منیر نیازی منیر نیازی

عرفان سرور

محفلین
خواب اتنے دیکھتا ہوں
`
رات بھر میں جاگتا ہوں اس خدا کی یاد میں
جس کا دم آباد ہے اس قریہ برباد میں
عینہ کی خوشبوئیں جیسے دشت ہو کی پیاس میں
دن گزر جاتا ہے میرا ان دنوں کی آس میں
چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں شہر سے اڑتے ہوئے
جنتوں سے رنگ ملتے ٹوٹتے، جڑتے ہوئے
رات دن رہتا ہوں ان کی سبز شادابی میں میں
خواب اتنے دیکھتا ہوں اپنی بے خوابی میں میں​
 

عرفان سرور

محفلین
ہجرت اور مراجعت کی حدوں پر
`
کچھ دیر میں تم سے دور رہوں گا پھر واپس آ جاؤں گا
تم میں بھی ابھی وہ بات نہیں جو مجھ کو یہاں روک سکے
مجھ میں بھی ابھی وہ بات نہیں جو تم کو یہاں پر روک سکے
اس بات کی کچھ دن کھوج کروں گا پھر واپس آ جاؤں گا​
 

عرفان سرور

محفلین
اے بادل
`
اے بادل جب بیل بنے تو
موتی کنٹھ کے پُھولوں کی
جب آکاش پہ رنگت ہو تو
مینہ کے بعد کے جُھولوں کی
اے بادل جب بوند بنے تو
تالابوں کے پانی پر
خواہش سے بھی تنگ جگہ پر
وسعت کی ویرانی پر
اے بادل جب شکل بنے تو
آدمیوں کی بستی کی
اس کے کسی آباد مکاں میں
میرے جیسی ہستی کی
اے بادل جب وقت بنے تو
تیری شام کوئی بھی ہو
میں پہچان سکوں گا تجھ کو
تیرا نام کوئی بھی ہو​
 

عرفان سرور

محفلین
کیسے پھر اس عہد کو زندہ کروں
`
میں محبت کس طرح اس سے کروں
دل میں جو ہے کس طرح اس سے کہوں
میرے اس کے درمیاں بیگانگی برسوں کی ہے
ایک بے مفہوم جیسی خامشی برسوں کی ہے
اپنی اپنی زندگی میں مبتلا اتنے رہے
سارا کچھ دھندلا گیا ہے ہم جدا اتنے رہے
اس کے کس رخ کو اشارہ عشق کا کیسے کروں
اس ذرا سے کام کی میں ابتدا کیسے کروں​
 

عرفان سرور

محفلین
فیصل آباد زرعی یونیورسٹی میں ایک روشن دن
`
لال سنہرے رنگ کے نیچے ہرے رنگ کے تھال ہیں
تین شجریہ رنگ اٹھائے کھڑے مئی کی دھوپ میں
ہجری ہجر کی حد پر جاگے خواب کی مثال ہیں
تین بشر مسحور کھڑے ہیں دھوپ کے روشن روپ میں
جیسے یہ کسی نئے جنوب کوئی نیا شمال ہیں
جیسے اس کے نئے مکان کا کوئی نیا جمال ہیں​
 

عرفان سرور

محفلین
حوصلہ دینے والی مثال
`
دیکھو کیسے گرا وہ
دیکھو کیسے اٹھا وہ
کتنا اسفل ہوا تھا
کتنا افضل ہوا وہ
تنہا جتنا رہا وہ
کثرت جتنا رہا وہ
اس کی طرح بنو تم
اس طرح بنو تم
دیکھو کیسے اٹھا وہ
کتنا افضل ہے وہ​
 

عرفان سرور

محفلین
وصال سرسبز
`
پھول اک گلاب کا
مضمحل، خراب سا
اس خراب پھول پر
تیتری کے پنکھ ہیں
چادریں حجاب پر
محرم حجاب پر
دیرپا وصال کے
دور تک کے خواب کی
جس کی شش جہات سے
پھوٹتی ہیں پتیاں
اک نئے گلاب کی​
 

