محمد وارث

لائبریرین
فہرست


- خود نوشت سوانح حیات مولانا حالی

- پہلا دیباچہ

- دوسرا دیباچہ

- رباعی

- مُسدّس

- ضمیمہ

- عرضِ حال


۔
 

محمد وارث

لائبریرین
شمس العلما مولانا الطاف حسین حالی کی سوانح حیات
جو آپ نے نواب عماد الملک بہادر
مولوی سید حسین صاحب بلگرامی
کی فرمائش سے سپردِ قلم کی




میری ولادت تقریباً 1253ھ مطابق 1837ء میں بمقام قصبہ پانی پت جو شاہجہان آباد سے جانبِ شمال 53 میل کے فاصلہ پر ایک قدیم بستی ہے، واقع ہوئی۔ اس قصبہ میں کچھ کم سات سو برس سے قوم انصار کی ایک شاخ جس سے راقم کو تعلق ہے، آباد چلی آتی ہے۔ ساتویں صدی ہجری اور تیرہویں صدی عیسوی میں جب کہ غیاث الدین بلبن تختِ دہلی پر متمکن تھا، شیخ الاسلام خواجہ عبداللہ انصاری معروف بہ پیرِ ہرات کی اولاد میں سے ایک بزرگ خواجہ ملک علی نام جو علومِ متعارفہ میں اپنے عام معاصرین سے ممتاز تھے، ہرات سے ہندوستان میں وارد ہوئے۔ جن کا سلسلۂ نسب 62 واسطہ سے حضرت ابو ایوب انصاری (رح) تک اور 18 واسطہ سے شیخ السلام تک اور 10 واسطہ سے ملک محمود شاہ انجو ملقب بہ آق خواجہ تک جو غزنوی دور میں فارس و کرمان و عراق عجم کا فرمانروا تھا پہنچتا ہے۔ چونکہ غیاث الدین اس بات میں نہایت مشہور تھا کہ وہ قدیم اشراف خاندانوں کی بہت عزت کرتا ہے اور اسکا بیٹا سلطان محمد علما و شعرا و دیگر اہلِ کمال کا حد سے زیادہ قدر دان تھا، اسلئے اکثر اہلِ علم اور عالی خاندان لوگ ایران و ترکستان سے ہندوستان کا قصد کرتے تھے۔ اسی شہرت نے خواجہ ملک علی کو سفرِ ہندوستان پر آمادہ کیا تھا۔ چنانچہ غیاث الدین نے چند عمدہ اور سیر حاصل دیہات پرگنہ پانی پت میں اور متعدد بہ اراضی سوادِ قصبہ پانی پت میں بطور معاش کے اور بہت سی زمین اندروں آبادی قصبہ پانی پت واسطے سکونت کے انکو عنایت کی۔ اور منصبِ قضا و صدارت و تشخیص رخِ بازار اور تولیتِ مزاراتِ آئمہ جو سوادِ پانی پت میں واقع ہیں اور خطابت عیدین ان سے متعلق کر دی۔ پانی پت میں جو اب تک ایک محلہ انصاریوں کا مشہور ہے وہ انہیں بزرگ کی اولاد سے منسوب ہے۔ میں باپ کی طرف سے اسی شاخِ انصار سے علاقہ رکھتا ہوں اور میری والدہ سادات کے ایک معزز گھرانے کی، جو یہاں ساداتِ شہدا کے نام سے مشہور ہیں، بیٹی تھیں۔

میری ولادت کے بعد میری والدہ کا دماغ مختل ہو گیا تھا۔ میرے والد نے سنِ کہولت میں انتقال کیا جبکہ میں نو برس کا تھا۔ اس لئے میں نے ہوش سنبھال کر اپنا سر پرست بھائی بہنوں کے سوا کسی کو نہیں پایا۔ انہوں نے اول مجھ کو قرآن حفظ کرایا، اسکے بعد اگرچہ تعلیم کا شوق خود بخود میرے دل میں حد سے زیادہ تھا مگر باقاعدہ اور مسلسل تعلیم کا کبھی موقع نہیں ملا۔ ایک بزرگ سید جعفر علی مرحوم جو ممنون دہلوی کے بھتیجے نیز داماد بھی تھے اور بوجہ تعلقِ زنان شوئی کے پانی پت میں مقیم تھے اور فارسی لٹریچر اور تاریخِ طب میں یدِ طولٰی رکھتے تھے، ان سے دو چار فارسی کی ابتدائی کتابیں پڑھیں اور انکی صحبت میں فارسی لٹریچر سے ایک نوع کی مناسبت پیدا ہو گئی۔ پھر عربی کا شوق پیدا ہوگیا۔ انہی دنوں میں مولوی حاجی ابراہیم حسین انصاری مرحوم لکھنو سے امامت کی سند لے کر آئے تھے، ان سے صرف و نحو پڑھی۔ مگر چند روز بعد بھائی اور بہن نے جن کو میں بمنزلہ والدین کے سمجھتا تھا، تاہل پر مجبور کیا۔ اس وقت میری عمر 17 برس کی تھی اور زیادہ تر بھائی کی نوکری پر سارے گھر کا گزارہ تھا، کہ یہ جؤا میرے کندھے پر رکھا گیا۔ اب بظاہر تعلیم کے دروازے چاروں طرف سے مسدود ہو گئے۔ سب کی خواہش تھی کہ میں نوکری تلاش کروں، مگر تعلیم کا شوق غالب تھا اور بیوی کا میکہ آسودہ حال تھا۔ میں گھر والوں سے روپوش ہو کر دلی چلا گیا اور قریب ڈیڑھ برس کے وہاں رہ کر کچھ صرف و نحو اور کچھ ابتدائی کتابیں منطق کی پڑھیں۔ اگرچہ اس وقت قدیم دہلی کا کالج خوب رونق پر تھا مگر جس سوسائٹی میں مَیں نے نشو و نما پائی تھی وہاں تعلیم کو صرف عربی اور فارسی زبان پر منحصر سمجھا جاتا تھا۔ انگریزی تعلیم کا خاص کر پانی پت میں اول تو کہیں ذکر ہی سننے میں نہ آتا تھا کہ اگر اسکی نسبت لوگوں کو کچھ خیال تھا تو صرف اس قدر کہ سرکاری نوکری کا ایک ذریعہ ہے، نہ یہ کہ اس سے کوئی علم حاصل ہوتا ہے۔ بلکہ بر خلاف اسکے انگریزی مدرسوں کو ہمارے علماء جہلے کہتے تھے۔ دلی پہنچ کر جس مدرسہ میں مجھ کو شب و روز رہنا پڑا وہاں کے مدرس اور طلبہ انگریزی کے تعلیم یافتہ لوگوں کو محض جاہل سمجھتے تھے۔ غرض بھول کر بھی انگریزی تعلیم کا خیال دل میں نہ گزرتا تھا۔ ڈیڑھ برس دلی میں رہنا پڑا، اس عرصہ میں کبھی کالج کو جا کر آنکھ سے دیکھا تک نہیں، اور نہ ان لوگوں سے کبھی ملنے کا اتفاق ہوا جو اس وقت کالج میں تعلیم پاتے تھے جیسے مولوی ذکاءاللہ، مولوی نذیر احمد، مولوی محمد حسین آزاد وغیرہ۔

