تاسف ممتاز اداکار قاضی واجد اور معروف قانون دان عاصمہ جہانگیر کی رحلت!

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

یاز

محفلین
مجاہدہء جمہوریت، انصاف و آزادی محترمہ عاصمہ جہانگیر کی وفات کی خبر سن کر شدید دکھ کی کیفیت ہے۔ ایسے بہت مواقع دیکھے، جب بڑے بڑے سورما اور جوانمردوں کو سانپ سانگھ گیا۔ ایسے میں بھی اگر ایک آواز سنائی دی تو وہ عاصمہ جہانگیر کی تھی ۔
حبیب جالب کے بعد اگر کوئی بہادر ترین شخصیت دیکھی ہے تو وہ عاصمہ جہانگیر ہی کی دیکھی ہے ۔
اللہ تعالٰی درجات بلند فرمائے اور جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے. آمین
 

یاز

محفلین
قاضی واجد مرحوم کی وفات بھی پاکستانی ڈرامہ اور اداکاری کے فیلڈز کا بہت بڑا نقصان ہے.
اللہ تعالٰی ان کے درجات بلند فرمائے اور جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے. آمین
 
آج جمہوریت کے حق میں اٹھنے والی ایک توانا آواز خاموش خاموش ہو گئی۔ ایک زمانے میں عاصمہ جہانگیر میری نا پسندیدہ شخصیات میں سرِ فہرست تھی مگر عمر کے ان کی خوبیوں کا بھی بخوبی اندازہ ہوا۔ ہر معاشرہ کیلئے اقلیتی بیانیہ کو جرأت سے سامنے لانے والے لوگ نعمت ہوتے ہیں۔ عاصمہ جہانگیر نے بھی بے باکی، اور بے خودی کے ساتھ ہر آمر کے خلاف آواز اٹھائی۔ جمہوری بیانیہ اور اقلیتوں کے حقوق کیلئے یہ بڑا نقصان ہے۔
بہر حال ان کی شخصیت کے کچھ پہلو اتنے قابلِ ستائش بھی نہیں تھے۔ اپنے نقطۂ نظر کو مدلل انداز میں پیش کر نے کی بجائے، صرف بار بار اونچی آواز میں دہرانے کی عادت تھی۔ جن آئیڈیلیز کا پرچار کرتی، ذاتی زندگی میں ان تمام پہ مکمل عمل نہیں تھا۔ مجھے یاد ہے کہ جب بچوں کی مشقت کے بارے میں قانون بنانے کے بارے میں بولتی اور لکھتی رہیں تو ایک صحافی نے سوال پوچھا کہ آپ کے شوہر کے کارخانے میں بچے کام کرتے ہیں، تو ان کا جواب تھا، آپ قانون بنائیں، ہم اس پہ عمل کریں گے۔ اسی طرح بعض اربابِ اختیار بتاتے ہیں کہ پنجاب حکومت کت توسط سے کئی ٹھیکے بھی حاصل کئے۔ واللہ اعلم
 
