معروف اسماء کی وجہ تسمیہ بیان کیجے

کہا جاتا ہے کہ شروع میں یہ موڑ اس نوعیت کا تھا کہ اس میں سامنے سے آنے والی ٹریفک نظر نہ آنے کے سبب حادثات کافی ہوتے تھے اور یہ موڑ اندھا موڑ کہلاتا تھا ۔ وقت کے ساتھ ساتھ اندھا انڈے میں بدل گیا اور اب یہ روڈ انڈا موڑ روڈ اور علاقہ انڈا موڑ کہلانے لگا۔
یہ بات درست نہیں ۔۔۔ اصل میں یہاں بیضوی شکل کا ٰ’’راؤنڈ اباؤٹ‘‘ ہوا کرتا تھا، جو کہ کراچی کے دیگر راؤنڈ اباؤٹس سے مختلف تھا اس لیے اس کا نام انڈا موڑ پڑ گیا ۔۔۔ :)
باقی ایک افواہ یہ بھی ہے کہ یہاں سے ناگن کے مخالف سمت میں مڑیں تو تھوڑی دور بعد ایک پولٹری فارم ہوا کرتا تھا ۔۔۔ اس لیے یہ موڑ انڈے کے نام سے موسوم ہو گیا :)
 

علی وقار

محفلین
کراچی والے انڈا موڑ کو ضرور جانتے ہوں گے ۔
کراچی میں اگر ناگن چورنگی سے نارتھ ناظم آباد جایا جائے تو انڈا موڑ کا علاقہ آتا ہے ۔
کہا جاتا ہے کہ شروع میں یہ موڑ اس نوعیت کا تھا کہ اس میں سامنے سے آنے والی ٹریفک نظر نہ آنے کے سبب حادثات کافی ہوتے تھے اور یہ موڑ اندھا موڑ کہلاتا تھا ۔ وقت کے ساتھ ساتھ اندھا انڈے میں بدل گیا اور اب یہ روڈ انڈا موڑ روڈ اور علاقہ انڈا موڑ کہلانے لگا۔
یہ معمہ شاید حل نہ ہوا کہ یہ ناگن اس انڈے کو کھا کیوں نہیں جاتی ۔ :)

یہ بات درست نہیں ۔۔۔ اصل میں یہاں بیضوی شکل کا ٰ’’راؤنڈ اباؤٹ‘‘ ہوا کرتا تھا، جو کہ کراچی کے دیگر راؤنڈ اباؤٹس سے مختلف تھا اس لیے اس کا نام انڈا موڑ پڑ گیا ۔۔۔ :)
باقی ایک افواہ یہ بھی ہے کہ یہاں سے ناگن کے مخالف سمت میں مڑیں تو تھوڑی دور بعد ایک پولٹری فارم ہوا کرتا تھا ۔۔۔ اس لیے یہ موڑ انڈے کے نام سے موسوم ہو گیا :)