میں نے دلی میں شرح ملا حسن اور میبذی پڑھنی شروع کی تھی کہ سب عزیزوں اور بزرگوں کے جبر سے چار و ناچار مجھ کو دلی چھوڑنا اور پانی پت واپس آنا پڑا۔ یہ ذکر 1855ء کا ہے۔ دلی سے آ کر برس ڈیڑھ برس تک پانی پت سے کہیں جانے کا اتفاق نہیں ہوا۔ یہاں بطور خود اکثر بے پڑھی کتابوں کا مطالعہ کرتا رہا۔ 1856ء میں مجھے ضلع حصار میں ایک قلیل تنخواہ کی اسامی صاحب کلکٹر کے دفتر میں مل گئی۔ لیکن 57ء میں جبکہ سپاہِ باغی کا فتنہ ہندوستان میں برپا ہوا اور حصار میں بھی اکثر سخت واقعات ظہور میں آئے اور سرکاری علمداری اٹھ گئی تو میں وہاں سے پانی پت چلا آیا اور قریب چار برس کے (پانی پت میں) بیکاری کی حالت میں گزارے۔ اس عرصہ میں مشہور فضلا مولوی عبدالرحمٰن، مولوی محب اور مولوی قلندر علی مرحوم سے بغیر کسی ترتیب اور نظام کے کبھی منطق یا فلسفہ کبھی حدیث کبھی تفسیر پڑھتا رہا، اور جب ان صاحبوں میں سے کوئی پانی پت میں نہ ہوتا تھا تو خود بغیر پڑھی کتابوں کا مطالعہ کرتا تھا۔ اور خاص کر علم ادب کی کتابیں شرح اور لغات کی مدد سے اکثر دیکھتا تھا، اور کبھی کبھی عربی نظم و نثر بھی بغیر کسی کی اصلاح یا مشورے کے لکھتا تھا، مگر اس پر اطمینان نہ ہوتا تھا۔ میری عربی اور فارسی تحصیل کا منتہٰی صرف اسی قدر ہے جس قدر اوپر ذکر کیا گیا۔

جس زمانہ میں میرا دلی جانا ہوا تھا، مرزا اسد اللہ خاں غالب مرحوم کی خدمت میں اکثر جانے کا اتفاق ہوتا تھا اور اکثر انکے اردو فارسی دیوان کے اشعار جو سمجھ میں نہ آتے تھے، ان کے معنی ان سے پوچھا کرتا تھا۔ اور چند فارسی قصیدے انہوں نے اپنے دیوان میں سے مجھے پڑھائے بھی تھے۔ انکی عادت تھی کہ وہ اپنے ملنے والوں کو اکثر فکرِ شعر سے منع کیا کرتے تھے مگر میں نے جو ایک آدھ غزل اردو یا فارسی کی لکھ کر ان کو دکھائی تو انہوں نے مجھ سے یہ کہا کہ اگرچہ میں کسی کو فکرِ شعر کی صلاح نہیں دیا کرتا لیکن تمھاری نسبت میرا یہ خیال ہے کہ اگر تم شعر نہ کہو گے تو اپنی طبیعت پر سخت ظلم کرو گے۔ مگر اس زمانے میں ایک دو غزل سے زیادہ دلی میں شعر لکھنے کا اتفاق نہیں ہوا۔


(جاری ہے)

۔
 

محمد وارث

لائبریرین
غدر کے بعد جب کئی برس پانی پت میں بیکاری کی حالت میں گزر گئے تو فکرِ معاش نے گھر سے نکلنے پر مجبور کیا۔ حسنِ اتفاق سے نواب مصطفٰی خاں مرحوم، رئیسِ دہلی و تعلقہ دار جہانگیر آباد ضلع بلند شہر، سے جو فارسی میں حسرتی اور اردو میں شیفتہ تخلص کرتے تھے اور شاعری کا اعلٰی درجہ کا مذاق رکھتے تھے شناسائی ہو گئی اور آٹھ سات برس تک بطور مصاحبت کے ان کے ساتھ رہنے کا اتفاق ہوا۔ نواب صاحب جس درجہ کے فارسی اور اردو زبان کے شاعر تھے اسکی نسبت ان کا مذاقِ شاعری بمراتب بلند تر اور اعلٰی تر واقع ہوا تھا۔ انہوں نے ابتدا میں اپنا فارسی اور اردو کلام مومن خاں کو دکھایا تھا، مگر انکے مرنے کے بعد وہ مرزا غالب سے مشورۂ سخن کرنے لگے تھے۔ میرے وہاں جانے سے انکا پرانا شعر و سخن کا شوق جو مدت سے افسردہ ہو رہا تھا، تازہ ہو گیا اور انکی صحبت میں میرا طبعی میلان بھی جو اب تک مکروہات کے سبب اچھی طرح ظاہر نہ ہونے پایا تھا چمک اٹھا۔ اسی زمانہ میں اردو اور فارسی کی اکثر غزلیں نواب مرحوم کے ساتھ لکھنے کا اتفاق ہوا۔ انہیں کے ساتھ میں بھی جہانگیر آباد سے اپنا کلام مرزا غالب کے پاس بھیجتا تھا مگر در حقیقت مرزا کے مشورہ و اصلاح سے مجھے چنداں فائدہ نہیں ہوا بلکہ جو کچھ فائدہ ہوا وہ نواب صاحب کی صحبت سے ہوا۔ وہ مبالغہ کو ناپسند کرتے تھے اور حقائق و واقعات کے بیان میں لطف پیدا کرنا اور سیدھی سادھی اور سچی باتوں کو محض حسنِ بیان سے دلفریب بنانا منتہائے کمال شاعری سمجھتے تھے۔ چھچھورے اور بازاری الفاظ و محاورات اور عامیانہ خیالات سے شیفتہ اور غالب دونوں متنفر تھے۔ نواب شیفتہ کے مذاق کا اندازہ اس واقع سے بخوبی ہو سکتا ہے کہ ایک روز انیس کا ذکر ہو رہا تھا۔ انہوں نے انیس کے مرثیہ کا یہ مصرعہ پڑھا۔ ع

آج شبیر پہ کیا عالمِ تنہائی ہے

اور کہا کہ انیس نے ناحق مرثیہ لکھا، یہی ایک مصرعہ بجائے خود ایک مرثیہ کے برابر تھا۔ انکے خیالات کا اثر مجھ پر بھی پڑنے لگا اور رفتہ رفتہ ایک خاص قسم کا مذاق پیدا ہوگیا۔

نواب شیفتہ کی وفات کے بعد پنجاب گورنمنٹ بُک ڈپو میں ایک آسامی مجھ کو مل گئی جس میں مجھے یہ کام کرنا پڑتا تھا کہ جو ترجمے انگریزی سے اردو میں ہوتے تھے انکی اردو عبارت درست کرنے کو مجھے ملتی تھی۔ تقریباً چار برس میں نے یہ کام لاہور میں رہ کر کیا۔ اس سے انگریزی لٹریچر کے ساتھ فی الجملہ مناسبت پیدا ہو گئی۔ لاہور ہی میں کرنیل ہالرانڈ، ڈائرکٹر آف پبلک انسٹرکشن پنجاب کے ایما سے مولوی محمد حسین آزاد نے اپنے پرانے ارادے کو پورا کیا، یعنی 1874ء میں ایک مشاعرے کی بنیاد ڈالی جو ہندوستان میں اپنی نوعیت کے لحاظ سے بالکل نیا تھا، اور جس میں بجائے مصرعہ طرح کے کسی مضمون کا عنوان شاعروں کو دیا جاتا تھا کہ اس مضمون پر اپنے خیالات جس طرح چاہیں نظم میں ظاہر کریں۔ میں نے بھی اسی زمانہ میں چار مثنویاں، ایک برسات پر، دوسری امید پر، تیسری رحم و انصاف پر، چوتھی حبِ وطن پر لکھیں۔

