منیر نیازی منیر نیازی

عرفان سرور

محفلین
کوئی اوجھل دنیا ہے
`
لمحہ لمحہ روز مرہ زندگی کے ساتھ ہے
ایک لمحہ جو کسی ایسے جہاں کی زندگی کا ہاتھ ہے
جس میں میں رہتا نہیں جس میں کوئی رہتا نہیں
جس میں کوئی دن نہیں رات کا پہرا نہیں
جس میں سنتا ہی نہیں کوئی نہ کوئی بات ہے
روز مرہ زندگی سے یوں گزرتا ہے کبھی
ساتھ لے جاتا ہے گزری عمر کے حصے سبھی
جو بسر اب تک ہو اس کو غلط کرتا ہوا
اور ہی اک زندگی سے آشنا کرتا ہوا
جو گماں تک میں نہ تھا اس کو دکھا جاتا ہوا
وہم تک جس کا تھا اس وقت کو لاتا ہوا
پھر چلا جاتا ہے اپنے اصل کے آثار میں
اور ہم مصروف ہو جاتے ہیں پھر
اپنے روز و شب کے کاروبار میں​
 

عرفان سرور

محفلین
ایک دعا جو میں بھول گیا تھا
`
اے طائر مسرت
اڑ کر کسی شجر سے
آ بیٹھ میرے گھر پر
تیری صدائے خوش سے
خوش ہو یہ گھر ہمارا
دیکھے خوشی سے اس کو
غمگین شہر سارا​
 

عرفان سرور

محفلین
کار دنیا تھا سخت کام طلب
ہم تھے آرام اور نام طلب
اس صدا کی جہت نہیں کوئی
شورشِ دہر ہے نظام طلب
ایک بے مہر دن کے آخر پر
شام آئی ہے کیسی جام طلب
اور ہستی کی جستجو سی ہے
ساری ہستی ہے نا تمام طلب
عارضی تھا مقام اپنا منیر
خواہش زیست تھی دوام طلب
منیر نیازی​
 

عرفان سرور

محفلین
واہمہ ہے
`
واہمہ ہے یہ سمندر شامِ ساحل کی طرح
دس برس پہلے کی چاہت کی حقیقت کی طرح
باغ میں اس کی رفاقت آسمان شب تلے
گرمیوں میں ہاتھ اس کا روشنی کا جال سا
دو اندھیروں میں گھرے اک دائمی سے حال سا
دو زمانوں کے اثر میں رنگ ماہ سال سا
واہمہ ہے یہ سمندر اس محبت کی طرح
منیر نیازی​
 

عرفان سرور

محفلین
سورج گرہن کے دن
`
بام بلند غم سے
موسم گزر رہے ہیں
اِک اِک صدی کا لمحہ
رفتار تیز ایسی
باتیں سمجھ نہ آئیں
گفتار تیز ایسی
بننے سے پیشتر ہی
منظر بکھر رہے ہیں
انہونیاں بہت ہیں
ان موسموں کے اندر
جن کا گماں نہیں ہے
وہ برق وش منازل
ہیں ان رتوں کے اندر
اک سمت میں کہیں پر
شب ریز ساعتوں میں
رستہ دکھانے والی
اِک شے چمک رہی ہے
اِک سمت میں کہیں پر
صدیوں کی کج روی میں
گم راہ آدمی کی
کوشش بھٹک رہی ہے
منیر نیازی​
 

عرفان سرور

محفلین
راولپنڈی میں شروع سال کی بارش
`
ناہموار مکانوں میں
کھلتے ہوئے دریچوں سے
تکتے ہوئے حسینوں پر
ناہموار پہاڑوں سے
وسعت بھری دراڑوں سے
پتھریلی ڈھلوانوں پر
چلتے ہوئے مکینوں پر
وقت کے ہرے کواڑوں سے
سال کے نئے مہینوں پر​
 

