ملول خاطر و آزردہ دل ، کبیدہ بدن

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ملول خاطر و آزردہ دل ، کبیدہ بدن
شب ِ وصال میں روتے ہیں غم گزیدہ بدن

علاج ِ زخم ِ تمنا کو چاہئیے مرہم
قلم کی نوک سے سلتے نہیں دریدہ بدن

اٹھائیں شاہ پہ کیسے ہم انگلیاں لوگو !
جلوس ِ شاہ میں عریاں ہیں برگزیدہ بدن

شرف یہ ملتا نہیں ہر کشیدہ قامت کو
کہ اترے دارکے تختے سے سربریدہ بدن

یہ انکساری نہیں بوجھ ہے کوئی سرپر
وہ میرے سامنے آتا تھا کب خمیدہ بدن

گراں ہے ریشم و کمخواب سے ابھی مرہم
سو خوش لباس ہوئے ہیں سبھی دریدہ بدن

ہم ایسے دنیا طلب تھے کہ بیچ کر دل کو
دکانِ سہل پرستی سے جا خریدا بدن

مرے سخن کو وہ دیتا ہے امتحاں کیا کیا
وہ جان ِ مصرع ، غزل قامت و قصیدہ بدن

۔۔۔۔۔ ۲۰۱۰ ۔۔۔۔۔۔​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
قلم کی نوک سے سلتے نہیں دریدہ بدن
واہ واہ واہ
بہت شکریہ! نوازش! سخنوروں سے داد ملے تو ہمت بڑھتی ہے! فرحان بھائی ، اللہ آپ کو خوش رکھے!

فرحان ، یہ گڑا مردہ کہاں سے اُکھاڑ لائے آپ! :):):)
ایک زمانے میں مشکل زمینوں میں طبع آزمائی کا شوق ہوا تھا ۔ اُسی زمانے کی ایک غزل ہے یہ۔
 

یاسر شاہ

محفلین
السلام علیکم و رحمت الله و برکاتہ

ظہیر بھائی بات یہ ہے کہ

<خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے >
:)
ملول خاطر و آزردہ دل ، کبیدہ بدن
شب ِ وصال میں روتے ہیں غم گزیدہ بدن

شب وصال میں بھی رونا -(n)

علاج ِ زخم ِ تمنا کو چاہئیے مرہم
قلم کی نوک سے سلتے نہیں دریدہ بدن

بہت خوب -

اٹھائیں شاہ پہ کیسے ہم انگلیاں لوگو !
جلوس ِ شاہ میں عریاں ہیں برگزیدہ بدن

برگزیدہ بدن کچھ جچا نہیں -

شرف یہ ملتا نہیں ہر کشیدہ قامت کو
کہ اترے دارکے تختے سے سربریدہ بدن

واہ -کیا کہنے -

یہ انکساری نہیں بوجھ ہے کوئی سرپر
وہ میرے سامنے آتا تھا کب خمیدہ بدن

واہ

گراں ہے ریشم و کمخواب سے ابھی مرہم
سو خوش لباس ہوئے ہیں سبھی دریدہ بدن

خوب -بڑا اچھوتا خیال لگتا ہے -

ہم ایسے دنیا طلب تھے کہ بیچ کر دل کو
دکانِ سہل پرستی سے جا خریدا بدن

یہاں آپ نے اپنے مسلک ،کہ عربی فارسی الفاظ کے آخری ا اور و نہیں دب سکتے،کے برخلاف <دنیا> کو باندھا ہے -ہرچند میرا یہ ماننا ہے کہ ہندی فارسی اور عربی کے آخری سب حروف علّت گرائے جا سکتے ہیں بشرطیکہ روانی مجروح نہ ہوتی ہو اور دو ایک مثالیں بھی اساتذه کی اس باب میں موجود ہوں تو سونے پہ سہاگہ -اب واقعہ یہ ہے کہ <دنیا> کا الف گرانے سے روانی مجروح ہوتی ہے اور کوئی مثال اس کی کم از کم مجھے تو اساتذه کے کلام سے نہیں ملتی -آپ کی نظر میں ہو تو ضرور پیش کریں -

مرے سخن کو وہ دیتا ہے امتحاں کیا کیا
وہ جان ِ مصرع ، غزل قامت و قصیدہ بدن

ظہیر بھائی معاف کیجیے گا یہ شعر آپ کا وزن سے خارج قرار پائے گا کیونکہ <مصرع> کا یہ وزن ناقابل قبول ہے -اور میرا ایک چھوٹے بھائی کی حیثیت سے یہی مشوره ہے کہ ایسے تجربات سے گریز بہتر ہے جس سے آپ کی شاعرانہ ساکھ پہ گرہن لگے - :)
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ ۔ یاسر بھائی، اشعار پسند کرنے کا بہت شکریہ ! بہت ممنون ہوں ۔ اللہ آپ کو خوش رکھے ۔
آپ نے جو دوتین اشعار پر سوالات کئے اس کے لئے بھی شکریہ! جواب دیکھ لیجئے۔

ملول خاطر و آزردہ دل ، کبیدہ بدن
شب ِ وصال میں روتے ہیں غم گزیدہ بدن

شب وصال میں بھی رونا -(n)

کیوں نہیں بھئی! اس شعر میں کسی قرینے سے ظاہر نہیں ہوتا کہ یہاں محبوب سے وصال کی بات ہورہی ہے ۔ شعر کے تمام الفاظ دو مجبور (کردیئے گئے) لوگوں کے وصال کو ظاہر کرتے ہیں جو ہمارے معاشرے میں ایک عام بات ہے ۔ شاہ صاحب ، ذرا چشمِ تصور کو وا کیجئے۔ اپنے اردگرد بھی دیکھئے ۔