اسکے بعد میں لاہور سے دہلی میں اینگلو عربک سکول کی مدرسی پر بدل آیا۔ یہاں آ کر اول میں نے ایک آدھ نظم بطور خود اسی طرز کی جس کی تحریک لاہور میں ہوئی تھی، لکھی۔ پھر سر سید احمد خاں مرحوم نے ترغیب دلائی کہ مسلمانوں کی موجودہ پستی و تنزل کی حالت اگر نظم میں بیان کی جائے تو مفید ہوگی، چنانچہ میں نے اول مسدس مد و جزر اسلام اور اسکے بعد اور نظمیں جو چھپ کر بار بار شائع ہو چکی ہیں، لکھیں۔

نظم کے سوا اردو نثر میں بھی چند کتابیں لکھی ہیں، سب سے پہلے غالباً 1867ء میں ایک کتاب تریاقِ مسموم ایک نیٹو کرسچن کی کتاب کے جواب میں، جو میرا ہم وطن تھا اور مسلمان سے عیسائی ہوا تھا، لکھی تھی۔ جس کو اسی زمانہ میں لوگوں نے مذہبی میگزینوں میں شائع کر دیا تھا۔ اسکے بعد لاہور میں ایک عربی کتاب کا جو جیولوجی میں تھی اور فرنچ سے عربی میں کسی مصری فاضل نے ترجمہ کی تھی، اردو میں ترجمہ کیا اور اسکا کاپی رائٹ بغیر کسی معاوضہ کے پنجاب یونیورسٹی کو دے دیا۔ چنانچہ ڈاکٹر لائٹز کے زمانہ میں اسکو پنجاب یونیورسٹی نے چھاپ کر شائع کر دیا تھا۔ مگر اول تو وہ اصل کتاب پچاس ساٹھ برس کی لکھی ہوئی تھی جبکہ جیولوجی کا علم ابتدائی حالت میں تھا، دوسرے مجھ کو اس فن سے محض اجنبیت تھی، اسلئے اصل اور ترجمہ دونوں غلطیوں سے خالی نہ تھے۔ لاہور ہی میں ایک کتاب عورتوں کی تعلیم کیلئے قصہ کے پیرایہ میں موسوم بہ مجالس النساء لکھی تھی جس پر کرنل ہالرانڈ نے ایک ایجوکیشنل دربار میں بمقام دہلی مجھے لارڈ نارتھ بروک کے ہاتھ سے چار سو روپیہ کا انعام دلوایا تھا اور جو اودھ اور پنجاب کے مدارسِ نسواں میں مدت تک جاری رہی اور شاید اب بھی کبھی کہیں جاری ہو۔ پھر دلی میں سعدی شیرازی کی لائف اور انکی نظم و نثر پر ریویو لکھ کر شائع کیا، جسکا نام حیاتِ سعدی ہے اور جس کے دس بارہ ایڈیشن اب سے پہلے شائع ہوچکے ہیں۔ پھر شاعری پر ایک مبسوط ایسے (Essay) لکھ کر بطور مقدمہ کے اپنے دیوان کے ساتھ شائع کیا۔ اسکے بعد مرزا غالب مرحوم کی لائف جس میں ان کی فارسی اور اردو نظم و نثر کا انتخاب بھی شامل ہے اور نیز ان کی شاعری پر بھی ریویو لکھا گیا ہے جو یادگارِ غالب کے نام سے لکھ کر شائع کی۔ اور اب سر سید احمد خاں مرحوم کی لائف موسوم بہ حیاتِ جاوید جو تقریباً ہزار صفحہ کی کتاب ہے، لکھی۔ جو امید ہے کہ مارچ یا اپریل میں شائع کی جائے گی۔

اسکے سوا اور بھی بعض کتابیں فارسی گرامر وغیرہ میں لکھی ہیں جو چنداں ذکر کے قابل نہیں ہیں۔ اسکے علاوہ تیس بتیس مضمون بھی مختلف عنوانوں پر مختلف اوقات میں لکھے جو تہذیب الاخلاق علی گڑھ گزٹ اور دیگر اخبارات یا رسائل میں شائع ہوئے ہیں۔ نیز اردو کے علاوہ فارسی میں کسی قدر زیادہ اور عربی میں کم میری نظم و نثر موجود ہے جو ہنوز شائع نہیں ہوئی۔ جب سے ان دونوں زبانوں کا رواج ہندوستان میں کم ہونے لگا ہے اس وقت سے انکی طرف توجہ نہیں رہی۔ میری سب سے اخیر فارسی نظم وہ ترکیب بند ہے جو سر سید کی وفات پر میں نے 1898ء میں لکھا تھا اور اردو میں سب سے اخیر وہ نظم ہے جو حال میں ایمپرس وکٹوریا کی وفات پر لکھی ہے اور علی گڑھ گزٹ میں شائع ہو چکی ہے۔

1305ھ میں جب کہ میں اینگلو عربک سکول دہلی میں مدرس تھا، نواب سر عثمان جاہ بہادر مرحوم مدار المہام سرکار عالی نظام اثنائے سفر شملہ میں علی گڑھ محمڈن کالج کے لئے سر سید احمد خاں مرحوم کی کوٹھی واقع علی گڑھ میں فروکش ہوئے تھے اور میں بھی اس وقت علی گڑھ گیا ہوا تھا۔ نواب صاحب ممدوح نے بصیغۂ امدادِ مصنفین ایک وظیفہ تعداد پچھتر روپے ماہوار کا میرے لئے مقرر فرمایا اور 1309ھ میں جب کہ میں سر سید مرحوم کے ہمراہ بشمول دیگر ممبران ڈیپوٹیشن ٹرسٹیان محمڈن کالج علی گڑھ، حیدر آباد گیا تھا اس وظیفہ میں پچیس روپے ماہوار کا اضافہ کر کے سو روپیہ سکۂ حالی کا وظیفہ میرے لئے مقرر کر دیا جو اب تک مجھ کو ماہ بماہ سرکار سے ملتا ہے اور اسی وقت سے میں نے اینگلو عربک سکول کا تعلق قطع کر دیا ہے۔


۔
 

محمد وارث

لائبریرین
پہلا دیباچہ

1296ھ


بسم اللہ الرحمن الرحیم

حامداً و مصلّیاً



بلبل کی چمن میں ہمزبانی چھوڑی
بزمِ شعرا میں شعر خوانی چھوڑی
جب سے دلِ زندہ تو نے ہم کو چھوڑا
ہم نے بھی تری رام کہانی چھوڑی


بچپن کا زمانہ جو کہ حقیقت میں دنیا کی بادشاہت کا زمانہ ہے۔ ایک ایسے دلچسپ اور پر فضا میدان میں گزرا جو کلفت کے گرد و غبار سے بالکل پاک تھا، نہ وہاں ریت کے ٹیلے تھے نہ خار دار جھاڑیاں تھیں، نہ آندھیوں کے طوفان تھے نہ بادِ سموم کی لپٹ تھی۔

جب اس میدان میں کھیلتے کودتے آگے بڑھے تو ایک اور صحرا اس سے بھی زیادہ دلفریب نظر آیا، جسکے دیکھتے ہی ہزاروں ولولے اور لاکھوں امنگیں دل میں پیدا ہو گئیں مگر یہ صحرا جس قدر نشاط انگیز تھا اسی قدر وحشت خیز تھا۔ اسکی سر سبز جھاڑیوں میں ہولناک درندے چھپے ہوئے تھے اور اسکے خوشنما پودوں پر سانپ اور بچھو لپٹے ہوئے تھے، جونہی اس کی حد میں قدم رکھا ہر گوشہ سے شیر و پلنگ اور مارکژدم نکل آئے۔ باغِ جوانی کی بہار اگرچہ قابلِ دید تھی مگر دنیا کی مکروہات سے دم لینے کی فرصت نہ ملی، نہ خود آرائی کا خیال آیا نہ عشق و جوانی کی ہوا لگی، نہ وصل کی لذت اٹھائی نہ فراق کا مزہ چکھا۔

