مزاح برائے تاوان

مجھے افسوس ہے کہ آپ کو بار بار تکلیف اٹھانا پڑ رہی ہے۔


لیکن شاید ٹیگ نہ ملنے میں بھی اللہ کی طرف سے کوئی مصلحت ہو۔ :)
تکلیف کیسی؟ آگ تو ان شریکوں کو لگ رہی ہے جنہیں بار بار ہزاری لڑیوں میں مبارکبادیں دینی پڑ رہی ہیں۔۔۔۔کیونکہ ہماری آدھی مراسلت تو درست ٹیگنگ میں جا رہی ہے! 😁
 
اس سے ایک دکھتی رگ چھڑ گئی!
بھلے وقتوں کی بات ہے، ہم نے 2019 میں پی ایچ ڈی میں اینرول کروایا تو پہلا سنگ میل جو سیٹ کیا وہ یہ تھا کہ کورس ورک کے دوران سبھی مضامین میں 90 سے زیادہ نمبر لانے ہیں۔ (اس کی وجہ ایک اور دکھتی رگ تھی کہ پچھلے سارے اکیڈمک کیرئیر میں نمبر لانے پر کبھی توجہ دی اور کبھی بالکل نہ دی سو کبھی دنیا کے حساب سے ڈوب گئے کبھی تر گئے لیکن ہم نے زمانہ طالب علمی میں بھی خود کو محض نمبر لانے کی ریس تک محدود نہ رہنے دیا کیونکہ لائف گول یہ نہ تھا)۔ اب سوچا کہ آخری ڈگری ہے، چار دن سیرئیس ہو جا یار! ٹھیک ہے زندگی کے باقی پہلو نہیں چھوٹتے نہ سہی مگر پھر بھی نمبر لانے کے لیے پڑھ، پڑھنے ، سمجھنے اور لاگو کرنے کے دوسرے فلسفے سائیڈ پر رکھ! سو، ہم نے زندگی میں پہلی اور آخری بار سراسر نمبر لانے کے لیے پڑھا۔
اب ہوا یوں کہ پہلے سمسٹر میں سبھی مضامین میں 90 سے اوپر نمبر آگئے، جس کو یہاں اے پلس گریڈ کہتے ہیں۔ دوسرے سمسٹر کی باری آئی تو فقط ایک استاد صاحب ایسے تھے (فرانس میں میکس پلانک انسٹیٹیوٹ سے پی ایچ ڈی گریجوایٹ تھے غالبا) جنہوں نے کلاس میں ایک دن بھی جھانک کر نہ دیکھا۔ مڈ ٹرم سے چند دن قبل میں نے ایز اے کلاس ریپریزینٹیٹو استاد صاحب کے ترلے کیے کہ کچھ تو بتائیں کہ ہم پیپر میں کیا پڑھ کر آئیں۔ خیر زیادہ تفصیل میں نہ جاؤں گی کہ کیا ہوا، جیسے تیسےمڈٹرم گزرا۔۔۔۔فائنل ٹرم میں پھر وہی حال! میرا نہیں خیال کہ انہیں یہ بھی علم ہو کہ کتنے سٹوڈنٹس نے ان کا سبجیکٹ اینرول کروایا تھا۔ یا اگر کسی لسٹ وغیرہ کی وجہ سے پتہ بھی ہوگا تو بھی کسی کی شکل نہ پتہ تھی۔ فائنل ٹرم میں میں استاد صاحب سے سلیبس پوچھوں اور استاد صاحب کہیں کہ پتہ لگا ہے آپ کو اردو ادب سے شغف ہے وغیرہ وغیرہ!!! (مجھے بالکل اچھا نہیں لگا، لیکن بس کلاس کو ریپریزنٹ تو کرنا ہی تھا کیونکہ یہ سردردی تقریبا ہر کلاس میں لے رکھی تھی)۔ آخر کار فائنل ٹرم کا پرچہ آیا۔۔۔پرچہ ہوا۔۔۔۔پھر سب مضامین کے رزلٹس آگئے اور سب میں 90 سے اوپر نمبرتھے۔ دل ایسا خوش تھا کہ چلو زندگی میں آخر میں ہی سہی یہ کام بھی کر ہی لیا!!! ہر سبجیکٹ میں کلاس میں ہائیسٹ مارکس بھی اپنے ہی تھے۔۔۔لیکن صرف ان کا رزلٹ آؤٹ ہونا رہ گیا تھا۔ پھر سے ترلے شروع کہ سر جی رزلٹ دکھا دیں۔ بہت عرصہ لٹکنے کے بعد جب رزلٹ آیا تو نمبر 69!!!!!!
 