عرفان سرور

محفلین
جگنو چمک رہا ہے​
`​
جگنو چمک رہا ہے​
جگنو بھٹک رہا ہے​
سحر سیاہ شب میں​
املی کی ڈالیوں میں​
خوابیدہ در کے باہر​
لکڑی کی جالیوں میں​
تنہا نگاہ شب میں​
مثل خیال روشن​
خواب سیاہ شب میں​
جگنو چمک رہا ہے​
 

عرفان سرور

محفلین
نئے ستارے کے آس پاس بنتے بگڑتے دن
`
کئی دن سے اک ستارہ
کیے جا رھا ہے مجھ کو
کسی بات کا اشارہ
دم انتظارِ شب میں
کوئی چشم مست جیسے
سر پردہ نگاریں
غم بود و ہست جیسے
کسی شہر رفتگاں پر
خمِ خواب زرفشاں پر
دل نا صبور جیسا
کسی دوسرے جہاں پر
کسی اور آسماں پر
کسی اور شام نور جیسا​
 

عرفان سرور

محفلین
رات دن کے بدلتے آنے میں ایک مقام شکر
`
ہوا چلتی ہے وسعت کے خیابانوں کی حیرت میں
ہوا چلتی ہے مغرب کے پری خانوں کی غربت میں
ہوا چلتی ہے قریے کے شبستانوں کی حالت میں
ہوا چلتی ہے سرما کی نئی شام محبت میں
کوئی دیروز کا سکھ ہے در بام محبت میں
کوئی کیفیت فردا ہے مہتاب تمنا میں
مقام ایسا کبھی دیکھا نہیں خواب تمنا میں
یہ کیسی شام آئی ہے مجھے یابِ تمنا میں​
 

عرفان سرور

محفلین
بے حقیقت دوریوں کی داستاں ہوتی گئی
یہ زمیں مثلِ سرابِ آسماں ہوتی گئی
کس خرابی میں ہوا پیدا جمالِ زندگی
اصل کس نقلِ مکاں میں رائیگاں ہوتی گئی
تنگئی امروز میں آئندہ کے آثار ہیں
ایک ضد بڑھ کر کسی سکھ کا نشاں ہوتی گئی
دوسرے رخ کا پتہ جس کو تھا وہ خاموش تھا
وہ کہانی بس اسی رخ سے بیاں ہوتی گئی
اک صدا اٹھی تو اک عالم ہوا پیدا منیر
اک کلی مہکی تو پورا گلستاں ہوتی گئی​
 

عرفان سرور

محفلین
رنگوں کی وحشتوں کا تماشا تھی بام شام
طاری تھا ہر مکاں پہ جلال دوام شام
گلدستہ جہات تھا نیزنگ راہ عشق
تھا اک طلسم حسن خیابان دام شام
آگے کی منزلوں کی طرف شام کا سفر
جیسے شبوں کے دل میں تھا شہر قیام شام
باندھے ہوئے ہیں وقت سبھی اس کے حکم میں
ہے جس خدا کے ہاتھ کار نظام شام
دھندلا گئی ہے شام شب خام سے منیر
خالی ہوا کشش کی شرابوں سے جام شام​
 

عرفان سرور

محفلین
ساعت ہجراں ہے اب کیسے جہانوں میں رہوں​
کن علاقوں میں بسوں میں کن مکانوں میں رہوں​
ایک دہشت لا مکاں پھیلا ہے میرے ہر طرف​
دشت سے نکلوں تو جا کر کن ٹھکانوں میں رہوں​
علم ہے جو پاس میرے کس جگہ افشا کروں​
یا ابد تک اس خبر کے راز دانوں میں رہوں​
وصل کی شام سیہ اس سے پرے آبادیاں​
خواب دائم ہے یہی میں جن زمانوں میں رہوں​
یہ سفر معلوم کا معلوم تک ہے اے منیر​
میں کہاں تک ان حدوں کے قید خانوں میں رہوں​
 