ہم ایسے دنیا طلب تھے کہ بیچ کر دل کو
دکانِ سہل پرستی سے جا خریدا بدن

یہاں آپ نے اپنے مسلک ،کہ عربی فارسی الفاظ کے آخری ا اور و نہیں دب سکتے،کے برخلاف <دنیا> کو باندھا ہے -ہرچند میرا یہ ماننا ہے کہ ہندی فارسی اور عربی کے آخری سب حروف علّت گرائے جا سکتے ہیں بشرطیکہ روانی مجروح نہ ہوتی ہو اور دو ایک مثالیں بھی اساتذه کی اس باب میں موجود ہوں تو سونے پہ سہاگہ -اب واقعہ یہ ہے کہ <دنیا> کا الف گرانے سے روانی مجروح ہوتی ہے اور کوئی مثال اس کی کم از کم مجھے تو اساتذه کے کلام سے نہیں ملتی -آپ کی نظر میں ہو تو ضرور پیش کریں -

بھائی، یہ میرا مسلک قطعی نہیں ۔ میں بھی ہر اُس حرفِ علت کو گرانے کا قائل ہوں کہ جو روانی مجروح کئے بغیر گرایا جاسکے ۔ عروض کے تمام اختلافی مسائل پر میرا مسلک وہ ہے جو میں نے عملی طور پر اپنے شعر میں برتا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ کسی شعر پر تبصرے یا اصلاح کے ضمن میں جب بات ہوتی ہے تو لکھنا پڑتا ہے کہ عمومی اصول یہ ہے اور عمومًا ایسا کیا جاتاہے وغیرہ وغیرہ ۔ وہاں عروض کے مروجہ اصولوں اور عام طریقے کی بات کی جاتی ہے کہ سمجھانا مقصود ہوتا ہے ۔ ہر جگہ اختلافی بات نہیں کیجاتی ۔ میں عروض کی تسہیل اور تجدید کا شدت سے قائل ہوں ۔ بیجا عروضی پابندیوں کے خلاف ہوں اور اس محفل پر جابجا اس بارے میں لکھا ہے ۔ کسی ایک مراسلے میں آپ سے گفتگو کے دوران بھی میں نے کہا تھا کہ میں ہندی اورعربی فارسی الفاظ کو واؤ عطف سے جوڑنے اور اضافی تراکیب بنانے کے حق میں ہوں ۔ میری تو شعوری کوشش ہوتی ہے کہ جہاں ممکن ہوسکے ایسے الفاظ کو وقتاً فوقتاً اپنے شعر میں لایا جائے ۔ لیکن کوئی بدعت شروع کرنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے روایتی اور مسلمہ اصولوں سے واقفیت اور ان پر عبور ثابت کیا جائے ۔ بہرحال ، یہ موضوع ایک طویل گفتگو کا متقاضی ہے جو بدقسمتی سے اس وقت ممکن نہیں ۔ ان شاء اللہ اس پر پھر بات ہوتی رہے گی ۔

باقی رہی بات اس شعر میں دنیا کا الف دبانے کی ۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہاں الف دبانے سے کوئی قباحت پیدا نہیں ہورہی ۔ روانی بالکل ٹھیک ہے ۔ میں بہت آسانی سے یہاں دنیا طلب کے بجائے دہر طلب، عیش طلب وغیرہ لکھ سکتا تھا لیکن دنیا طلب ہی کہنا مقصود تھا سو ایسے ہی کہا ۔ جہاں تک بات نظیر کی ہے تو مسئلہ یہیں پر آکر اٹکتا ہے ۔ پھر وہی کہوں گا کہ مجھے بارش کا پہلا قطرہ مان لیا جائے ۔ آگے کا اللہ مالک ہے ۔ کسی نہ کسی کو تو عملی قدم اٹھانا ہے ۔ کب تک زبانی کلامی ہوتی رہے گی ۔

پیاسی مٹی مجھے پی جائے گی مانا لیکن
قطرہ پہلا ہوں میں بارش کا مرے بعد تو دیکھ


مرے سخن کو وہ دیتا ہے امتحاں کیا کیا
وہ جان ِ مصرع ، غزل قامت و قصیدہ بدن

ظہیر بھائی معاف کیجیے گا یہ شعر آپ کا وزن سے خارج قرار پائے گا کیونکہ <مصرع> کا یہ وزن ناقابل قبول ہے -اور میرا ایک چھوٹے بھائی کی حیثیت سے یہی مشوره ہے کہ ایسے تجربات سے گریز بہتر ہے جس سے آپ کی شاعرانہ ساکھ پہ گرہن لگے - :)

یاسر بھائی ، یہ بھی روایتی عروض سے میرے اختلاف کی ایک مثال ہے اور ایسا میں نے اپنے کئی اور اشعار میں بھی کیا ہے ۔ یہ مسئلہ بھی ایک طویل گفتگو کا متقاضی ہے ۔ لیکن فی الحال مختصراً یہ سمجھئے کہ میں عربی فارسی کے ان تمام حروف کو یکساں طور پر برتنے کا قائل ہوں کہ جن کا تلفظ اردو بولنے والوں میں الگ الگ نہیں بلکہ ایک ہی ہے ۔ یعنی ث ،س ، ص اور ز، ذ، ظ وغیرہ اردو بولنے والوں کے ہاں ہم صوت ہیں اس لئے میں ان کے صوتی قوافی کو جائز سمجھتا ہوں ۔ اسی طرح الف اور عین بھی اردو دنیا میں ہم صوت ہیں ۔ سو میں عین کو الف کی طرح برتنے کا قائل ہوں ۔ یعنی جہاں جہاں الف کو ساقط کیا جاسکتا ہے وہاں عین کو بھی کیا جاسکتا ہے ۔ عہدِ حاضر کے ثقہ شاعر و ادیب ، ماہرِ عروض اور استاد محبی و مکرمی سرورعالم راز سرور کا ایک مستقل مضمون " علمِ عروض اور اردو کے تقاضے" اس سلسلے میں پڑھنے کے لائق ہے ۔ تفصیلات کے لئے اُسے دیکھ لیجئے ۔ حقیقت یہ ہے کہ تقریباً ہر دور کے شعراء کے ہاں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ جہاں انہوں نے الف کی طرح عین کا اسقاط کیا ہے ۔ فی الوقت یہ کچھ مثالیں میں سرور صاحب کے مضمون سے آپ کے لئے لکھ رہا ہوں ۔