پنہاں تھا دامِ سخت قریب آشیانے کے
اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے

البتہ شاعری کی بدولت چند روز جھوٹا عاشق بننا پڑا۔ ایک خیالی معشوق کی چاہ میں برسوں دشتِ جنوں کی وہ خاک اڑائی کہ قیس و فرہاد کو گرد کر دیا۔ کبھی نالۂ نیم شبی سے ربع مسکوں کو ہلا ڈالا۔ کبھی چشمِ دریا بار سے تمام عالم کو ڈبو دیا۔ آہ و فغاں کے شور سے کروبیوں کے کان بہرے ہو گئے۔ شکایتوں کی بوچھاڑ سے زمانہ چیخ اٹھا۔ طعنوں کی بھر مار سے آسمان چھلنی ہو گیا۔ جب رشک کا طلاطم ہوا تو ساری خدائی کو رقیب سمجھا، یہاں تک کہ آپ اپنے سے بد گمان ہو گئے۔ جب شوق کا دریا امڈا تو کششِ دل سے جذبِ مقناطیسی اور قوتِ کہربائی کا کام لیا۔ بار ہا تیغِ ابرو سے شہید ہوئے اور بار ہا ایک ٹھوکر سے جی اٹھے گویا زندگی ایک پیراہن تھا کہ جب چاہا اتار دیا اور جب چاہا پہن لیا۔ میدانِ قیامت میں اکثر گزر ہوا، بہشت و دوزخ کی اکثر سیر کی۔ بادہ نوشی پر آئے تو خم کے خم لنڈھا دیئے اور پھر بھی سیر نہ ہوئے۔ کبھی خانۂ خمار کی چوکھٹ پر جبہ سائی کی، کبھی مے فروش کے در پر گدائی کی۔ کفر سے مانوس رہے ایمان سے بیزار رہے۔ پیرِ مغاں کے ہاتھ پر بیت کی۔ برہمنوں کے چیلے بنے، بت پوچے، زنار باندھا، قشقہ لگایا، زاہدوں پر پھبتیاں کہیں، واعظوں کا خاکہ اڑایا، دیر اور بت خانہ کی تعظیم کی، کعبہ اور مسجد کی توہین کی، خدا سے شوخیاں کیں، نبیوں سے گستاخیاں کیں، اعجازِ مسیحی کو ایک کھیل جانا، حسنِ یوسفی کو ایک تماشا سمجھا۔ غزل کہی تو خاص شہدوں کی بولیاں بولیں، قصیدہ لکھا تو بھاٹ اور بھاؤ خانوں کے منہ پھیر دیے۔ ہر مشتِ خاک میں اکسیرِ اعظم کے خواص بتلائے۔ ہر چوبِ خشک میں عصائے موسوی کے کرشمے دکھائے۔ ہر نمرودِ وقت کو ابراہیم خلیل سے جا ملایا۔ ہر فرعونِ بے سامان کو قادرِ مطلق سے جا بھڑایا۔ جس کے مداح بنے اسے ایسا بانس پر چڑھایا کہ خود ممدوح کو اپنی تعریف میں کچھ مزا نہ آیا۔ غرض نامۂ اعمال ایسا سیاہ کیا کہ سفیدی باقی نہ چھوڑی۔

چو پُرسشِ گنہم روزِ حشر خواہد بود
تمسّکاتِ گناہانِ خلق پارہ کنند

بیس برس کی عمر سے چالیسویں سال تک تیلی کے بیل کی طرح اس ایک چکر میں پھرتے رہے اور اپنے نزدیک سارا جہان طے کر چکے۔ جب آنکھیں کھلیں تو معلوم ہوا کہ جہاں سے چلے تھے اب تک وہیں ہیں۔

شکستِ رنگِ شباب و ہنوز رعنائی
در آں دیار کہ زادی ہنوز آنجائی

نگاہ اٹھا کر دیکھا تو دائیں بائیں آگے پیچھے ایک میدان وسیع نظر آیا جس میں بے شمار راہیں چاروں طرف کھلی ہوئی تھیں اور خیال کے لئے کہیں عرصہ تنگ نہ تھا، جی میں آیا کہ قدم آگے بڑھائیں اور اس میدان کی سیر کریں مگر جو قدم بیس برس تک ایک چال سے دوسری چال نہ چلے ہوں اور جن کی دوڑ گز دو گز زمین میں محدود رہی ہو ان سے اس وسیع میدان میں کام لینا آسان نہ تھا۔ اسکے سوا بیس برس کی بیکار اور نکمی گردش میں ہاتھ پاؤں چور ہو گئے تھے اور طاقتِ رفتار جواب دے چکی تھی، لیکن پاؤں میں چکر نہ تھا اسلیئے نچلا بیٹھنا بھی دشوار تھا۔ چند روز اسی تردد میں یہ حال رہا کہ ایک قدم آگے پڑتا تھا، دوسرا پیچھے ہٹتا تھا۔ ناگاہ دیکھا کہ ایک خدا کا بندہ جو اس میدان کا مرد ہے ایک دشوار گزار راستے میں رہ نورد ہے۔ بہت سے لوگ جو اسکے ساتھ چلے تھے تھک کر پیچھے رہ گئے ہیں، بہت سے ابھی اسکے ساتھ افتاں و خیزاں چلے جاتے ہیں مگر ہونٹوں پر پپڑیاں جمی ہیں۔ پیروں میں چھالے پڑے ہیں، دم چڑھ رہے ہیں، چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی ہیں لیکن وہ اولوالعزم آدمی جو ان سب کا رہنما ہے اسی طرح تازہ دم ہے، نہ اسے رستے کی تکان ہے نہ ساتھیوں کے چھوٹ جانے کی پرواہ ہے، نہ منزل کی دوری سے کچھ ہراس ہے۔ اسکی چتون میں غضب کا جادو بھرا ہے کہ جسکی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھتا ہے وہ آنکھیں بند کر کے اسکے ساتھ ہو لیتا ہے۔ اسکی ایک نگاہ اِدھر بھی پڑی اور اپنا کام کر گئی۔ بیس برس کے تھکے ہارے خستہ و کوفتہ اسی دشوار گزار راستے پر پڑ گئے۔ نہ یہ خبر ہے کہاں جاتے ہیں نہ یہ معلوم ہے کہ کیوں جاتے ہیں، نہ طلبِ ذوق ہے نہ قدمِ راسخ ہے، نہ عزم ہے نہ استقلال نہ صدق ہے نہ اخلاص ہے مگر ایک زبردست ہاتھ ہے کہ کھینچے لئے چلا جاتا ہے۔

