تاسف معروف بھارتی مذہبی اسکالر مولانا وحیدالدین خان کا کورونا سے انتقال

معروف بھارتی مذہبی اسکالر مولانا وحیدالدین خان کا کورونا سے انتقال
ویب ڈیسک 22 اپريل 2021
Facebook Count
Twitter Share
0
Translate
60812db31e244.jpg

بھارتی حکومت نے مولانا وحیدالدین خان کو ملک کے دوسرے بڑے سول ایوارڈ 'پدما وِبھوشن' سے نوازنے کا اعلان کیا تھا — فوٹو: بشکریہ ہندوستان ٹائمز
بھارت کے معروف مذہبی اسکالر مولانا وحیدالدین خان کورونا وائرس کے باعث انتقال کر گئے۔

ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق 96 سالہ مذہبی اسکالر کا حال ہی میں کورونا کا ٹیسٹ مثبت آیا تھا۔

رپورٹ میں خاندانی ذرائع کے حوالے سے کہا تھا کہ کورونا کی تشخیص کے بعد مولانا وحیدالدین کو 12 اپریل کو دہلی کے اپولو ہسپتال داخل کیا گیا تھا۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے ان کی وفات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مولانا وحیدالدین خان کو 'عقائد اور روحانیت' سے متعلق ان کی بصیرت کے باعث یاد رکھا جائے گا۔


انہوں نے کہا کہ 'مذہبی اسکالر برادری کی خدمت اور سماجی خودمختاری کے لیے بھی پرعزم تھے، ان کی وفات پر ان کے اہلخانہ اور خیر خواہوں سے تعزیت کرتا ہوں'۔





واضح رہے کہ گزشتہ سال جنوری میں بھارتی حکومت نے مولانا وحیدالدین خان کو ملک کے دوسرے بڑے سول ایوارڈ 'پدما وِبھوشن' سے نوازنے کا اعلان کیا تھا۔

سال 2000 میں انہیں بھارت کے تیسرے بڑے سول ایوارڈ 'پدما بھوشن' ایوارڈ سے نوازا گیا تھا
 
انا للہ و انا الیہ راجعون ۔۔۔ اللہ پاک مرحوم کی مغفرت فرمائے، ان کے حسنات کو قبول فرمائے اور ان کے تفردات و سئیات کو درگزر فرمائے۔ مرحوم ایک کثیر الجہات شخصیت تھے ۔۔۔ جہاں ردِ الحاد پر ان کا کام گرانقدر ہے وہاں دیگر کئی معاملات میں انہوں نے سلفِ اہل سنت و الجماعت سے ہٹ متنازع موقف اختیار کیا جو امت میں اختلاف و افتراق کا سبب بنا۔ بہرحال، اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ مرحوم کی مغفرت کاملہ فرمائے۔ آمین۔
 

عرفان سعید

محفلین
انا للہ و انا الیہ راجعون
بہت افسوس ناک خبر ہے!
علم کی دنیا میں مولانا کی انتہائی گرانقدر خدمات ہیں۔ اللہ تعالی مولانا وحید الدین کی دینی خدمات کو ان کی مغفرت کا ذریعہ بنائے۔ آمین

1994 میں مرحوم کی شہرہ آفاق کتاب "علمِ جدید کا چیلنج" پڑھنے کا اتفاق ہوا، اور اس کے اثرات غیر معمولی تھے۔ اس کے بعد بارہا اس کتاب کی مراجعت کی اور ہمیشہ سوچ کے نئے در وا ہوئے۔
لیکن میرے نزدیک ان کی کتاب "تعبیر کی غلطی" تحقیق، تدقیق، تنقید اور اسلوب کا ایک شاہکار ہے۔ مولانا مرحوم جماعت اسلامی سے محترم جناب سید مودودی کے دور ہی میں منسلک تھے۔ لیکن ان کی سوچ نے سید مودودی کی دین کی سیاسی تعبیر کو قبول نہ کیا اور اس کے نتیجے میں انہوں نے سید مودودی کے فکر سے اختلاف کو انتہائی گہرائی اور گیرائی سے پیش کیا۔ میرے مطالعے کی حد تک سید مودودی کی فکر کی علمی بنیادوں پر اس سے اچھی تنقید نظر سے نہیں گزری۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
انا للہ و انا الیہ راجعون
بہت افسوس ناک خبر ہے!
علم کی دنیا میں مولانا کی انتہائی گرانقدر خدمات ہیں۔ اللہ تعالی مولانا وحید الدین کی دینی خدمات کو ان کی مغفرت کا ذریعہ بنائے۔ آمین