ایک اور ورژن

ڈسکو موڑ سے کچھ ہی فاصلے پر ایک چوراہے کا دلچسپ نام ’’انڈا موڑ‘‘ بھی ہے جو ناگن چورنگی سے نصرت بھٹو کالونی کی سمت جانے والی سڑک اور شارع نورجہاں کے سنگم پر واقع ہے۔یہاں کے پرانے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ 1980 کے زمانے میں اس جگہ بڑے بڑے مرغی خانے ہوا کرتے تھے جہاں سے شہر کے کئی علاقوں میں انڈے سپلائی کیے جاتے تھے۔ نارتھ کراچی میں انڈوں کی سپلائی کا بڑا مرکز ہونے کی وجہ سے اس چوراہے کا نام ’’انڈا موڑ‘‘ پڑ گیا۔ شہر کے حالات خراب ہونے پر یہاں سے تقریباً تمام ہی مرغی خانے ختم ہوگئے اور آج صرف یہ نام کا ’’انڈا موڑ‘‘ رہ گیا ہے۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
پاکستان کا نام چودھری رحمت علی نے گھڑا تھا ۔ اور اس کے بارے میں مشہور ہے کہ مختلف علاقوں یا صوبوں کے ناموں سے پہلا حرف لے کر ایک acronym بنایاتھا ۔ رحمت علی صاحب نے واقعی ایسا کیا تھا یا بعد میں یار لوگوں نے کہانی گھڑلی ۔ مجھے علم نہیں ۔ کوئی صاحبِ علم اس پر موم بتی گھمائے تو اچھا رہے گا۔
چوہدری صاب سیانے آدمی تھے۔ ان کو پتا تھا بنگال نے ہمارے ساتھ نہیں رہنا ۔۔۔ اس لیے انہوں نے ب کہیں گھسیڑنے کی کوشش نہ کی۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
فلک شیر
یہ نام مغلوں، ایرانیوں ، ، پنجابیوں اور دیگر نسبتاً کم معروف اقوام میں مذکر انسانوں کے لیے معروف ہے۔ عجیب بات ہے ویسے، انسان کا نام جانور پہ رکھ دیتے ہیں ، اس کے برعکس کسی انسان کو یہ شرف ابھی تک حاصل نہیں ہوا کہ جانور کا نام پائے ۔ ویسے سنتے ہیں کہ عرب مختلف جانوروں کی انسانی کنیتیں رکھ چھوڑتے ہیں؛ جیسے کیکڑے کو ابو بحر ،شیر کو ابو حارث اور بھیڑیے کو ابوجعادہ کہتے ہیں ، ہاں گھوڑے کو بھی کچھ کہتے ہیں ، بھولتا ہوں ، خیر کچھ نہ کچھ تو کہتے ہی ہیں ۔ اس دنیا میں کچھ نہ کچھ کہے جانے سے کس کو مفر ہے ، وہ علی البر ہے یا فی البحر ہے ، انگلیاں اس کی گھی میں تر بہ تر ہیں یا وہ بے چارہ خود ابتر و بدتر ہے، اس کے خصائل مثلِ صر صر بر وزن و فعلِ ہوائے خطہ بربر ہیں یا پیغام برِ لطافت یعنی روزگارِکاشمیر او کاشغر ہیں۔۔۔ المختصر یہ کہ کچھ کہے جانے سے کسی کو نجات نہیں ، یہ بس بات نہیں ، آپ خود ہی کو دیکھ لیجیے ، آپ کے اپنے پرائے چھوٹے بڑے ننھیالی ددھیالی سسرالی ابالی و لاابالی ، ہمہ قسم کے اعزہ و اقارب، وہ جن کے بارے میں عربی میں غلط یا صحیح ، کسی نے کچھ کہا ہے ، کیا ہے ، وہ بھلا سا محاورہ، ہاں ۔۔۔ الاقارب کالعقارب۔۔۔ ترجمہ چھوڑیے ، پھر آپ میرے بارے میں کچھ نہ کچھ کہنا چاہیں گے ۔۔۔۔تو یہ ہمہ قسم عقارب، معذرت خواہ ہوں۔۔اقارب۔۔ آپ کے بارے میں کیاکیا کچھ نہ کچھ نہیں کہتے ۔۔۔حالانکہ آپ جیسا شریف النفس، وسیع الظرف ، عالی حوصلہ ،فراخ جبیں ، حلیم الطبع ، قتیلِ شرافت، اصیلِ دودمان خاندانوں کےچھان ماریے ، نہیں ملتا ، اور آپ نے ان کے بارے میں کبھی کچھ نہ کچھ نہیں کہا، آپ کو تو پتا ہی ہے اس سب کا۔۔۔ خیر انہیں بھی پتا ہے ۔۔۔

ویسے یہ بات فلک شیر سے چلی تھی ، احمد بھائی نے فرمایا کہ وجہ تسمیہ بیان کی جائے ، یقین کیجیے ، میں خود حیران ہوں کہ اس کی وجہ تسمیہ کیا ہو سکتی ہے ، آسمان سے انسان کا رابطہ رشتہ تو پرانا ہے ، ستارہ پرستوں کے طفیل ستارہ شناس اور ستارہ فروش تو ہم جانتے ہیں ۔ شمس کے بندوں اور قمر کے غلاموں وغیرہ کو ہم جانتے ہیں ، پہچانتے ہیں ، سنتے ہیں ، ان کے بارے میں پڑھتے ہیں ۔۔ گو ان سب کو ہم مانتے نہیں ، ہمارے شاعر نے کہا تھا :