سودا تجھے کہتا ہوں نہ خوباں سے مل اتنا
تو اپنا غریب عاجز دل بیچنے والا
(سودا)

خرید عشق نے جس روز کی متاعِ چمن
جو نقدِ جاں پڑی قیمت تو دل بیعانہ تھا
(سودا)

نہ مانا کبھی دل نے کہنا ہمارا
نہایت ہم عاجز ہوئے بکتے بکتے
(نظیر اکبر آبادی)

بزرگوں بیچ کہیں بوئے میہمانی نہیں
تواضع کھانے کی ڈھونڈو سو جگ میں پانی نہیں
(شاہ حاتم)

کون عہدِ وفا اُس بتِ سفاک سے باندھے
سر کاٹ کے عاشق کا جو فتراک سے باندھے
(مصحفی)

ظفر خارِ کیوں گُل کے پہلو میں ہوتے
جو اچھے نصیب عندلیبوں کے ہوتے
(بہادر شاہ ظفر)

ہاں ابھی دور بہت دور مجھے جانا ہے
الوداع اے مہ و خورشید کہ ہوں پا بہ رکاب
(فراق گورکھپوری)

اُمید و یاس ، وفا و جفا ، فراق و وصال
مسائل عشق کے اِن کے سوا کچھ اور بھی ہیں
(فراق گورکھپوری)

پھر دل کے آئینے سے لہو پھوٹنے لگا
دیوارِ شب اور عکسِ رُخِ یار سامنے
(فیض احمد فیض)

لے جائیں مجھ کو مالِ غنیمت کے ساتھ عدو
تم نے تو ڈال دی ہے سپر تم کو اس سے کیا
(پروین شاکر)

اب تو میرے دل میں غم کا نام بھی باقی نہیں
عیش ہے اب عیش ہے ، دن عیش کا رات عیش کی
(عبدالحمید عدم)

نہیں کہ عرضِ تمنا پہ مان ہی جاؤ
ہمیں اِس عہدِ تمنا میں آزماؤ بھی
(مصطفٰے زیدی)

اک دواخانے کی کرسی پر بھرے بازار میں
تھی اک عورت چپکے چپکے ڈاکٹر سے ہمکلام
(احسان دانش)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
سودا تجھے کہتا ہوں نہ خوباں سے مل اتنا
تو اپنا غریب عاجز دل بیچنے والا
(سودا)
خرید عشق نے جس روز کی متاعِ چمن
جو نقدِ جاں پڑی قیمت تو دل بیعانہ تھا
(سودا)
نہ مانا کبھی دل نے کہنا ہمارا
نہایت ہم عاجز ہوئے بکتے بکتے
(نظیر اکبر آبادی)
بزرگوں بیچ کہیں بوئے میہمانی نہیں
تواضع کھانے کی ڈھونڈو سو جگ میں پانی نہیں
(شاہ حاتم)
کون عہدِ وفا اُس بتِ سفاک سے باندھے
سر کاٹ کے عاشق کا جو فتراک سے باندھے
(مصحفی)
ظفر خارِ کیوں گُل کے پہلو میں ہوتے
جو اچھے نصیب عندلیبوں کے ہوتے
(بہادر شاہ ظفر)
ان اشعار سے نہ جانے کیوں بہت دکھ پہنچا ۔ :)
 

یاسر شاہ

محفلین
عہدِ حاضر کے ثقہ شاعر و ادیب ، ماہرِ عروض اور استاد محبی و مکرمی سرورعالم راز سرور
ظہیر صاحب آپ نے بھی کیا نام لیا -نہ جانے کیا کیا یادیں تازہ ہو گئیں -سرور صاحب سے آپ کا رابطہ ہے ؟،کیسے ہیں وہ؟ -اردو انجمن پہ گاہے بگاہے ان سے بات چیت ہو جاتی تھی -پھر وہ انجمن نہ رہی ،بیچارے اردو والوں کی سہل انگاری کا رونا روتے روتے تھک چکے تھے اور ایک دن وہ فورم برباد ہوگیا -اب تو ای میل کا جواب بھی نہیں دیتے- فیس بک اور ٹویٹر پر میں ہوں نہیں -لہٰذا ان سے کوئی رابطہ نہیں -میں بھی سرور صاحب کے مداحوں اور شاگردوں میں سے ہوں -انھوں نے ہی اپنے کلام پر بلاتکلّف لکھنے کی دعوت دے کر مجھے اشعار پر بیلاگ لکھنے پر اکسایا -مانتے تو وہ کم ہی کسی کی تھے البتہ ایک بار میرے تجزیے کی انھوں نے یوں ستم ظریفانہ تعریف کی تھی :<آپ ایک دن بڑے بڑوں کے کان کتریں گے > لہٰذا اپنا ہی شعر ہے :

گئے کروانے آستانے پہ دم
پیر صاحب پہ دم کیا ہم نے

مجھے لگتا ہے اردو انجمن پہ آپ بھی متحرک تھے غالبا <خاک زنبیلی >کے نام سے-بہرحال ادبی بحث کا لطف تب ہے جب فریقین تین شقوں پر متفق ہوں :