آں دل کہ رم نمودے از خوبرو جواناں
دیرینہ سال پیرے بردش بیک نگاہے

زمانہ کا نیا ٹھاٹھ دیکھ کر پرانی شاعری سے دل سیر ہو گیا تھا اور جھوٹے ڈھکوسلے باندھنے سے شرم آنے لگی تھی۔ نہ یاروں کے ابھاروں سے دل بڑھتا تھا نہ ساتھیوں کی ریس سے کچھ جوش آتا تھا۔ مگر یہ ایک ناسور کا منہ بند کرنا تھا جو کسی نہ کسی راہ سے تراوش کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اس لئے بخاراتِ درونی جن کے رکنے سے دم گھٹا جاتا تھا دل و دماغ میں طلاطم کر رہے تھے اور کوئی رخنہ ڈھونڈتے تھے۔ قوم کے ایک سچے خیر خواہ نے (جو اپنی قوم کے سوا تمام ملک میں اسی نام سے پکارا جاتا ہے اور جسطرح خود اپنے پُر زور ہاتھ اور قوی بازو سے بھائیوں کی خدمت کر رہا ہے اسی طرح ہر اپاہج اور نکمے کو اسی کام میں لگانا چاہتا ہے) آ کر ملامت کی اور غیرت دلائی کہ حیوانِ ناطق ہونے کا دعوٰی کرنا اور خدا کی دی ہوئی زبان سے کچھ کام نہ لینا بڑے شرم کی بات ہے۔

رو چو انساں لب بجنباں در دہن
در جمادی لاف انسانی مزن

قوم کی حالت تباہ ہے، عزیز ذلیل ہو گئے ہیں، شریف خاک میں مل گئے ہیں، علم کا خاتمہ ہو چکا ہے، دین کا صرف نام باقی ہے، افلاس کی گھر گھر پکار ہے، پیٹ کی چاروں طرف دہائی ہے، اخلاق بگڑ گئے ہیں اور بگڑتے جاتے ہیں، تعصب کی گھنگھور گھٹا تمام قوم پر چھائی ہوئی ہے، رسم و رواج کی بیڑی ایک ایک کے پاؤں میں پڑی ہے، جہالت اور تقلید سب کی گردن پر سوار ہے۔ امراء جو قوم کو بہت کچھ فائدہ پہنچا سکتے ہیں غافل اور بے پرواہ ہیں۔ علماء جن کو قوم کی اصلاح میں بہت بڑا دخل ہے زمانہ کی ضرورتوں اور مصلحتوں سے نا واقف ہیں۔ ایسے میں جس سے جو کچھ بن آئے سو بہتر ہے ورنہ ہم سب ایک ہی ناؤ میں سوار ہیں اور ساری ناؤ کی سلامتی میں ہماری سلامتی ہے۔ ہر چند لوگ بہت کچھ لکھ چکے ہیں اور لکھ رہے ہیں مگر نظم، جو کہ بالطبع سب کو مرغوب ہے اور خاص کر عرب کا ترکہ اور مسلمانوں کا موروثی حصہ ہے، قوم کے بیدار کرنے کے لئے اب تک کسی نے نہیں لکھی۔ اگرچہ ظاہر ہے کہ اور تدبیروں سے کیا ہوا جو اس تدبیر سے ہوگا مگر ایسی تنگ حالتوں میں انسان کے دل پر ہمیشہ دو طرح کے خیال گزرتے ہیں، ایک یہ کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے دوسرے یہ کہ ہم کو کچھ کرنا چاہیئے۔ پہلے خیال کا نتیجہ ہوا کہ کچھ نہ ہوا اور دوسرے خیال سے دنیا میں بڑے بڑے عجائبات ظاہر ہوئے۔

درِ فیض است منشیں از کشائش نا امید ایں جا
برنگِ دانہ از ہر قفل می روید کلید ایں جا

آیت (ترجمہ)۔ اور وہ ایسا خدا ہے کہ جب لوگ ناامید ہو جاتے ہیں تو مینہ برساتا ہے اور اپنی رحمت پھیلاتا ہے۔

ہر چند اس حکم کی بجا آواری مشکل تھی اور خدمت کا بوجھ اٹھانا دشوار تھا مگر ناصح کی جادو بھری تقریر جی میں گھر کر گئی۔ دل ہی سے نکلی تھی دل میں جا کر ٹھہری۔ برسوں کی بجھی ہوئی طبیعت میں ایک ولولہ پیدا ہوا اور باسی کڑھی میں ایک ابال آیا۔ افسردہ دل، بوسیدہ دماغ جو امراض کے متواتر حملوں سے کسی کام کے نہ رہے تھے انھیں سے کام لینا شروع کیا اور ایک مسدس کی بنیاد ڈالی۔ دنیا کے مکروہات سے فرصت بہت کم ملی اور بیماریوں کے ہجوم سے اطمینان کبھی نصیب نہ ہوا مگر ہر حال میں یہ دھن لگی رہی۔ بارے الحمدللہ کہ بہت سی دقتوں کے بعد ایک ٹوٹی پھوٹی نظم اس عاجز بندہ کی بساط کے موافق تیار ہو گئی اور ناصح مشفق سے شرمندہ نہ ہونا پڑا۔ صرف ایک امید کے سہارے پر یہ راہِ دور و دراز طے کی گئی ہے ورنہ منزل کا نشان نہ اب تک ملا ہے اور نہ آئندہ ملنے کی توقع ہے۔

خبرم نیست کہ منزل گہِ مقصود کجا است
ایں قدر ہست کہ بانگِ جرسے می آید

اس مسدس کے آغاز میں پان سات بند تمہید کے لکھ کر اول عرب کی اس ابتر حالت کا خاکہ کھینچا ہے جو ظہورِ اسلام سے پہلے تھی اور جس کا نام اسلام کی زبان میں جاہلیت رکھا گیا ہے۔ پھر کوکبِ اسلام کا طلوع ہونا اور نبی اُمی (ص) کی تعلیم سے اس ریگستان کا دفعتاً سر سبز و شاداب ہو جانا اور اس ابرِ رحمت کا امت کی کھیتی کو رحلت کے وقت ہرا بھرا چھوڑ جانا اور مسلمانوں کا دینی و دنیوی ترقیات میں تمام عالم پر سبقت لے جانا بیان کیا ہے۔ اسکے بعد انکے تنزل کا حال لکھا ہے اور قوم کے لئے اپنے بے ہنر ہاتھوں سے ایک آئینہ خانہ بنا دیا ہے جس میں آ کر وہ اپنے خط و خال دیکھ سکتے ہیں کہ ہم کون تھے اور کیا ہو گئے۔ اگرچہ اس جانکاہ نظم میں، جس کی دشواریاں لکھنے والے کا دل اور دماغ ہی خوب جانتا ہے، بیان کا حق نہ مجھ سے ادا ہوا ہے اور نہ ہو سکتا ہے مگر شکر ہے کہ جس قدر ہو گیا اتنی بھی امید نہ تھی۔ ہمارے ملک کے اہلِ مذاق ظاہرا اس روکھی پھیکی سیدھی سادھی نظم کو پسند نہ کریں گے کیونکہ اس میں تاریخی واقعات ہیں یا چند آیتوں اور حدیثوں کا ترجمہ ہے یا جو آج کل قوم کی حالت ہے اس کا صحیح صحیح نقشہ کھینچا گیا ہے۔ نہ کہیں نازک خیالی ہے نہ رنگیں بیانی، نہ مبالغہ کی چاٹ ہے نہ تکلف کی چاشنی، غرض کوئی بات ایسی نہیں ہے جس سے اہل وطن کے کان مانوس اور مذاق آشنا ہوں اور کوئی کرشمہ ایسا نہیں (ترجمہ۔ نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا، نہ کسی بشر کے دل میں گزرا)۔

گویا اہلِ دہلی و لکھنؤ کی دعوت میں ایک ایسا دستر خوان چنا گیا ہے جس میں ابالی کھچڑی اور بے مرچ سالن کے سوا کچھ نہیں مگر اس نظم کی ترتیب مزے لینے اور واہ واہ سننے کے لئے نہیں کی گئی بلکہ عزیزوں دوستوں کو غیرت اور شرم دلانے کے لئے کی گئی ہے۔ اگر دیکھیں اور پڑھیں اور سمجھیں تو ان کا احسان ہے ورنہ کچھ شکایت نہیں۔