ستارہ کیا مری تقدیر کی خبر دے گا
وہ خود فراخیِ افلاک میں ہے خوار و زبوں

آسمان سے ویسے ہماری روایت کے شعراء کو گلے رہے ہیں ، اسے فطرت کی طرح کارگاہِ ہستی کے منتظم کے مترادف کے طور استعمال کرتے چلے آئے ہیں ۔ شاید اسلامی روایت سے انہیں اس لونڈی کی انگلی سے اشارہ ملا تھا، جسے سید ولد آدمﷺ نے آزاد فرمانے کے لیے امتحان کو پوچھا تھا:

اللہ کہاں ہے ؟

جواب میں اس نے عرض کیا:

فی السماء (آسمان میں)

اس لونڈی کے مالک نے اسے تھپڑ مارا تھا اور اب پیغمبرﷺ کی تشجیع پہ اسے آزاد کر کے دل کی تسکین اور اللہ کی رحمت پانا چاہتا تھا۔

خیر ہمارے شعراء تو کہتے چلے آئے ہیں :

مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں

یعنی فلک پھرتا ہے ، انتظام کرتا ہے ، قدر و قضا کا سلسلہ اسی کے دم سے ہے

یا

قبول تھا کہ فلک مجھ پہ سو جفا کرتا
پر ایک یہ کہ نہ تجھ سے مجھے جدا کرتا

فلک یہاں ظالم سماج کے مابعد الطبیعاتی مترادف کے طور پہ آیا ہے ، جو محکم و متحکم بھی ہے


اور بہتر نشتروں والے میر صاحب بھی لکھنوء والوں کے سامنے اپنی اور اپنی دلی کی بربادی کا الزام اسی پہ دھر چکے

جس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے


شاید پہلی دفعہ یہ نام رکھنے والوں نے شجاعت، استقامت، تیقن، تحکم، تسلط اور بے نیازی کے استعارے کے ساتھ الوہی تقدیس لف کرنے کا ارادہ کیا ہو گا۔ تسلیم کہ نام کا شخصیت پہ اثر تو ہوتا ہے ۔مگر خدا لگتی کہنی چاہیے ، ادھر تو ایسا کچھ ہمیں نظر نہیں آیا، آئینہ دیکھا، گریباں میں جھانکا، کتاب کی ورق گردانی کی ، بچپن کے قصے ماں سے سنے، نوجوانی کی حماقتوں سے تو واقف ہی ہیں، دیا جلایا، رات کے اندھیرے میں ڈبکی لگائی، دوستوں سے قسمیں دے دلا کر سچ اگلوایا، معاندین کو طیش دلا کر حقیقت کانوں میں انڈیلی ۔۔۔ قسم لے لیجیے جو نام کے دوسرے حصے والی کوئی بات پتہ چلی ہو۔ ہاں فلک تو فلک ہے بھائی، ہمارے شاعر اسے کچھ نہ کچھ کہتے رہے ہیں ، تو کیا ہوا۔۔۔ فلک تو فلک ہے ، استاذ مصحفی کے قول پہ کلام ختم کرتے ہیں :

فلک کی خبر کب ہے نا شاعروں کو
یوں ہی گھر میں بیٹھے ہوا باندھتے ہیں


پس نوشت: احمد بھائی، اس کی اصل جگہ بے پر کی والا دھاگہ تھا، آپ کا دھاگہ خراب کرنے پہ معذرت :)
اور یہ بھی کہ اس مراسلے میں مخاطب یعنی ۔۔آپ۔۔ سے مراد احمد بھائی نہیں ہیں :)
اور یہ بھی کہ جسے اس نام کے معروف ہونے کے دعوا پہ ہماری بصیرت وغیرہ پہ شبہ پیدا ہوا ہے، یقین کیجیے اسے یہ یقینی شائبہ بالکل درست پیدا ہوا ہے :۔۔)
کیا بات ہے حضور۔۔۔۔ عرصہ بعد آپ کا قلم گدگدایا ہے۔۔۔ اور کیا خوب گدگدایا ہے۔۔۔ اعلی
 