عرفان سرور

محفلین
حرف سحر خیز
`
شاید وہ آ ہی جائے
سوچا تھا جس کو میں نے
پیڑوں میں چھپ کے بیٹھی
گلدم کی راگنی میں
بے چین گھر کے اندر
صبح جہاں تاریک بے کلی میں
شاید میں اس سے مل کے
وہ بات کہہ سکوں گا
جس بات کو کہا تھا
میں نے کبھی کسی سے
ایسی ہی اک سحر میں
اک اجنبی نگر میں
اک اور اجنبی سے​
 

عرفان سرور

محفلین
رستے
`
یہ رستے یہ لمبے رستے
کونسی سمت کو جاتے ہیں
بہت پرانے محلول اندر
بچھڑے یار ملاتے ہیں
اونچے، گہرے جنگلوں کے اندر
شیر کی طرح ڈراتے ہیں
یا پھر یونہی گھوم گھما کے
واپس موڑ لے آتے ہیں​
 

عرفان سرور

محفلین
جامنی رنگ کا کرشمہ
`
جامنی پنچھی جامنی پھول
جامنی حدیں جامنی ہونٹ
تک گئیں یہ آنکھیں بھول
پچھلی دید کے سارے دکھ
یاد آئے کئی بھولے سکھ​
 

عرفان سرور

محفلین
بادل اڑے تو گم آسمان دکھائی دیا
پانی اترے تو اپنا مکان دکھائی دیا
اس سے آگے فراق کی منزلیں تھیں
جہاں پہنچ کے اس کا نشان دکھائی دیا
اس کے سامنے یہ جگ ویران لگا
اس کی آنکھوں میں ایسا جہان دکھائی دیا
ہمارے حال کی خبر وہ رکھتا تھا
ساری عمر جو انجان دکھائی دیا
کام وہی منیر تھا مشکلوں کا
جو شروع میں بہت آسان دکھائی دیا​
 

عرفان سرور

محفلین
شہر اوہام
`
بت کدے میں بت بہت ہوتے ہیں مسندوں پر
وہم کی تجسیم سنگیں اب ہے اوج بخت پر
سینکڑوں سالوں کا پہرہ مستقل اس در پہ ہے
دیر کے کچھ خوف ہیں دیوار شہر سخت پر​
 

عرفان سرور

محفلین
اصل سے خوف
`
ادھر ادھر کرتے رہتے ہیں
اصل سے ہیں ہم ڈرتے
جس سے بات ہے کرنی ہوتی
اسی سے ہم نہیں کرتے​
 

عرفان سرور

محفلین
سانپ کی صفات
`
سُر ہو تو وہاں پر سانپ
مہک ہو تو وہاں پر سانپ
زیر زمیں کی تاریکی میں
زر ہو تو وہاں پر سانپ​
 

عرفان سرور

محفلین
ایک بھاری رات
`
گھر کی دیواروں پر دیکھو بوندیں لال پھوار کی ہیں
آدھی شب دروازے کھڑکیں، ڈائنیں چیخیں مارتی ہیں
سانپ کی شُوکر گونجے جیسے باتیں گہرے پیار کی ہیں
ادھر ادھر چھپ چھپ کر ہنستی شکلیں شہر سے پار کی ہیں
پاس سے روح سمان گزرتی مہکیں باسی ہار کی ہیں
گورستان کی راہ دکھاتی کوکیں پہرے دار کی ہیں​
 

عرفان سرور

محفلین
میرا اصل وجود
`
میرا تو بس اتنا کچھ ہے
حصہ اپنے آپ کے بیچ
جتنا رات کے سننے والے کا
بھاری پیر کی چاپ کے بیچ​
 

عرفان سرور

محفلین
نئی رت
`
ہلکی ہلکی ٹھنڈ میں کانپیں
خواہشیں چھپے ہوئے پیار کی
راتیں چیت بہار کی
لے کر آئیں ساتھ ہوائیں
سات سمندر بہار کی​
 
Top