آخری تدوین:
بھلے وقتوں کی بات ہے، ہم نے 2019 میں پی ایچ ڈی میں اینرول کروایا تو پہلا سنگ میل جو سیٹ کیا وہ یہ تھا کہ کورس ورک کے دوران سبھی مضامین میں 90 سے زیادہ نمبر لانے ہیں۔ (اس کی وجہ ایک اور دکھتی رگ تھی کہ پچھلے سارے اکیڈمک کیرئیر میں نمبر لانے پر کبھی توجہ دی اور کبھی بالکل نہ دی سو کبھی دنیا کے حساب سے ڈوب گئے کبھی تر گئے لیکن ہم نے زمانہ طالب علمی میں بھی خود کو محض نمبر لانے کی ریس تک محدود نہ رہنے دیا کیونکہ لائف گول یہ نہ تھا)۔ اب سوچا کہ آخری ڈگری ہے، چار دن سیرئیس ہو جا یار! ٹھیک ہے زندگی کے باقی پہلو نہیں چھوٹتے نہ سہی مگر پھر بھی نمبر لانے کے لیے پڑھ، پڑھنے ، سمجھنے اور لاگو کرنے کے دوسرے فلسفے سائیڈ پر رکھ! سو، ہم نے زندگی میں پہلی اور آخری بار سراسر نمبر لانے کے لیے پڑھا۔
اب ہوا یوں کہ پہلے سمسٹر میں سبھی مضامین میں 90 سے اوپر نمبر آگئے، جس کو یہاں اے پلس گریڈ کہتے ہیں۔ دوسرے سمسٹر کی باری آئی تو فقط ایک استاد صاحب ایسے تھے (فرانس مییں میکس پلانک انسٹیٹیوٹ سے پی ایچ ڈی گریجوایٹ تھے غالبا) جنہوں نے کلاس میں ایک دن بھی جھانک کر نہ دیکھا۔ مڈ ٹرم سے چند دن قبل میں نے ایز اے کلاس ریپریزینٹیوٹو استاد صاحب کے ترلے کیے کہ کچھ تو بتائیں کہ ہم پیپر میں کیا پڑھ کر آئیں۔ خیر زیادہ تفصیل میں نہ جاؤں گی کہ کیا ہوا، جیسے تیسےمڈٹرم گزرا۔۔۔۔فائنل ٹرم میں پھر وہی حال! میرا نہیں خیال کہ انہیں یہ بھی علم ہو کہ کتنے سٹوڈنٹس نے ان کا سبجیکٹ اینرول کروایا تھا۔ یا اگر کسی لسٹ وغیرہ کی وجہ سے پتہ بھی ہوگا تو بھی کسی کی شکل نہ پتہ تھی۔ فائنل ٹرم میں میں استاد صاحب سے سلیبس پوچھوں اور استاد صاحب کہیں کہ پتہ لگا ہے آپ کو اردو ادب سے شغف ہے وغیرہ وغیرہ!!! (مجھے بالکل اچھا نہیں لگا، لیکن بس کلاس کو ریپریزنٹ تو کرنا ہی تھا کیونکہ یہ سردردی تقریبا ہر کلاس میں لے رکھی تھی)۔ آخر کار فائنل ٹرم کا پرچہ آیا۔۔۔پرچہ ہوا۔۔۔۔پھر سب مضامین کے رزلٹس آگئے اور سب میں 90 سے اوپر نمبرتھے۔ دل ایسا خوش تھا کہ چلو زندگی میں آخر میں ہی سہی یہ کام بھی کر ہی لیا!!! ہر سبجیکٹ میں کلاس میں ہائیسٹ مارکس بھی اپنے ہی تھے۔۔۔لیکن صرف ان کا رزلٹ آؤٹ ہونا رہ گیا تھا۔ پھر سے ترلے شروع کہ سر جی رزلٹ دکھا دیں۔ بہت عرصہ لٹکنے کے بعد جب رزلٹ آیا تو نمبر 69!!!!!!
ہم وہ انسان ہیں کہ آگے فرعون بھی ہوگا تو بھی پرامن آواز اٹھائے بغیر نہ رہیں گے۔ اپنی آواز بنیں گے ضرور!
آج تک کبھی نمبروں پہ اساتذہ سے ایک بار بھی بحث نہ کی تھی چاہے ایک نمبر سے گریڈ بڑھتا ہو۔۔۔۔نیور!
لیکن اس دن لگا کہ جب پڑھایا ہی نہیں تو جج کس بات پہ کیا؟ اور جب پرچہ چیک ہوا دکھایا ہی نہیں تو ہمیں کیسے پتہ کہ نمبر کہاں سے کٹے؟ اور 69 ہی کیوں؟
پھر ہم ایک بڑی خاتون کے پاس گئے اور انہیں نمبروں کا نہیں بتایا بس یہ کہا کہ استاد صاحب پورا سمسٹر تشریف نہیں لائے۔ آپ اگلے سمسٹر سے یا تو یہ کریں کہ یہ سبجیکٹ آفر نہ کریں، یا پھر میک شیور کہ یہ سبجیکٹ پڑھایا بھی جائے!!!
اس کے بعد آئندہ آنے والوں کے لیے امید ہے بہتری ہوئی ہو، خیر ان خاتون نے جو اس وقت بہتر عہدے پر تھیں غالبا استاد صاحب کو کچھ تو کہا ہوگا کہ فائنل رزلٹ میں سب کا ایک ایک نمبر بڑھا ہوا تھا اور استاد صاحب اتنا غصہ بھی تھے کہ آپ نے میری شکایت کی ہوگی! ( ہم نے خوش اخلاقی سے کہا۔ کس بات پہ؟) ظاہر ہے اگر ایکشن دیں گے تو ری-ایکشن تو آئے گا۔۔۔۔اسی لیے ہم اپنے سبھی پڑھنے والوں کو کہتے ہیں کہ ایکشن دیتے ہوئے ہماری شخصیت کو مد نظر رکھا کیجیے۔ ہمارا ماتھا نارمل نہ ہے۔ ہم خوش اخلاق ہو سکتے ہیں، مگر اپنے اوپر سے گزرنے نہ دیویں گے! :)
نمبر لیکن 70 ہوگئے تھے جو کہ بی گریڈ تھا اور اس لیے اس ایک سبجیکٹ کے بعد سی جی پی اے ڈاؤن!
 

