اچھی غزل ہے عباد اللہ ! بس ایک دو جگہوں پر نظرثانی کی ضرورت ہے ۔

حیطۂ جاں میں ہے پرہول یہ آشوبِ سکوت
پردۂ چپ میں مگر شور و شغب بھی کوئی ہے

ایک تو پردہء چپ کی ترکیب ٹھیک نہیں ۔ چپ تو ہندی ہے ۔ دوسری بات یہ کہ یہ شعر پہلے مصرع میں آشوب کے استعمال سے ایک چیستان بن گیاہے ۔ آشوب کے تو معنی ہی شور شرابا اور ہنگامہ وغیرہ ہوتے ہیں ۔ اسے پھر دیکھئے ۔

ڈھونڈتے ہیں کہ جو شایاں بھی تو ہو اس کے لئے
کسی کے لئے شایاں ہونا درست محاورہ نہیں ۔ کسی کے شایاں ہونا درست ہے ۔

جوشش کا لفظ بالکل ٹھیک ہے ۔ جوش کا ہم معنی ہے ۔

مجموعی طور پر اچھی غزل ہے ۔ بہت داد آپ کے لئے!
 

الف عین

لائبریرین
ظہیراحمدظہیر کی رائے کے علاوہ مجھے ردیف پسند نہیں آئی، چکھ مصرعوں میں بالکل بے معنی مھصؤص ہوتی ہے۔ کسی کسی میں ’کچھ ہے‘ کا استعمال کا بہتر محل ہے۔ ظہیر میاں بھی غور سے دیکھیں۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اعجاز بھائی ۔ یہ بات دو دفعہ لکھ کر کاٹ دی کہ عباداللہ یہ نہ سمجھیں کہ ساری کی ساری ہی غلط ہے۔ مثال میں یہ مصرع بھی لکھا تھا کہ؛
خلوتِ حسن میں کچھ پاسِ ادب بھی کوئی ہے
اس میں کچھ یا کوئی دونوں میں سے صرف ایک آنا چاہیئے ۔
 

عباد اللہ

محفلین
بہت خوب!! اچھی غزل ہے عباد اللہ ! بس ایک دو جگہوں پر نظرثانی کی ضرورت ہے
بہت شکریہ سر در اصل یہ ایک فیسبکی استاد کی زمین میں ان کی خواہش پر کہا گیا فی البدیہہ کلام ہے اور خود ہمیں اچھا بھی نہیں لگتا
ہمارے مزاج سے بھی لگا نہیں کھاتی یہ غزل اصلاح سے بہتر ہے کہ اسے حذف کر دیا جائے
 
Top