حافظ وظیفۂ تو دعا گفتن است و بس
در بندِ آں مباش کہ نشنید یا شنید

۔
 

محمد وارث

لائبریرین
دوسرا دیباچہ


متعلق بہ ضمیمہ


1303ھ


حدیثِ درد دل آویز داستانے ہست
کہ ذوق بیش دہد چوں دراز تر گردد


مسدس مد و جزرِ اسلام اول ہی اول 1296ھ میں چھپ کر شائع ہوا تھا۔ اگرچہ اس نظم کی اشاعت سے شاید کوئی متعدد بہ فائدہ سوسائٹی کو نہیں پہنچا مگر چھ برس میں جس قدر قبولیت و شہرت اس نظم کو اطرافِ ہندوستان میں ہوئی وہ فی الواقع تعجب انگیز ہے۔ نظم بالکل غیر مانوس تھی اور مضمون اکثر طعن و ملامت پر مشتمل تھے۔ قوم کی برائیاں چن چن کر ظاہر کی گئی تھیں اور زبان سے تیغ و سناں کا کام لیا گیا تھا۔ ناظم کی نسبت قوم کے اکثر ابرار و اخیار مذہبی سُوءظن رکھتے تھے، تعصب عموماً کلمۂ حق سننے سے مانع تھا۔ بایں ہمہ اس تھوڑی سی مدت میں یہ نظم ملک کے اطراف و جوانب میں پھیل گئی۔ ہندوستان کے مختلف اضلاع میں اسکے سات آٹھ ایڈیشن اب سے پہلے شائع ہو چکے ہیں۔ بعض قومی مدرسوں میں اسکا انتخاب بچوں کو پڑھایا جاتا ہے۔ مولود شریف کی مجلسوں میں جا بجا اسکے بند پڑھے جاتے ہیں۔ اکثر لوگ اسکو پڑھ کر بے اختیار روتے اور آنسو بہاتے ہیں۔ اسکے بہت سے بند ہمارے واعظوں کی زبان پر جاری ہیں۔ کہیں کہیں قومی ناٹک میں اس کے مضامین ایکٹ کئے جاتے ہیں۔ بہت سے مسدس اسکی روشنی میں اسی بحر میں ترتیب دئے گئے۔ اکثر اخباروں میں موافق و مخالف ریویو اس پر لکھے گئے ہیں۔ شمال مغربی اضلاع کے سرکاری مدارس میں عام قبولیت کی وجہ سے اسکو تعلیم میں داخل کر دیا گیا ہے۔ یہ اور اسی قسم کی اور بہت سی باتیں ایسی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم نے اسکی طرف کافی توجہ کی ہے مگر اس پر مصنف کو کچھ فخر کرنے کا محل نہیں ہے، اگر قوم کے دل میں متاثر ہونے کا مادہ نہ ہوتا تو یہ اور ایسی ایسی ہزار نظمیں بیکار تھیں، پس مصنف کو اگر فخر ہے تو صرف اس بات پر ہے کہ اس نے زمینِ شور میں تخم ریزی نہیں کی اور پتھر میں جونک لگانی نہیں چاہی، اس نے ایک ایسی جماعت کو مخاطب گردانا ہے جو بے راہ ہے پر گمراہ نہیں ہے، وہ رستے سے بھٹکے ہوئے ہیں مگر رستے کی تلاش میں چپ و راست نگراں ہیں، انکے ہنر مفقود ہو گئے ہیں مگر قابلیت موجود ہے، انکی صورت بدل گئی ہے مگر ہیولٰی باقی ہے، انکے قویٰ مضمحل ہو گئے مگر زائل نہیں ہوئے، انکے جوہر مٹ گئے ہیں مگر جلا سے پھر نمودار ہو سکتے ہیں، انکے عیبوں میں خوبیاں بھی ہیں مگر چھپی ہوئی، انکے خاکستر میں چنگاریاں بھی ہیں مگر دبی ہوئی۔

یہ نظم جس میں قوم کی گزشتہ اور موجودہ حالت کا صحیح صحیح نقشہ کھینچنا مدِ نظر تھا اگرچہ مشرق کی عام نظموں کی بہ نسبت مبالغہ سے خالی تھی لیکن فروگزاشت سے خالی نہ تھی۔ دوست کی نگاہ نکتہ چینی در خوردہ گیری میں وہی کام کرتی ہے جو دشمن کی نگاہ کرتی ہے، دونوں یکساں عیبوں پر خوردہ گیری اور چشم پوشی کرتے ہیں مگر دشمن اس غرض سے کہ عیب ظاہر ہوں اور خوبیاں مخفی رہیں اور دوست اس خوف سے کہ مبادا خوبیوں کا غرور عیبوں کی اصلاح سے باز رکھے۔ مصنف بھی جو کہ دوستی کا دم بھرتا ہے شاید محبت اور دلسوزی ہی سے قوم کی عیب جوئی پر مجبور ہوا اور ہنر گستری سے معذور رہا مگر یہ اسلوب جس قدر غیرت دلانے والا تھا اسی قدر مایوس کرنے والا بھی تھا۔ مصنف کے دل کی آگ بھڑک بھڑک کر بجھ گئی تھی اور اسکی افسردگی الفاظ میں سرایت کر گئی تھی۔ نظم کا خاتمہ ایسے دل شکن اشعار پر ہوا جن سے تمام امیدیں منقطع ہو گئیں اور تمام کوششیں رائیگاں نظر آنے لگیں۔ شاید اس خرابی کا تدارک کچھ نہ ہو سکتا اگر قوم کی توجہ مصنف کے دل میں ایک نئی تحریک پیدا نہ کرتی اور قوم کو ایک نئے خطاب کا مستحق نہ ٹھہراتی۔ گو قوم نہیں بدلی لیکن اس کے تیور بدلتے جاتے ہیں، پس اگر تحسین کا وقت نہیں آیا تو نفرین ضرور کم ہونی چاہیئے۔ بعض احباب کی تحریک نے ان خیالات کی تائید کی اور ایک ضمیمہ مقتضائے حال کے موافق اصل مسدس کے آخر میں لاحق کیا گیا۔ ضمیمہ کو طول دینا مصنف کا مقصود نہ تھا لیکن اس مضمون کو چھیڑ کر طول سے بچنا ایسا ہی مشکل تھا جیسے سمندر میں کود کر ہاتھ پاؤں نہ مارنا۔

قدیم مسدس میں جستہ جستہ تصرف کیا گیا ہے، شاید بعض تصرفات کو ناظرین اس وجہ سے کہ قدیم اسلوب مانوس ہو گیا تھا پسند نہ کریں مگر مصنف کا فرض تھا کہ دوستوں کی ضیافت میں کوئی ایسی چیز پیش نہ کرے جو خود اس کے مذاق میں ناگوار معلوم ہو۔ نظم نہ پہلے پسند کے قابل تھی اور نہ اب ہے مگر الحمدللہ کہ درد اور سچ پہلے بھی تھا اور اب بھی ہے، امید ہے کہ درد پھیلے گا اور سچ چمکے گا۔

ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم۔

۔
 

محمد وارث

لائبریرین
رُباعی



پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے
اسلام کا گِر کر نہ ابھرنا دیکھے
مانے نہ کبھی کہ مد ہے ہر جزر کے بعد
دریا کا ہمارے جو اترنا دیکھے




۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مُسدّس



کسی نے یہ بقراط سے جا کے پوچھا
مرَض تیرے نزدیک مہلک ہیں کیا کیا
کہا دکھ جہاں میں نہیں کوئی ایسا
کہ جس کی دوا حق نے کی ہو نہ پیدا