١-اساتذہ کو سند مانا جائے (خواہ اپنے حق میں خواہ اپنے خلاف )
٢-موضوع سے نہ ہٹا جائے
٣-حق کو تسلیم کر لیا جائے

تیسری شق اصل ہے -یہی نہیں تو باقی بھی نہیں اور یہ ہے تو باقی بھی ہیں -تیسری شق پہ عمل نہ ہوگا تو یہی ہوگا کہ اپنے موقف کی تائید میں اگر کوئی استاد کی سند مل گئی تو فورا پیش بھی کر دی جائے گی اور اگر کوئی سند نہ ملی تو اجتہاد کا دعوی تو کہیں نہیں گیا -اور دوسری شق کے خلاف مثلا آپ نے بہت سارے اشعار پیش کر دیے ہیں جن میں <ع> کو گرایا نہیں بلکہ بطور <ا>فرض کر کے وصل کیا گیا ہے اور یہ بھی غلط ہے اگر کسی استاد شاعر نے کیا بھی ہے تو یہ محض تفرد ہے جو لائق اتبا ع نہیں -

آپ نے دراصل مصرع کو مصرَ باندھا ہے ،اب آپ اس ضمن میں بطور سند کوئی شعر پیش کیجیے -آپ بیشک یہ شعر سرور صاحب کو دکھا دیں میں پورے وثوق کے ساتھ کہتا ہوں وہ بھی اس باندھنے کو تسلیم نہیں کریں گے -

۔ جہاں تک بات نظیر کی ہے تو مسئلہ یہیں پر آکر اٹکتا ہے ۔ پھر وہی کہوں گا کہ مجھے بارش کا پہلا قطرہ مان لیا جائے ۔ آگے کا اللہ مالک ہے ۔ کسی نہ کسی کو تو عملی قدم اٹھانا ہے ۔ کب تک زبانی کلامی ہوتی رہے گی ۔

پیاسی مٹی مجھے پی جائے گی مانا لیکن
قطرہ پہلا ہوں میں بارش کا مرے بعد تو دیکھ
باقی یہ بات آپ کی بظاہر تو بہت حسین ہے لیکن یہ تو فرمائیے اگر ہر مبتدی نے آپ کی یہ بات بطورِ جوازِ غلطی گرہ سے باندھ لی تو اردو ادب کا مستقبل آپ کہاں دیکھتے ہیں ؟

بقول جون :

اب نہیں کوئی بات خطرے کی
اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ظہیر صاحب آپ نے بھی کیا نام لیا -نہ جانے کیا کیا یادیں تازہ ہو گئیں -سرور صاحب سے آپ کا رابطہ ہے ؟،کیسے ہیں وہ؟ -اردو انجمن پہ گاہے بگاہے ان سے بات چیت ہو جاتی تھی -پھر وہ انجمن نہ رہی ،بیچارے اردو والوں کی سہل انگاری کا رونا روتے روتے تھک چکے تھے اور ایک دن وہ فورم برباد ہوگیا -اب تو ای میل کا جواب بھی نہیں دیتے- فیس بک اور ٹویٹر پر میں ہوں نہیں -لہٰذا ان سے کوئی رابطہ نہیں -میں بھی سرور صاحب کے مداحوں اور شاگردوں میں سے ہوں -انھوں نے ہی اپنے کلام پر بلاتکلّف لکھنے کی دعوت دے کر مجھے اشعار پر بیلاگ لکھنے پر اکسایا -مانتے تو وہ کم ہی کسی کی تھے البتہ ایک بار میرے تجزیے کی انھوں نے یوں ستم ظریفانہ تعریف کی تھی :<آپ ایک دن بڑے بڑوں کے کان کتریں گے > لہٰذا اپنا ہی شعر ہے :
گئے کروانے آستانے پہ دم
پیر صاحب پہ دم کیا ہم نے
مجھے لگتا ہے اردو انجمن پہ آپ بھی متحرک تھے غالبا <خاک زنبیلی >کے نام سے-بہرحال ادبی بحث کا لطف تب ہے جب فریقین تین شقوں پر متفق ہوں :
١-اساتذہ کو سند مانا جائے (خواہ اپنے حق میں خواہ اپنے خلاف )
٢-موضوع سے نہ ہٹا جائے
٣-حق کو تسلیم کر لیا جائے
تیسری شق اصل ہے -یہی نہیں تو باقی بھی نہیں اور یہ ہے تو باقی بھی ہیں -تیسری شق پہ عمل نہ ہوگا تو یہی ہوگا کہ اپنے موقف کی تائید میں اگر کوئی استاد کی سند مل گئی تو فورا پیش بھی کر دی جائے گی اور اگر کوئی سند نہ ملی تو اجتہاد کا دعوی تو کہیں نہیں گیا -اور دوسری شق کے خلاف مثلا آپ نے بہت سارے اشعار پیش کر دیے ہیں جن میں <ع> کو گرایا نہیں بلکہ بطور <ا>فرض کر کے وصل کیا گیا ہے اور یہ بھی غلط ہے اگر کسی استاد شاعر نے کیا بھی ہے تو یہ محض تفرد ہے جو لائق اتبا ع نہیں -
آپ نے دراصل مصرع کو مصرَ باندھا ہے ،اب آپ اس ضمن میں بطور سند کوئی شعر پیش کیجیے -آپ بیشک یہ شعر سرور صاحب کو دکھا دیں میں پورے وثوق کے ساتھ کہتا ہوں وہ بھی اس باندھنے کو تسلیم نہیں کریں گے -
باقی یہ بات آپ کی بظاہر تو بہت حسین ہے لیکن یہ تو فرمائیے اگر ہر مبتدی نے آپ کی یہ بات بطورِ جوازِ غلطی گرہ سے باندھ لی تو اردو ادب کا مستقبل آپ کہاں دیکھتے ہیں ؟
بقول جون :
اب نہیں کوئی بات خطرے کی
اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے

یاسر بھائی ، یا تو آپ میری باتوں کو سرسری پڑھتے ہیں یا پھر میں ہی اپنا مدعا آپ تک نہیں پہنچاسکتا ۔ :):):)

بھائی ، میں نے یہ کب کہا کہ حرف عین گرانا عروضی طور پر درست ہے ۔ صاف صاف لکھا ہے کہ یہ میرا اختلافی رویہ ہے ۔ ایسا کرکے میں ایک مروجہ عروضی اصول کو توڑرہا ہوں اِس امید پر کہ شاید ایسا کرنا رواج پاجائے ۔اور وجہ اس کی یہ بیان کی ہے کہ اردو عروض کی تسہیل اور ترویج کے لئے زبان اور عروض کےکچھ مسلمہ اصولوں کو بدلنا ضروری ہے۔ اس بارے میں لکھا تو بہت کچھ گیا ہے لیکن بلی کے گلے میں گھنٹی کوئی باندھنے پر تیار نہیں ۔ میں یہ گھنٹی باندھ رہا ہوں ۔
یاسر بھائی ، میں تقطیع کے اصولوں سے بخوبی واقف ہوں اور جانتا ہوں کہ عین نہیں گرایا جاسکتا ۔ میں مذکورہ مصرع کو یوں بھی کہہ سکتا تھا: وہ جانِ شعر، غزل قامت و قصیدہ بدن ۔ لیکن قصداً یہاں مصرع کا لفظ استعمال کیا ہے ۔ وجہ تفصیلاً اور مکرر لکھ چکا ہوں ۔ چونکہ اردو میں الف اور عین کی آواز میں کوئی فرق نہیں اس لئے میں عین کو الف کی طرح برت رہا ہوں ۔ یعنی اسے الف کی طرح دبا رہا ہوں ۔ اب اس کے قبول اور رد کا فیصلہ وقت پر چھوڑدیا ہے ۔
علم عروض کہ جس کی اصل عربی ہے وہ اردو میں فارسی کے توسط سے درآمد کیا گیا اور اسے جوں کا توں اردو پر منطبق کردیا گیا باوجود یہ کہ اردواپنی فطرت میں ایک منفرد زبان ہے اور اس کی صوتیات ، لفظیات اور گرامر فارسی زبان سے مختلف ہیں ۔ قدیم علماء نے عروض کے اصولوں میں چند نا گزیر تبدیلیاں کی تو ہیں لیکن اس کے باوجود علم عروض اردو زبان و بیان کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کے بجائے کہیں کہیں ان سے متصادم نظر آتا ہے۔ اور یہ بات شاعر کے اظہارِ خیال میں رکاوٹ بنتی ہے ۔ مختصر یہ کہ مروجہ علم عروض خامیوں اور کمزوریوں سے قطعی پاک نہیں ہے ۔ اس تصادم کی کچھ مثالیں میں پہلے دے چکا ہوں ۔ نہ اور نا ( یک حرفی یا دوحرفی) کا مسئلہ ہر شاعر کو عام طور پر پیش آتا ہے۔ اساتذہ نے تو نہ کی جگہ نے استعمال کرلیا لیکن وہ اب متروک ہے اور کہیں نہیں بولا جاتا ۔ تاحال اس مسئلے کے حل کی طرف کوئی پیش رفت نہیں نظر آتی ۔ ہم صوت حروف ایک اور واضح مثال ہیں ۔ ماسوائے اکا دکا اشعار کے صوتی قافیے کی مثالیں اساتذہ کے ہاں نہیں ملتیں ۔ لیکن وقت کا تقاضا تھا کہ صوتی قوافی برتے جائیں اور ایسا ہوا ۔ سب سے پہلے جب بھی کسی نے صوتی قوافی استعمال کئے ہوں گے تو اسے یقیناً شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہوگا لیکن وقت نے ثابت کیا کہ یہ اردو کی ضرورت ہے ۔ اور اب یہ قوافی تسلیم کرلئے گئے ہیں ۔ اب اگر آپ اس بات پر بضد رہیں گے کہ ان قوافی کی نظیر اساتذہ کے ہاں سے لاؤ تو پھر بات آگے نہیں بڑھے گی ۔ علم عروض ارتقا کی کوئی منزل طے نہیں کرسکے گا۔
جو اشعار میں نے اپنے پچھلے مراسلے میں لکھے وہ اپنے شعر کے دفاع میں نہیں لکھے بلکہ یہ بتانے کے لئے لکھے تھے کہ شعراء حضرات کو حرف عین سے متعلق یہ تکلیف اور رکاوٹ ہر دور میں پیش آئی ہے اور بعض بعض جگہ انہوں نے عین کو الف کی طرح گرایا ہے ۔ ان اشعار سے عین کےاسقاط کو عروضی طور پر درست ثابت کرنا مقصود نہیں تھا ۔ جیسا کہ شروع میں عرض کیا کہ عروضی طور پر تو عین کا اسقاط جائز ہے ہی نہیں ۔
