منیر نیازی منیر نیازی

عرفان سرور

محفلین
اسلام و علیکم میں یہاں ایک نیا سلسلہ شروع کرنا چاہتا ہوں۔۔

بازگشت
٭
یہ صدا
یہ صدائے بازگشت
بیکراں وسعت کی آوارہ پری
سُست رو جھیلوں کے پار
نم زدہ پیڑوں کے پھیلے بازوؤں کے آس پاس
ایک غم دیدہ پرند
گیت گاتا ہے میری ویران شاموں کے لیے​
 

عرفان سرور

محفلین
عام آدمی
خوشی ملے تو ہنس لیتے ہیں
غم جو ملے تو رو لیتے ہیں
جو کوئی جیسی راہ بتائے
اسی راہ پر ہو لیتے ہیں
دے دیتے ہیں اور کسی کو
اس دنیا سے جو لیتے ہیں​
 

عرفان سرور

محفلین
برسات

آہ! یہ بارانی رات
مینہ ہوا، طوفان، رقص صاعقات
شش جہت پر تیرگی اُمڈی ہوئی
ایک سناٹے میں گم ہے بزم گاہ حادثات
آسماں پر بادلوں کے قافلے بڑھتے ہوئے
اور میری کھڑکی کے نیچے کانپتے پیڑوں کے ہات
چار سو آوارہ ہیں
بھولے، بسرے واقعات
جھکڑوں کے شور میں
جانے کتنی دور سے
سن رہا ہوں تیری بات
 

عرفان سرور

محفلین
رات جو بارش ہوئی

شہر میں اور ساتھ کے قصبوں میں جو بارش ہوئی
اک اچانک بات تھی
گھاس میں محصور تالابوں پہ بوندوں اور پتوں کا سماں
گھات میں بیٹھی ہوں جیسے بن بیاہی ناریاں
موت میں ہوں کچھ نہاں اور زندگی میں کچھ عیاں
متصل ہونے کی خواہش میں زمین و آسماں
چھپ کے سازش کرہے ہوں سازشوں کے درمیاں۔۔۔
منیر نیازی۔
 

عرفان سرور

محفلین
کچھ باتیں بھی لکھ نہیں پاتا

سردی کی ٹھٹھرتی شاموں کی
برکھا میں برستی سوچوں کی
گرمی میں چمکتی آنکھوں کی
سرخی میں بھڑکتے ہونٹوں کی
عمروں میں بھٹکتی آنکھوں کی۔۔۔
منیر نیازی۔
 

عرفان سرور

محفلین
میں اپنے باپ کے گھر کی مدافعت کروں گا

بھیڑیوں کے خلاف
خشک سالی کے خلاف
منافع خوروں کے خلاف
عدالتوں کے خلاف
میں اپنے مویشی، کھیت اور جنگل ہار جاؤں گا
میں اپنے حصے کی یافت، آمدنی اور نفع ہار جاؤں گا
مگرمیں اپنے باپ کے گھر کی مدافعت کروں گا
وہ مجھ سے میرے ہتھیار چھن کر لے جائیں گے
مگر میں صرف ہاتھوں سے اپنے باپ کے گھر کی مدافعت کروں گا
بازؤوں کے بغیر
چھاتیوں کے بغیر
کندھوں کے بغیر
وہ مجھے اپنے پیچھے چھوڑ جائیں گے
مگر میں اپنی روح سے اپنے باپ کے گھر کی مدافعت کروں گا
میں مر جاؤں گا
میری روح گزر جائے گی
میرے بچے گزر جائیں گے
مگر میرے باپ کا گھر باقی رہے گا
میرے باپ کا گھر کھڑا رہے گا
 

عرفان سرور

محفلین
شبِ ویراں
یوکلپٹس کے پیڑ کے اُوپر
ٹھٹھرے تاروں کے پھیلے جنگل میں
چاند تنہا اُداس پھرتا ہے
یوکلپٹس کی سرد شاخوں سے
ٹھنڈے جھونکے لپٹ کے روتے ہیں
یوکلپٹس کے پیڑ کے نیچے
خشک پتے ہوا میں اُڑتے ہیں
منیر نیازی​
 

عرفان سرور

محفلین
مرد اور عورت
یوں کبھی لگتا ہے ان میں دشمنی ہے دیر کی
اس زمیں پر زیست کے آثار جتنی دیر کی
ان کو جنت سے زمیں پر جس گھڑی پھینکا گیا
اک سزا تھی ساتھ ان کے یہ سدا کی دشمنی
منیر نیازی​
 