مگر وہ مَرَض جس کو آسان سمجھیں
کہے جو طبیب اس کو ہذیان سمجھیں


سبب یا علامت گر ان کو سُجھائیں
تو تشخیص میں سَو نکالیں خطائیں
دوا اور پرہیز سے جی چُرائیں
یونہی رفتہ رفتہ مرض کو بڑھائیں

طبیبوں سے ہر گز نہ مانوس ہوں وہ
یہاں تک کہ جینے سے مایوس ہوں وہ


یہی حال دنیا میں اس قوم کا ہے
بھنور میں جہاز آ کے جس کا گھرا ہے
کنارہ ہے دور اور طوفاں بپا پے
گماں ہے یہ ہر دم کہ اب ڈوبتا ہے

نہیں لیتے کروٹ مگر اہلِ کشتی
پڑے سوتے ہیں بے خبر اہلِ کشتی


گھٹا سر پہ ادبار کی چھا رہی ہے
فلاکت سماں اپنا دکھلا رہی ہے
نحوست پس و پیش منڈلا رہی ہے
چپ و راست سے یہ صدا آ رہی ہے

کہ کل کون تھے آج کیا ہو گئے تم
ابھی جاگتے تھے ابھی سو گئے تم


پر اس قومِ غافل کی غفلت وہی ہے
تنزّل پہ اپنے قناعت وہی ہے
ملے خاک میں پر رعونت وہی ہے
ہوئی صبح اور خوابِ راحت وہی ہے

نہ افسوس انہیں اپنی ذلّت پہ ہے کچھ
نہ رشک اور قوموں کی عزّت پہ ہے کچھ


بہائم کی اور ان کی حالت ہے یکساں
کہ جس حال میں ہیں اسی میں ہیں شاداں
نہ ذلّت سے نفرت نہ عزّت کا ارماں
نہ دوزخ سے ترساں نہ جنّت کے خواہاں

لیا عقل و دیں سے نہ کچھ کام انھوں نے
کیا دینِ بر حق کو بدنام انھوں نے


وہ دیں جس نے اعدا کو اخواں بنایا
وحوش اور بہائم کو انساں بنایا
درندوں کو غمخوارِ دوراں بنایا
گڈریوں کو عالم کا سلطاں بنایا

وہ خطّہ جو تھا ایک ڈھوڑوں کا گلّہ
گراں کر دیا اس کا عالم سے پلّہ


(جاری ہے)


۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مُسدّس


(گزشتہ سے پیوستہ)



عَرَب جس کا چرچا ہے یہ کچھ وہ کیا تھا
جہاں سے الگ اِک جزیرہ نما تھا
زمانہ سے پیوند جس کا جدا تھا
نہ کشورستاں تھا، نہ کشور کشا تھا

تمدّن کا اُس پر پڑا تھا نہ سایا
ترّقی کا تھا واں قدم تک نہ آیا


نہ آب و ہوا ایسی تھی روح پرور
کہ قابل ہی پیدا ہوں خود جس سے جوہر
نہ کچھ ایسے سامان تھے واں میسر
کنول جس سے کِھل جائیں دل کے سراسر

نہ سبزہ تھا صحرا میں پیدا نہ پانی
فقط آبِ باراں پہ تھی زندگانی


زمیں سنگلاخ اور ہوا آتش افشاں
لوؤں کی لپٹ، بادِ صر صر کے طوفاں
پہاڑ اور ٹیلے سراب اور بیاباں
کھجوروں کے جھنڈ اور خارِ مغیلاں

نہ کھتّوں میں غلّہ نہ جنگل میں کھیتی
عرب اور کل کائنات اس کی یہ تھی


نہ واں مصر کی روشنی جلوہ گر تھی
نہ یونان کے علم و فن کی خبر تھی
وہی اپنی فطرت پہ طبعِ بشر تھی
خدا کی زمیں بن جُتی سر بسر تھی

پہاڑ اور صحرا میں ڈیرا تھا سب کا
تلے آسماں کے بسیرا تھا سب کا


کہیں آگ پُجتی تھی واں بے محابا
کہیں تھا کواکب پرستی کا چرچا
بہت سے تھے تثلیث پر دل سے شیدا
بتوں کا عمل سُو بسُو جا بجا تھا

کرشموں کا راہب کے تھا صید کوئی
طلسموں میں کاہن کے تھا قید کوئی


وہ دنیا میں گھر سب سے پہلا خدا کا
خلیل ایک معمار تھا جس بنا کا
ازل میں مشیّت نے تھا جس کو تاکا
کہ اس گھر سے اُبلے گا چشمہ ہدیٰ کا

وہ تیرتھ تھا اِک بُت پرستوں کا گویا
جہاں نامِ حق کا نہ تھا کوئی جویا


قبیلے قبیلے کا بُت اِک جدا تھا
کسی کا ہُبَل تھا، کسی کا صفا تھا
یہ عزّا پہ، وہ نائلہ پر فدا تھا
اسی طرح گھر گھر نیا اِک خدا تھا

نہاں ابرِ ظلمت میں تھا مہرِ انور
اندھیرا تھا فاران کی چوٹیوں پر


چلن ان کے جتنے تھے سب وحشیانہ
ہر اِک لُوٹ اور مار میں تھا یگانہ
فسادوں میں کٹتا تھا ان کا زمانہ
نہ تھا کوئی قانون کا تازیانہ

وہ تھے قتل و غارت میں چالاک ایسے
درندے ہوں جنگل میں بے باک جیسے


نہ ٹلتے تھے ہر گز جو اڑ بیٹھتے تھے
سلجھتے نہ تھے جب جھگڑ بیٹھتے تھے
جو دو شخص آپس میں لڑ بیٹھتے تھے
تو صد ہا قبیلے بگڑ بیٹھتے تھے

بلند ایک ہوتا تھا گر واں شرارا
تو اس سے بھڑک اٹھتا تھا ملک سارا


وہ بکر اور تغلب کی باہم لڑائی
صدی جس میں آدھی انہوں نے گنوائی
قبیلوں کی کر دی تھی جس نے صفائی
تھی اک آگ ہر سُو عرب میں لگائی

نہ جھگڑا کوئی ملک و دولت کا تھا وہ
کرشمہ اک ان کی جہالت کا تھا وہ


کہیں تھا مویشی چَرانے پہ جھگڑا
کہیں پہلے گھوڑا بڑھانے پہ جھگڑا
لبِ جُو کہیں آنے جانے پہ جھگڑا
کہیں پانی پینے پلانے پہ جھگڑا

یونہی روز ہوتی تھی تکرار ان میں
ہونہی چلتی رہتی تھی تلوار ان میں


جو ہوتی تھی پیدا کسی گھر میں دختر
تو خوفِ شماتت سے بے رحم مادر
پھرے دیکھتی جب تھے شوہر کے تیور
کہیں زندہ گاڑ آتی تھی اس کو جا کر

وہ گود ایسی نفرت سے کرتی تھی خالی
جنے سانپ جیسے کوئی جننے والی


جوا انکی دن رات کی دل لگی تھی
شراب انکی گھٹی میں گویا پڑی تھی
تعیّش تھا، غفلت تھی، دیوانگی تھی
غرَض ہر طرح ان کی حالت بُری تھی

بہت اس طرح ان کو گزری تھیں صدیاں
کہ چھائی ہوئی نیکیوں پر تھیں بدیاں


۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مُسدّس

(گزشتہ سے پیوستہ)