محمداحمد

لائبریرین
ایک روایت یہ ہے کہ اس شہر کو، ایرانی سیاحوں نے قدیم دورمیں، گدھا گاڑی کی نسبت سے ’خراچی‘ کہا تھا۔

:) :) :)

علی بھائی پوری تحریر پر ربط لگانے کے بجائے آخر میں حوالہ دے دیا کریں تاکہ پڑھنے میں آسانی رہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
فلک شیر
یہ نام مغلوں، ایرانیوں ، ، پنجابیوں اور دیگر نسبتاً کم معروف اقوام میں مذکر انسانوں کے لیے معروف ہے۔ عجیب بات ہے ویسے، انسان کا نام جانور پہ رکھ دیتے ہیں ، اس کے برعکس کسی انسان کو یہ شرف ابھی تک حاصل نہیں ہوا کہ جانور کا نام پائے ۔ ویسے سنتے ہیں کہ عرب مختلف جانوروں کی انسانی کنیتیں رکھ چھوڑتے ہیں؛ جیسے کیکڑے کو ابو بحر ،شیر کو ابو حارث اور بھیڑیے کو ابوجعادہ کہتے ہیں ، ہاں گھوڑے کو بھی کچھ کہتے ہیں ، بھولتا ہوں ، خیر کچھ نہ کچھ تو کہتے ہی ہیں ۔ اس دنیا میں کچھ نہ کچھ کہے جانے سے کس کو مفر ہے ، وہ علی البر ہے یا فی البحر ہے ، انگلیاں اس کی گھی میں تر بہ تر ہیں یا وہ بے چارہ خود ابتر و بدتر ہے، اس کے خصائل مثلِ صر صر بر وزن و فعلِ ہوائے خطہ بربر ہیں یا پیغام برِ لطافت یعنی روزگارِکاشمیر او کاشغر ہیں۔۔۔ المختصر یہ کہ کچھ کہے جانے سے کسی کو نجات نہیں ، یہ بس بات نہیں ، آپ خود ہی کو دیکھ لیجیے ، آپ کے اپنے پرائے چھوٹے بڑے ننھیالی ددھیالی سسرالی ابالی و لاابالی ، ہمہ قسم کے اعزہ و اقارب، وہ جن کے بارے میں عربی میں غلط یا صحیح ، کسی نے کچھ کہا ہے ، کیا ہے ، وہ بھلا سا محاورہ، ہاں ۔۔۔ الاقارب کالعقارب۔۔۔ ترجمہ چھوڑیے ، پھر آپ میرے بارے میں کچھ نہ کچھ کہنا چاہیں گے ۔۔۔۔تو یہ ہمہ قسم عقارب، معذرت خواہ ہوں۔۔اقارب۔۔ آپ کے بارے میں کیاکیا کچھ نہ کچھ نہیں کہتے ۔۔۔حالانکہ آپ جیسا شریف النفس، وسیع الظرف ، عالی حوصلہ ،فراخ جبیں ، حلیم الطبع ، قتیلِ شرافت، اصیلِ دودمان خاندانوں کےچھان ماریے ، نہیں ملتا ، اور آپ نے ان کے بارے میں کبھی کچھ نہ کچھ نہیں کہا، آپ کو تو پتا ہی ہے اس سب کا۔۔۔ خیر انہیں بھی پتا ہے ۔۔۔

ویسے یہ بات فلک شیر سے چلی تھی ، احمد بھائی نے فرمایا کہ وجہ تسمیہ بیان کی جائے ، یقین کیجیے ، میں خود حیران ہوں کہ اس کی وجہ تسمیہ کیا ہو سکتی ہے ، آسمان سے انسان کا رابطہ رشتہ تو پرانا ہے ، ستارہ پرستوں کے طفیل ستارہ شناس اور ستارہ فروش تو ہم جانتے ہیں ۔ شمس کے بندوں اور قمر کے غلاموں وغیرہ کو ہم جانتے ہیں ، پہچانتے ہیں ، سنتے ہیں ، ان کے بارے میں پڑھتے ہیں ۔۔ گو ان سب کو ہم مانتے نہیں ، ہمارے شاعر نے کہا تھا :

