@fahim بھیا کی منگنی کی اطلاع آج مقدس باجی نے دی، تو مجھے احمد فراز کی ایک نظم یاد آ گئی، تو میں نے سوچا کہ شریکِ محفل کر دیتا ہوں، شاید کسی کو پسند آ جائے۔ معذرت(ایک دوست کی شادی پر) میں نے چاہا تری شادی پہ کوئی نظم کہوںجس کے الفاظ میں پا زیب کی جھنکاریں ہوںجس کے ہر بند میں رقصاں ہوں بہاریں نغمےجس کے شعروں میں خیابانوں کی مہکاریں ہوں میں نے چاہا تری شادی پہ کوئی گیت کہوںجس کی تشبیہوں میں ہنستے ہوئے پیمانے ہوںجس کے انداز پہ طاری ہو شرابوں کا نغمہجس کے مفہوم میں افسانے ہی افسانے ہوں میں نے چاہا تری شادی پہ کوئی سہرا لکھوںجس کی لےَ سے کئی گیت ہم آہنگ رہیںجس سے جاگ اٹھیں مغنی کی سریلی تانیںجس میں افکار کی ترتیب کے سب رنگ رہیں لیکن اس وقت مرے ذہن کے ہر پردے میںچند سلگی ہوئی آہوں کے سوا کچھ بھی نہیںمیری سانسوں میں ہیں مغموم دلوں کی چیخیںجن کی قسمت میں کراہوں کے سوا کچھ بھی نہیں جس کی شادی بھی غم و رنج کا مجموعہ ہےجن کو حاصل نہیں ہوتا کسی لمحہ بھی فراغجن کو ماں باپ سے ملتے ہیں مصائب کے جہیزجن کی باراتوں میں جل اٹھتے ہیں اشکوں کے چراغ ایسے حالات میں کیا چیز تجھے نذر کروںیہ حقائق مجھے مجبور کیے دیتے ہیںمیرے شاہد1؎ مرے اخلاص سے مایوس نہ ہوچند صدمے مجھے معذور کیے دیتے ہیں 1؎ دولہا دوست(احمد فراز)(تنہا تنہا)