محمداحمد

لائبریرین
بھلے وقتوں کی بات ہے، ہم نے 2019 میں پی ایچ ڈی میں اینرول کروایا تو پہلا سنگ میل جو سیٹ کیا وہ یہ تھا کہ کورس ورک کے دوران سبھی مضامین میں 90 سے زیادہ نمبر لانے ہیں۔ (اس کی وجہ ایک اور دکھتی رگ تھی کہ پچھلے سارے اکیڈمک کیرئیر میں نمبر لانے پر کبھی توجہ دی اور کبھی بالکل نہ دی سو کبھی دنیا کے حساب سے ڈوب گئے کبھی تر گئے لیکن ہم نے زمانہ طالب علمی میں بھی خود کو محض نمبر لانے کی ریس تک محدود نہ رہنے دیا کیونکہ لائف گول یہ نہ تھا)۔ اب سوچا کہ آخری ڈگری ہے، چار دن سیرئیس ہو جا یار! ٹھیک ہے زندگی کے باقی پہلو نہیں چھوٹتے نہ سہی مگر پھر بھی نمبر لانے کے لیے پڑھ، پڑھنے ، سمجھنے اور لاگو کرنے کے دوسرے فلسفے سائیڈ پر رکھ! سو، ہم نے زندگی میں پہلی اور آخری بار سراسر نمبر لانے کے لیے پڑھا۔
اب ہوا یوں کہ پہلے سمسٹر میں سبھی مضامین میں 90 سے اوپر نمبر آگئے، جس کو یہاں اے پلس گریڈ کہتے ہیں۔ دوسرے سمسٹر کی باری آئی تو فقط ایک استاد صاحب ایسے تھے (فرانس میں میکس پلانک انسٹیٹیوٹ سے پی ایچ ڈی گریجوایٹ تھے غالبا) جنہوں نے کلاس میں ایک دن بھی جھانک کر نہ دیکھا۔ مڈ ٹرم سے چند دن قبل میں نے ایز اے کلاس ریپریزینٹیٹو استاد صاحب کے ترلے کیے کہ کچھ تو بتائیں کہ ہم پیپر میں کیا پڑھ کر آئیں۔ خیر زیادہ تفصیل میں نہ جاؤں گی کہ کیا ہوا، جیسے تیسےمڈٹرم گزرا۔۔۔۔فائنل ٹرم میں پھر وہی حال! میرا نہیں خیال کہ انہیں یہ بھی علم ہو کہ کتنے سٹوڈنٹس نے ان کا سبجیکٹ اینرول کروایا تھا۔ یا اگر کسی لسٹ وغیرہ کی وجہ سے پتہ بھی ہوگا تو بھی کسی کی شکل نہ پتہ تھی۔ فائنل ٹرم میں میں استاد صاحب سے سلیبس پوچھوں اور استاد صاحب کہیں کہ پتہ لگا ہے آپ کو اردو ادب سے شغف ہے وغیرہ وغیرہ!!! (مجھے بالکل اچھا نہیں لگا، لیکن بس کلاس کو ریپریزنٹ تو کرنا ہی تھا کیونکہ یہ سردردی تقریبا ہر کلاس میں لے رکھی تھی)۔ آخر کار فائنل ٹرم کا پرچہ آیا۔۔۔پرچہ ہوا۔۔۔۔پھر سب مضامین کے رزلٹس آگئے اور سب میں 90 سے اوپر نمبرتھے۔ دل ایسا خوش تھا کہ چلو زندگی میں آخر میں ہی سہی یہ کام بھی کر ہی لیا!!! ہر سبجیکٹ میں کلاس میں ہائیسٹ مارکس بھی اپنے ہی تھے۔۔۔لیکن صرف ان کا رزلٹ آؤٹ ہونا رہ گیا تھا۔ پھر سے ترلے شروع کہ سر جی رزلٹ دکھا دیں۔ بہت عرصہ لٹکنے کے بعد جب رزلٹ آیا تو نمبر 69!!!!!!
ویسے اس مراسلے پر تو ملٹیپل ریٹنگ بنتی ہے۔

لیکن اختتامی کلمات پر ریٹنگ دے دی۔
 
کسی دور میں ہم دو ریٹنگ دینے کی مہارت رکھتے تھے، اب علم نہیں کہ ان مراسلوں پہ دونوں ریٹنگز برقرار ہیں یا نہیں۔
ایک ریٹنگ دی اور بیک کا بٹن دبا کے پھر دوسری؟
شاید ایسا کچھ ذکر کیا تھا آپ نے ماضی میں؟ یا ہمیں پلیکھا ہے؟
 
Top