آج جمہوریت کے حق میں اٹھنے والی ایک توانا آواز خاموش خاموش ہو گئی۔ ایک زمانے میں عاصمہ جہانگیر میری نا پسندیدہ شخصیات میں سرِ فہرست تھی مگر عمر کے ان کی خوبیوں کا بھی بخوبی اندازہ ہوا۔ ہر معاشرہ کیلئے اقلیتی بیانیہ کو جرأت سے سامنے لانے والے لوگ نعمت ہوتے ہیں۔ عاصمہ جہانگیر نے بھی بے باکی، اور بے خودی کے ساتھ ہر آمر کے خلاف آواز اٹھائی۔ جمہوری بیانیہ اور اقلیتوں کے حقوق کیلئے یہ بڑا نقصان ہے۔
بہر حال ان کی شخصیت کے کچھ پہلو اتنے قابلِ ستائش بھی نہیں تھے۔ اپنے نقطۂ نظر کو مدلل انداز میں پیش کر نے کی بجائے، صرف بار بار اونچی آواز میں دہرانے کی عادت تھی۔ جن آئیڈیلیز کا پرچار کرتی، ذاتی زندگی میں ان تمام پہ مکمل عمل نہیں تھا۔ مجھے یاد ہے کہ جب بچوں کی مشقت کے بارے میں قانون بنانے کے بارے میں بولتی اور لکھتی رہیں تو ایک صحافی نے سوال پوچھا کہ آپ کے شوہر کے کارخانے میں بچے کام کرتے ہیں، تو ان کا جواب تھا، آپ قانون بنائیں، ہم اس پہ عمل کریں گے۔ اسی طرح بعض اربابِ اختیار بتاتے ہیں کہ پنجاب حکومت کت توسط سے کئی ٹھیکے بھی حاصل کئے۔ واللہ اعلم
بس جی جانے والا تو چلا گیا اب کیا کھود کرید کریں۔
 

فاتح

لائبریرین
من چلی ------ عثمان غازی

وہ ابھی اکیس برس کی لاء اسٹوڈنٹ تھی کہ اس کے والد کو جنرل یحییٰ خان نے جیل میں ڈال دیا۔۔۔
وہ اپنے والد کی رہائی کے لیے پاکستان کے ایک ایک بڑے وکیل کے پاس گئی، سب نے جنرل یحییٰ خان کے خوف سے کیس لینے سے انکار کردیا۔۔۔
اس کم عمر لڑکی نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ اپنے والدکا کیس خود لڑے گی ، عدالت نے اجازت دی اور وہ لڑکی کیس جیت گئی۔۔۔
پاکستان کی اس بہادر بیٹی نے نہ صر ف اپنے والد کو رہا کرایا بلکہ ڈکٹیٹر شپ کو عدالت سے غیر آئینی قرار دلوا کر پاکستان کی آئینی تاریخ میں ایک عظیم کارنامہ انجام دیا۔۔۔
اسی کارنامے کی وجہ سے ذوالفقارعلی بھٹو کو سول مارشل لاختم کرنا پڑا اور ملک کا آئین فوری طور پر تشکیل دیا گیا۔۔۔
اس لڑکی کا نام عاصمہ جہانگیر ہے ۔۔ یہ پاکستان میں ملک دشمنی، غداری اور اسلام مخالف ایک ایسا استعارہ بن چکی ہے جسے گالی دینا گویا ایک روایت ہے۔۔۔

1983میں تیرہ برس کی صفیہ بی بی سے زیادتی ہوئی اور وہ حاملہ ہوگئی،صفیہ بی بی کو عدالت نے جیل بھیج کر اس پر جرمانہ عائد کردیاکیونکہ وہ اپنے ساتھ ہونےوالی زیادتی کے گواہ نہیں لاپائی تھی اور ملزمان نے ثابت کردیا تھا کہ صفیہ بی بی نے اپنی رضامندی سے یہ گناہ کیا۔۔۔
عاصمہ جہانگیرنے یہ کیس لڑا اور مظلوم صفیہ کو بچالیا، ضیاالحق کے اس دورمیں عاصمہ جہانگیر نے ایک احتجاجی ریلی بھی نکالی ، جس پر پولیس تشدد پاکستان کی تاریخ کا افسوس ناک باب ہے۔۔۔