1994 میں مرحوم کی شہرہ آفاق کتاب "علمِ جدید کا چیلنج" پڑھنے کا اتفاق ہوا، اور اس کے اثرات غیر معمولی تھے۔ اس کے بعد بارہا اس کتاب کی مراجعت کی اور ہمیشہ سوچ کے نئے در وا ہوئے۔
لیکن میرے نزدیک ان کی کتاب "تعبیر کی غلطی" تحقیق، تدقیق، تنقید اور اسلوب کا ایک شاہکار ہے۔ مولانا مرحوم جماعت اسلامی سے محترم جناب سید مودودی کے دور ہی میں منسلک تھے۔ لیکن ان کی سوچ نے سید مودودی کی دین کی سیاسی تعبیر کو قبول نہ کیا اور اس کے نتیجے میں انہوں نے سید مودودی کے فکر سے اختلاف کو انتہائی گہرائی اور گیرائی سے پیش کیا۔ میرے مطالعے کی حد تک سید مودودی کی فکر کی علمی بنیادوں پر اس سے اچھی تنقید نظر سے نہیں گزری۔
کیا انکا کام انٹرنیٹ پر بھی کہیں موجود ہے ؟
 

سید رافع

محفلین
انا للہ و انا الیہ راجعون
بہت افسوس ناک خبر ہے!
علم کی دنیا میں مولانا کی انتہائی گرانقدر خدمات ہیں۔ اللہ تعالی مولانا وحید الدین کی دینی خدمات کو ان کی مغفرت کا ذریعہ بنائے۔ آمین

1994 میں مرحوم کی شہرہ آفاق کتاب "علمِ جدید کا چیلنج" پڑھنے کا اتفاق ہوا، اور اس کے اثرات غیر معمولی تھے۔ اس کے بعد بارہا اس کتاب کی مراجعت کی اور ہمیشہ سوچ کے نئے در وا ہوئے۔
لیکن میرے نزدیک ان کی کتاب "تعبیر کی غلطی" تحقیق، تدقیق، تنقید اور اسلوب کا ایک شاہکار ہے۔ مولانا مرحوم جماعت اسلامی سے محترم جناب سید مودودی کے دور ہی میں منسلک تھے۔ لیکن ان کی سوچ نے سید مودودی کی دین کی سیاسی تعبیر کو قبول نہ کیا اور اس کے نتیجے میں انہوں نے سید مودودی کے فکر سے اختلاف کو انتہائی گہرائی اور گیرائی سے پیش کیا۔ میرے مطالعے کی حد تک سید مودودی کی فکر کی علمی بنیادوں پر اس سے اچھی تنقید نظر سے نہیں گزری۔

ذیل میں موصوف کے بارے میں ’’فتاوی دار العلوم دیوبند‘‘ کا اقباس نقل کیا جاتا ہے:

’’وحید الدین خان کے بہت سے عقائد ونظریات جمہور اہلِ سنت والجماعت کے خلاف ہیں، مثلاً: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس پر اگر کوئی شتم کرے تو مولانا کے نزدیک وہ قتل نہیں کیا جائے گا، جب کہ اہلِ سنت والجماعت کے نزدیک ایسا شخص واجب القتل ہے، تقلید سے راہِ فرار اختیار کرنا، فقہائے کرام پر بے جا تنقید وتعریض کرنا، قرآن کریم کی من پسند تشریحات کرنا اور جہاد والی آیات واحادیث کی غلط تاویلیں کرنا ان کا مشغلہ ہے، پوری امتِ مسلمہ کا یہ حتمی عقیدہ ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس ہراعتبار سے بلا کسی استثنا کے انسانیت کے لیے آخری نمونہ ہے، جس سے صرف نظر قطعاً روا نہیں ہے، نیز سیدنا حضرت عیسی علی نبینا علیہ الصلاۃ والسلام کے آسمان پر زندہ اٹھائے جانے اور قیامت کے قریب دنیا میں دوبارہ تشریف لانے کے متعلق قرآن کریم اور احادیثِ شریفہ میں واضح نصوص موجود ہیں، اسی طرح دجال اور یاجوج ماجوج کے متعلق بھی ایسی بے غبار تفصیلات موجود ہیں جن میں شبہ کرنے یا جن کو محض تمثیل قرار دینے کی گنجائش نہیں ہے۔ وحید الدین خان کا سیدنا حضرت عیسی علیہ السلام کے رفع ونزول کا انکار، علاماتِ قیامت کے بارے میں بے بنیاد شکوک وشبہات کا اظہار کرنا بلاشبہ زیغ وضلال اور کھلی ہوئی گم راہی ہے، اس لیے وحید الدین خان کی کتابوں کو پڑھنے اور ان کے لٹریچروں کو پھیلانے سے احتراز ضروری ہے۔ واللہ اعلم

ایسے افراد کی تحریرات میں بڑی سلاست و تحریری مہارت سے عام آدمی کی گم راہی اور نفس پرستی کی راہ ہم وار کی جاتی ہے، لہذا ایسے افراد کی تحریرات سے اجتناب کرنا چاہیے۔ فقط واللہ اعلم
 

عرفان سعید

محفلین
ذیل میں موصوف کے بارے میں ’’فتاوی دار العلوم دیوبند‘‘ کا اقباس نقل کیا جاتا ہے:

’’وحید الدین خان کے بہت سے عقائد ونظریات جمہور اہلِ سنت والجماعت کے خلاف ہیں، مثلاً: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس پر اگر کوئی شتم کرے تو مولانا کے نزدیک وہ قتل نہیں کیا جائے گا، جب کہ اہلِ سنت والجماعت کے نزدیک ایسا شخص واجب القتل ہے، تقلید سے راہِ فرار اختیار کرنا، فقہائے کرام پر بے جا تنقید وتعریض کرنا، قرآن کریم کی من پسند تشریحات کرنا اور جہاد والی آیات واحادیث کی غلط تاویلیں کرنا ان کا مشغلہ ہے، پوری امتِ مسلمہ کا یہ حتمی عقیدہ ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس ہراعتبار سے بلا کسی استثنا کے انسانیت کے لیے آخری نمونہ ہے، جس سے صرف نظر قطعاً روا نہیں ہے، نیز سیدنا حضرت عیسی علی نبینا علیہ الصلاۃ والسلام کے آسمان پر زندہ اٹھائے جانے اور قیامت کے قریب دنیا میں دوبارہ تشریف لانے کے متعلق قرآن کریم اور احادیثِ شریفہ میں واضح نصوص موجود ہیں، اسی طرح دجال اور یاجوج ماجوج کے متعلق بھی ایسی بے غبار تفصیلات موجود ہیں جن میں شبہ کرنے یا جن کو محض تمثیل قرار دینے کی گنجائش نہیں ہے۔ وحید الدین خان کا سیدنا حضرت عیسی علیہ السلام کے رفع ونزول کا انکار، علاماتِ قیامت کے بارے میں بے بنیاد شکوک وشبہات کا اظہار کرنا بلاشبہ زیغ وضلال اور کھلی ہوئی گم راہی ہے، اس لیے وحید الدین خان کی کتابوں کو پڑھنے اور ان کے لٹریچروں کو پھیلانے سے احتراز ضروری ہے۔ واللہ اعلم

ایسے افراد کی تحریرات میں بڑی سلاست و تحریری مہارت سے عام آدمی کی گم راہی اور نفس پرستی کی راہ ہم وار کی جاتی ہے، لہذا ایسے افراد کی تحریرات سے اجتناب کرنا چاہیے۔ فقط واللہ اعلم
چوں کہ یہ تاسف کی لڑی ہے تو میں یہاں بحث برائے بحث سے اجتناب کرنا چاہوں گا۔
 

سید رافع

محفلین
چوں کہ یہ تاسف کی لڑی ہے تو میں یہاں بحث برائے بحث سے اجتناب کرنا چاہوں گا۔

صحیح فرمایا۔ آپ نے انکی کتابوں کو شاہکار فرمایا تھا اسی کے رد کا ایک مراسلہ ہونا بھی ضروری تھا تاکہ امت کا کوئی فرد مرعوب محض ہونے کے بجائے اعتدال کی راہ لے۔
 

الشفاء

لائبریرین
انّا للہ وانّا الیہ راجعون۔۔۔
اللہ عزوجل ا ن کی اور تمام مسلمین و مسلمات کی مغفرت فرمائے۔۔۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
صحیح فرمایا۔ آپ نے انکی کتابوں کو شاہکار فرمایا تھا اسی کے رد کا ایک مراسلہ ہونا بھی ضروری تھا تاکہ امت کا کوئی فرد مرعوب محض ہونے کے بجائے اعتدال کی راہ لے۔
رعب کا فیصلہ کسی کی رائے سے نہیں کیا جاتا ۔ یہ تخلیق کے تجزیئے اور تجربے پر منحصر ہوتا ہے ۔ نیز اعتدال کا فیصلہ بھی اسی طرح ہوتا ہے ۔
 

زیک

مسافر
صحیح فرمایا۔ آپ نے انکی کتابوں کو شاہکار فرمایا تھا اسی کے رد کا ایک مراسلہ ہونا بھی ضروری تھا تاکہ امت کا کوئی فرد مرعوب محض ہونے کے بجائے اعتدال کی راہ لے۔
آپ شاید ان لوگوں میں سے ہیں جو جنازے پر یہ سنتے ہیں کہ مرحوم اچھے آدمی تھے تو فوراً متوفی کی برائیاں گنوانا شروع کر دیتے ہیں۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
رعب کا فیصلہ کسی کی رائے سے نہیں کیا جاتا ۔ یہ تخلیق کے تجزیئے اور تجربے پر منحصر ہوتا ہے ۔ نیز اعتدال کا فیصلہ بھی اسی طرح ہوتا ہے ۔
درست فرمایا، لیکن جب تک تمام پہلو کھل کر سامنے نہ آئیں تو اس صورت میں اعتدال کی کیا صورت ہو سکتی ہے؟
 
Top