مزاح برائے تاوان

یاز

محفلین
مجھے سہل ہو گئیں منزلیں وہ ہوا کے رخ بھی بدل گئے
ترا ہاتھ ہاتھ میں آ گیا کہ چراغ راہ میں جل گئے
عمر قلیل ہے محفل کی بقولِ منتظمِ اعلیٰ
بس یوں سمجھیں آج گئے کہ کل گئے
نیز
مقابلہ مشکل ہے مزاح برائے تاوان میں
لبرے جو دونوں جگتوں میں رَل گئے
 

زیک

ایکاروس
جب یہ بات سنی تھی تب سے اس غزل کا علم اٹھا رکھا ہے ۔ جہاں جگہ ملے فٹ کر دیتی ہوں لیکن بال بھی بیکا نہ ہوا ۔ یعنی یہ سب توہم پرستی ہے شاید ۔ کیونکہ لوگوں کے بقول فقط لکھنے والا ہی نہ مرا بلکہ دو چار اور لوگوں کے بھی نام لیتے ہیں کہ گانے والا بھی مرا اور پتہ نہیں کون کون اور آخر میں لکھا ہوتا تھا دھیان سے شئیر کرنا ۔ 😅
آپ نے تو دل ہی توڑ دیا۔ لوگوں نے اتنا آسان نسخہ ڈھونڈا تھا اگر یہ کام نہیں کرتا تو کام مشکل ہو جائے گا
 
Top