عرفان سرور

محفلین
محفل آرا تھے مگر پھر کم نما ہوتے گئے
دیکھتے ہی دیکھتے ہم کیا سے کیا ہوتے گئے
ناشناسی دہر کی تنہا ہمیں کرتی گئی
ہوتے ہوتے زمانے سے جدا ہوتے گئے
منتظر جیسے تھے در شہر فراق آثار کے
اک ذرا دستک ہوئی در دم میں وا ہوتے گئے
حرف پردہ پوش تھے اظہار دل کے باب میں
حرف جتنے شہر میں تھے حرف لا ہوتے گئے
وقت کس تیزی سے گزرا روز مرہ میں منیر
آج کل ہوتا گیا اور دن ہوا ہوتے گئے​
 

عرفان سرور

محفلین
ابر بہار شام تمنا بھی خواب ہے
یہ انتظار حسن دلآرا بھی خواب ہے
ہیں خواب قصہ ہائے فراق و وصال سب
میرے اور اس کے غم کا فسانہ بھی خواب ہے
گزرے ہوئے زمان و مکاں جیسے خواب تھے
سحر خیال عشرت فردا بھی خواب ہے
بس ایک خواب تو نور سحر کے مقام کا
اس خواب تلخ شب کا مداوا بھی خواب ہے
ملتا ہوں روز اس سے اسی شہر میں منیر
پر جانتا ہوں وہ بت زیبا بھی خواب ہے​
 

عرفان سرور

محفلین
روشنی در روشنی ہے اس طرف
زندگی در زندگی ہے اس طرف
جن عذابوں سے گزرتے ہیں یہاں
ان عذابوں کی نفی ہے اس طرف
اک رہائش خواہش دل کی طرح
اک نمائش خواب کی اس طرف
جو بکھر کر رہ گیا ہے اس جگہ
حسن کی اک بھی ہے اس طرف
جستجو جس کی یہاں پر کی منیر
اس سے ملنے کی خوشی ہے اس طرف​
 

عرفان سرور

محفلین
دل کو حال قرار میں دیکھا
یہ کرشمہ بہار میں دیکھا
جس کو چاہا خمار میں چاہا
جس کو دیکھا غبار میں دیکھا
خواہشوں کو بہت ہوا دینا
وصف یہ ہم نے یار میں دیکھا
اک بشر میں کئی بشر دیکھے
جزو گل کے حصار میں دیکھا
جب سے دیکھا ہے اس کو زمیں کو منیر
قید لیل و نہار میں دیکھا​
 

عرفان سرور

محفلین
صبح خنداں غم شبانہ تھا
وہ حقیقت تھا یا فسانہ تھا
اس کو دیکھ نہ اس سے بات ہوئی
ربطہ جتنا تھا غائبانہ تھا
ہم نے وہ وضع جو بنا لی تھی
اس سے ملنے کا اک بہانہ تھا
اس طرف یاد تھی عظیم و کبیر
درمیاں میں بہت زمانہ تھا
ہم بھی آئے ہیں منیر ہستی میں
رسم تھی اک جیسے نبھانا تھا​
 

عرفان سرور

محفلین
جو مجھے بھلا دیں گے میں انھیں بھلا دوں گا
سب غرور ان کا میں خاک میں ملا دوں گا
دیکھتا ہوں سب شکلیں سن رہا ہوں سب باتیں
سب حساب ان کا میں ایک دن چکا دوں گا
روشنی دکھا دوں گا ان اندھیر نگروں میں
اک ہوا ضیاؤں کی چار سو چلا دوں گا
بے مثال قریوں کے بے کنار باغوں کے
اپنے خواب لوگوں کے خواب میں دکھا دوں گا
میں منیر جاؤں گا ایک دن اسے ملنے
اس درپہ جا کے میں ایک دن صدا دوں گا​
 

عرفان سرور

محفلین
دل کا سفر بس ایک ہی منزل پہ بس نہیں
اتنا خیال اس کا ہمیں اس برس نہیں
دیکھو گل بہار اثر دشت شام میں
دیوار و در کوئی بھی کہیں پیش و پس نہیں
آیا نہیں یقین بہت دیر تک ہمیں
اپنے ہی گھر کا در ہے یہ بات قفس نہیں
ایسا سفر ہے جس کی کوئی انتہا نہیں
ایسا مکاں ہے جس میں کوئی ہم نفس نہیں
آئے گی پھر بہار اسی شہر میں منیر
تقدیر اس نگر کی فقط خار و خس نہیں​
 
Top