1993میں 14برس کے سلامت مسیح کو مذہب کی توہین کے جرم میں سزائے موت ہوگئی، ایسے حساس کیس کو کون لڑتا، اس موقع پر عاصمہ جہانگیر آگے آئی اور اس نے سلامت مسیح کے حق میں ایسے دلائل دیئے کہ عدالت کو ماننا پڑا کہ سزائے موت کا فیصلہ غلط تھا اور کچھ شرپسندوں نے مذہب کا نام استعمال کرکے ننھے بچے کو پھنسایا۔۔۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستان میں کوئی عورت اپنی مرضی سے شادی نہیں کرسکتی تھی! پاکستان کا آئین یہ کہتا تھا کہ عورت کی شادی کے لیے اس کی مرضی ہو یا نہ ہو۔۔۔سرپرستوں کی مرضی لازمی ہے اور یہ بات بھلا عاصمہ جہانگیر کو کہاں برداشت ہوتی ۔۔
اس نے عدالت سے پاکستان کی عورت کو اس کا آئینی ومذہبی حق دلایا کہ وہ اپنی مرضی سے کہیں بھی شادی کرسکتی ہے۔۔۔

عاصمہ جہانگیرکی شخصیت کا اگر اندازہ کرنا ہوتو اس کی بے نظیر بھٹو سے مثالی دوستی اور مثالی مخالفت قابل ذکر ہے، بے نظیربھٹو اور عاصمہ جہانگیر بچپن کی سہیلیاں تھیں مگر ہر دور میں عاصمہ جہانگیر نے بے نظیر بھٹو کی زبردست سیاسی مخالفت کی۔۔

پاکستان میں عورتوں اور اقلیتوں کے لیے لڑنے والی اس عورت کا معیار بہت عجیب ہے ۔۔ کچھ عرصہ قبل ٹم سبسٹن کو انٹرویو دیتے ہوئے مذہبی انتہا پسندی کی بدترین مخالف عاصمہ جہانگیرنے کہا کہ اگر طالبان کا بھی ماورائے عدالت قتل ہوا تو وہ طالبان کےحق میں آواز اٹھائے گی۔۔۔

کیا کوئی عورت تصور کرسکتی ہے کہ سڑک پر اس کے ملک کے محافظ اس کے کپڑے پھاڑیں اور اور وہ بے بسی سے اپنے تن پر چادر ڈالنے کے لیے ادھر ادھر دیکھتی پھرے ۔۔ عاصمہ جہانگیر پر یہ وقت بھی گزرا ہے۔۔یہ لڑکی جب ٹین ایجر تھی تو ایوب خان اور یحییٰ خان کے خلاف لڑی، نوجوان ہوئی تو ذوالفقارعلی بھٹو کے غلط اقدامات کے خلاف آوازاٹھائی، یہ ضیاالحق کے خلاف جمہوریت پسندوں کی ننھی ہیروئن کہلاتی تھی، یہ اپنی بہترین سہیلی بے نظیر بھٹو سے لڑی، اس نے نوازشریف کے اقدامات کو چیلنج کیا اور یہ پرویز مشرف کے لیے سوہان روح بن گئی۔۔۔

یہ عورت کسی کی نہیں ہے ۔۔ اس کے اپنے اصول ہیں اور یہ ان کے آگے کسی کی نہیں سنتی۔۔۔
یہ پاکستان کی بہادر عورت ہے ۔۔یہ قوم کی ایک قابل فخر ماں ہے ۔۔ اس سے اختلاف کیا جاسکتا ہے مگر اس کو غلط ثابت کرنا آسان نہیں ہے
 

یاز

محفلین
تم نے کس کو کھو دیا۔۔۔۔۔ از اے وحید مراد

وہ عورت شاعرہ نہ تھی۔ اس نے شاید کبھی زندگی میں یہ شعر نہ پڑھا ہوگا کہ

جس روز ہمارا کوچ ہوگا
پھولوں کی دکانیں بند ہوں گی

مگر وہ ایسے ہی موسموں میں رخصت ہوئی کہ جب شجر بے ثمر ہیں ۔ کوئی پتہ ہے نہ پھول ۔ اور اسلام آباد کا وہ آسمان بارش کی صورت میں زار و قطار آنسو بہا رہا ہے جس فلک کی آلودگی سے پاک آنکھیں گزشتہ چالیس دن سے خشک پڑی تھیں۔ وہ لوگ جو آسمان کے رونے کی دعائیں مانگ رہے تھے انہیں کیا معلوم تھا کہ بادل عاصمہ جہانگیر کے رخصت ہونے پر آئیں گے، اپنے دلوں کے پرچم سرنگوں کرنے ۔