باقی رہی آپ کی یہ بات کہ اگر ہر مبتدی نے یہ بات بطورِ جوازِ غلطی گرہ سے باندھ لی تو اردو ادب کا مستقبل کیا ہوگا ۔ تو عرض کرتا ہوں کہ میں اور میرا کہا مبتدیوں کے لئے کوئی سند نہیں ۔ میں تو خود اپنے آپ کو ایک طالب علم سمجھتا ہوں ۔ سند صرف اور صرف مروجہ اور مسلمہ عروضی قواعد ہیں اور ہر مبتدی کو شاعری سیکھتے وقت انہی کا پاس اور لحاظ کرنا چاہئے ۔ اور یہی اصول اور قواعد میں اپنے تبصروں میں لکھتا ہوں ۔ پھر کہوں گا کہ کوئی بدعت ایجاد کرنے سے پہلے مسلمہ اور مستند اصولوں سے واقفیت اور ان پر عبور ضروری ہے ۔ بدقسمتی سے اب اساتذہء فن منظر نامے سے غائب ہوتے جارہے ہیں ۔ حکومتی سطح پر کوئی ایسا ادارہ نہیں کہ جو ان عروضی مسائل کی طرف توجہ کرے اور انہیں حل کرنے کی کوشش کرے ۔ سو ایسی صورت میں انفرادی کوششیں ہی ہوسکتی ہیں ۔ سرور بھائی بہت بڑے صاحبِ علم آدمی ہیں اور اس بارے میں اُن کا موقف بھی یہی ہے ۔ اگر آپ کو عروض کا شوق ہے تو آپ کو ان کے مضامین پڑھنے چاہئیں ۔
جہاں تک اردو کے مستقبل کا سوال ہے تو بہت سارے اور لوگوں کی طرح میرا بھی یہی خیال ہے کہ مروجہ عروض کے بعض قواعد غیر منطقی ، ازحد سخت اور زبان کے عام تقاضوں کے خلاف ہیں اور اکثر اظہارِ خیال کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں ۔ اسلئے اگر مروجہ علم عروض کی تسہیل اور تجدید نہ کی گئی اور اسے اردو کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہ کیا گیا تو آزاد نظم اور نثری نظم کا رجحان بڑھتا جائے گا ۔
یاسر بھائی ، سرور عالم راز سرور صاحب سے میرا استادی شاگردی کا کوئی رشتہ نہیں ہے ۔ انہوں نے آج تک میری کوئی غزل نہیں دیکھی ۔ عروض اور علم قافیہ کے سلسلے میں اُن سے رابطہ رہا ہے ۔ وہ الحمدللہ خیریت سے ہیں ۔ ضعیف ہوچکے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ انہیں صحت و تندرستی عطا فرمائے اور پریشانیوں سے دور رکھے ۔ وہ اردو کے بے لوث خادموں میں سے ہیں اور انہوں نے وہ کام کیا ہے جو یونیورسٹیوں اور حکومتی اداروں کو کرنا چاہئے ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
یاسر شاہ بھائی ، میرا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہمیشہ ہی تفصیلاً لکھنے کی فرصت نہیں ملتی ۔ اکثر کام کے دوران یا دیگر مصرفیات کے دوران ٹھہر ٹھہر کر لکھتا ہوں ۔ بہت سارے لکھنے کے کام آئندہ پر ٹالے ہوئے ہیں ۔
ان شاء اللہ کچھ روز میں وقت نکال کر سرور صاحب کے کچھ متعلقہ مضامین اردو محفل پر پوسٹ کروں گا ۔ بقیہ گفتگو کو اس وقت تک کے لئے اٹھا رکھئے ۔ یہ مباحث علیحدہ اور مفصل و جامع گفتگو کے متقاضی ہیں ۔ اور اس گفتگو میں دیگر اصحابِ علم کی شرکت اور رائے بہت ضروری ہے ۔ الحمدللہ مجھے اپنے بارے میں کسی قسم کا کوئی زعم اور دعویٰ نہیں ۔ اپنی کوتاہیوں اور عیوب سے واقف ہوں ۔ میں تو اردو کا ایک ادنیٰ سا طالب علم ہوں ۔الحمدللہ ، شاعری میری کمزوری نہیں ۔ صرف ایک مشغلہ ہے ۔ اگر اسے سنجیدہ لیا ہوتا تو کب کا کوئی مجموعہ وغیرہ شائع کرچکا ہوتا ۔ اردو محفل کے علاوہ کبھی کہیں میرا کلام شائع نہیں ہوا اور یہ بھی میں نے کوئی تین سال پہلے شروع کیا ہے ۔ عیب سے پاک کلام صرف اور صرف کلامِ الہٰی ہے ۔ میں ہمیشہ اپنی کوتاہی اور عجزِِبیان کا عتراف کرتا ہوں ۔ اس کی مثالیں انہی صفحات پر جابجا بکھری ہیں ۔ اس لئے براہِ کرم کسی بات کو ذاتی طور پر نہ لیجئے ۔ :):):)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
آپ نے بہت سارے اشعار پیش کر دیے ہیں جن میں <ع> کو گرایا نہیں بلکہ بطور <ا>فرض کر کے وصل کیا گیا ہے اور یہ بھی غلط ہے اگر کسی استاد شاعر نے کیا بھی ہے تو یہ محض تفرد ہے جو لائق اتبا ع نہیں -