ستارہ کیا مری تقدیر کی خبر دے گا
وہ خود فراخیِ افلاک میں ہے خوار و زبوں

آسمان سے ویسے ہماری روایت کے شعراء کو گلے رہے ہیں ، اسے فطرت کی طرح کارگاہِ ہستی کے منتظم کے مترادف کے طور استعمال کرتے چلے آئے ہیں ۔ شاید اسلامی روایت سے انہیں اس لونڈی کی انگلی سے اشارہ ملا تھا، جسے سید ولد آدمﷺ نے آزاد فرمانے کے لیے امتحان کو پوچھا تھا:

اللہ کہاں ہے ؟

جواب میں اس نے عرض کیا:

فی السماء (آسمان میں)

اس لونڈی کے مالک نے اسے تھپڑ مارا تھا اور اب پیغمبرﷺ کی تشجیع پہ اسے آزاد کر کے دل کی تسکین اور اللہ کی رحمت پانا چاہتا تھا۔

خیر ہمارے شعراء تو کہتے چلے آئے ہیں :

مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں

یعنی فلک پھرتا ہے ، انتظام کرتا ہے ، قدر و قضا کا سلسلہ اسی کے دم سے ہے

یا

قبول تھا کہ فلک مجھ پہ سو جفا کرتا
پر ایک یہ کہ نہ تجھ سے مجھے جدا کرتا

فلک یہاں ظالم سماج کے مابعد الطبیعاتی مترادف کے طور پہ آیا ہے ، جو محکم و متحکم بھی ہے


اور بہتر نشتروں والے میر صاحب بھی لکھنوء والوں کے سامنے اپنی اور اپنی دلی کی بربادی کا الزام اسی پہ دھر چکے

جس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے


شاید پہلی دفعہ یہ نام رکھنے والوں نے شجاعت، استقامت، تیقن، تحکم، تسلط اور بے نیازی کے استعارے کے ساتھ الوہی تقدیس لف کرنے کا ارادہ کیا ہو گا۔ تسلیم کہ نام کا شخصیت پہ اثر تو ہوتا ہے ۔مگر خدا لگتی کہنی چاہیے ، ادھر تو ایسا کچھ ہمیں نظر نہیں آیا، آئینہ دیکھا، گریباں میں جھانکا، کتاب کی ورق گردانی کی ، بچپن کے قصے ماں سے سنے، نوجوانی کی حماقتوں سے تو واقف ہی ہیں، دیا جلایا، رات کے اندھیرے میں ڈبکی لگائی، دوستوں سے قسمیں دے دلا کر سچ اگلوایا، معاندین کو طیش دلا کر حقیقت کانوں میں انڈیلی ۔۔۔ قسم لے لیجیے جو نام کے دوسرے حصے والی کوئی بات پتہ چلی ہو۔ ہاں فلک تو فلک ہے بھائی، ہمارے شاعر اسے کچھ نہ کچھ کہتے رہے ہیں ، تو کیا ہوا۔۔۔ فلک تو فلک ہے ، استاذ مصحفی کے قول پہ کلام ختم کرتے ہیں :

فلک کی خبر کب ہے نا شاعروں کو
یوں ہی گھر میں بیٹھے ہوا باندھتے ہیں


پس نوشت: احمد بھائی، اس کی اصل جگہ بے پر کی والا دھاگہ تھا، آپ کا دھاگہ خراب کرنے پہ معذرت :)
اور یہ بھی کہ اس مراسلے میں مخاطب یعنی ۔۔آپ۔۔ سے مراد احمد بھائی نہیں ہیں :)
اور یہ بھی کہ جسے اس نام کے معروف ہونے کے دعوا پہ ہماری بصیرت وغیرہ پہ شبہ پیدا ہوا ہے، یقین کیجیے اسے یہ یقینی شائبہ بالکل درست پیدا ہوا ہے :۔۔)

فلک بھائی باتوں ہی باتوں میں اس قدر خوبصورت تحریر لکھ ماری آپ نے۔ :)

اس کی جگہ بے پر کی اُڑانے والے دھاگے میں نہیں ہے بلکہ ایک الگ لڑی میں بنتی ہے۔ :) :)

