سودا مقدور نہیں اس کی تجلّی کے بیاں کا ۔ مرزا رفیع سودا

فرخ منظور

لائبریرین
مقدور نہیں اس کی تجلّی کے بیاں کا
جوں شمع سراپا ہو اگر صرف زباں کا

پردے کو تعیّن کے درِ دل سے اٹھا دے
کھلتا ہے ابھی پل میں طلسماتِ جہاں کا

ٹک دیکھ صنم خانہء عشق آن کے اے شیخ
جوں شمعِ حرم رنگ جھمکتا ہے بتاں کا

اس گلشنِ ہستی‌ میں عجب دید ہے، لیکن
جب چشم کھلے گُل کی تو موسم ہوں خزاں کا

دکھلائیے لے جا کے تجھے مصر کے بازار
لیکن نہیں‌ خواہاں کوئی واں جنسِ گراں کا

قطعہ
سودا جو کبھی گوش سے ہمّت کے سنے تُو
مضمون یہی ہے جرسِ دل کی فغاں کا

ہستی سے عدم تک نفسِ چند کی ہے راہ
دنیا سے گزرنا سفر ایسا ہے کہاں کا
 
مقدور نہیں اس کی تجلّی کے بیاں کا
جوں شمع سراپا ہو اگر صرف زباں کا
پردے کو تعیّن کے درِ دل سے اٹھا دے
کھلتا ہے ابھی پل میں طلسماتِ جہاں کا
ٹک دیکھ صنم خانہء عشق آن کے اے شیخ
جوں شمعِ حرم رنگ جھمکتا ہے بتاں کا
اس گلشنِ ہستی‌ میں عجب دید ہے، لیکن
جب چشم کھلے گُل کی تو موسم ہوں خزاں کا
دکھلائیے لے جا کے تجھے مصر کے بازار
لیکن نہیں‌ خواہاں کوئی واں جنسِ گراں کا
قطعہ
سودا جو کبھی گوش سے ہمّت کے سنے تُو
مضمون یہی ہے جرسِ دل کی فغاں کا
ہستی سے عدم تک نفسِ چند کی ہے راہ
دنیا سے گزرنا سفر ایسا ہے کہاں کا
خوب ہے۔ شکریہ شراکت کا۔
 

باباجی

محفلین
آہا واہ واہ
بہت خوبصورت کلام
بہت شکریہ شیئرنگ کا سر جی


ہستی سے عدم تک نفسِ چند کی ہے راہ
دنیا سے گزرنا سفر ایسا ہے کہاں کا
 
بھئی فرخ صاحب ہمیں اُکسا رہے ہیں کہ ؏
پردے کو تعیّن کے درِ دل سے اٹھا دے
کھلتا ہے ابھی پل میں طلسماتِ جہاں کا

فلسفی حضرات ایسا ہی کرتے ہیں۔
 

سلفی کال

محفلین
پردے کو تعیّن کے درِ دل سے اٹھا دے
کھلتا ہے ابھی پل میں طلسماتِ جہاں کا
واہ ،سبحان اللہ
کیا بات ہے۔بہت اعلی جناب !
شکریہ قبول کرتے ہوئے سودا کے ایک شعر مطلب اگر سمجھا دیجئے تو
بڑی نوازش ہوگی
ناوک نے تیرے صَید نہ چھوڑا زمانے میں
تڑپے ہے مُرغ قِبلہ نُما آشیانے میں
 
Top