آپ نے دراصل مصرع کو مصرَ باندھا ہے ،اب آپ اس ضمن میں بطور سند کوئی شعر پیش کیجیے -

یاسر بھائی ، آپ کے اس سوال کا جواب رہ گیا تھا ۔ عین کو گرانے کی مثال میں اوپر سودا کا بیعانہ والا شعر اور شاہ حاتم کا تواضع والا شعر دیکھ لیں ۔ دونوں میں عین ساقط کیا گیا ہے ۔
 

یاسر شاہ

محفلین
یاسر بھائی ، آپ کے اس سوال کا جواب رہ گیا تھا ۔ عین کو گرانے کی مثال میں اوپر سودا کا بیعانہ والا شعر اور شاہ حاتم کا تواضع والا شعر دیکھ لیں ۔ دونوں میں عین ساقط کیا گیا ہے ۔

ظہیر بھائی السلام علیکم !
تنقید نگاروں نے کچھ فہرستیں بنائی ہیں جن میں بڑے شاعر اور استاد شاعر میں تمیز برتی گئی -استاد شاعر وہ ہے جس کا کہا سند کی حیثیت رکھتا ہے بشرطیکہ شعر میں ضرورت شعری کے تحت زبان و بیان میں کہیں تفرد نہ ہو- اساتذہ کی اس فہرست میں شاہ حاتم تو کیا سودا بھی نہیں آتے -لیکن چونکہ سودا بہرحال بڑے شاعر ہیں سو <بیعانہ> میں یہ تاویل کی جا سکتی ہے اور اس کا احتمال بھی ہے کہ <ع> نہیں بلکہ<ی > گرائی گئی ہے جیسے جائیداد اور پائیدار میں <ی> گرائی جاتی ہے-وجہ اس تاویل کی یہی ہے کہ ثقہ اہل زبان ح -ہ ،ک -ق ،ا -ع کے مخارج میں واضح فرق کرتے ہیں -کہیے تو ایسے حضرات کی تقاریر آپ کو سنواؤں یا ان حروف پر مبنی الفاظ آپ اردو لغت آن لائن میں ڈال کر نسوانی آواز سنیں تو بھی فرق واضح ہو جائے گا -

بلکہ اہل زبان میں تو یہ محاورہ بھی مشہور ہے -اس آدمی کے لیے کہتے ہیں جو ان حروف کی ادائیگی ٹھیک نہیں کرتا کہ بھئی اس کے تو شین قاف تک ٹھیک نہیں -باقی چونکہ آپ میرے والد صاحب کے ہم نام ہیں لہٰذا :

جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے:)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ظہیر بھائی السلام علیکم !
تنقید نگاروں نے کچھ فہرستیں بنائی ہیں جن میں بڑے شاعر اور استاد شاعر میں تمیز برتی گئی -استاد شاعر وہ ہے جس کا کہا سند کی حیثیت رکھتا ہے بشرطیکہ شعر میں ضرورت شعری کے تحت زبان و بیان میں کہیں تفرد نہ ہو- اساتذہ کی اس فہرست میں شاہ حاتم تو کیا سودا بھی نہیں آتے -لیکن چونکہ سودا بہرحال بڑے شاعر ہیں سو <بیعانہ> میں یہ تاویل کی جا سکتی ہے اور اس کا احتمال بھی ہے کہ <ع> نہیں بلکہ<ی > گرائی گئی ہے جیسے جائیداد اور پائیدار میں <ی> گرائی جاتی ہے-وجہ اس تاویل کی یہی ہے کہ ثقہ اہل زبان ح -ہ ،ک -ق ،ا -ع کے مخارج میں واضح فرق کرتے ہیں -کہیے تو ایسے حضرات کی تقاریر آپ کو سنواؤں یا ان حروف پر مبنی الفاظ آپ اردو لغت آن لائن میں ڈال کر نسوانی آواز سنیں تو بھی فرق واضح ہو جائے گا -

بلکہ اہل زبان میں تو یہ محاورہ بھی مشہور ہے -اس آدمی کے لیے کہتے ہیں جو ان حروف کی ادائیگی ٹھیک نہیں کرتا کہ بھئی اس کے تو شین قاف تک ٹھیک نہیں -باقی چونکہ آپ میرے والد صاحب کے ہم نام ہیں لہٰذا :

جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے:)
لاحول ولاقوۃ الا باللہ ۔
یاسر صاحب آپ تو بلاوجہ بات کو طول دے رہے ہیں اور شاید اس گفتگو کو پرسنل لے رہے ہیں ۔ بھائی میں آپکے سوال کا جواب اپنے اوپر والے مراسلے میں کل رات لکھنا بھول گیا سوآج لکھ دیا ۔ اسے پورے مراسلے کے تناظر میں پڑھئے ۔ میں اوپر وضاحت سے کہہ چکا کہ یہ اشعار اسقاطِ عین کے ثبوت میں نہیں لکھے ۔ اسقاط عین تو سرے سے ہے ہی غلط عروضی طور پر ۔ یہ سب کچھ اوپر تفصیل سے لکھ چکا ہوں اور اپنا نقطہء نظر بھی لکھ دیا ہے کہ یہاں بجائے جانِ شعر کے جانِ مصرع کیوں لکھا ہے ۔ اب آپ نجانے کیا چاہتے ہیں ۔ اور یہ کس قسم کی باتیں کررہے ہیں ۔ پتہ نہیں کیوں آپ مجھے زبردستی اپنے موقف سے دستبردار کروانا چاہتے ہیں ۔

بھائی ، میں نے یہ کب کہا کہ حرف عین گرانا عروضی طور پر درست ہے ۔ صاف صاف لکھا ہے کہ یہ میرا اختلافی رویہ ہے ۔ ایسا کرکے میں ایک مروجہ عروضی اصول کو توڑرہا ہوں اِس امید پر کہ شاید ایسا کرنا رواج پاجائے ۔اور وجہ اس کی یہ بیان کی ہے کہ اردو عروض کی تسہیل اور ترویج کے لئے زبان اور عروض کےکچھ مسلمہ اصولوں کو بدلنا ضروری ہے۔ اس بارے میں لکھا تو بہت کچھ گیا ہے لیکن بلی کے گلے میں گھنٹی کوئی باندھنے پر تیار نہیں ۔ میں یہ گھنٹی باندھ رہا ہوں ۔