ماشاء اللہ! بہت خوب! :) :) :)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اس ساری گفتگو نے فیض کی نظم یاد دلادی ۔ ایک زمانے میں مجھے یاد ہوا کرتی تھی ۔ اب کمپیوٹر کو یاد کروا رکھی ہے۔

اک ذرا سوچنے دو
اس خیاباں میں
جو اس لحظہ بیاباں بھی نہیں
کون سی شاخ میں پھول آئے تھے سب سے پہلے
کون بے رنگ ہوئی رنج و تعب سے پہلے
اور اب سے پہلے
کس گھڑی کون سے موسم میں یہاں
خون کا قحط پڑا
گل کی شہ رگ پہ کڑا
وقت پڑا
سوچنے دو
سوچنے دو
اک ذرا سوچنے دو
یہ بھرا شہر جو اب وادئ ویراں بھی نہیں
اس میں کس وقت کہاں
آگ لگی تھی پہلے
اس کے صف بستہ دریچوں میں سے کس میں اول
زہ ہوئی سرخ شعاعوں کی کماں
کس جگہ جوت جگی تھی پہلے
سوچنے دو
ہم سے اس دیس کا تم نام و نشاں پوچھتے ہو
جس کی تاریخ نہ جغرافیہ اب یاد آئے
اور یاد آئے تو محبوب گزشتہ یاد آئے
روبرو آنے سے جی گھبرائے
ہاں مگر جیسے کوئی
ایسے محبوب یا محبوبہ کا دل رکھنے کو
آ نکلتا ہے کبھی رات بتانے کے لیے
ہم اب اس عمر کو آ پہنچے ہیں جب ہم بھی یونہی
دل سے مل آتے ہیں بس رسم نبھانے کے لیے
دل کی کیا پوچھتے ہو
سوچنے دو

آہ ، کراچی! سمندروں کا شہر کراچی!!
 

علی وقار

محفلین
ایک طبقے کا خیال ہے کہ چودھری صاحب قادیانی تھے ۔
میں صرف تحقیقی حوالے سے اِن پٹ دینا چاہتا ہوں کہ یہ بحث زیادہ تر شیر باز مزاری کی ایک کتاب کو بنیاد بنا کر کی گئی کہ اس میں ایسا درج ہے۔ مجھے شیر باز مزاری کی کتاب میں ایسا کچھ نہ ملا۔ اس کتاب میں چوہدری صاحب کا تذکرہ موجود ضرور ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ وہ پان اسلام ازم کے پرچارک تھے۔ اس کے علاوہ کچھ ایسا نہیں مل پایا جس سے واضح ہو کہ وہ قادیانی مسلک سے تعلق رکھتے تھے۔ ممکن ہے کہ وہ ان میں اٹھتے بیٹھتے ہوں تاہم ان دنوں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار نہیں دیا گیا تھا سو یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔
 

محمداحمد

لائبریرین
یہ تو سب کو پتہ ہی ہے کہ پنجاب دراصل پنج آب ہے یعنی پانچ دریاؤں کی سرزمین ۔

دو آبہ ایسے علاقے کو کہتے ہیں جو دو دریاؤں درمیان واقع ہو۔

دو دریاؤں کے درمیانی علاقے کو دو آبہ کہتے ہیں۔ جیسے دریائے راوی اور دریائے چناب کے درمیانی علاقے کو دوآبہ رچنا ،دریائے چناب اور دریائے جہلم کے درمیانی علاقے کو دوآبہ چج یا چنبہ، دریائے سندھ اور جہلم کے درمیانی علاقے کو دوآبہ سندھ ساگر اور دریائے بیاس اور دریائے راوی کے درمیانی دو آبے کو، جو آزادی کے بعد تقسیم ہو گیا، دو آبہ باری کہتے ہیں۔

وکی پیڈیا۔
 

محمداحمد

لائبریرین
دریائے سندھ کو انڈس ریور کہا جاتا ہے۔

انڈس دراصل ہندو یا سندھو کی انگریزی شکل ہے۔ یعنی کسی دور میں دریائے سندھ کو دریائے ہندو کش پہاڑی سلسلے کی نسبت سے ہندو کہا جاتا تھا۔
 
Top