عرفان سرور

محفلین
جس زمانے میں اچھی باتیں بے معنی ہو جاتی ہیں
دو طرح کے عیب ہیں اس شہر کی تعمیر میں
جن سے آتی ہے خرابی شہر کی توقیر میں
فخر انساں قید ہے اس خوشنما زنجیر میں
مستقل شرمندگی کے مستقل اظہار میں
بے ریا رشتوں میں مخفی ظلم کی دیوار میں
رحم اور احسان دونوں روح کے آزار میں
ان سے نفرت پھیلتی ہے عام بود و ہست میں
ان سے بٹ جاتے ہیں دل ہجر بلند و پست میں
منیر نیازی​
 

عرفان سرور

محفلین
آخری سچائی کے لیے نظم
چاہتا ہوں دیکھنا اس کو اسی رنگ میں
سب عقیدوں سے پرے کی زندگی کے رنگ میں
سارے اندازوں سے آگے کی کمی کے رنگ میں
منیر نیازی​
 

عرفان سرور

محفلین
بساطِ زیست
بساط زیست پر روحوں کی بار کتنی ہے
خموش چہرے ہیں ان میں پکار کتنی ہے
زوال عمر ہے یادیں پری رخوں کی ہیں
خزاں کے بیچ میں فصل بہار کتنی ہے
منیر نیازی​
 

عرفان سرور

محفلین
خوابوں کے مسکن
رہتے ہیں اس طرح سے خوشی ہیں غموں کے خواب
جیسے نئے گھروں میں پرانے گھروں کے خواب
پہلی نظر میں اس کی کوئی ایسی بات تھی
جس میں تھے کچھ شعبوں کے بہت سے دنوں کے خواب
منیر نیازی​
 

عرفان سرور

محفلین
اک اور گھر بھی تھا میرا
اک اور گھر بھی تھا میرا
جس میں میں رہتا تھا کبھی
اک اور کنبہ تھا میرا
بچوں اور بڑوں کے درمیاں
اک اور بستی تھی میری
کچھ رنج تھے کچھ خواب تھے
موجود ہیں جو آج بھی
وہ گھر جو تھی بستی مری
یہ گھر جو ہے بستی میری
اس میں بھی تھی ہستی میری
اس میں بھی ہے، ہستی میری
اور میں ہوں جیسے کوئی شے
دو بستیوں میں اجنبی۔۔۔
منیر نیازی​
 

عرفان سرور

محفلین
مجھے کسی سے کچھ چھپانا ہے
مجھے کسی سے کچھ چھپانا ہے
اپنی بیوی سے جو مجھ پر یقین رکھتی ہے
جیسے وہ اپنے خدا پر یقین رکھتی ہے
اپنے بچوں سے جو ابھی پیدا نہیں ہوئے
اپنے خدا سے جو سب کچھ دیکھ رہا ہے
مجھے کسی سے کچھ چھپانا ہے
میں ایسا کیوں کرتا ہوں
میں کیوں کسی سے کچھ چھپانا ہے
کیا عادت مجھے غیر محفوظ گزری نسلوں نے وراثت میں دی ہے
کیا میں اپنے آس پاس بستے ہوئے لوگو ں کے رد عمل میں
ایسا ہو گیا ہوں
یا پھر کوئی اور وجہ ہو گی
منیر نیازی​
 

عرفان سرور

محفلین
میں شانت ہو کر تیری پریم کتھا لکھوں گا پاروتی
مجھے میرے استھان سے کسی نے
اشانت کر کے اٹھا دیا ہے
میں اپنی جگہ سے کرودھ میں اٹھا ہوں
پاروتی بول! اب میں اس کرودھ کا انت کیسے کروں
اس جگ کا سروناش کر دوں
کہ دھرتی اور آکاش لگیں، پیڑوں کی پتیاں ہیں
دھنکی ہوئی روئی ہیں جو آندھی میں اڑتی پھر رہی ہے
یا بہت دیر کے مرے ہوئے لوگوں کو جیون دے کر
ایک بہت بڑی یُدھ کا سماں پیدا کر دوں
میں شانت ہو کر تیری پریم کتھا لکھوں گا
میں شانت ہو کر تیری پریم کتھا لکھنا چاہتا ہوں۔۔
منیر نیازی۔
 
Top