جو اشعار میں نے اپنے پچھلے مراسلے میں لکھے وہ اپنے شعر کے دفاع میں نہیں لکھے بلکہ یہ بتانے کے لئے لکھے تھے کہ شعراء حضرات کو حرف عین سے متعلق یہ تکلیف اور رکاوٹ ہر دور میں پیش آئی ہے اور بعض بعض جگہ انہوں نے عین کو الف کی طرح گرایا ہے ۔ ان اشعار سے عین کےاسقاط کو عروضی طور پر درست ثابت کرنا مقصود نہیں تھا ۔ جیسا کہ شروع میں عرض کیا کہ عروضی طور پر تو عین کا اسقاط جائز ہے ہی نہیں ۔
 

جاسمن

لائبریرین
ملول خاطر و آزردہ دل ، کبیدہ بدن
شب ِ وصال میں روتے ہیں غم گزیدہ بدن
بہت خوب!
طاہر جاوید مغل کی ایک کہانی اسی موضوع پہ تھی۔

علاج ِ زخم ِ تمنا کو چاہئیے مرہم
قلم کی نوک سے سلتے نہیں دریدہ بدن
واہ! قلم کی نوک سے سلتے نہیں دریدہ بدن

اٹھائیں شاہ پہ کیسے ہم انگلیاں لوگو !
جلوس ِ شاہ میں عریاں ہیں برگزیدہ بدن
واہ واہ!

شرف یہ ملتا نہیں ہر کشیدہ قامت کو
کہ اترے دارکے تختے سے سربریدہ بدن
تڑپانے والا شعر ہے۔

یہ انکساری نہیں بوجھ ہے کوئی سرپر
وہ میرے سامنے آتا تھا کب خمیدہ بدن
کیا خوب!

گراں ہے ریشم و کمخواب سے ابھی مرہم
سو خوش لباس ہوئے ہیں سبھی دریدہ بدن
کیا مضمون ہے!

ہم ایسے دنیا طلب تھے کہ بیچ کر دل کو
دکانِ سہل پرستی سے جا خریدا بدن
واہ! سبحان اللہ!

مرے سخن کو وہ دیتا ہے امتحاں کیا کیا
وہ جان ِ مصرع ، غزل قامت و قصیدہ بدن

جان ِ مصرع ! خوبصورت!
خوبصورت ترین غزل۔
سب اشعار منفرد۔
 

سین خے

محفلین
اٹھائیں شاہ پہ کیسے ہم انگلیاں لوگو !
جلوس ِ شاہ میں عریاں ہیں برگزیدہ بدن

شرف یہ ملتا نہیں ہر کشیدہ قامت کو
کہ اترے دارکے تختے سے سربریدہ بدن

ہم ایسے دنیا طلب تھے کہ بیچ کر دل کو
دکانِ سہل پرستی سے جا خریدا بدن


بہت ہی شاندار :) ڈھیروں داد قبول فرمائیں :)
 

فاخر رضا

محفلین
اتنی مشکل زمین پر شعر اگانا آپ ہی کا بس ہے ہمیں تو بار بار پڑھ کر سمجھ آتا ہے
کچھ شعر بہت اچھے ہیں
جو شعر بھی ماحول سے مطابقت رکھتا ہو وہ اپنا اپنا سا لگتا ہے
 

نور وجدان

لائبریرین
ملول خاطر و آزردہ دل ، کبیدہ بدن
شب ِ وصال میں روتے ہیں غم گزیدہ بدن

علاج ِ زخم ِ تمنا کو چاہئیے مرہم
قلم کی نوک سے سلتے نہیں دریدہ بدن

اٹھائیں شاہ پہ کیسے ہم انگلیاں لوگو !
جلوس ِ شاہ میں عریاں ہیں برگزیدہ بدن

شرف یہ ملتا نہیں ہر کشیدہ قامت کو
کہ اترے دارکے تختے سے سربریدہ بدن

یہ انکساری نہیں بوجھ ہے کوئی سرپر
وہ میرے سامنے آتا تھا کب خمیدہ بدن

گراں ہے ریشم و کمخواب سے ابھی مرہم
سو خوش لباس ہوئے ہیں سبھی دریدہ بدن

ہم ایسے دنیا طلب تھے کہ بیچ کر دل کو
دکانِ سہل پرستی سے جا خریدا بدن

مرے سخن کو وہ دیتا ہے امتحاں کیا کیا
وہ جان ِ مصرع ، غزل قامت و قصیدہ بدن

۔۔۔۔۔ ۲۰۱۰ ۔۔۔۔۔۔​
واہ، مزہ آگیا ...لطف دے گئی شاعری آپ کی
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت ہی شاندار :) ڈھیروں داد قبول فرمائیں :)
بہت بہت شکریہ سائرہ! نوازش ! اللہ آپ کو خوش رکھے ، ہمیشہ شاد و آباد رکھے!

اتنی مشکل زمین پر شعر اگانا آپ ہی کا بس ہے ہمیں تو بار بار پڑھ کر سمجھ آتا ہے
کچھ شعر بہت اچھے ہیں
جو شعر بھی ماحول سے مطابقت رکھتا ہو وہ اپنا اپنا سا لگتا ہے
نوازش! بہت شکریہ فاخر بھائی ! آپ کا تبصرہ پڑھ کر ہونٹوں پر بے ساختہ مسکراہٹ آگئی ۔ ۔ مزیدار تبصرہ کیا ہےآپ نے ۔ :):):)

واہ، مزہ آگیا ...لطف دے گئی شاعری آپ کی
نوازش! قدر افزائی کے لئے ممنون ہوں ! بہت شکریہ! اللہ آپ کو فلاحِ دارین عطا فرمائے ! آمین۔
 
Top