یکایک ہوئی غیرتِ حق کو حرکت
بڑھا جانبِ بو قبیس ابرِ رحمت
ادا خاکِ بطحا نے کی وہ ودیعت
چلے آتے تھے جس کی دیتے شہادت

ہوئی پہلوئے آمنہ سے ہویدا
دعائے خلیل اور نویدِ مسیحا


ہوئے محو عالم سے آثارِ ظلمت
کہ طالع ہوا ماہِ بُرجِ سعادت
نہ چھٹکی مگر چاندنی ایک مدّت
کہ تھا ابر میں ماہتابِ رسالت

یہ چالیسویں سال لُطفِ خدا سے
کیا چاند نے کھیت غارِ حرا سے


وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا
وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا

فقیروں کا ملجا ضعیفوں کا ماویٰ
یتیموں کا والی غلاموں کا مولیٰ


خطا کار سے در گزر کرنے والا
بد اندیش کے دل میں گھر کرنے والا
مفاسد کا زیر و زبر کرنے والا
قبائل کو شیر و شکر کرنے والا

اُتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسخۂ کیمیا ساتھ لایا


مسِ خام کو جس نے کُندن بنایا
کھرا اور کھوٹا الگ کر دکھایا
عرب جس پہ قرنوں سے تھا جہل چھایا
پلٹ دی بس اک آن میں اس کی کایا

رہا ڈر نہ بیڑے کو موجِ بلا کا
اِدھر سے اُدھر پھر گیا رُخ ہوا کا


پڑی کان میں دھات تھی اک نکمّی
نہ کچھ قدر تھی اور نہ قیمت تھی جسکی
طبیعت میں جو اس کے جوہر تھے اصلی
ہوئے سب تھے مٹّی میں مل کر وہ مٹّی

پہ تھا ثبت علمِ قضا و قدر میں
کہ بن جائے گی وہ طلا اک نظر میں


وہ فخرِ عرب زیبِ محراب و منبر
تمام اہلِ مکّہ کو ہمراہ لے کر
گیا ایک دن حسبِ فرمانِ داور
سوئے دشت اور چڑھ کے کوہِ صفا پر

یہ فرمایا سب سے کہ اے آلِ غالب
سمجھتے ہو تم مجھ کو صادق کہ کاذب


کہا سب نے قول آج تک کوئی تیرا
کبھی ہم نے جھوٹا سنا اور نہ دیکھا
کہا گر سمجھتے ہو تم مجھ کو ایسا
تو باور کرو گے اگر میں کہوں گا

کہ فوجِ گراں پشتِ کوہِ صفا پر
پڑی ہے کہ لُوٹے تمھیں گھات پا کر


کہا تیری ہر بات کا یاں یقیں ہے
کہ بچپن سے صادق ہے تُو اور امیں ہے
کہا گر مری بات یہ دل نشیں ہے
تو سن لو خلاف اس میں اصلاً نہیں ہے

کہ سب قافلہ یاں سے ہے جانے والا
ڈرو اس سے جو وقت ہے آنے والا


وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوتِ ہادی
عرب کی زمیں جس نے ساری ہلا دی
نئی اک لگن دل میں سب کے لگا دی
اک آواز میں سوتی بستی جگا دی

پڑا ہر طرف غُل یہ پیغامِ حق سے
کہ گونج اٹھے دشت و جبل نامِ حق سے


سبق پھر شریعت کا ان کو پڑھایا
حقیقت کا گُر ان کو ایک اک بتایا
زمانہ کے بگڑے ہوؤں کو بنایا
بہت دن کے سوتے ہوؤں کو جگایا

کُھلے تھے نہ جو راز اب تک جہاں پر
وہ دکھلا دیئے ایک پردہ اٹھا کر


کسی کو ازل کا نہ تھا یاد پیماں
بھلائے تھے بندوں نے مالک کے فرماں
زمانہ میں تھا دورِ صہبائے بطلاں
مئے حق سے محرم نہ تھی بزمِ دوراں

اچھوتا تھا توحید کا جام اب تک
خمِ معرفت کا تھا منہ خام اب تک


.
 

محمد وارث

لائبریرین
مُسدّس

(گزشتہ سے پیوستہ)


نہ واقف تھے انساں قضا اور جزا سے
نہ آگاہ تھے مبدا و منتہا سے
لگائی تھی ایک اِک نے لو ماسوا سے
پڑے تھے بہت دور بندے خدا سے

یہ سنتے ہی تھرّا گیا گلّہ سارا
یہ راعی نے للکار کر جب پکارا


کہ ہے ذاتِ واحد عبادت کے لائق
زبان اور دل کی شہادت کے لائق
اسی کے ہیں فرماں اطاعت کے لائق
اسی کی ہے سرکار خدمت کے لائق

لگاؤ تو لو اس سے اپنی لگاؤ
جھکاؤ تو سر اس کے آگے جھکاؤ


اسی پر ہمیشہ بھروسا کرو تم
اسی کے سدا عشق کا دم بھرو تم
اسی کے غضب سے ڈرو گر ڈرو تم
اسی کی طلب میں مرو گر مرو تم

مبرّا ہے شرکت سے اس کی خدائی
نہیں اس کے آگے کسی کو بڑائی


خِرَد اور ادراک رنجور ہیں واں
مہ و مہر ادنیٰ سے مزدور ہیں واں
جہاندار مغلوب و مقہور ہیں واں
نبی اور صدّیق مجبور ہیں واں

نہ پرسش ہے رہبان و احبار کی واں
نہ پروا ہے ابرار و احرار کی واں


تم اوروں کی مانند دھوکا نہ کھانا
کسی کو خدا کا نہ بیٹا بنانا
مری حد سے رتبہ نہ میرا بڑھانا
بڑھا کر بہت تم نہ مجھ کو گھٹانا

سب انساں ہیں واں جس طرح سرفگندہ
اسی طرح ہوں میں بھی اِک اس کا بندہ


بنانا نہ تربت کو میری صنم تم
نہ کرنا مری قبر پر سر کو خم تم
نہیں بندہ ہونے میں کچھ مجھ سے کم تم
کہ بیچارگی میں برابر ہیں ہم تم

مجھے دی ہے حق نے بس اتنی بزرگی
کہ بندہ بھی ہوں اس کا اور ایلچی بھی


اسی طرح دل ان کا ایک اِک سے توڑا
ہر اک قبلۂ کج سے منہ ان کا موڑا
کہیں ماسوا کا علاقہ نہ چھوڑا
خداوند سے رشتہ بندوں کا جوڑا

کبھی کے جو پھرتے تھے مالک سے بھاگے
دیئے سر جھکا ان کے مالک کے آگے


پتا اصل مقصود کا پا گیا جب
نشاں گنجِ دولت کا ہاتھ آ گیا جب
محبّت سے دل ان کا گرما گیا جب
سماں ان پہ توحید کا چھا گیا جب

سکھائے معیشت کے آداب ان کو
پڑھائے تمدّن کے سب باب ان کو


جتائی انہیں وقت کی قدر و قیمت
دلائی انہیں کام کی حرص و رغبت
کہا چھوڑ دیں گے سب آخر رفاقت
ہو فرزند و زن اس میں یا مال و دولت

نہ چھوڑے گا پر ساتھ ہر گز تمھارا
بھلائی میں جو وقت تم نے گزارا


غنیمت ہے صحّت علالت سے پہلے
فراغت، مشاغل کی کثرت سے پہلے
جوانی، بڑھاپے کی زحمت سے پہلے
اقامت، مسافر کی رحلت سے پہلے

فقیری سے پہلے غنیمت ہے دولت
جو کرنا ہے کر لو کہ تھوڑی ہے مہلت


۔
 
Top