وہ عورت نہیں رہی جو ایک چیخ تھی ۔ ظلم اور جبر کے خلاف، لاقانونیت اور تشدد کے خلاف، نفرت اور بے امنی کے خلاف، امتیاز اور تفریق کے خلاف، آمریت اور مطلق العنانیت کے خلاف ۔ وہ عورت جو شعورکی روشنی تھی اور اس نے معاشرے کو منور کرنا چاہا تھا۔ وہ عورت جس نے کسی طالع آزما کے سامنے سر نہ جھکایا۔

شہریوں کے حقوق کیلئے جدوجہد کرنے کے ’جرم‘ میں اس عظیم عورت کو تاریخ کو صرف ’مطالعہ پاکستان‘ میں پڑھنے والی ذہین قوم نے ہر وہ گالی دی جو قدیم وجدید غلیظ لغت میں موجود تھی مگر اس کے پائے استقامت میں لغزش نہ دیکھی گئی ۔ موت سے اڑتالیس گھنٹے پہلے اس کے ساتھ سپریم کورٹ کے کمرہ عدالت ایک میں موجود تھا جہاں اس کو بول ٹی وی کے اینکر کی جانب سے بتایا گیا کہ آپ جانتی ہیں میڈیا ٹرائل کیا ہوتا، آپ کا بھی ہوتا رہا ہے، تو اس عورت نے بے پروا ہو کر جواب دیا کہ بہت ہوا ہے، اور آئندہ بھی ہوگا مجھے فرق نہیں پڑتا ۔

وہ معاشرہ جہاں عورت ہونا اذیت بنتا جا رہا تھا عاصمہ نے اسے اعزاز بنا دیا۔


اب وہ بچے یتیم ہوگئے ہیں جن کی مائیں ان کی گمشدگی پر آواز اٹھانے کیلئے عاصمہ جہانگیر سے رابطہ کرتی تھیں۔کمزوروں اور مظلوموں کے سر سے شفقت کا سایہ اٹھ گیا ہے ۔ ظالم کو للکارنے والی آواز خاموش ہوگئی ہے۔ اس ملک کے ہر مظلوم اور کمزور کیلئے وہ ایک سایہ دار شجر تھیں۔ وہ سردیوں کی دھوپ اور گرمیوں کی چھاﺅں جیسی عورت رخصت ہوگئی۔وہ عورت جس کو میں نے ہمیشہ ایک مہربان ماں کے طور پر دیکھا، ایسی ماں جو ہمیشہ مجھے ’وحید صاحب‘ کہہ کر پکارتی تھی۔ وہ عورت جس کو وکیلوں کے ہاسٹل میں ہوٹل چلانے کی قانونی حیثیت پوچھنے والے میرے سوال کبھی کبھی برہم کر دیا کرتے تھے مگر اگلے ہی لمحے وہ سب کچھ بھول جایا کرتی تھی ۔ وہ عورت جس کو میں نے آخری بار جمعرات کے روز فون کرکے تاحیات نااہلی کیس میں دیے دلائل کے حوالوں کی تفصیل جاننا چاہی تو اس کا فون مصروف تھا۔ تین منٹ تک واپس کال نہ آئی تو میں نے دفتر میں ساتھیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ لگتا ہے میڈم عاصمہ سے میرا فون نمبر ڈیلیٹ ہو گیا ہے، اور ابھی بات مکمل نہ ہوئی تھی کہ میرے فون کی اسکرین پر اس عظیم عورت کا نام نمودار ہوگیا۔

مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ میری ان سے آخری گفتگو ہے ۔ فون ریسیو کرتے ہی ان کی توانا آواز گونجی، جی وحید صاحب ۔ اور پھر چارمنٹ تک میرے سوالوں پر جواب دیتی رہیں ۔ اب میں ساری زندگی فون سے ان کا نمبر ڈیلیٹ کرنے کی ہمت نہیں کر پاﺅں گا۔ دل کو یہی گمان رہتا ہے معجزے اب بھی ہوتے ہیں اور کسی دن غلطی سے بھی ان کا نمبر ڈائل ہوگیا تو وہ کال بیک کرلیں گی۔

وہ عورت جس کی موت سے سوشل میڈیا پر آنسوﺅں کا سیلاب رواں ہے، مگر اسلامی تعلیمات سے ناآشنا کچھ نفسیاتی مریض اس عورت کے تابوت پر تھوکنے میں اپنی غلاظت اپنے چہرے پر مل رہے ہیں۔ آسمان جتنا قد رکھنے والی اس عورت نے زندگی بھر کبھی ان فکری بونوں کی پروا نہیں کی۔ وہ سرخرو ہے، اس نے زندگی اپنے اصولوں پر بسر کی اور ایسی گزاری کہ رشک آتا ہے۔

سات برس قبل سوات آپریشن کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ان سے پوچھا تھا کہ اگر آپ کو اپنی رائے کا حق ہے تو طالبان کو کیوں نہیں ۔ بولیں، وحید صاحب، رائے کا حق ہے، لوگوں کو مارنے کا نہیں۔ اور پھر جب آپریشن کے خاتمے پر سوات کے ستائیس سو جوان لاپتہ ہوگئے تو طالبان نے عاصمہ جہانگیر سے رابطہ کیا کہ کوئی وکیل ہمارا مقدمہ لڑنے کیلئے تیار نہیں تب عاصمہ جہانگیر نے بتایا تھاکہ انتیس خاندان سامنے آئے ہیں ان کا مقدمہ لڑوں گی، ریاست کو اپنے بچے لاپتہ کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

اس عورت کے مرنے پر اگر قومی پرچم سرنگوں نہیں ہوا تو کیا ہوا ۔ اس کی شخصیت ان علامتی چیزوں سے اوپر تھی، وہ من موجی درویش تھی۔ اس کی موت پر کروڑوں لوگ اپنے دلوں کے پرچم جھکائے اس کو رخصت کر رہے ہیں اور آسمان شبنم افشانی کر رہا ہے ۔

میں اگر شاعر ہوتا تو اس عورت کے اس طرح اچانک چلے جانے پر ایک آفاقی نظم لکھتا مگر مجھ پر شاعری نہیں اتری، میں اس عورت کیلئے دعا مانگتا ہوں
اے خدا
تم اس عورت کو جانتے ہو
وہ عورت جس کو دنیا عاصمہ کہتی تھی
وہ عورت جہاں گیر ہوگئی
جس نے زمانے کے ہر جھوٹے خدائی دعوے دار کو للکارا

وہ عورت
جس نے تیرے مظلوموں کی داد رسی کیلئے آواز اٹھائی
جو ہر ظلم کے خلاف باہر نکلی
جسے ہر مظلوم بلاتفریق رنگ ونسل ملنے آتا تھا
وہ عورت جو کمزور کی آواز بنی


اے خدا، ہم نے اس عورت کو بہت دکھ دیے
وہ عورت جس کا دل مظلوموں کے دکھوں سے بھرا ہوا تھا
وہ دل جو درد سے پھٹ پڑا، اور جسم کا ساتھ چھوڑ گیا
وہ عورت زخمی دل لیے تیرے پاس آگئی ہے
اس کے دل کادرد تم جانتے ہو
اے خدا، اس عورت کو اپنے باغوں میں داخل فرما
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


Asma_Jahangir.jpg



فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top