ملنامہ

(عنوان دیکھ کر تعجب میں پڑنے والے حضرات کے لیے وضاحت پیش ہے کہ اسے "ملاقات نامہ" اور "ملنا" ہر دو کا مخفف اور امتزاج جانا جائے)
چار بجنے میں ابھی کچھ دیر تھی، ہم دھوپ میں، طے شدہ بلڈنگ کے عین آگے محفل کے رکنِ کم گو، کم نما اور رونق بزم کے منتظر تھے۔ (اب پڑھنے والے اپنی ذہانت آزمائیں) گو کہ یہ نوبت اس لیے پیش آئی کہ ہم خلافِ عادت و حسب، وقتِ ملاقات سے کچھ پہلے ہی جائے ملاقات پر موجود تھے۔ اسے ان صاحب کی خوش نصیبی پر بھی مامول کیا جا سکتا ہے، چونکہ پھر انہیں دھوپ میں انتظار کھینچا پڑ جاتا۔ خیر ان سب باتوں میں جس بات کا ذکر اہم تھا، وہ دھوپ کی مشقت ہے۔ لیکن شکوہ بھی کس سے کیا جائے؟!
ہمارے پہنچنے کے بعد کوئی پانچ منٹوں میں ایک سفید پوش، سفید کلاہ، سفیدرنگ، سفیدروح، سفیدطینت، سفیددستار، سفیدچشم، سرخ خون اور سیاہ ریش، فائل سینے سے لگائے ایک باوقار اور خوب صورت نوجوان نے، تمام جذبۂ ایمانی کے ساتھ، اس رندِ خرابات کو سلام کیا، جی ہاں یہ تھے ہمارے ممدوح و مطلوب جناب عبد الرحمن صاحب۔
طے یہ پایا کہ نشست باخدا کے دولت خانے پر رکھی جائے، گھر پہنچ کر اس خدابہ ہمراہ نے ہماری ضیافت کا ہر دستیاب انتظام احسن طریقے سے کیا، جس کی جزا اسے اس کے اور میرے یقین کے مطابق مل جائے گی۔ اگر اللہ نے چاہا۔ مزید یہ کہ وقفے وقفے سے "اور کیا لیں گے!؟" کا نعرہء مستانہ بلند کرکے سر میں درد کرتے رہا۔
ہم بس بیٹھ گئے۔ دور کیا چلنا تھا، دو ہی مرد، اور ان میں سے ایک مردِ مومن، تو ہم اشیاء کے ساتھ انصاف کرتے رہے، اور گفتگو کا سلسلہ جاری ہوا۔ چوں کہ شام کا وقت تھا لہذا باوجود اصرار کے محترم معذرت کرتے رہے کہ وہ عشائیہ کے معمول کو خراب نہیں کرنا چاہتے تھے۔ ہر موضوع پر گفتگو رہی، اور میٹھی، دلنشین، اور حتیٰ دلفریب گفتگو۔ باتیں اتنی تھیں کہ محتویات اب یاد نہیں، اور نہ اس وقت حافظہ ساتھ دے رہا ہے۔ لیکن ایک بہت خوش گوار اور خوش آیند نشست رہی بہر حال۔
اس سلسلے میں جانے کوئی چار گھنٹے بیت گئے، اور آسمان اندھیارا ہو گیا۔ ہم نے چوں کہ پہلی مرتبہ اس علاقے میں قدم رنجا کیے تھے اس لیے گلی محلوں کے پیچ وخم سے ناواقفیت کے سبب حضرت سے ہی گذارش کی کہ جناب آپ ہمیں گھر پہنچانے کی کھکھیڑ اٹھا لیجیے۔ اور یہ ان کی محبت تھی کہ وہ مان گئے اور خوش روئی سے مانے۔
کچھ دیر غریب خانے پر ٹھہرے۔ راستے بھر اور پھر ہمارے گھر بھی گفتگو کا مختصر سا سلسلہ جاری رہا اور اسی طرح جاری رہا۔ قبلہ کو شاید ہماری زیاد گوئی کی شکایت نہ ہو، لیکن آخر ملاقات تک ہمیں ضرور ان کی کم گوئی سے شکایت ہو چلی تھی۔ خیر یہ تو ایک جملۂ معترضہ تھا۔ گھر سے انہیں الوداع کرنے کے لیے اترے۔ راستے میں لسی کا خیال پیدا ہوا، تو وہ بھی پی گئی، اور پھر ہم نے انہیں، بھرے اعصاب اور خالی پیٹ رخصت کر دیا اور الٹے قدموں گھر لوٹے۔ اس طرح وہ شام نہایت خوش گوار اور جھومتی چہکتی یادوں کی بارات لیے ایک دوست کا تحفہ دے کر ڈھل گئی۔
 

محمداحمد

لائبریرین
کیا بات ہے مہدی بھائی ۔۔۔۔!

بہت خوب روداد ہے۔ یقیناً خوب جمی ہوگی محفل۔ :)

عبدالرحمٰن بھائی ویسے بھی محبت کرنے والے انسان ہیں ان سے مل کر یقیناً لطف آیا ہوگا۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
ویسے میں بھی ذاتی طور پر ون ٹو ون ملاقات کے حق میں ہی ہوں کہ اس میں ہی ملاقات کا صحیح لطف ہے۔ تاہم سب ساتھ مل بیٹھیں تو اُس کا اپنا مزہ ہے۔
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
جادو سا حُسنِ قلم اور بہترین بیان ، مُلاقات کا تمام حُسن و خال اِلفاظ میں بھردینا بلاشبہ ایک منفرد ملکہ ہے ، سلامت رہیں ، مُسکراتے رہیں :)
 
مہدی بہت ہی اعلیٰ روداد۔۔۔ خوب محفل رہی ہوگی۔۔۔
یار کچھ ہم سے لوگوں کا احساس کر کے آسان بھی لکھا کرو۔۔۔ :)
آساں لکھنے کی کرتے ہیں فرمائیش
گویم مشکل، وگرنہ گویم مشکل! :)

جناب اور کیا آسان لکھتے اب!؟ خیر کسی بہانے تو آپ کوچے سے برآمد ہوئے! :)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین

نیرنگ خیال

لائبریرین
اور اتنی ثقیل اردو لکھ کر ہمارا بھی یہی ارادہ ہے، (اگر پیران طریقت نے کوچہ بدر نہ کر دیا ہو اب تک!) :)
آپ نے تو جرم پر جرم کیے ہیں۔ ملاقات کے لئے جانا۔۔۔ اور وہ بھی ایک ایسے شخص کے پاس۔ جو کوچہ کا کسی طور بھی رکن نہیں۔ پھر اس کے گپ شپ کر کے ساکنان کوچہ کے لئے مسائل کھڑے کرنا۔ اور ظلم پر ظلم یہ کہ داستان رقم کرنا جبکہ رقم کی کوئی شبیہ تک نہ ہو۔
 
آپ نے تو جرم پر جرم کیے ہیں۔ ملاقات کے لئے جانا۔۔۔ اور وہ بھی ایک ایسے شخص کے پاس۔ جو کوچہ کا کسی طور بھی رکن نہیں۔ پھر اس کے گپ شپ کر کے ساکنان کوچہ کے لئے مسائل کھڑے کرنا۔ اور ظلم پر ظلم یہ کہ داستان رقم کرنا جبکہ رقم کی کوئی شبیہ تک نہ ہو۔
صبح کے بھولے ہیں جناب، شام کو گھر تو آئے ہیں نا!!
 
Top